من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

شیراز کے سر میں اس بار صحیح معنوں میں آندھیاں چلنے لگی تھیں۔ اس نے سہیل سے نظریں ہٹا کر اس کے ساتھ کھڑے اس چھوٹے سے بچے کو دیکھا، جو اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
اس نے اس صورت حال میں اس کلاس کے ہر ممکنہ رد عمل کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی جس سے اس کا تعلق تھا۔
سابقہ شوہر اور موجودہ شوہر کا آمنا سامنا ہوا۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے محلے، اس کے خاندان اور اس کے طبقے میں یہ صورت حال پیش آنا ممکن ہی نہیں تھا۔ کوئی شوہر کبھی بھی اپنی سابقہ بیوی کے گھر نہ جاتا اور نہ ہی جا سکتا تھا۔ مگر سوال یہ نہیں تھا کہ وہ وہاں کیوں آیا تھا؟ سوال یہ تھا کہ وہ تھا ہی کیوں؟ شینا کا پہلا شوہر؟ دھوکا، فریب، کوئی اور معاملہ ہوتا تو اس کے اندر غصے کا آتش فشاں بھڑک اٹھنا چاہیے تھا، مگر اس کے لیے یہ شاک اتنا شدید تھا کہ اشتعال بھی اس کے اندر پیدا ہی نہیں ہو رہا تھا۔
اسے بے حد خوبصورتی کے ساتھ بے وقوف بنایا گیا تھا اور اسے اندازہ بھی نہیں ہوا تھا وہ ساکت کھڑا سہیل کی شکل دیکھ رہا تھا اور سہیل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اب اس سے کیا کہے۔ وہ وہاں اس سے ملنے نہیں آیا اور شیراز کا رد عمل اسے ”بور” بھی کر رہا تھا۔
اسے گونگے لوگوں سے ملنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
اس سے پہلے کہ دونوں کے درمیان آنے والی خاموشی ٹوٹتی ۔ شینا اندر لاؤنج سے نکل آئی تھی اور سہیل کو دیکھتے ہی بے حد گرم جوشی سے اس کی طرف بڑھی تھی۔
”ارے سہیل تم! کب آئے؟” شیراز نے اپنے عقب میں اس کی آواز سنی تو پلٹ کر اسے دیکھا مگر وہ تب تک آگے بڑھ کر سہیل کے گلے لگ گئی۔
”بس ابھی آیا ہوں۔” سہیل نے اس سے گلے ملتے اور اس کے گال چومتے ہوئے کہا۔
اورشیراز کے جسم میں جیسے کاٹو تو لہو نہیں تھا۔ اس کے لیے یہ نا قابل تصور بات تھی کہ دو طلاق یافتہ افراد ایک دوسرے کے ساتھ اتنی گرم جوشی کے ساتھ مل رہے تھے۔ ایک لمحے کے لیے اسے لگا اسے ڈوب کر مر جانا چاہیے۔ لیکن اگلے لمحے لگنے والے کرنٹ کے ایک اور جھٹکے نے جیسے اس کے ذہن سے یہ خیال بھی نکال دیا تھا، سہیل کے قریب کھڑا بچہ اب بڑی بے تابی کے ساتھ شینا سے لپٹا تھا اور یہ اس کے منہ سے نکلنے والا ”ممی” کا لفظ تھا، جس نے شیراز پر ایک اور قیامت ڈھائی تھی۔ آخر ایک دن میں کتنی قیامتیں ٹوٹ سکتیں تھیں کسی پر؟
شینا اب اس بچے کو چومنے اور اس سے باتیں کرنے میں مصروف تھی اور سہیل ہنستے ہوئے شینا اور اس بچے کو دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے شیراز کو لگا، وہ تینوں اب بھی فیملی تھے، صرف ایک وہ تھا جو وہاں غیر ضروری تھا۔
”تم ابھی تک یہاں کیوں کھڑے ہو؟ اندر آؤ نا۔”





شینا کو جیسے ایک دم خیال آیا۔ اور پھر وہ سہیل کا بازو تھامے اور اس بچے کو دوسرے ہاتھ سے انگلی سے پکڑے وہ اندر چلی گئی۔ اس نے شیراز کی طرف دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی تھی اور شیراز کو اگر اس کے چہرے پر کوئی ندامت شرمندگی یا جھوٹ کھل جانے کے بعد والے تاثرات دیکھنے کی موہوم سی بھی امید تھی تو وہ پوری نہیں ہوئی تھی۔
وہ تینوں اب گھر کے اندر والے حصے میں غائب ہو چکے تھے۔ صرف وہی تھا جو وہیں کھڑا تھا۔ شینا کی شادی اس سے کیوں ہوئی تھی۔ اب یہ راز راز نہیں رہا تھا۔ شیراز چند منٹوں کے اندر اندر آسمان سے زمین پر گر پڑا تھا۔
سابقہ شوہر، ایک دو سالہ بچہ، اور کیا تھا شینا کے ماضی میں، وہ آتش فشاں جو اس کے اندر پھٹنا تھا اب پھٹ رہا تھا۔ سادگی سے شادی کیوں ضروری تھی؟ تاکہ اس کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔ اور جواد کیا کر رہا تھا؟ سب کچھ جانتے ہوئے بھی شیراز کے لیے چارہ تیار کر رہا تھا۔ اور وہ بے حد آرام سے اس میں پھنس گیا تھا۔ اسے سعید نواز پر غصہ آرہا تھا۔ شدید غصہ۔
وہاں غصے میں ابلتے وہ کتنی دیر بے مقصد کھڑا رہا۔ اسے اندازہ نہیں ہوا۔ وہ یہ بھول چکا تھا کہ اسے کہیں جانا تھا۔
سہیل جلد ہی باہر نکل آیا تھا۔ شینا باتیں کرتے ہوئے اس کے ساتھ تھی اور وہ بچہ شینا کے ساتھ۔
”اچھا شیراز”… See you سہیل نے باہر نکلتے ہوئے شیراز سے کہا۔ اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ شیراز نے اس بار اس کا ہاتھ نہیں پکڑا وہ سرخ آنکھوں کے ساتھ اسے کھا جانے والے انداز میں گھورتا رہا۔ اسے بالآخر یاد آگیا تھا کہ اس کی کلاس ایسی صورت حال میں کس طرح reactکرتی تھی۔ سہیل نے چند لمحے انتظار کیا پھر وہ شینا سے پہلے کی طرح گلے ملا، اپنے بچے سے ملا، اور گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ شینا وہیں کھڑی بڑی محبت کے عالم میں اسے جاتا دیکھتی رہی۔ گاڑی کے گیٹ سے نکلنے ہی وہ شیراز کی طرف مڑی اور اس نے بے حد تلخی سے چلاتے ہوئے کہا۔
”کسی کو کس طرح سی آف کرنا ہے۔ کم از کم یہ تو سیکھ لو تم۔”
”یہ تمہارا سابقہ شوہر تھا؟” شیراز نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا۔
”تم مجھے بتا رہے ہو یا مجھ سے پوچھ رہے ہو؟” شینا نے بے حد دبنگ انداز میں اس سے کہا۔
”میں تم سے پوچھ رہا ہوں؟” شیراز نے بے حد غصے سے کہا۔
”ہاں… جواب مل گیا؟”
”اور یہ تمہارا بچہ ہے؟” شیراز نے اس کے ساتھ کھڑے بچے کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”میرے ساتھ کھڑا ہے تو میرا ہی بچہ ہو گا۔ تمہارا تو نہیں۔” وہ اسی دوبدو انداز میں بولی۔
”اور یہ تمہاری دوسری شادی ہے۔”
”میں صرف پہلی شادی کو شادی مانتی ہوں۔ جو رشتہ تمہارے ساتھ ہے۔ وہ مذاق ہے۔” شینا کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
”اور تم لوگوں نے مجھ سے جھوٹ بولا۔ مجھ کو دھوکا دیا۔ ”شیراز اس بار بے اختیار چلایا۔
”یہ تم جا کر پاپا سے پوچھو، مجھ پر چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کبھی خواہش نہیں کی تھی تم سے شادی کی۔ تمہیں زبردستی میرے سر پر تھوپا انہوں نے۔ کیونکہ تم میرے عشق میں مر رہے تھے۔” شینا نے اس سے زیادہ بلند آواز میں کہا۔
”تمہارے عشق میں…؟ تمہارے باپ نے مجھ سے کہا تھا کہ تم میرے عشق میں پاگل ہو رہی ہو۔” شیراز بھی اسی انداز میں چلایا۔ چند لمحوں کے لیے وہ واقعی بھول گیا تھا کہ شینا سے یہ ساری باتیں کرنا اسے کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔
”عشق میں پاگل؟ شکل دیکھی ہے تم نے اپنی؟ ساری دنیا کو چھوڑ کر میں تمہارے پیچھے خوار ہوں گی۔”
وہ حلق کے بل چلائی اور پھر اپنے بچے کو لے کر اندر چلی گئی۔ شیراز کو بہت عرصے کے بعد آج اس طرح کا غصہ آیا تھا۔ اسے یقین نہیں آیا تھا کہ یہ سب کچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا۔ اتنا بڑا دھوکا۔
گھر کے اندر جا کر شینا سے مزید لڑنے کے بجائے وہ وہیں سے سیدھا سعید نواز کے گھر چلا آیا۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ سعید نواز اس وقت اسے گھر پر مل گئے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح بڑے تپاک کے ساتھ شیراز کا استقبال کیا مگر شیراز کے تیوروں نے انہیں کچھ حیران کیا تھا۔ مگر ان کی یہ حیرانی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی تھی۔ شیراز نے چھوٹتے ہی انہیں سہیل کی آمد کی اطلاع دی۔
اس کاخیال تھا سہیل اور بچے کا نام سنتے ہی سعید نواز کا رنگ اڑ جائے گا اور وہ بے حد نادم ہوں گے۔ مگر اس کا یہ اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا تھا۔ سہیل اور شینا کے بچے کے نام پر سعید نواز کے چہرے پرکسی قسم کے تاثرات نہیں آئے تھے۔ شرمندگی یا ندامت تو دوسری بات تھی وہ بڑے آرام سے یوں اسے دیکھتے رہے، جیسے کوئی بڑا کسی بچے کو دیکھتا ہے۔ شیراز کے اشتعال میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔
”اتنا بڑا دھوکا کیا آپ لوگوں نے میرے ساتھ۔” اس نے غصے سے بے قابو ہوتے ہوئے کہا۔
”اتنا چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلی شادی چھپائی ہے۔ کوئی گناہ نہیں کیا۔” سعید نواز نے بالآخر بے حد سرد لہجے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”آپ لوگوں نے مجھے سہیل اور شینا کے بچے کے بارے میں بھی اندھیرے میں رکھا۔”
”تم نے ہمیں اپنی منگنی کے بارے میں بتایا تھا کیا؟” شیراز سعید نواز کے سوال پر چند لمحوں کے لیے بول نہیں سکا۔ یعنی انہیں اس کی منگنی کے بارے میں علم تھا اور وہ سوچتا رہا وہ انہیں بے خبر رکھنے میں کامیاب رہا تھا۔
”منگنی اور شادی میں بہت فرق ہوتا ہے۔” اس نے بالآخر سنبھل کر کہا۔ اس کی آواز خود بخود ہی دھیمی ہو گئی تھی۔
”ہوتا ہو گا مگر دھوکے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔” سعید نواز نے اسی انداز میں کہا۔
”مجھ سے پوچھیں میرے دل پر کیا گزر رہی ہے اس کے شوہر اور بچے کو دیکھ کر، ایک بچے کی ماں سے شادی کر لی میں نے۔”
شیراز کو ایک بار پھر غصہ آنے لگا۔ اور اس بار اس کے جملے نے سعید نواز کو آپے سے باہر کر دیا۔
”وہ ایک بچے کی ماں سعید نواز کی اکلوتی بیٹی ہے۔ اور سعید نواز کون ہے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو۔ اور تم… کیا ہو تم…؟ کیا ہے تمہارا باپ؟… ایک میٹرریڈر کا جونئیر افسر بیٹا جو سعید نواز کا داماد نہ ہوتا ، تو تنخواہ کے چند ہزار روپوں کو گن گن کر زندگی گزار رہا ہوتا۔ تم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ ہمارے جیسے خاندان کے ساتھ تعلق ہو گا تمہارا۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اس قدر احسان فراموش نکلو گے۔ ابھی اور اسی وقت میری بیٹی کو طلاق دے دو اور پھر دیکھو میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں۔ دو دن میں تمہیں جاب سے terminate نہ کروایا تو میرا نام سعید نواز نہیں۔ مگر اس سے پہلے تمہیں وہ ساری رقم اور چیزیں واپس کرنا پڑیں گی جو شادی سے پہلے اور بعد میں تم مجھ سے لیتے رہے ہو۔ مجھے اپنا ایک ایک پیسہ واپس چاہیے۔”
شیراز دو منٹوں میں آسمان سے زمین پر واپس آگیا تھا۔ وہ زینی کا خاندان نہیں تھا۔ شینا کا خاندان تھا وہ ان سے سوال نہیں کر سکتا تھا۔ انہیں کٹہرے میں کھڑا نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اس کی کلاس کے لوگ نہیں تھے جو داماد نام کی ”شے” سے خوفزدہ ہوتے۔ شیراز بے اختیار پچھتایا۔ اسے اس وقت سعید نواز کے پاس نہیں آنا چاہیے تھا اور اگر آبھی گیا تھا تو ان سے یہ ساری باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ سعید نواز ان دھمکیوں کے بغیر بھی اگر شیراز کو طلاق کا آپشن دیتے تو وہ اسی طرح ہکا بکا ہوتاجس طرح اب ہوا تھا۔ وہ شینا کو طلاق دے دیتا تو خود کہاں جاتا۔
”پاپا! میں نے طلاق کی بات تو کبھی نہیں کی۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ اگر آپ لوگ مجھے پہلے بتا دیتے تو کوئی مس انڈرسٹینڈنگ نہ ہوتی۔” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے گلا کھنکھار کر صاف کرتے ہوئے بالکل بدلے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ ایک بار پھر پہلے والا شیراز تھا۔
”ہم لوگوں نے اسے اتنا اہم سمجھا نہیں اس لیے تمہیں نہیں بتایا۔ اور پھر ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ تم اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح ری ایکٹ کرو گے۔” سعید نواز کی آواز بھی یک دم دھیمی ہو گئی تھی۔
”آئی ایم سوری۔ میں کچھ جذبات میں آکر الٹی سیدھی باتیں کر گیا۔” شیراز نے بے ساختہ معذرت کی۔
”کوئی بات نہیں، مگر آئندہ کے لیے محتاط رہنا۔ شینا کو پہلے ہی تم سے بہت شکایتیں ہیں مگر یہ صرف میری وجہ سے ہے کہ وہ ابھی تک تمہارے ساتھ ہے۔ میں اس سے کہتارہتا ہوں کہ خاندان اچھا نہیں ہے تو کیا ہوا۔ شریف لڑکا ہے۔ عزت کرنے والا مودب۔۔۔۔”
سعید نواز اب اسے بھگو بھگو کر مار رہے تھے۔ شیراز اگلے دو گھنٹے چپ چاپ ان کی باتیں سنتا رہا۔ مگر اس کا ذہن صرف سہیل اور اس کے بچے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ سعید نواز سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا وہ بچہ اب اس کے گھر میں رہنے والا تھا۔ مگر وہ اس وقت ایک اور احمقانہ سوال نہیں کرنا چاہتا تھا۔
واپسی کے سفر میں شیراز صرف ایک بات سوچتا رہا تھا۔ کہ جب اس کے گھر والوں کو شینا کی پہلی شادی اور بچے کے بارے میں پتہ چلے گا تو کیا ہو گا؟”
”کیا ہو گا… کچھ نہیں ہو گا… کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ میں ابھی بھی سعید نواز کا داماد ہوں، ابھی بھی پورا شہر میری عزت کرتا ہے۔” وہ اپنی گرتی ہوئی عزت نفس کو رسیوں سے باندھ کرکھڑا کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اسے ابھی بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ جواد کو جا کر اپنے ہاتھوں سے شوٹ کر دے۔ اس نے ایک بار بھی اسے شینا کے ماضی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!