من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

”نشا نے بھی یہی کہا تھا مجھ سے۔ حالانکہ اس کو پتا تھا، میں نے زندگی میں کبھی قسم نہیں کھائی۔ آپ سے تو خیر مجھے کوئی گلہ ہی نہیں ہے پری جی! آپ کے پاس بیٹھے تو چند گھنٹے ہوئے ہیں مگر نشا کے خاندان کی تو بیس سال خدمت کی تھی میں نے۔” سلطان کے لہجے میں اب رنجیدگی تھی۔
”بیس سال سے ہو اس کے ساتھ؟”
”ہاں، پہلے اس کی بہن کے ساتھ پھر نشا کے ساتھ۔ میں نے اسے اسٹار بنایا۔”
زینی نے اس کی بات کاٹی۔ ”تم نے واقعی اس کا زیور نہیں لیا؟”
”کس لے لیتا زیور؟ کرتا کیا زیور کا میں۔ میری کون سی بیوی ہے، گھر ہے جس پر لگاتا پھر کیا کرنا تھا میں نے زیور چوری کر کے؟” سلطان نے تلخی سے کہا۔
”کیوں پیسے نہیں چاہیے تمہیں؟ دنیا میں کون ہے جو پیسے کے پیچھے نہیں جاتا۔”
”مجھے دنیا کا نہیں پتہ مگر میں کبھی پیسے کے پیچھے نہیں گیا۔ تب بھی نہیں جب انڈسٹری کی بڑی بڑی ہیروئنوں نے مجھے توڑنے کی کوشش کی۔ میں تو محبت کے نام پر مر گیا۔ پیار کے لیے خوار ہوتا رہا۔”
زینی نے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھا۔
”تمہیں محبت کا کیا پتہ؟”
”ہیجڑا ہوں، پر انسان ہوں میں۔ محبت کرنے کے لیے عورت یا مرد ہونا تو کوئی شرط نہیں۔”
”کس سے محبت تھی تمہیں؟” زینی کو اس کے ساتھ باتوں میں مزہ آرہا تھا۔ ”نشا سے؟”
”نہیں۔ اس کی بڑی بہن سے۔”
”وہ تو شادی کر کے فلم انڈسٹری چھوڑ گئی۔” زینی کو یاد آیا۔
”اس سے کیا کوئی محبت کرنا چھوڑ دیتا ہے۔”
زینی اس بار بول نہیں سکی۔ اس نے سگریٹ ایش ٹرے میں بجھا دیا۔ کوئی چیز اسے بہت بری طرح چبھی تھی۔
”یعنی پھر چلے جاؤ گے نشا کے پاس؟” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”نہیں، اب تو مر کر بھی نہیں جاؤں گا۔”
”اگر اس کی بہن بلائے تو پھر بھی نہیں؟”
”نہیں، پھر بھی نہیں۔ غصہ مجھے نشا کے جوتے کھا کر نہیں آیا۔ سلمیٰ کی گالیاں سن کر آیا۔ وہ بھی تھی وہاں، سب کچھ اسی کے سامنے ہوا۔ میں نے کہا سلطان اب بس کر، معشوق کے منہ سے گالی کھا لی۔ اب اس کے در سے روٹی کھانے مت بیٹھ۔”
”یعنی محبت ختم ہو گئی؟” زینی نے تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”نہیں، محبت ختم نہیں ہوئی، توقع ختم ہو گئی۔” سلطان نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”میرے لیے کام کرو گے؟”
زینی نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے پوچھا۔ سلطان بول نہیں سکا۔
٭٭٭




سلطان کو اپنے لیے کام کی دعوت دیتے ہوئے زینی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ہاتھ وہ مہرہ آگیا جو باقی ہر مہرے کو پیٹ دے گا۔ اس نے فلم انڈسٹری میں اور فلم انڈسٹری سے باہر بہت ہیجڑے دیکھے تھے۔ ماڈلنگ میں بھی اس کے آدھے اسٹائلسٹ اسی صنف سے تعلق رکھتے تھے مگر اس نے سلطان سے زیادہ شاطر اور ذہین ہیجڑا نہیں دیکھا تھا۔ وہ پاکستان فلم انڈسٹری کا واحد ہیجڑا تھا جس کی جنس جاننے کے باوجود انڈسٹری کے بڑے اس کانام عزت سے لیتے تھے۔ کیوں؟ یہ زینی کو اس کے ساتھ رہنے سے پتہ چل گیا تھا۔
٭٭٭
”یہ نعیم صاحب کا گھر ہے؟” ڈرائیور نے دروازہ کھولنے پر نعیم سے پوچھا کہ دروازہ بجنے پر دروازہ کھولنے آیا تھا۔
”ہاں، میں نعیم ہوں۔” اس سے پہلے کہ ڈرائیور کچھ کہتا، فہمیدہ پوچھتے ہوئے دروازے پر ہی آگئی۔
”کون ہے نعیم؟”
”پتہ نہیں ابھی تو میں پوچھ رہا تھا۔” نعیم نے ماں کو اطلاع دی۔
”مجھے زہرہ بی بی نے بھجوایا ہے۔ آپ کی بچی کی طبیعت خراب ہے۔ انہوں نے گاڑی بھیجی ہے کہ آپ آکر اپنی بچی کو دیکھ جائیں۔” ڈرائیور نے بے حد مودب انداز میں کہا۔
”گاڑی۔۔۔۔” نعیم کو جیسے کرنٹ لگا۔ اس نے شاک کے عالم میں ماں کو دیکھا۔
”ارے پیچھے ہٹ… میں بھی تو دیکھوں، کس نے گاڑی بھیج دی؟” فہمیدہ نے اسے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہا اور پھر دروازے سے باہر جھانکنے لگی۔
”یہ گاڑی زہرہ نے بھیجی ہے؟” فہمیدہ باہر کھڑی نسان سنی کو دیکھ کر جیسے دنگ رہ گئی تھی۔
”جی۔” ڈرائیور نے مختصراً جواب دیا۔
”ارے زہرہ کے پاس یہ گاڑی کہاں سے آگئی؟” فہمیدہ نے ہکا بکا انداز میں پلٹ کر نعیم سے پوچھا۔
”یہی تو میں حیران ہو رہا ہوں۔ تم جاؤ،مجھے نہیں آنا۔” نعیم نے پہلا جملہ ماں سے اور دوسرا ڈرائیور سے کہا۔
”ارے کیوں نہیں جانا۔ جا کر دیکھتے تو ہیں کہ آخر ایسی گاڑی کہاں سے لے لی۔ سنا ہے زینی اپنے پاس لے گئی ہے سب گھر والوں کو۔ دیکھتے ہیں، کہاں لے گئی ہے۔” فہمیدہ نے بے حد تجسس کے عالم میں کہا۔
ایک گھنٹہ کے بعد گاڑی انہیں لے کر جس بنگلے میں داخل ہوئی تھی، اس کے سائز اور نقشے نے انہیں خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ نعیم اور وہ منہ کھولے ہونقوں کی طرح گاڑی کو پورچ میں رکتے دیکھتے رہے پھر ڈرائیور نے دروازہ کھول دیا۔
گاڑی سے باہر نکل کر ان کی رہی سہی قوت گویائی بھی سلب ہو گئی تھی۔ پورچ میں کوئی ان کے استقبال کے لیے نہیں تھا مگر ڈرائیور لاؤنج کا دروازہ کھول کر انہیں اندر لے گیا۔
اور لاؤنج میں جاتے ہی نفیسہ سے ان کا سامنا ہو گیا جو ان دونوں کو دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گئی تھیں۔
”ارے نعیم بیٹا… فہمیدہ آپا… آپ… آپ لوگ… آئیں… آئیں… بیٹھیں… بیٹھیں۔ زہرہ… زہرہ… دیکھو کون آیا ہے۔”
نفیسہ انہیں دیکھ کر بالکل ہی بوکھلا گئی تھیں اور ان کی بوکھلاہٹ نے نعیم اور فہمیدہ کے اوسان جیسے بحال کر دیے۔ انہیں یک دم یاد آگیا تھا کہ وہ ”کون” تھے۔
”آپ لوگ بیٹھیں، میں۔۔۔۔” نفیسہ کی بات مکمل نہیں ہو سکی۔ اس سے پہلے ہی زہرہ لاؤنج میں داخل ہوئی تھی اور نعیم اور فہمیدہ کو دیکھ کر ماں ہی کی طرح بد حواس ہو گئی تھی۔
”السلام علیکم پھوپھو۔۔۔۔” اس نے بمشکل فہمیدہ سے کہا۔
”ہمیں گاڑی بھجوائی تھی تم نے کہ بچی بیمار ہے، ہم آکر دیکھ جائیں۔” فہمیدہ نے اکڑی ہوئی گردن کے ساتھ اس سے کہا۔ ڈیفنس میں آگئے تھے تو کیا، وہ دونوں اب بھی محلے کے اسی گھر کی طرح ان کے تلوے چاٹنے کو تیار نظر آرہی تھیں اور فہمیدہ یہ کام کروانے کا موقع کیسے ضائع کرتی۔
”میں نے…؟” زہرہ نے الجھ کر نعیم کو دیکھا۔ ”میں نے تو گاڑی نہیں۔”
”ارے دیکھو ربیعہ بھی آگئی۔ سلام کرو بہنوئی اور پھوپھو کو اور جا کر جلدی سے چائے پانی کا انتظام کرو۔” نفیسہ نے بیچ میں ہی ربیعہ کے آجانے پر زہرہ کی بات اچکی۔
وہ ان ہی قدموں پر انہیں سلام کر کے واپس پلٹ گئی۔
”آپ لوگ بیٹھیں تو سہی۔” نفیسہ نے ان دونوں سے کہا۔ نعیم اور فہمیدہ بظاہر بڑے کروفر کے عالم میں صوفہ پر بیٹھ گئے۔
”تم نے گاڑی نہیں بھیجی تو گاڑی بھیجی کس نے؟” فہمیدہ نے صوفے پر بیٹھتے ہی پوچھا۔
”میں نے۔” زینی اپنے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے اندر آگئی۔ اس کے ہاتھ میں سگریٹ تھا اور وہ ایک جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھی۔ فہمیدہ اور نعیم ساکت وصامت اسے دیکھتے رہ گئے۔ ٹی وی یا اخباروں میں اسے دیکھنا اور بات تھی مگر اسے اپنی نظروں کے سامنے اس حلیے میں دیکھنا اور بات۔ وہ تو چوبیس گھنٹے دوپٹہ لپیٹے رکھنے والی زینی سے واقف تھے۔ اب جو آکر بالکل ان کے سامنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر سگریٹ کے کش لے رہی تھی، اس سے وہ بالکل ناواقف تھے۔
”میں نے بلایا تھا انہیں۔ کچھ ضروری باتیں کرنی تھیں ان سے۔” زینی نے ماں سے کہا۔ ”آپ کھڑی کیوں ہیں زہرہ آپا! آرام سے بیٹھ جائیں۔”
زینی نے زہرہ سے کہا جو بالکل حواس باختہ انداز میں کھڑی تھی۔ زینی کو ایک لمحہ کے لیے لگا وہ آج بھی اس کے باپ کے گھر کے صحن میں کھڑی ہے۔ سولی پر لٹکتی انتظار کرتی کہ وہ اسے لے کر جاتا ہے یا نہیں۔
زہرہ کچھ ہچکچاتے ہوئے ایک صوفہ پر بیٹھ گئی لیکن زہرہ کی طرف اب کوئی متوجہ نہیں تھا۔
نعیم اور فہمیدہ زینی پر نظریں جمائے ہوئے تھے بلکہ زینی پر نہیں، اس کے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کے درمیان پھنسے سگریٹ پر جسے وہ بڑے اطمینان سے پی رہی تھی۔ ان کے محلے میں تو کوئی مرد بھی یوں بے دھڑک سگریٹ نہیں پیتا تھا جس طرح وہ پی رہی تھی۔
ملازم ایک ٹرے میں جوس کے دو گلاس رکھ کر لے آیا اور اس نے ٹرے فہمیدہ کے سامنے کی۔
”ہم پر تو اس گھر کا پانی تک حرام ہے اور۔۔۔۔” فہمیدہ نے ہمیشہ کی طرح وہی واویلا کرنا چاہا۔ زینی نے اس کی بات کاٹ کر ملازم سے کہا۔
”ایک گلاس مجھے دے دو اور دوسرا واپس لے جاؤ۔”
ملازم نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس کی ہدایت پر عمل کیا، فہمیدہ اور نعیم نے ایک دوسرے کا منہ دیکھا۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، منتیں ہوتی تھیں۔ انہیں بے حد برا لگا۔ اتنا ہی برا نفیسہ کو لگا۔ وہ واقعی جوس پلانے کے لیے منت و سماجت کے سلسلے کا آغاز کرنے لگی تھیں مگر زینی نے ان کے منصوبے پر پانی پھیر دیا تھا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!