من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

وہ کہنا تو اور بھی بہت کچھ چاہتا تھا، لیکن کہہ نہیں سکا۔ جہاں داد سے مزید کچھ کہے بغیر وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ صابر کی موت یک دم سے اس کے ذہن سے بہت دور چلی گئی تھی۔ اس کی اپنی زندگی کچھ اور الجھنوں کا شکار ہو گئی تھی۔
اگلے چند دنوں میں اس کے دباؤ پر اس کے ماں باپ عارفہ کے گھر گئے تھے لیکن معاملات سلجھنے کے بجائے اور زیادہ بگڑ گئے تھے۔ عارفہ کے گھر میں عارفہ کی امی کی کسی بات پر زینت مشتعل ہو گئی اور انہوں نے عارفہ کے ماں باپ پر یہ الزام لگایا کہ وہ کرم علی کا روپیہ ہڑپ کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو استعمال کر رہے ہیں۔
یہ جیسے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ثابت ہوا۔ عارفہ کے ماں باپ نے جواباً کرم علی کے گھر والوں اور اس کے ماں باپ پر یہ الزام لگایا کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی اس لیے نہیں کر رہے کیونکہ وہ اس کا روپیہ صرف اپنے تسلط میں چاہتے ہیں۔ زینت کے لیے جیسے انہوں نے وہاں سے چلے جانے کا جواب دے دیا تھا۔
کرم علی گھر میں ان کے تمام معاملات ٹھیک کر کے واپسی کا منتظر تھا اور وہ سب معاملات ٹھیک کرنے کے بجائے روتے ہوئے واپس گھر آئے تھے۔ زینت نے اپنی اس بے عزتی کا ذمہ دار کرم علی کو ٹھہرایا تھا اور اسے خود غرض قرار دیا تھا۔ کرم علی وقتی طور پر سب کچھ بھول کر صرف ماں باپ کی ناراضی کو دور کرنے میں مصروف رہا۔ اسے عارفہ اور اس کے گھر والوں سے بھی شکایت ہوئی تھی۔
اصل وجہ جانے بغیر اسے اس وقت اپنے ماں باپ ہی بے قصور لگے تھے جو اس کے اصرار پر عارفہ کے گھر والوں کو منانے گئے اور انہوں نے ان کی تذلیل کی۔ اسے اس سے بھی زیادہ اس بات سے رنج پہنچا تھا کہ اس کے روپے کا ذکر کیوں ہوا۔ وہ اگر اپنے گھر والوں اور ماں باپ پرروپیہ خرچ کر رہا تھا تو یہ اس کا مسئلہ تھا، عارفہ کے گھر والوں کا نہیں۔
وقتی رنج اور اشتعال میں وہ عارفہ سے بات کیے بغیر پاکستان میں اپنے چند ہفتے کے قیام کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے واپس امریکہ چلا آیا۔
امریکہ آنے کے بعد اس کی زندگی ایک بار پھر اپنی اسی روٹین پر واپس چلی گئی تھی مگر عارفہ اس کے ذہن سے نہیں نکلی تھی۔ وہ جانتا تھا چند ہفتے گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔لاشعوری طور پر وہ عارفہ کے فون کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا اس بار اسے وہ فون کرے اور اسے یقین تھا وہ اسے فون کرے گی اور اپنی ندامت کا اظہار کرے گی۔ اپنے گھر والوں کے نامناسب رویے پر اس سے معذرت کاا اظہار کرے گی۔ اور وہ ایک بار پھر اپنے گھر والوں اور عارفہ کے گھر والوں کے درمیان مصالحت کی کوشش کرے گا۔




اور اس کا اندازہ بالکل ٹھیک ثابت ہوا تھا۔ عارفہ نے اسے فون کیا تھا اس کے امریکہ چلے جانے کے پورے پانچ ہفتے کے بعد وہ ہفتے کا دن تھا وہ کچھ دیر پہلے ہی سو کر اٹھا تھا اور ناشتہ کرنے کے بعد ابھی باہر جانے ہی والا تھا۔
فون پر اس کی آواز سنتے ہی کرم کا دل جیسے خوشی سے اچھلا تھا۔
”تم کیسی ہو؟” اس کی ساری خفگی ساری ناراضی، سارا رنج ساری شکایتیں، عارفہ کی آواز سنتے ہی جیسے غائب ہو گئی تھیں۔
”بہت اچھے حال میں ہوں۔” اسے عارفہ کا جواب کچھ عجیب لگا۔
”مجھے یقین تھا تم فون کرو گی۔” کرم علی نے اس کے لہجے پر غور کیے بغیر کہا۔
”ہاں تمہیں تو فون کرنا ہی تھا مجھے یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میں تمہیں اپنے نکاح کے بارے میں نہ بتاتی۔”
کسی نے خنجر لے کر کرم علی کے دل میں گھونپ دیا تھا۔ اس وقت اس کے اس جملے پر اسے ایسا ہی لگا تھا۔ سانس لینا، بول پانا بے حد مشکل کام لگے اسے۔
”تم نے مجھے بہت ذلیل کیا کرم علی بہت زیادہ… میں نے اپنی زندگی کے چھ سال ایک جھوٹے آدمی کے لیے ضائع کیے۔ اور مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا۔۔۔۔”
وہ بول رہی تھی، وہ مفلوج ذہن اور جسم کے ساتھ اسے سن رہا تھا۔
”تمہاری جیب میں جب روپے کی بجائے ڈالر آنے لگے تو تمہیں عارفہ ایک غیر ضروری چیز لگنے لگی۔ تمہارے لیے میری محبت ایک فضول چیز بن گئی۔ اور تم نے مجھ سے چھٹکارا پانے کے لیے مجھ پر اور میرے گھر والوں پر لالچی ہونے کا الزام لگایا۔ ابھی چھ گھنٹے کے بعد جس کے ساتھ میرا نکاح ہو رہا ہے۔ وہ بھی امریکہ میں ہے۔ اس کے پاس بھی دولت روپوں کی شکل میں نہیں ڈالر کی شکل میں ہے۔ تم نے کیا سوچا تھا کہ تم عارفہ کو چھوڑ دو گے تو عارفہ کو کوئی اور نہیں ملے گا؟”
اس کی آواز میں آگ تھی یا پانی، کرم بوجھ نہیں پایا مگر کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا، جس نے کرم کو کاٹا تھا۔
”بڑا مان ہے تمہارے گھر والوں کو تمہاری دولت پر… میں دیکھوں گی جب تم اس دولت سے اپنے لیے عارفہ جیسی محبت خریدو گے۔ کوئی میری طرح تمہارے لیے اپنی زندگی کے چھ سال ضائع کر کے بازار میں اپنے دام گرائے، میں دیکھوں گی کرم علی کوئی عورت تمہیں میری طرح اپنے سر پر بٹھائے۔”
وہ اب رو رہی تھی۔
”بات یہ نہیں ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے کوئی نہیں ملتا، مل جاتا ہے… مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو دل مانگتا ہے، وہ نہیں ملتا۔ جیسے مجھے نہیں مل رہا۔ اللہ کرے تمہیں بھی کبھی وہ نہ ملے جس سے تمہیں محبت ہو یا جو تم سے محبت کرے۔”
وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی، پھر اس نے کسی دوسرے کی آواز سنی پھر فون بند ہو گیا اور اس کے بعد اس نے دوبارہ کبھی عارفہ کی آواز نہیں سنی۔
وہ فون کا ریسیور لیے اسی طرح کھڑا رہا۔ شاید ایک گھنٹہ بعد شاید ایک سے بھی زیادہ… آخر یہ کیسے ہو گیا کہ اس نے اتنی آسانی سے اسے کھو دیا، اتنی آسانی سے… اتنی آسانی سے تو اس نے کبھی پیسہ بھی نہیں کھویا تھا… پھر عارفہ کو کیسے؟ کیسے…؟
اور کیسے کا جواب نہیں مل رہا تھا۔ شاید سوال غلط تھا اس لیے۔
وہاں کھڑے کچھ دیر کے لیے اسے لگا جیسے اس کا ذہنی توازن خراب ہو گیا ہو۔ پوری دنیا مکمل طور پر خالی لگی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے پوری دنیا ایک سپاٹ اور سیدھا میدان بن گیا تھا۔ جہاں وہ دوڑتا جا رہا تھا۔ اور میدان ختم ہونے پر ہی نہیں آرہا تھا۔ کوئی رشتہ اتنی آسانی سے ختم ہو جائے اور رشتہ محبت اور صرف محبت کا ہو تو انسان کیا کرے، وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
اگلے چھ گھنٹے وہ نیو یارک کی سڑکوں پر اکیلا پھرتا رہا تھا کس کی تلاش میں…؟ پتہ نہیں کس کی تلاش میں؟ وہ ہر اس جگہ گیا جہاں وہ عارفہ کے ساتھ آنا چاہتا تھا۔ اور لاشعوری طور پرجیسے اس گھنٹے کا انتظار کرتا رہا جب پاکستان میں عارفہ کا نکاح ہو رہا تھا۔ اور اس گھنٹے میں داخل ہوتے ہی اسے احساس ہوا کہ کویت میں ہر ہفتے موت کاانتظار کرنا آسان تھا وہ گھنٹہ گزارنا مشکل تھا۔ اس رات زندگی میں پہلی اور آخری بار وہ ایک بار میں بیٹھا شراب پیتا رہا اور پھر بار میں بیٹھی طوائف میں سے ایک کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ پر چلا گیا۔
ڈیڑھ سو ڈالر شراب اور عورت پر ضائع کرنے کے بعد بھی عارفہ کو اس کے ذہن سے نہیں نکلنا تھا۔ وہ اس کے ذہن سے نہیں نکلی۔
٭٭٭

”یہ کون تھا؟”
”میرا شوہر۔۔۔۔” شینا نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
شیراز کے قدم بے اختیار ٹھٹھکے۔ شینا اپنی کسی دوست کے سوال کے جواب دے رہی تھی، شیراز ابھی کچھ دیر پہلے آفس سے لوٹا اور خلاف معمول اس نے شینا کو اپنی کسی دوست کے ساتھ گھر کے لاؤنج میں پایا۔
شینا نے شیراز اور اپنی دوست کو متعارف کروانے کا تکلف نہیں کیا وہ اپنی دوست سے باتوں میں مصروف رہی اور شیراز قدرے نادم انداز میں وہاں سے نکل آیا۔ مگر کوریڈور میں اپنے عقب میں اس نے ان دونوں کی آوازیں سن لی تھیں۔ اور وہ کچھ تجسس آمیز انداز میں ٹھٹھک کر ان دونوں کی باتیں سننے لگا۔
”شوہر…؟” اس کی دوست نے حیرانی سے کہا۔
”ہاں… پچھلی برتھ ڈے پر پاپا نے مجھے ایک کتا تحفے میں دیا تھا۔ اس بار ایک شوہر۔۔۔۔”
شینا نے بے حد روانی سے کہا۔ اسکی دوست نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
شیراز کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ اس کا دل چاہا وہ واپس پلٹ کر لاؤنج میں جائے اور شینا کو دو ہاتھ لگا کر آئے۔ مگر یہ خیال تو اسے ہر ہفتے تین چار بار آتا تھا۔ اور جس طرح آتا تھا اسی طرح چلا جاتا تھا۔ اس وقت بھی وہ ہونٹ بھینچے چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
شینا نام کا پھندا سعید نواز نے اس کے گلے میں کیوں باندھا تھا؟ کم از کم شیراز اب سمجھنے کے قابل ہو گیا تھا۔ دیر سے ہی سہی مگر اس کی آنکھوں سے یہ پٹی اتر گئی تھی کہ شینا یا سعید نواز اس کی قابلیت یا شخصیت سے متاثر ہو گئے تھے۔
شینا نے سہیل سے سعید نواز کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ سہیل بھی شینا کی طرح ایک بڑے سرکاری افسر کا بیٹا تھا۔ اور بد قسمتی سے ایک ایسے سرکاری افسر کا بیٹا جو سعید نواز کا سینئر تھا اور جس سے سعید نواز کی کئی بار چپقلش ہو چکی تھی۔
سہیل کو ناپسند کرنے کی یہ بنیادی وجہ ضرور تھی مگر اکلوتی وجہ نہیں تھی اس وجہ کے علاوہ بھی اور بہت سی باتیں تھیں جن کی وجہ سے سعید نواز سہیل کو ناپسند کرتا تھا مگر شینا کی ضد پر اس نے گھٹنے ٹیک دیے تھے اور شینا کی شادی سہیل سے کر دی تھی۔
شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی مگر شادی کے چوتھے دن ہی شینا اور سہیل کا جھگڑا ہوا اور شینا سعید نواز کے گھر آگئی۔ پھر یہ جیسے ایک مستقل روٹین بن گئی تھی۔ وہ ایک ہفتہ سہیل کے ساتھ رہتی اس کے گن گاتی اور اگلے ہفتے باپ کے گھر رہ کر اس کی برائیاں کرتی۔
سہیل بھی شینا جیسا ہی مزاج رکھتا تھا۔ اور اس کے گھر والے شینا کو شدید ناپسند کرتے تھے۔ انہوں نے بھی سعید نواز کی طرح سہیل کی ضد پر اس کی شادی شینا سے کر تو دی تھی مگر اس سے پہلے شینا کے سارے زمانے کے افیئرز کے بارے میں بیٹے کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا تھا۔ سہیل پر اس وقت تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ مکمل طور پر شینا کی محبت میں گرفتار تھا اور شینا کی طرح اس کی زیادہ تر تعلیم بھی مغربی طرز زندگی سکھانے والے تعلیمی اداروں میں ہوئی تھی۔ اس کے نزدیک اس وقت شینا کے پچھلے افیئرز یا بوائے فرینڈز کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔
مگر یہ اسے شادی کے فوراً بعد احساس ہوا کہ وہ کچھ نہ کچھ معنی ضرور رکھتے تھے۔ کم از کم اتنا ضرور کہ وہ انہیں شینا سے سو گز کے فاصلے پر دیکھنا چاہتا تھا شینا مشرق میں رہتے ہوئے فطرتاً مغرب کی عورت کی طرح آزاد خیال تھی اور وہ مردوں کے ساتھ تعلقات میں بھی اتنی ہی آزادی کا مطالبہ کرتی تھی جتنی مرد عورتوں کے ساتھ۔
شادی سے پہلے وہ سہیل پر جان دیتی تھی اور سہیل جانتا تھا۔ وہ واقعی اس سے محبت کرتی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اس مزاج اور عادتوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھی جو سہیل یا اس کے گھر والوں کو ناپسند تھے ۔ شادی کے پہلے سال ہی بے شمار مسائل کا شکار ہونے کے بعد دونوں نے جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے کے بجائے گھر والوں سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا اور دونوں سعید نواز کے دیے ہوئے اس گھر میں منتقل ہو گئے جس میں شیراز اب شینا کے ساتھ رہ رہا تھا۔
کچھ عرصے تک سب کچھ ٹھیک رہا اور دونوں کو لگا کہ اب ان کی شادی ٹھیک ہو رہی ہے۔ اس عرصے میں ان کے ہاں ایک بچہ بھی پیدا ہو گیا۔ اور اس بچے کی پیدائش کے بعد ان دونوں کی ازدواجی زندگی کا سب سے برا دور شروع ہوا تھا۔ دونوں کے درمیان پہلے جو جھگڑے تو تو میں میں، پر ختم ہوتے تھے اب وہ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے تک پہنچ گئے تھے، نہ سہیل شینا کی زبان درازی پر ہاتھ اٹھانے سے چوکتا اور نہ ہی شینا ہاتھ اٹھانے میں پہل کرنے پر… اور پھر ایسے ہی ایک جھگڑے کا نتیجہ شینا کی طرف سے طلاق کے مطالبے پر اور سہیل کی طرف سے یہ مطالبہ فوری طور پر پورا کرنے کی صورت میں نکلا تھا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!