شہرِذات — عمیرہ احمد

”مگر مجھے تمہاری محبت کی ضرورت نہیں ہے، مجھے اس کی محبت کی ضرورت ہے۔”
”میں نے کون سی غلطی کی ہے سلمان؟”
”مجھے نہیں پتا بس مجھے اس سے محبت ہے۔”
”میں نے تمہارے لیے کیا نہیں کیا، پچھلے تین سال میں کیا نہیں کیا؟”
”مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے، مجھے بس وہ چاہئے۔”
”میں نے پچھلے تین سال میں زندگی کو ویسے گزارا ہے۔ جیسے تم نے چاہا ہے پھر بھی تم مجھ سے خوش نہیں ہو۔ بیزار ہو گئے ہو۔”
”تو میں کیا کروں، میں نے تم سے نہیں کہا تھا تم نے یہ سب اپنی مرضی سے کیا۔ مگر مجھے صرف تابندہ کی ضرورت ہے۔”
”تم مجھے بتاؤ۔ میں کیا کروں کہ تم خوش ہو جاؤ۔ مجھ سے محبت کرنے لگو مجھے ٹھکراؤ نہ؟”
”مجھے تمہاری ضرورت ہی نہیں۔ مجھے تمہاری کوئی بات کوئی چیز خوش نہیں کر سکتی کیونکہ تم تابندہ نہیں ہو۔”
”میں نے تم سے محبت کی ہے، جو محبت کرتے ہیں، کیا انہیں اس طرح ٹھوکر ماری جاتی ہے۔ کیا تم مجھے اس طرح چھوڑ دو گے؟”
”جو بھی چیز میرے اور تابندہ کے درمیان آئے گی، میں اسے چھوڑ دوں گا۔ مجھے پرواہ نہیں ہے کہ کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے یا نہیں۔ میرے لیے بس وہ کافی ہے۔”
”میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔”
”مگر مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ مجھے تابندہ کی ضرورت ہے۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔”
”میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ تمہیں بانٹنا نہیں چاہتی کسی کے ساتھ، تمہاری محبت میں کمی برداشت نہیں کرسکتی۔”
”تم چاہو گی تو میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا لیکن تمہیں مجھ سے دستبردار ہونا ہی پڑے گا۔ تابندہ کو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔”
”میں تمہارے بغیر مر جاؤں گی۔ خود کشی کر لوں گی۔”
”یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہوگا۔ تم جو چاہو کرسکتی ہو۔”
”تم نہیں جانتے تم میرے لیے کیا ہو؟”
”مجھے جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔”
”تابندہ میں ایسا کیا ہے جو مجھ میں نہیں ہے۔”
”یہ میں نہیں جانتا بس میں اس سے محبت کرتا ہوں۔”
”پھر تم نے مجھ سے شادی کیوں کی تھی؟”
”پتا نہیں، مجھے نہیں کرنی چاہئے تھی، اگر مجھے علم ہوتا کہ میری زندگی میں تابندہ آئے گی تو میں کبھی تم سے شادی نہ کرنا۔”
”میرا وجود تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔”
”نہیں، یہ میرے لیے۔ کچھ نہیں ہے سب کچھ تابندہ ہے۔”
ہر مہرہ باری باری پٹتا گیا تھا۔ اس کا سانس گھٹنے لگتا تھا۔ وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آگئی۔ لاؤنج میں خاموشی بھی تھی اور تاریکی بھی یہی دونوں چیزیں اس کے اندر تھیں۔ وہ لائٹ آن کرکے صوفہ پر بیٹھ گئی۔





”دنیا میں تم سے زیادہ مکمل کوئی دوسری لڑکی نہیں ہے۔” بہت عرصہ پہلے سلمان کی کہی ہوئی ایک بات اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھی۔
”اور اب مجھ سے زیادہ بہتر، زیادہ مکمل تمہیں کوئی دوسری مل گئی ہے۔”
اس نے اپنی آستین سے چہرہ رگڑا تھا۔ پھر اس کے دل میں پتا نہیں کیا آئی۔ وہ اٹھ کر واش روم میں آگئی۔ دیوار پر لگے ہوئے لمبے چوڑے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے اپنے آپ کو دیکھا تھا۔ پھر اس نے اپنے بالوں میں لگا ہوا کلپ اتار دیا۔ اس کے سیاہ سلکی اسٹیپس میں کٹے ہوئے بال کاندھوں پر بکھر گئے تھے۔ اس نے واش بیسن کے نل میں سے پانی لے کر چہرے پر چھینٹے مارے تھے، پھر تولیہ اسٹینڈ سے تولیہ لے کر چہرے کو خشک کیا۔
”کیا میں خوبصورت نہیں رہی؟” اس نے جیسے آئینے سے سوال کیا تھا۔ ”کیا میں بدصورت ہو گئی ہوں؟ کیا میری آنکھیں اب دلوں کو تسخیر کرنے کے قابل نہیں رہیں؟ کیا میری مسکراہٹ اپنی کشش کھو چکی ہے؟ کیا میرے ہونٹ اور ناک حسن نہیں صرف گوشت کے لوتھڑے ہیں؟ کیا میری دودھیار رنگت میں کوئی فرق آگیا ہے؟” وہ ایک ایک چیز کو ہاتھ لگا کر سوچتی رہی۔
”کچھ بھی نہیں بدلا، کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ نہ آنکھیں نہ ہونٹ نہ رنگت نہ ناک نہ چہرہ نہ بال نہ جسم، کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ پھر اس کا دل کیسے بدل گیا ہے، نظر کیسے بدل گئی ہے۔”
اس نے آئینے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ آئینہ حسن دکھا رہا تھا سلک کی سلیولیس سفید نائٹی میں ملبوس سنگ مرمر سے تراشیدہ ایک وجود جو سر سے پاؤں تک حسن میں ڈھلا ہوا تھا۔
”کہیں کوئی عیب، کوئی نقص” اس نے تلاش کرنا شروع کیا تھا۔ ”ہر چیز مکمل ہے پھر بھی اس نے مایوسی سے آئینے کو دیکھا تھا۔” اگر عشق حسن سے ہوتا ہے تو میں حسن ہوں پھر وہ… وہ تابندہ۔”
ایک آگ اس کے وجود کو اپنے حصار میں لینے لگی تھی۔
”ہاں کوئی تو بات ہو گی اس میں، کوئی تو چیز ہو گی اس میں جو سلمان کو مجھ میں ملی جو اسے مجھ سے دور لے گئی۔ جس نے اس کا دل مجھ سے پھیر دیا۔ مجھے بھی تو دیکھنا چاہئے۔ کیا ہے اس عورت میں جس نے سلمان انصر کو یوں مسمرائز کر دیا ہے کہ اسے دنیا نظر نہیں آتی۔ فلک شیرافگن نظر نہیں آتی۔ مجھے بھی تو دیکھنا چاہئے۔ کیا ہے ان قدموں میں جن کے نیچے وہ اپنے وجود کو مٹی بنا کر بکھیر دینا چاہتا ہے۔ صرف اس چاہ میں کہ وہ قدم اس مٹی کو چھوئیں۔ کیا وہ میرے پیروں سے زیادہ خوبصورت ہو سکتے ہیں۔”
اس نے اپنی نائٹی کو اٹھا کر جھک کر اپنے پیر دیکھے تھے۔ وہ اتنے ہی دودھیا، اتنے ہی نرم و نازک، اتنے ہی مکمل تھے جتنا اس کے وجود کا کوئی دوسرا حصہ۔
”مجھے بھی تو دیکھنا چاہئے، وہ کیسا وجود ہے جس کے نام وہ اپنی ساری زندگی کر دینا چاہتا ہے۔ وہ کیسے ہاتھ ہیں جو اسے خنجر سے کاٹ دیں تو اسے شکایت نہیں ہو گی۔ وہ کون سے ہونٹ ہیں جو بات کریں تو اسے دنیا میں کچھ اور سنائی نہیں دیتا، وہ کون سا وجود ہے جو رکے تو وہ ہوا کو روک دینا چاہتا ہے۔” وہ ایک پھر پگھل رہی تھی۔
”اور اگر وہ… وہ عورت مجھ سے زیادہ خوبصورت ہوئی تو… تو پھر میں کیا کروں گی۔ کیا اسے سلمان پر قابض ہونے دوں۔ کیا اس کا رستہ خالی چھوڑ دوں۔ میں کیا کروں گی۔ کیا کروں گی؟ ہاں میں اس حسن کو ختم کردوں گی، جس نے سلمان کو پاگل بنا دیا ہے۔ میں اسے اس قابل نہیں چھوڑوں گی کہ وہ اسے دوبارہ دیکھے۔ دوبارہ اس کی طرف جائے۔ میں اس کا وہ چہرہ ہی بگاڑ دوں گی جس نے سلمان کو اپنا اسیر کیا ہے۔ وہ آنکھیں مٹادوں گی جس نے۔”
وہ آئینے کے سامنے کھڑی کسی پاگل کی طرح خود سے باتیں کر رہی تھی۔
بہت دیر بعد وہ تھکے تھکے قدموں سے واش روم سے باہر نکل آئی۔ لاؤنج کے صوفہ پر لیٹ کر اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ آنسو ایک بار پھر چہرے پر پھیلنے لگے۔
”تم جانتے ہی نہیں، تمہیں یا تمہاری محبت کو کھونے سے بڑھ کر کوئی نشتر نہیں ہے، جو کوئی مجھے لگا سکتا ہے۔ کیا نہیں ہے میرے پاس؟ سب کچھ ہی تو ہے۔ اب اگر نہیں ہے تو صرف تم نہیں ہو۔ میں تو تمہیں اپنے سائے کے ساتھ شیئر نہیں کرسکتی۔ کسی دوسری عورت کے ساتھ کیسے کرلوں۔ کیسے برداشت کرلوں کہ میرے علاوہ تم کسی اور سے بات کرو۔ کسی عورت کا ہاتھ تھامو۔ کسی اور کے آنسو پونچھو۔ کسی اور کو اپنا نام دو۔ تابندہ سلمان! نہیں میں، تو تمہارے لباس کی ایک دھجی تک کسی کو نہیں دے سکتی۔ تمہارے پورے وجود کو کس طرح دے دوں اور وہ بھی اپنے ہاتھ، اپنی مرضی سے یہ نہیں کر سکتی۔ سلمان انصر! بس میں یہ نہیں کرسکتی۔ تمہارے بدلے چاہے کوئی مجھ سے سب کچھ لے لے مگر مجھے تمہارا وجود چاہئے۔ تمہیں میں کسی کو نہیں دے سکتی۔ اس عورت کو کیا محبت ہو گی تم سے اس کو تو پیسہ چاہئے ہوگا۔ میں اسے پیسہ ہی دوں گی۔ تمہیں خرید لوں گی اس سے اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر میں اس کے چہرے کو تیزاب سے جلادوں گی۔ اسے اس قابل ہی نہیں چھوڑوں گی کہ تم دوبارہ کبھی اس پر نظر ڈالو۔” وہ روتے روتے پتا نہیں کس وقت سو گئی تھی۔
صبح جس وقت اس کی آنکھ کھلی، گھر میں نوکر آچکے تھے۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آئی، کمرہ خالی تھا۔ وہ وہاں نہیں تھا، اس نے گھڑی دیکھی۔ ساڑھے دس بج رہے تھے۔ وہ تھکے ہوئے انداز میں آکر بیڈ پر لیٹ گئی۔ بہت دیر تک وہ اسی طرح آنکھیں کھولے چھت کو گھورتی ہوئی وہاں پڑی رہی پھر وہ اٹھ کر واش روم میں گھس گئی تھی۔ شاور لینے کے بعد خاص طور پر منتخب کئے ہوئے کپڑے پہن کر وہ باہر نکلی تھی۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر اس نے اپنے بالوں میں رولرز لگانے شروع کئے وہ آج بہت خاص بن کر وہاں جانا چاہتی تھی۔ بہت ہی خاص بن کر وہ اس عورت کو دکھانا چاہتی تھی کہ سلمان انصر کی بیوی کیا ہے، فلک کیا ہے۔
آدھ گھنٹے بعد میک اپ مکمل کرنے کے بعد اس نے رولرز اتار کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیا تھا۔ بہت دیر تک وہ اپنے عکس سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ زمردی رنگ کی سلک کی ساڑھی اور ڈارک گرین کلر کے کھلے گلے کے نیٹ کے بلاؤز میں وہ ایک مکمل عورت لگ رہی تھی۔ کسی خامی، کسی کمی کے بغیر۔ اس نے بت سنجیدگی سے ایک بار پھر خود پر نظریں دوڑائی تھیں پھر اس نے Chanel-5 نکال کر گردن کے دونوں اطراف میں اس کا اسپرے کیا۔ پرس اور گلاسز اٹھا کر وہ بیڈ روم سے نکل آئی تھی۔
”راستے میں سے تیزاب کی ایک بوتل خرید لینا۔”
فیکٹری چلنے کا حکم دینے کے بعد اس نے ڈرائیور سے کہا تھا۔ ڈرائیور نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔ مگر جواباً کچھ نہیں کہا۔ ایک دکان سے تیزاب کی بوتل خریدنے کے بعد اس نے فلک کو تھما دی۔ اس نے کچھ دیر تک اسے ہاتھ میں تھامے رکھا تھا۔ پھر اس کا ڈھکنا کھول کر کارک نکال دیا۔ بوتل کا ڈھکن بند کرکے اس نے اسے اپنے بیگ میں رکھ لیا تھا۔ فیکٹری پہنچنے کے بعد وہ سلمان کے آفس کی طرف نہیں گئی تھی بلکہ ایڈمن آفیسر کے کمرے میں چلی گئی تھی۔
الیاس صاحب اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر گڑبڑا گئے تھے۔
”میڈم! آپ یہاں؟”
”ہاں، مجھے آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔ آپ بیٹھ جائیں۔”
وہ خود کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی تھی۔ الیاس صاحب کچھ نروس ہو کر بیٹھ گئے۔
”پیکنگ ڈپارٹمنٹ میں تابندہ نام کی کوئی لڑکی ہے؟”
چند لمحے دفتر کا جائزہ لینے کے بعد اس نے بہت سرد لہجے میں ان سے پوچھا تھا۔ وہ اس کے سوال پر کچھ اور نروس ہو گئے تھے۔
”میڈم! وہاں تو بہت سی لڑکیاں ہوں گی، جن کے نام تابندہ ہیں آپ کس لڑکی کا پوچھ رہی ہیں؟” اس نے اپنی نظریں ان کے چہرے پر گاڑ دیں۔ وہ اور پریشان ہوئے تھے۔
”میں سلمان انصر والی تابندہ کا پوچھ رہی ہوں۔”




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!