من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

”منگنی توڑ دی؟ مجھ سے پوچھے بغیر؟” اسے یقین نہیں آیا تھا۔
”تم سے بات کرنی تھی میں نے۔ ابھی چیزیں واپس نہیں ہوئیں مگر۔۔۔۔”
اس نے ماں کی بات کاٹ دی۔ ”مگر یہاں تک نوبت کیسے آئی؟ پاکستان آنے سے پہلے میری بات ہوئی ہے پچھلے ہفتے عافی سے۔ اس نے کہا تھا۔۔۔۔”
”ہماری کون سی خواہش تھی کہ منگنی ٹوٹتی مگر بہت زیادہ تنگ کر رہے ہیں تین سال سے یہ لوگ۔ ہر وقت انہیں عافی کی پڑی رہتی ہے کہ تمہیں بلائیں اور عافی کی شادی کریں۔ تمہیں بلائیں اور عافی کی شادی کریں۔ ناک میں دم کر دیا یہ کہہ کہہ کر کہ ہماری لڑکی کی عمر نکلی جا رہی ہے۔ کل بھی ایسا ہی ہوا ہمیں بلا کر کہنے لگے کہ اب تم آرہے ہو تو عافی کو بیاہ کر لے جائیں۔ میں نے کہا کہاں تم سے بیاہ کر لے جائیں… ابھی تو بمشکل دو بیٹیوں کی شادی کی ہے۔ گھر بنوایا ہے، ابھی تو آصف نے اپنا کاروبار سیٹ کرنا ہے۔ کچھ بچت کرنی ہے، ایسے کیسے ہم اپنے بڑے بیٹے کی خالی ہاتھ شادی کر دیں۔ مگر مجال ہے وہ لوگ بات سنتے ہوں، طوفان اٹھا دیا انہوں نے کہ بڑے رشتے ہیں عافی کے لیے ہم اسے بیاہ کر لے جائیں ورنہ وہ اس کی کہیں اور شادی کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا کر دیں ہم کوئی ڈرتے نہیں ہیں کسی کی دھمکیوں سے۔” اس کی ماں نے کھڑے کھڑے اسے تفصیل سنا دی۔
”میںعارفہ سے خود جا کر ملوں گا۔ میں خود بات کرتا ہوں اس سے۔” اس نے ماں کی بات کاٹ دی۔
”کیوں؟ کس لیے ملنا ہے؟ جب منگنی توڑ دی تو توڑ دی۔ تم کیا جا کر اس کی منتیں کرو گے؟ وہ توپہلے ہی انتظار میں بیٹھے ہیں کہ تم آؤ اور وہ ہمارے خلاف تمہارے کان بھریں۔” اس کی ماں نے خفگی سے کہا۔
”کوئی میرے کان نہیں بھرے گا، کوئی کچھ نہیں کہے گا مجھ سے۔ مجھے جا کر بات کرنی ہے۔”
کرم علی نے حتمی انداز میں کہا اور پھر ماں کی ناراضی کی پروا کیے بغیر عارفہ کے گھر چلا گیا۔ اس کے لیے یہ ناممکن تھا کہ وہ یہ سب کچھ ہونے پر اس طرح آرام سے بیٹھا رہتا۔
عارفہ کے گھر اس کا استقبال بے حد سرد مہری سے ہوا تھا۔ شاید وہ لوگ واقعی اس کی آمد کی توقع کر رہے تھے اور پہلے سے اس کے استقبال کے لیے تیار تھے۔ کرم علی کی ماں کا دعویٰ ٹھیک تھا۔ ان کے پاس الزامات کا ایک ڈھیر تھا۔ کرم علی کے گھر والوں کے خلاف اور خود کرم علی کے خلاف۔ کرم علی وہاں آکر حیران نہیں ہوا تھا ہکّا بکّا رہ گیا تھا۔ گزرتے ہوئے سالوں نے دونوں خاندانوں کے درمیان اتنی دراڑیں ڈال دی تھیں اسے اندازہ ہی نہیں ہوا تھا۔ لاکھوں میل کے فاصلے پر بیٹھ کر اسے اندازہ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ ان کا ہر الزام، ہر شکایت غلط تھی۔





بہت سی باتیں ایسی تھیں جن پر کرم علی انہیں حق بجانب سمجھتا تھا۔ مگر بہت سی باتیں ایسی بھی تھیں جنہیں صرف کرم علی نہیں ہر کوئی بے تکا سمجھتا اور اس کے اپنے گھر والوں کے خلاف ان کے بہت سارے الزامات ایسے تھے جن پر کرم علی کبھی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ آخر وہ عارفہ اور اس کے گھر والوں کے خلاف ایسی حرکتیں یا ایسی باتیں کیوں کہتے جب وہ یہ جانتے تھے کہ عارفہ، کرم علی کی ہونے والی بیوی تھی اور وہ اس کا ہونے والا سسرال تھا۔
مگر اس نے بے حد خاموشی، بڑے تحمل کے ساتھ ان کی سب کی باتیں سنی تھیں۔ اس نے انہیں کوئی وضاحت دینے کی کوشش نہیں کی تھی۔ جب اس کے تایا اور تائی بالآخر خاموش ہوئے تو کرم علی نے ان سے معذرت کی۔ اسے یقین تھا کہ اس کی معذرت ان کے غصے کوٹھنڈا کر دے گی۔
”معافی تمہیں نہیں تمہارے ماں باپ کو مانگنی چاہیے۔” اس کی تائی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ”اور صرف معافی نہیں وہ تمہارے یہاں ہونے کے دوران تمہاری شادی کریں۔ ہم اب اپنی بیٹی کو مزید گھر نہیں بٹھا سکتے تم یا تو مستقل طور پر پاکستان آجاؤ یا پھر اس دفعہ شادی کر کے واپس جاؤ۔”
کرم علی کو ان کا پہلا مطالبہ قدرے نامناسب لگا تھا دوسرا نہیں… وہ ماں باپ سے معذرت نہیں کروانا چاہتا تھا مگر جہاں تک شادی کا تعلق تھا۔ وہ اتنا مشکل کام نہیں تھا۔ یہ عارفہ کے گھر بیٹھے اس کا خیال تھا جو واپس اپنے گھر پہنچ کر بالکل غلط ثابت ہوا تھا۔
”میں عارفہ سے مل سکتا ہوں؟” تین گھنٹے کے بعد ماحول کی کشیدگی کچھ کم ہونے پر اس نے بالآخر جھجکتے جھجکتے… پہلی بار عارفہ کا نام لیا۔
”یہ تب تک ممکن نہیں جب تک تمہارے گھر والے آکر معذرت کرکے شادی کی تاریخ طے نہیں کرتے۔” اس کے تایا نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔ کرم علی نے دوبارہ عارفہ کا نام نہیں لیا۔ اسے پانی پلایا گیا تھا پھر چائے سے اس کی تواضع کی گئی اور پھر کھانا بھی کھلایا گیا۔ مگر اس تمام وقت کے دوران اس نے ایک بار بھی عارفہ کو کہیں نہیں دیکھا۔ اسے مایوسی ہوئی تھی۔ وہ ایک نظر اسے دیکھنا چاہتا تھا۔
وہ رات گئے جب وہاں سے واپس آیا تو اس کے اپنے گھر کا ماحول بے حد کشیدہ ہو چکا تھا۔ اس کے لیے دن کے وقت جو گرمجوشی دکھائی جا رہی تھی، وہ اب غائب ہو چکی تھی۔ اس کی دونوں شادی شدہ بہنیں گھر پر آچکی تھیں۔ بظاہر وہ اس سے ملنے آئی تھی مگر اس سے علیک سلیک کے ساتھ ہی ان دونوں نے عارفہ اور عارفہ کے گھر والوں کے خلاف شکایات کا ایک انبار اس کے سامنے رکھ دیا۔ ان کے ساتھ، اس کے بھائی اور ماں باپ بھی عارفہ کے گھر والوں کے خلاف بول رہے تھے۔ وہ اگر کچھ گھنٹے پہلے عارفہ کے گھر والوں کے انداز پر ششدر تھا تو اب اپنے گھر والوں کا انداز دیکھ کر بھی گنگ رہ گیا تھا۔
دونوں خاندانوں کے ہر فرد کو ایک دوسرے خاندان کے کسی نہ کسی فرد کے رویے پر اعتراض یا شکایت تھی اور اس اعتراض اور شکایت کی بنیاد پر ہر ایک وہ رشتہ ختم کرنا چاہتا تھا، جس سے دو دوسرے لوگوں کی زندگیاں اور مستقبل جڑے ہوئے تھے اور جس رشتے سے کسی دوسرے کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
”لیکن میں عارفہ کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گا۔”
جب اس کی طویل خاموشی سے ہر ایک کو یہ یقین ہونے لگا کہ کرم علی کو ان کی باتوں پر اعتبار آگیا ہے تب کرم علی نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بے حد دو ٹوک انداز میں کہا۔ کمرے میں بیٹھا ہر شخص ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگا۔
”اتنے سالوں سے وہ میرے نام پر بیٹھی ہوئی ہے۔ اب یہ کیسے ہو سکتاہے کہ ان بے معنی اور فضول اعتراضات کی وجہ سے میں اس رشتہ کو توڑ دوں جس کی وجہ سے اس نے زندگی کے اتنے سال ضائع کیے ہیں۔”
وہاں بیٹھے کسی شخص کو اگر کوئی خوش فہمی تھی بھی تو اب ختم ہو گئی تھی۔ کرم علی کی ماں کو یقین تھا۔ عارفہ کے گھر والوں نے کرم علی پر کوئی جادو کیا تھا ورنہ ان کا اتنا فرماں بردار اور سعادت مند بیٹا ایک معمولی سی لڑکی کے لیے یوں ان سب کے اعتراضات کو بلا جواز قرار نہ دیتا۔
عارفہ اور اس کے گھر والوں سے سب کی نفرت میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔ کرم علی اگر شادی سے پہلے اپنی منگیتر اور اس کے گھر والوں کے اتنے زیر اثر تھا تو شادی کے بعد وہ انہیں کتنی اہمیت دیتا۔ اور پھر جب اس کی بیوی اس کے پاس چلی جاتی تب کیا ہوتا۔
اس کے گھر کے ہر فرد کی زندگی کرم علی کے کمائے جانے والے روپے کی بنیاد پر کھڑی تھی یا کھڑی کی جا رہی تھی۔ اور کرم علی کے ہٹ جانے کا کیا مطلب ہوتا یہ ہر ایک بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ ماں کبھی بیٹے کی زندگی میں بیٹے کی ”پسندیدہ عورت” کا دخل نہیں چاہتی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ملکہ کو کسی کنیز کے لیے تخت خالی کرنا پڑے۔
کرم علی، زینت اور اس کی بیٹیوں کی پسند کی کسی لڑکی سے شادی کرتا تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا مگر کرم علی اپنی پسند کی لڑکی کو زندگی میں بہت سی ایسی رعایتیں اور اہمیت دیتا جو وہ اس لڑکی کو کبھی نہ دیتا جو اس کی ماں اور بہنوں کی مرضی سے اس کی زندگی میں شامل ہوتی۔
”آپ لوگ عارفہ کے گھر جائیں اور شادی کی تاریخ طے کر دیں۔ میں واپس امریکہ جانے سے پہلے شادی کرنا چاہتا ہوں۔”
کرم علی نے دانستہ معذرت کرنے کا ذکر نہیں کیا۔ اسے اس طرح اپنے سب بہن بھائیوں کے درمیان بیٹھ کر ماں باپ کو معذرت کا کہنا مناسب نہیں لگا۔ لیکن علی کے گھر والوں پر اس کا یہ نیا مطالبہ ایک بم کی طرح پھٹا تھا۔
”کیا مطلب ہے شادی کی تاریخ طے کر دیں۔ تم تو صرف چند ہفتوں کے لیے آئے ہو۔” اس کی ماں نے بے حد سرا سیمہ انداز میں اس سے کہا۔
”چند ہفتے، چند گھنٹے نہیں ہیں امی! جن میں شادی نہیں ہو سکے۔ بہت دن ہیں۔” کرم علی نے بے حد سنجیدہ انداز میں کہا۔
”مگر شادی کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ اور پھر تیاری میں بھی وقت لگتاہے۔” اس بار اس کے باپ نے کہا تھا۔
”کوئی بڑی دھوم دھام سے شادی نہیں کرنی۔ جس طرح کی شادی مجھے کرنی ہے اس کے لیے میرے پاس پیسے ہیں۔” کرم علی نے کہا۔
”مگر ابھی تو تمہاری چھوٹی بہن کی شادی پر جو قرض لیا ہے اسے واپس کرنا ہے، آصف کو بزنس میں گھاٹا ہوا ہے۔ اس نے ابھی پچھلے ماہ کسی سے پانچ لاکھ روپیہ لیا ہے۔ تمہارے پاس اگر پیسہ ہے تو بہتر ہے پہلے یہ قرض اتار دیں پھر اس کے بعد اگلی بار تم پاکستان آؤ تو تمہاری شادی کر دیں اور تم فکر مت کرو۔ میں بھائی جان سے بات کر لوں گا۔ میں انہیں منالوں گا۔” اس کے باپ نے فوراً کہا تھا۔
”میں تو کسی صورت عارفہ کے گھر نہیں جاؤں گی۔ نہ ہی اسے بہو کے طور پر قبول کروں گی۔ تمہیں اور تمہارے بیٹے کو اگر وہاں رشتہ کرنا ہے تو پھر میرے بغیر ہی جا کر کرنا ہو گا۔”
زینت نے بے حد ناراضی کے عالم میں جہاں داد اور کرم علی کو باری باری دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اٹھ کر وہاں سے چلی گئی اور صرف وہی نہیں اٹھی تھی۔ باری باری کرم علی کے سارے بہن بھائی بھی وہاں سے چلے گئے تھے۔ صرف کرم علی اور اس کا باپ وہاں بیٹھے رہ گئے تھے۔
کرم علی کو ماں اور بہن بھائیوں کے اس رویے سے دھچکا لگا تھا۔ اس کا خیال تھا اس کی پسند، اس کی خواہش ان سب کے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی مگر ان کے رویے نے اسے بتا دیا تھا کہ ایسا نہیں تھا۔
”کتنی رقم ہو گی تمہارے پاس؟”جہاں داد نے بے حد اشتیاق سے اس سے پوچھا۔
کرم علی نے بے حد رنج سے باپ کو دیکھا۔ اس کے وجود اور زندگی میں اس کے خونی رشتوں کی واحد دلچسپی یہ تھی کہ اس کی جیب میں کتنے پیسے تھے جو وہ ان پر خرچ کرسکتا تھا۔
”آپ نے شادی کے لیے قرض کیوں لیا؟” میں نے رقم بھجوائی تھی پھر قرض کی ضرورت کیوں پڑی آپ کو؟” اس نے جہاں داد کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا۔
”بیٹا، شادی بیاہ پر قرضہ لینا پڑتا ہے، اتنے خرچے نکل آتے ہیں۔ تم یہاں ہوتے تو تمہیں پتا چلتا کہ کتنے اخراجات ہوتے ہیں شادی کے۔ جتنی بھی رقم ہو کم پڑ جاتی ہے۔”
”لیکن میں تو بہت عرصے سے شادی کے لیے رقم بھجوا رہا تھا۔ وہ سارا روپیہ۔۔۔۔”
اس کے باپ نے اس بار بے حد ناراضی کے عالم میں اس کی بات کاٹی۔
”ٹھیک ہے پورے سال سے روپیہ بھیجتے رہے ہو شادی کے لیے۔ بیچ میں درجنوں دوسرے کام نپٹائے، اب کیا ہر بار تمہیں فون کر کے تم سے پوچھتے، اب پیسہ دے دیا ہے تم نے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم حساب مانگنا شروع ہو جاؤ۔ اللہ کسی کو کبھی اولاد پر بوجھ نہ بنائے۔ کسی کو اولاد کو حساب نہ دینا پڑے۔”
کرم علی بھونچکا، باپ کا چہرہ دیکھتا رہا۔وہ حساب نہیں مانگ رہا تھا۔ وہ صرف پوچھ رہا تھا اور اس کا خیال تھا وہ کم از کم اتنا پوچھنے میں حق بجانب تھا کہ پورا سال شادی کے لیے الگ سے روپیہ بھجوانے کے باوجود انہیں شادی کے لیے قرض لینے کی ضرورت کیوں پڑی تھی۔ اور آصف کے کاروبار کا گھاٹا آصف کی ذمہ داری ہونا چاہیے تھا اس کی نہیں… اگر آصف کے کاروبار کی آمدنی میں اس کا یا گھر کا کوئی حصہ نہیں تھا تو اس کے گھاٹے کا بوجھ بھی کسی دوسرے پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!