من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

اکبر اور نسیم اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ اگلا پورا ہفتہ اس ہوٹل میں رہے اور شیراز ایک ایسے کرائے کے گھر کی تلاش میں جہاں وہ ان سب کو رکھ سکے اور پھر کسی کو بغیر شرم کے یہ بتا سکے کہ اس کے ماں باپ اس علاقے میں مقیم تھے۔ اگر وہ اپنا گھر چھوڑتے ہوئے اپنے خاندان اور محلے کے لوگوں کے سامنے اتنی بڑی بڑی باتیں کر کے نہ آئے ہوتے تو شاید کچھ عرصے کے لیے اپنے گھر واپس ہی چلے جاتے لیکن اپنا گھر چھوڑ کر آتے ہوئے وہ جو کچھ کہہ آئے تھے، اس کے بعد واپس جانا جیسے کنوئیں میں ڈوب مرنے کے مترادف تھا۔
اس ابتدائی جھٹکے کے بعد وہ اگلے کچھ دنوں میں نارمل ہوتے گئے۔ خاص طور پر جب شیراز نے انہیں ہوٹل سے ایک اچھے علاقے میں کرائے کے ایک گھر میں منتقل کر دیا۔ وہ شینا کے ہاتھوں ہونے والی اس بے عزتی کو تقریباً مکمل طور پر ہی بھول گئے۔ جو بھی تھا جیسا بھی تھا، بہر حال سعید نواز کا داماد بننے نے شیراز ہی کی نہیں ، ان سب کی قسمت بدل دی تھی، ورنہ وہ اس جیسے کرائے کا گھر بھی کہاں لے سکتے تھے۔ چند دنوں کے لیے انہیں زینی یاد آئی تھی مگر آسائشات کی بہتات نے اسے ان کے ذہن سے ایک بار پھر فراموش کر دیا۔
شیراز ہر روز شام کو آفس سے واپسی پر ان کے پاس آتا اور اکثر رات کا کھانا وہیں کھا کر جاتا۔ وہ چاہتا تو رات بھی وہیں گزار سکتا تھا کیونکہ کم از کم شینا کے گھر میں اس کے وجود کی ضرورت نہیں تھی۔
شینا، سہ پہر میں جاگتی اور شام کے وقت تیار ہو کر باہر نکل جاتی پھر اس کی واپسی رات کے پچھلے پہر ہوتی تھی اس وقت تک شیراز ستی ساوتری بیویوں کی طرح اس کا انتظار کرتے کرتے تھک کر سو چکا ہوتا۔ صرف ویک اینڈ ایسا ہوتا تھا جب دن کے وقت ان کا آمنا سامنا ہوتا اور ایسا جب بھی ہوتا، شینا کسی نہ کسی بات پر اس کی بے عزتی کرنے سے نہ چوکتی۔ شیراز کی ساری احتیاط، سارے لحاظ کے باوجود اسے کوئی نہ کوئی وجہ مل ہی جاتی تھی۔
وہ شروع کے دنوں میں دم سادھے سب کچھ سنتا رہتا تھا۔ اس کا خیال تھا، اس طرح آہستہ آہستہ اس کا غصہ اور ناراضی ختم ہوتی جائے گی مگر بعد میں اسے احساس ہوا کہ یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ اس کی خاموشی اسے اور شیر کر رہی تھی۔ پھر وہ جھگڑے کے وقت گھر سے باہر جانے لگا۔ مگر یہ طریقہ بھی ناکام رہا۔ شینا اب اسے بزدلی کے طعنے دینے لگی تھی۔ شیراز خون کے گھونٹ پیتا مگر یہ جان نہیں پایا کہ شینا کا اس کے بارے میں ہر اندازہ سو فیصد ٹھیک تھا، وہ عمر میں اس سے ایک آدھ سال چھوٹی سہی مگر اس جیسے انسان کو سمجھنے کے لیے درکار عقل اور تجزیے کی بہر حال اس کے پاس کوئی کمی نہیں تھی۔
وہ گھر میں ہوتی تو شیراز دبے پاؤں پورے گھرمیں اس سے بچتا پھرتااور جس وقت وہ گھر سے باہر نکل جاتی، شیراز کی جیسے جان میں جان آجاتی۔
مگر اس ساری بے عزتی کے باوجود شیراز کو یہ زندگی پسند تھی۔ گھر کے اندر اس کے ساتھ چاہے، جو بھی ہو رہا تھا مگر سوسائٹی میں اس کی کلاس اور اسٹیٹس بدل چکا تھا۔ وہ اب سعید نواز کا داماد تھا اور سوسائٹی اسے سعید نواز کے داماد والا پروٹوکول ہی دے رہی تھی۔
وہ اب ایک مختلف کلاس کے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور چلتا پھرتا تھا۔ کوئی اس کی عدم موجودگی میں اس کے بارے میں جو چاہے کہتا ہو، بہر حال اس کے سامنے ہر ایک اس کی عزت کرتا تھا۔





اپنے کامن کے مڈل کلاسیے ساتھیوں اور افسروں کے ٹولے کو چھوڑ کر اس نے ایک لمبی اڑان بھری تھی اور اسے یقین تھا، وہ سب ساتھی اس کی قسمت پر اسی طرح رشک اورحسد کر رہے ہوں گے جس طرح اس کے رشتہ دار اور پرانے محلے کے لوگ کرتے تھے۔
سعید نواز کے کہنے پر وہ دھڑا دھڑ ان فائلز کو سائن کرنے میں جت گیا تھا، جنہیں سائن کرنے پر ملنے والا ”معاوضہ” اوپر اور نیچے کے مختلف افسروں اور ملازمین میں تقسیم ہونے کے باوجود لاکھوں میں ہوتا۔ حکومت پاکستان اسے مہینے کے 26 دن ہر روز آٹھ گھنٹے کام کرنے کا معاوضہ چند ہزار روپے کی صورت میں دیتی تھی اور پاکستان کے چند لوگ صرف چند سکینڈز میں ایک دستخط کرنے کا معاوضہ لاکھوں کی صورت میں۔
لیکن ان لاکھوں میں وہ کتنے اپنی مرضی سے خرچ کر سکتا تھا، یہ اسے بہت جلدی پتا چل گیا تھا۔
پہلی فائل کو سائن کرنے کا معاوضہ ملتے ہی ایک ویک اینڈ پر شینا نے اس سے کہا تھا۔
”مجھے کل شاپنگ کے لیے جانا ہے۔
“”I need some money وہ بہت دنوں کے بعد اکٹھے کھانا کھا رہے تھے۔
”ہاں… ہاں کیوں نہیں۔ میرے والٹ سے لے لینا۔” شیراز نے فوراً اس سے کہا۔
”شاپنگ کے لیے پیسے؟” شینا نے کھانا کھاتے کھاتے رک کر تیکھے تیوروں کے ساتھ اس سے کہا۔
”شاپنگ کے لیے پیسے۔” شیراز کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے اس بار ناراض ہونے والی کیا بات کہی تھی۔
”تمہارے والٹ میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ ہو گا؟” شینا کے سوال پر حیران ہوا۔ ”نہیں مگر تمہیں لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی تو ضرورت نہیں۔ تمہیں تو شاپنگ کے لیے رقم چاہیے۔”
”تمہارا کیا خیال ہے، میں کہاں شاپنگ کرتی ہوں گی؟ جمعہ بازار میں یا اچھرہ اور انارکلی کی سیلوں میں؟ کبھی تو اپنی لوئر مڈل کلاس ذہنیت مت دکھایا کرو۔” شینا نے بے حد ناراضی سے کہا۔
”مگر شینا! لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی شاپنگ۔ میری Pay تو صرف۔۔۔۔” شیراز نے ہکلاتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر شینا نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تمہاری Pay کی بات کون کر رہا ہے؟ میرے باپ نے تمہاری Pay دیکھی ہوتی تو تمہیں اپنا داماد بنایا ہوتا؟ آج جو فائل سائن کر کے تمہیں آٹھ لاکھ ملے ہیں، میں ان کی بات کر رہی ہوں۔” شیراز منہ کھول نہیں سکا۔ اسے یقینا سعید نواز نے یہ انفارمیشن دی تھی مگر وہ پھر بھی پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
”تمہیں کس نے بتایا؟”
”تمہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔ بینک میں میرا اور اپنا ایک جوائنٹ اکاؤنٹ کھلواؤ تاکہ مجھے پتا چلے کہ تم پیسے کا کیا کرر ہے ہو؟” شینا نے بے حد بلند آواز میں اس سے کہا۔
”شینا! میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی فیملی کے لیے ایک گھر خرید لوں کیونکہ۔”
شینا نے اس کے مصالحانہ انداز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔
”کیوں، تمہاری فیملی کو اس پرانے گھر میں رہتے ہوئے کیا تکلیف ہوتی ہے؟ساری عمر انہوں نے وہاں گزاری ہے۔ اب چار دن اس گھر میں رہ کر ان سے وہاں رہا نہیں جا رہا۔” اس کا لہجہ بے حد تلخ تھا۔
”یہ بات نہیں ہے۔ میرا بھی تو کوئی فرض بنتا ہے۔ اپنے ماں باپ اور بہنوں کے لیے۔”
شینا نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”پہلے تم ان فرائض کو دیکھو جو تمہارے میری طرف بنتے ہیں پھر اپنے ماں باپ کو دیکھنا۔”
و ہ چمچ ٹیبل پر تقریباً پھینکتے ہوئے اٹھ کر چلی گئی۔ شیراز کو اس وقت پہلی بار سعید نواز پرغصہ آیا۔ شینا کے مزاج کو جاننے کے باوجود انہوں نے اسے ان آٹھ لاکھ روپوں کے بارے میں بتا دیا تھا۔ شیراز کو غصہ نہ آتا تو کیا ہوتا۔
٭٭٭
ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے پتا چل گیا تھا کہ اس کے ہاتھ کس حد تک بندھے ہوئے تھے وہ اگر یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اپنی پوسٹنگ کے پہلے ہی سال کروڑوں کی جائیداد بنا لے گا تو یہ اس کی خوش فہمی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ صرف شینا کے کہنے پر وہ کبھی بھی جوائنٹ اکاؤنٹ نہ کھلواتا مگر شینا کے مطالبے کے دوسرے ہی دن سعید نواز نے بھی اس سے یہی کہا تھا نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے بینک کا ایک فارم بھی اسے بھجوا دیا تھا۔ اور یہ جیسے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف تھا۔
شیراز کو نہ چاہتے ہوئے بھی جوائنٹ اکاؤنٹ کھولنا پڑا اور اکاؤنٹ کھولنے کے کچھ عرصہ میں ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے اکاؤنٹ میں اتنی تیزی سے روپے آ نہیں رہے تھے جتنی تیزی سے روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ شینا اس کی اس طرح کی آمدنی کا آدھے سے زیادہ حصہ ہر ماہ خرچ کر دیتی تھی اور ہر ماہ کے آخر میں اکاؤنٹ میں صرف چند لاکھ رہ جاتے۔ شیراز خون کے گھونٹ پیتا رہتا اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ شکایت کرے تو کس سے کرے؟
سعید نواز کے نزدیک یہ چیز قابل اعتراض سرے سے تھی ہی نہیں۔ یہ وہ بہت پہلے جان چکا تھا۔ اس پیسے کو اس طرح اڑانا اگر قابل اعتراض ہوتا تو سعید نواز خود اسے لاکھوں کی گاڑی اتنی لاپروائی سے نہ تھماتے نہ ہی ڈھیروں روپیہ اس کے اس گھر پر لگا دیتے جہاں وہ شینا کے ساتھ رہ رہا تھا۔ وہ بڑے لوگوں کا لائف اسٹائل تھا اور وہ سعید نواز سے ایسی کوئی بات کہہ کر اپنی تذلیل نہیں کروانا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ روپیہ اس کی خون پسینے کی کمائی نہیں تھی پھر بھی اسے یوں خرچ ہوتے دیکھ کر اسے ایسی تکلیف ہوتی تھی جیسے اس کے لیے اس نے جان ماری ہو۔ اس نے شروع شروع میں شینا کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اس سے یہ کہنے کی بجائے کہ وہ شاپنگ پر اس طرح روپیہ نہ اڑائے اس نے اسے یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ انہیں روپیہ جمع کرنا چاہیے تاکہ مشکل وقت میں کام آئے۔
شینا پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھراس نے کہا۔
”کون سا مشکل وقت؟”
شیراز کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ فوری طور پر مشکل وقت کی وضاحت کس طرح کرے۔
”مشکل وقت سے بچنے کے لیے ہی میں نے جوائنٹ اکاؤنٹ کھلوایا ہے تاکہ مجھے پتا ہو کہ تمہارا پیسہ کہاں جا رہا ہے۔ پھر تم مجھے کس مشکل وقت کے لیے تیار کر رہے ہو؟ اگر تمہارا خیال ہے کہ میں ایک ایک روپیہ جمع کروں گی تاکہ کل تمہاری کسی حماقت کی وجہ سے اگر کوئی مصیبت آئے تو میں پلیٹ میں رکھ کر یہ سارا روپیہ تمہیں پیش کر دوں تو اپنی اس خوش فہمی کو تم جتنی جلدی دور کر لو اتنا بہتر ہے۔ جس کلاس سے میرا تعلق ہے وہاں روپیہ خرچ کرنے کے لیے کمایا جاتا ہے۔ بچت کے لیے نہیں، ہمارے یہاں عورتیں روپیہ جمع کرتے ہوئے تمہاری کلاس کی عورتوں کی طرح زندگیاں نہیں گزارتیں اس لیے دوبارہ مجھے کبھی مشورہ مت دینا، سمجھے؟ یہ مشورے تم اپنے خاندان کی عورتوں کو دو تو زیادہ بہتر ہے۔”
شینا نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔
شیراز کو دوبارہ اسے یہ مشورہ دینے کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہ شینا سے نہیں ڈرتا تھا۔ اس تذلیل سے ڈرتا تھا جو وہ بلا جھجک چند منٹوں میں کسی کے سامنے بھی کر سکتی تھی۔ وہ تیز مزاج کی تھی۔ ماں باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھی۔ یہ تو اسے سمجھ میں آتا تھا مگر وہ اس سے اتنی خار کیوں کھاتی تھی؟ یہ شیراز کو سمجھ میں نہیں آتا تھا اور اسے اتنا ناپسند کرنے کے باوجود اس نے اس سے شادی کیوں کر لی تھی؟ یہ بھی اس کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
سعید نواز اس پر زبردستی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے شادی سے پہلے اور بعد میں کبھی بھی سعید نواز کو شینا کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرتے نہیں دیکھا تھا۔ بعض دفعہ تو وہ اسے شینا کے سامنے اپنے سے زیادہ مجبور اور بے بس لگتا۔ مگر فرق یہ تھا کہ شینا بہر حال باپ سے محبت کرتی تھی اور اس کا بے دھڑک اظہار بھی کرتی تھی اور خود اس کے لیے وہ دل میں کیسے جذبات رکھتی تھی، یہ جاننے کے لیے شیراز کو کسی نجومی یا جوتشی کی ضرورت نہیں تھی۔
اور پھر اس کی یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سب کے بعد بھی آخر شینا نے اس سے شادی کیوں کی تھی۔ وہ کئی بار اس معمے کو حل کرنے کے لیے سر پٹختا رہتا اور پھر جب ناکام ہوتا تو اسے اپنی خوش قسمتی کے علاوہ اور کچھ نہ سمجھتا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!