من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

انور حبیب اور سفیر نے سینما میں داخل ہوتے ہوئے ٹکٹ لینے کے لیے کھڑے تماشائیوں کی لمبی قطاریں دیکھی تھیں۔ انہیں اس چیز نے پریشان نہیں کیا پاشا پروڈکشنز کی فلم کا کوئی بھی پہلا شو کم از کم اسی طرح ہاؤس فل جاتا تھا۔ کم از کم شہر کے اس سب سے پرانے سینما میں جہاں کسی فلم میں ٹکٹوں کی تعداد نہیں تماشائیوں کا رد عمل کسی فلم اور ایکٹر کی قسمت کا فیصلہ کرتا تھا اور آج ان میں سے کوئی بھی وہاں اپنی قسمت کا فیصلہ سننے نہیں آیا تھا، پری زاد کی قسمت کا فیصلہ ہوتے دیکھنے آیا تھا۔ وہ اس فلم کو پٹتے دیکھنا چاہتے تھے۔
انڈسٹری کا اکلوتا سپر اسٹار اور کامیاب ترین ڈائریکٹر سال کی سب سے بڑے بجٹ کی فلم کو فلاپ ہوتا دیکھنے کے لیے وہاں آئے تھے۔ پچھلے پانچ سالوں میں کبھی اپنی کسی فلم کا پہلا شو دیکھنے کے لیے جاتے ہوئے ان کے دلوں کی دھڑکن اتنی بے ترتیب نہیں تھی، جتنی آج تھی۔ انور حبیب نے کسی فلم کو اس سے زیادہ برا بنانے پر اس طرح کی محنت نہیں کی تھی اور سفیر خان کو یقین تھا، اپنی پچھلی تمام فلموں میں اس نے اس سے زیادہ بری اور ناقص اداکاری نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ تبریز پاشا بھی فلم کے رشنر دیکھ کر پہلی بار کسی فلم کے بارے میں اتنا خائف ہوا تھا۔ وہ فلم ویسی نہیں بنی تھی جیسی وہ بنانا چاہتا تھا مگر وہ فلم ویسی ہی تھی جیسی انورحبیب اور سفیر خان اسے دیکھنا چاہتے تھے اور اب سینما میں بیٹھے چند ہزار تماشائی تین گھنٹے میں اس فلم اور اس کے بعد کی قسمت کا فیصلہ سنانے والے تھے۔
وہ پری زاد کی فلم تھی، صرف پری زاد کو ڈوبنا یا تیرنا تھا اس فلم کے ساتھ۔ باقی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ سفیر سپر اسٹار تھا۔ ایک فلم کا فلاپ ہونا اس پر اثر نہ ڈالتا، یہی حال انور حبیب اور تبریز کا تھا اور یہی حال اس فلم سے منسلک باقی تمام افراد کا تھا۔
گیلری میں فلم انڈسٹری اور میڈیا کے چنیدہ لوگ تھے اور وہاں پر پری زاد کے آنے سے پہلے پری زاد کے مستقبل کی بات ہو رہی تھی۔
فلم کا شو شروع ہونے سے پانچ منٹ پہلے زینی سلطان کے ساتھ گیلری میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے چہرے سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ نروس تھی یا نہیں۔ اگر نروس تھی بھی تو اس نے گھبراہٹ کو مکمل طور پر چھپایا ہوا تھا۔ یہ میڈیا کے لوگوں کا اندازہ تھا۔ یہ صرف سلطان جانتا تھا کہ وہ بالکل نروس نہیں تھی۔ اس نے آج تک کسی ہیروئن کو اتنا بے فکر اور لاپروا ہو کر اپنی فلم کے پہلے شو کو دیکھنے کی تیاری کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
اس کے گیلری میں داخل ہوتے ہی کچھ لوگوں نے اسے مبارک باد دی تھی۔ صرف دو افراد اس کے قریب نہیں آئے تھے، سفیر اور انور۔ وہ دور سے اسے گیلری میں موجود دوسرے مردوں سے ملتے دیکھتے رہے۔ وہ اس نیم تاریکی میں بھی اتنی ہی ہوش ربا لگ رہی تھی، جتنی روشنی میں لگتی تھی۔ گیلری میں بیٹھا ہوا ہر مرد اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔




ہال کی لائٹس آف ہو گئی تھیں۔ پری زاد کی پہلی فلم کا پہلا شو شروع ہو گیا تھا۔ پہلے دس منٹ تک پری زاد کی انٹری نہیں تھی، صرف سفیر اور سکینڈ لیڈ کی کہانی چل رہی تھی اور ڈائریکشن اور اداکاری کے جھول سینما کی قد آدم اسکرین پر بے حد واضح طور پر نظر آرہے تھے۔ سفیر نے ہال میں اپنے کچھ سینز پر اپنے بارے میں بلند آواز میں کچھ تبصرے بھی سنے اور ان تبصروں کے بعد اس نے گیلری میں بیٹھے میڈیا کے لوگوں کو آپس میں سرگوشیاں کرتے بھی دیکھا۔ چند لمحوں کے لیے اسے بے یقینی ہوئی تھی مگر پھر اس نے اپنے ہر خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔
”وہ یہ سب کچھ پری زاد کے لیے کر رہا تھا۔” اس نے نیم تاریکی میں ایک مدھم مسکراہٹ کے ساتھ خود کو یقین دلایا۔
پہلے دس منٹ میں فلم اور ایکٹرز ہوٹ ہونا شروع ہو گئے تھے۔ انور حبیب کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ اس نے بہت جتانے والے انداز میں دو چار بار گردن گھما کر زینی کو دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ پتھر کے بت کی طرح اسکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
اس وقت اس ہال میں شاید وہی تھی جو فلم دیکھ رہی تھی۔ باقی سب باتیں کر رہے تھے، اسموکنگ کر رہے تھے۔ دھیمی آواز میں ہنس رہے تھے یا پھر فلم کے مختلف سین پر بلند آواز میں تبصرے کرنے میں مصروف تھے۔ تبریز پاشا کے ماتھے پر پسینہ آرہا تھا اور سلطان کی ہتھیلیوں پر۔ پری زاد کے علاوہ صرف وہ دو لوگ تھے جن پر اس فلم کی کامیابی یا ناکامی سے کوئی اثر پڑنے والا تھا۔
گیارہویں منٹ میں زینی کی پہلی انٹری ہوئی تھی اور اسکرین پر اس کا چہرہ نظر آتے ہی پہلے چند لمحوں کے لیے گہری خاموشی ہوئی۔ پھر ہال میں بیٹھے تماشائیوں نے زور دار تالیوں کے ساتھ جیسے پری زاد کا استقبال کیا تھا۔ وہ اس فلم کے کسی بھی ایکٹر کو پچھلے گیارہ منٹ میں ملنے والی پہلی داد تھی۔
سفیر خان اور انور حبیب نے بے اختیار پہلو بدلے اور تبریز پاشا کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ نظر آئی۔
وہ فلم کا وہ پہلا سین تھا، جسے تماشائیوں نے ابتدائی داد کے بعد بالکل خاموش ہو کر دیکھا تھا اور سین کے اختتام پر پری زاد کی آمد کے ساتھ ہی اسے ایک بار پھر داد ملی تھی۔
تبریز پاشا اور سلطان کے تنے ہوئے جسم پر سکون ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اب سفیر اور انور حبیب کے جسم تناؤ کا شکار ہونے لگے تھے۔ اگلے سات منٹ میں وہ جتنی بار اسکرین پر نظر آئی۔ تماشائیوں نے اسے تالیاں بجا کر داد دی تھی۔ یہ صرف اس کی خوبصورتی نہیں تھی۔ اداکاری بھی تھی جسے سراہا جا رہا تھا۔ اس کے سامنے کھڑا سفیر بے حد بونگا اور بعض سینز میں بھدا لگ رہا تھا اور رہی سہی کسر اس کی بری اداکاری پوری کر رہی تھی۔
کیمرہ جب پری زاد کے چہرے پر آتا پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھتا اور جب سفیر کے چہرے پر آتا۔ ہال میں بے ہودہ آوازے کسے جاتے۔ سفیر کے ماتھے پر اب پسینہ آرہا تھا۔
فلم کے سترہویں منٹ میں پری زاد کا پہلا گانا اور ڈانس آیا تھا۔ پری زاد نیم عریاں لباس میں اسکرین پر بے حد بے ہودہ مگر مشکل ڈانس بہت خوبصورتی سے کر رہی تھی۔ مرد تماشائی اپنی اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو کر ناچ رہے تھے۔ ہال میں شور برپا تھا۔
انور حبیب اور سفیر کے چہرے فق ہو رہے تھے۔ پری زاد بھی ان ہی کی طرح بے حس و حرکت اپنی کرسی پر بیٹھی تھی۔
٭٭٭
سینما کی اسکرین پر پری زاد ناچ رہی تھی۔ گیلری میں بیٹھی زینی کے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔ وہ ہال میں مرد تماشائیوں کی سیٹیوں کی آواز سن سکتی تھی۔ ان کی زبان سے نکلنے والے جملے سن سکتی تھی۔ نیم تاریک سینما میں مرد تماشائیوں کے ہاتھوں میں پکڑی لیزر لائٹ کی beam کو اسکرین پر ناچتے اپنے جسم کے نیم برہنہ حصوں پر پڑتے دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنے جسم پر چیونٹیاں رینگتی محسوس ہوئی تھیں۔
اس کا جسم کپکپانے لگا تھا۔ اس نے یہ کیسے سوچ لیا تھا کہ وہ اب کسی بات پر ذلت محسوس نہیں کرے گی۔ ذلت کی آخر کتنی شکلیں ہو سکتی ہیں اور اس کے حصے میں کون کون سی آنی تھی۔ کب…؟ کب…؟ کس وقت…؟ کس موڑ پر…؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔
اپنے چہرے پر میک اپ کی گہری تہوں کے باوجود اسے اپنا چہرہ پسینے سے شرابور ہوتا محسوس ہوا۔ صرف چہرہ نہیں، پورا جسم۔ اس کے جسم پر لپٹی شیفون کی ساڑھی بھیگنے لگی تھی۔
فلم کی سکینڈ ہیروئن ہال میں ناچتے مرد تماشائیوں کی تالیاں سن کر خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔ تبریز پاشا اور انور حبیب گلے مل رہے تھے۔ پری زاد کی پہلی فلم کا پہلا شو ہاؤس فل گیا تھا۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری پر ایک نئی ملکہ راج کرنے کے لیے آگئی تھی۔
سلطان اس ”نئی ملکہ” کے دائیں جانب بیٹھے بار بار اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے فلم انڈسٹری کی کسی ہیروئن کو پہلی clap ملنے پر اس طرح گم صم بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے آس پاس بیٹھے سب لوگوں سے ملی تھی لیکن سلطان نے بہت بہت شکر ادا کیا کہ وہاں نیم تاریکی میں کوئی بھی اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ فلم کے ختم ہونے تک زینی کے موبائل پر ایک کے بعد ایک فون آنا شروع ہو گئے تھے۔ وہ فون سلطان اٹینڈ کر رہا تھا۔
”یہ میں نہیں ہوں، یہ پری زاد ہے۔” وہاں بیٹھے اپنے آپ کو سینما کی اسکرین پر دیکھتے ہوئے زینی نے زندگی میں پہلی بار اپنے عکس، اپنے وجود، اپنی زندگی سے چھپنے کی کوشش کی۔ تین گھنٹے کے اس شو میں اس نے اسکرین پر پری زاد کی فلم نہیں دیکھی تھی۔ اس نے ایک بار پھر زینب ضیاء کی پوری زندگی دیکھی تھی۔ اور وہاں بیٹھے بہت دنوں کے بعد اسے شیراز یاد آیا تھا۔ ان درجنوں مردوں کے بیچ میں اس نیم عریاں لباس میں بیٹھے اسے وہ یاد آیا تھا اور صرف وہی نہیں، اسے بہت کچھ یاد آیا تھا۔
اس سینما میں اس شام وہ کسی شناخت کے بغیر آئی تھی مگر وہاں سے نکلتے وقت اس کی حیثیت تبدیل ہو چکی تھی۔ کون اس کی تصویر لینا چاہتا تھاکون اس سے آٹو گراف لینا چاہتا تھا، کون اسے ہاتھ لگانا چاہتا تھا اور کون اس پر فریفتہ ہونا چاہتا تھا۔ اسے یہ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ سجائے وہ لوگوں کی اس بھیڑ میں سے گزرتی گئی جو سینما کے باہر اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ سلطان، تبریز پاشا، انور حبیب اور چند دوسرے مردوں کو اس کے لیے راستہ بنانا پڑ رہا تھا تاکہ وہ ان سب سے بچ بچا کر گزر جائے اور وہ اپنے کانوں میں پری زاد اور فلم کے بارے میں تماشائیوں کے جملے سن رہی تھی۔ سلطان برق رفتاری سے اس کے آگے چلتا ہوا اس کے لیے راستہ بنا رہا تھا۔ وہ ساری زندگی یہی کام کرتا رہا تھا۔ ہیروئنوں کے آگے چلتے ہوئے رستہ بنانا، آج پھر وہ وہی کام کر رہا تھا۔
گاڑی سے سینما میں جاتے ہوئے زینی کو دو منٹ لگے تھے۔ واپس گاڑی تک پہنچتے ہوئے دس منٹ لگے تھے۔
گاڑی کا دروازہ بند ہوتے ہی ہجوم چھٹ گیا تھا جس کے بیچ سے گزر کر وہ گاڑی تک آئی تھی اور گاڑی کے سینما سے باہر نکلتے ہی زینی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر اوندھے منہ گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ اگلی سیٹ پر بیٹھے ڈرائیور اور سلطان نے حواس باختہ انداز میں پیچھے پلٹ کر اسے دیکھا۔ پھر ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی۔ ڈرائیور دوبارہ ونڈ اسکرین کی طرف متوجہ ہو کر گاڑی چلانے لگا۔ سلطان اسی حواس باختہ انداز میں پچھلی سیٹ پر اوندھے منہ گری زینی کو دیکھتا رہا۔ وہ کیوں رو رہی تھی؟ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا مگر وہ خوشی کے آنسو نہیں تھے، یہ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔
خوشی کے آنسو کوئی دھاڑیں مار مار کر نہیں بہاتا اور یہ بھی نہیں تھا کہ سلطان نے کبھی کسی ہیروئن کو روتے دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس نے جن دو ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا تھا، انہیں اسی طرح کئی بار روتے دیکھا تھا مگر ان کے رونے اور زینی کے رونے میں بہت فرق تھا۔ کیا فرق تھا؟ یہ سلطان سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
گھر کے گیٹ پر پہنچ کر ڈرائیور نے گاڑی روکتے ہوئے ہارن دیا۔ اس سے پہلے کہ چوکیدار گیٹ کھولتا، زینی یک دم پچھلی سیٹ پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”تم چلے جاؤ، مجھے کہیں جانا ہے۔”
وہ اب دروازہ کھول کر نیچے اتر رہی تھی۔ جب وہ ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھ گئی تو سلطان نے دروازے کے ہینڈل پر رکھا اپنا ہاتھ ہٹالیا۔ وہ اس سے مخاطب نہیں تھی، وہ ڈرائیور سے بات کر رہی تھی۔ ڈرائیور دروازہ کھول کر اتر گیا۔
زینی نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اور گاڑی کو دوبارہ مین روڈ پر لے آئی۔ اس کا چہرہ اور آنکھیں اب بھی آنسوؤں سے بھیگے ہوئے تھے لیکن وہ اب پہلے کی طرح نہیں رو رہی تھی۔ سلطان سے کوئی بات کیے بغیر وہ سڑک پر گاڑی دوڑاتی رہی۔ کافی دیر تک گاڑی میں خاموشی رہی پھر بہت دیر تک وہ اسی طرح سنسان سڑکوں پر گاڑی دوڑاتی رہی۔ سلطان نے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ وہ کہاں جا رہی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ گاڑی کسی رستے پر نہیں تھی۔ زینی بھی کسی رستے پر نہیں تھی۔ کچھ کہے بغیر وہ بے مقصد لاہور کی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتی رہی۔
کسی بھی فلم کے ہٹ ہونے کے بعد یہ وہ وقت ہوتا تھا جب ہیروئن، پروڈیوسر یا ڈائریکٹر کے گھر پر جشن کا سماں ہوتا تھا۔ شراب پی جا رہی ہوتی، رقص جاری ہوتا تھا، نئی فلموں کی آفرز اور ڈیٹس حاصل کرنے کے لیے جدوجہد ہو رہی ہوتی تھی۔
تبریز پاشا کے گھر پر بھی اس وقت جشن جاری تھا اور پری زاد کو بلانے کے لیے فون پر فون کیے جا رہے تھے۔ مگر پری زاد کا فون بند تھا۔ وہ کہاں تھی، کوئی نہیں جانتا تھا،۔ سوائے ایک شخص کے جو اس کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اس کے ساتھ رات کے اس پہر شہر کی سڑکوں پر خوار ہو رہا تھا۔ کئی گھنٹوں بعد زینی نے بالآخر گھر کی طرف گاڑی موڑی۔ سلطان نے خدا کا شکر ادا کیا، وہ بالآخر نارمل ہو رہی تھی۔
گھر کے گیٹ پر پہنچ کر اس نے سلطان سے کہا۔
”تم یہیں بیٹھو، میں کپڑے بدل کر آتی ہوں۔”
سلطان گاڑی سے نیچے نہیں اترا۔ اس نے فون آن کر کے تبریز پاشا کو آدھ گھنٹے میں اس کے گھر پہنچنے کی اطلاع دی۔ اس کا خیال تھا، زینی اس لیے کپڑے بدلنے گئی تھی لیکن پانچ منٹ کے بعد گھر سے برآمد ہونے والی پری زاد کو دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گیا۔ وہ میک اپ سے بے نیاز چہرے میں کاٹن کے ایک معمولی سوٹ اور چادر میں ملبوس پاؤں میں ایک سستی چپل پہنے ہوئے تھی۔ ایک بار پھر گاڑی میں بیٹھ کر وہ گاڑی ڈرائیو کرنے لگی تھی۔ سلطان نے کچھ پوچھنے کے بجائے ایک بار پھر موبائل آف کر دیا۔ وہ اس بار بجنے لگتا تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
پری زاد کو آج رات کسی پارٹی میں نہیں جانا تھا، یہ سلطان جان گیا تھا۔
ایک گھنٹہ ڈرائیو کرنے کے بعد وہ کسی پرانے محلے میں آئی تھی۔ سلطان سے کچھ کہے بغیر وہ گاڑی سے اتر گئی تھی۔ سلطان بھی اس کے پیچھے اتر گیا تھا۔ اسے تجسس ہو رہا تھا، وہ وہاں کیوں آئی تھی۔ وہاں کون تھا؟ جس کے لیے وہ رات کے اس پہر یوں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہاں آگئی تھی۔ اس کے ذہن میں سو خیال آرہے تھے، وہ ہزار اندازے لگا رہا تھا مگر وہ جہاں جا کر رکی تھی، اس جگہ نے سلطان کے وجود میں جیسے بجلی کا کرنٹ دوڑا دیا تھا۔ وہ ایک قبرستان تھا، وہ رات کے پچھلے پہر اس گھپ اندھیرے قبرستان کی ایک ٹوٹی ہوئی عقبی دیوار کو پھلانگ کر داخل ہوئی تھی اور پھر سلطان نے اسے ایک چھوٹی ٹارچ جلاتے دیکھا۔ وہ گنگ اس کے پیچھے چلتا رہا۔
وہ قبروں کے بیچ میں چلتے ہوئے کوئی قبر ڈھونڈ رہی تھی اور پھر سلطان نے اسے ایک قبر کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتے دیکھا۔ اس نے ٹارچ بجھا دی۔ سلطان کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ قبرستان ایک بار پھر اندھیرے میں ڈوب گیا تھا مگر سلطان کو اب کوئی تجسس نہیں رہا تھا۔
وہ جانتا تھا، وہ وہاں کیا کرنے آئی تھی۔ زینی بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی لیکن اس نے ضیاء کی قبر کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ وہ باپ کے پاس وہ سب کچھ پہن کر آئی تھی جو ضیا کے ”رزق حلال” سے خریدا گیا تھا۔ مگر یہ صرف اس کا اپنا وجود تھا جو اب اسے ایک آلائش لگ رہا تھا۔ وہ اس قابل نہیں رہی تھی کہ ضیا کی قبر کی مٹی کو بھی ہاتھ لگانے کی جرأت کر سکتی وہ پھر بھی ضیا کے پاس ایک آخری بار رونے آئی تھی۔ آخری بار کچھ کہے بغیر باپ کو اپنے دل کا حال بتانے آئی تھی۔ اس کے بعد دنیا نے اسے کھا جانا تھا۔ وہ ساری رات وہاں بیٹھی روتی رہی تھی۔ یہ فلم انڈسٹری میں اس ملکہ کی تاج پوشی کی رات تھی جس نے اگلے نو سال اس فلم انڈسٹری پر بلاشرکت غیرے حکومت کرنا تھی۔
*****




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!