شہرِذات — عمیرہ احمد

”میرا خیال ہے، انہیں ابھی فی الحال میری مزید ضرورت نہیں ہے۔ آپ تھوڑی دیر بعد ان کی مرضی پوچھ کر انہیں ہلکا پھلکا کھانا کھلا دیں۔ یہ اب بالکل ٹھیک ہیں۔ میں اب کل صبح انہیں دیکھنے آؤں گا۔”
اس آدمی نے کہا اور پھر وہ ایک بیگ پکڑ کر پاپا کے ساتھ باہر نکل گیا تھا۔ ممی اٹھ کر اس کے پاس بیڈ پر آگئیں۔ انہوں نے اسے گلے سے لگا کر اس کا ماتھا چوما تھا۔
”اللہ کا شکر ہے، تمہیں ہوش آگیا ہے۔”
”اب اس ہوش کا کیا فائدہ؟” اس نے عجیب سے لہجے میں کہا تھا۔ ممی اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔
”مجھے کیا ہوا تھا؟” اس نے ان سے پوچھا تھا۔
”تمہارا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا۔ ایک ہفتے تمہیں ہاسپٹل میں رکھا تھا پھر گھر لے آئے۔ تمہیں جب بھی ہوش آتا تھا۔ تم چلانے لگتی تھیں۔ تمہیں مسلسل ٹرینکو لائزرز پر رکھا ہوا تھا۔ کیا ہوا ہے فلک؟ ایسی کون سی بات ہو گئی تھی جسے تم نے اپنے اعصاب پر اس طرح سوار کر لیا۔ کیا سلمان سے کوئی جھگڑا ہوا تھا؟” وہ اب دھیمی آواز میں اس سے پوچھ رہی تھیں۔
”نہیں، کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ مجھے باہر لے جائیں۔ باہر لان میں، میرا دم گھٹ رہا ہے یہاں۔”
وہ ایک دم بیڈ سے اٹھنے لگی تھی۔ اس کی ممی نے اس کا بازو تھام لیا۔ زمین پر قدم رکھتے ہی وہ چکرائی تھی۔ ممی نے اسے بیڈ پر بٹھا دیا۔ چند منٹوں بعد اس نے ایک بار پھر کھڑے ہونے کی کوشش کی تھی اس بار وہ اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی۔ ممی کے ساتھ چلتے ہوئے وہ باہر لان میں آگئی۔ ممی نے اسے لان میں رکھی ہوئی کرسیوں پر بٹھا دیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اندر جا کر اس کے لیے کچھ پھل اور جوس لے آئیں۔ اس نے جوس کاگلاس خود ہی اٹھا کر پی لیا تھا پھر وہ سیب کی قاشیں کھاتی رہی۔
اب اندر چلیں؟
ممی نے کچھ دیر بعد اس سے پوچھا تھا۔ شام کے سائے بڑھ رہے تھے۔
”نہیں، ابھی مجھے یہیں بیٹھنا ہے۔”
وہ اسی طرح کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی رہی۔ مومنہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ان کی آنکھوں میں نمی آگئی تھی۔ وہ پہلے جیسی فلک نہیں لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کے گرد حلقے تھے اور آنکھوں کی چمک بجھ گئی تھی۔ دودھیا رنگت زردی مائل ہو گئی تھی۔ وہ کسی بت کی طرح پلکیں جھپکائے بغیر سامنے دیوار پر چڑھی ہوئی بوگن ویلیا کی بیل کو دیکھ رہی تھی۔
”ممی!” اس کی آواز جیسے کہیں دور سے آئی تھی۔ میمونہ چونک گئیں اس نے ایک بار پھر انہیں پکارا۔
”ممی! یہ مرد عورت کے لیے کیا ہوتا ہے؟” میمونہ اس کے سوال کو سمجھ نہیں پائی تھیں۔ وہ ابھی بھی بوگن ویلیا کو گھور رہی تھی۔
”پتا ہے ممی! مرد عورت کے لیے کیا ہوتا ہے۔ دروازہ ہوتا ہے دروازے کا کام رستہ روکنا ہوتا ہے یا رستہ دینا اور ممی اس دروازے نے میرا راستہ روک لیا ہے۔ میرا ہی نہیں ہر عورت کا رستہ روک لیا ہے۔ آگے جانے ہی نہیں دیتا۔ آج تک آگے جانے نہیں دیا۔ اسی لیے تو عورت پیغمبر ہوتی ہے نہ ولی۔ وہ دروازہ کھولنے کی کوشش ہی نہیں کرتی، وہیں اسی دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھی رہتی ہے۔ اسے ہی چومتی رہتی ہے سجدہ کرتی رہتی ہے۔ دروازہ پھر رستہ کیوں نہ روکے۔”
وہ اب بوگن ویلیا کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھی اور اس کی باتیں میمونہ کو باہر سے اندر تک ہلا رہی تھیں۔
”فلک! کیا کہہ رہی ہو تم۔ کیوں اس طرح کی باتیں کر رہی ہو؟”





”پتا ہے ممی! عورت بیل کی طرح ہوتی ہے اور مرد دیوار کی طرح۔ بیل ساری عمر دیوار کو ڈھونڈتی رہتی ہے جس کے سہارے وہ اوپر جا سکے نظروں میں آسکے جہاں تک دیوار جاتی ہے۔ وہ بھی بس وہیں تک جاتی ہے۔ بیل کو لگتا ہے دیوار نہ ہوتی تو وہ ز مین پر رلتی رہتی لوگوں کے پیروں تلے آتی، مگر ان کی نظروں میں نہیں آتی۔ وہ ساری عمر دیوار کی مشکور رہتی ہے۔ اسے سایہ دیتی ہے۔ اپنے پھولوں سے سجاتی ہے، مہکاتی ہے، جب سوکھنے لگتی ہے تو بھی ساتھ ہی چپکی رہتی ہے۔ کسی چھپکلی کی طرح۔ ختم ہونے کے بعد بھی اسے دیوار کے علاوہ کسی دوسرے کا سہارا نہیں چاہئے اور دیوار… ممی! دیکھیں دیوار کا کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ اس کا وجود بیل ڈھک دیتی ہے۔ اس کے سامنے ایک آڑ بنا دیتی ہے ہر چیز سے اسے محفوظ کر دیتی ہے۔ اسے سایہ دیتی ہے۔ رونق دیتی ہے پھولوں سے سجاتی ہے مہکاتی ہے اور خود ختم ہونے تک اس کی احسان مند رہتی ہے اور دیوار وہ تو بس سہارا دینے کا فائدہ اٹھاتی ہے بس سہارا دینے کا اور ساری عمر… ممی! دیکھیں ساری عمر جب تک بیل ختم نہیں ہو جاتی۔”
”فلک! تم اندر چلو۔”
”پھر جب وہ مرد اسے مل جاتا ہے تو اسے لگتا ہے۔ اسے پوری دنیا مل گئی ہے۔ ہر چیز جیسے اپنے ٹھکانے پر آگئی ہے۔ سب کچھ جیسے مکمل ہو گیا ہے۔ اس کے لیے وہ مرد بس وہ مرد سب کچھ ہوتا ہے۔ ان داتا، مالک، آقا سب کچھ۔ اسے لگتا ہے زندگی میں اب اسے جو کچھ ملنا ہے۔ اسی کے طفیل ملنا ہے۔ اسی کے سہارے ملنا ہے۔ اسی سے ملنا ہے۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد اس کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ وہ دن کو رات کہے تو وہ رات کہتی ہے، وہ آگ کو پانی کہے تو وہ پانی کہتی ہے۔ اسے لگتا ہے دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے حکم سے ہوتا ہے اس کے وجود کی وجہ سے ہوتا ہے اللہ اس کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ بس وہ مرد ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ آنکھ، کان، ناک، منہ، پیر، ہاتھ، دل، دماغ سب کچھ وہی ہوتا ہے۔ اسے لگتا ہے، رزق اللہ نے نہیں دینا اس مرد نے دینا ہے اور پھر… پھر جب وہ مرد اسے چھوڑ دیتا ہے۔ ٹھوکر مار دیتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ دنیا میں کچھ رہا ہی نہیں۔ بس دنیا اس ایک مرد کی وجہ سے ہی تو قائم تھی۔ وہ نہیں تو دنیا نہیں یوں جیسے سارا نظام ہی ختم ہو گیا ہو۔ اسے اللہ یاد نہیں آتا۔ اسے یاد ہی نہیں آتا کہ اللہ نے اسے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے… مرد کی عبادت کے لیے نہیں، اپنی چاہ کے لیے پیدا کیا ہے۔ مرد کی چاہ کے لیے نہیں اور عورت تو عورت تو… ایک مرد کے لیے مر مٹتی ہے۔ اسے مرد سے آگے تو کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اللہ چھوڑ دے اسے پرواہ نہیں مگر وہ ایک مرد چھوڑ دے تو وہ مر جاتی ہے۔ اللہ اس سے محبت نہ کرے تو اسے فکر نہیں مگر وہ مرد محبت کرنا چھوڑ دے تو اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ ناراض ہو جائے تو اسے دھیان نہیں آتا مگر مرد ناراض ہو جائے تو وہ سولی پر لٹک جاتی ہے۔ مرد کو منانے کے لیے وہ دو جہاں ایک کر دیتی ہے اور اللہ کو منانے کے لیے وہ ایک مرد نہیں چھوڑ سکتی۔ مرد کو منانے کے لیے وہ ہر رشتہ چھوڑنے پر تیار ہو جاتی ہے۔ ماں کا، باپ کا، بہن کا، بھائی کا۔ ہر ایک کا اور اللہ کے لیے۔”
”فلک! اب بس چپ ہو جاؤ۔ کچھ نہ کہو۔ اس طرح کی باتیں کہاں سے سیکھ لی ہیں تم نے۔” میمونہ اب روہانسی ہو گئی تھیں۔
”ممی! میں نے اس سے کہا میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔ ہر چیز سے زیادہ محبت۔ اس نے کہا مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ اگر میں اللہ سے یہ کہتی تو کیا وہ بھی یہی جواب دیتا۔ میں نے اس سے کہا میں نے کون سی غلطی کی ہے؟” اس نے کہا ”میں نہیں جانتا۔” میں اللہ سے یہ پوچھتی تو کیا وہ میرے سوال کا جواب نہ دیتا؟ میں نے اس سے کہا میں نے تمہارے لیے پچھلے تین سال میں کیا نہیں کیا اس نے کہا۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں، اگر میں اللہ کے لیے کچھ کرتی تو کیا اللہ کو بھی پرواہ نہ ہوتی؟ میں نے اس سے کہا۔ میں نے پچھلے تین سال ویسے زندگی گزاری ہے جیسی تم چاہتے تھے۔ اس نے کہا میں کیا کروں۔ میں تین سال اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتی تو کیا اللہ یہ کہتا؟ میں نے اس سے کہا تم مجھے بتاؤ میں کیا کروں کہ تم خوش ہو جاؤ۔ مجھ سے محبت کرنے لگو۔ اس نے کہا مجھے تمہاری ضرورت ہی نہیں ہے۔ مجھے تمہاری کوئی بات، کوئی چیز خوش نہیں کر سکتی۔ میں اللہ سے یہ کہتی تو کیا وہ بھی یہی کہتا؟ ممی اللہ اور انسان میں یہی فرق ہے۔ اللہ ٹھوکر نہیں مارتا انسان بس ٹھوکر ہی مارتا ہے۔
مرد کو خوش کرنے کے لیے کیا کیا کرتی ہے عورت۔ اندر بدل دیتی ہے، باہر بدل دیتی ہے۔ دل بدل دیتی ہے وجود بدل دیتی ہے، صرف اس لیے کہ وہ خوش رہے۔ ناراض نہ ہو، اس کی نظر نہ بدلے۔ اللہ کو خوش کرنے کے لیے وہ باطن کیا ظاہر کو بدلنے پر تیار نہیں ہوتی۔ اللہ کہتا ہے۔ سر کو ڈھانپ لو۔ مرد کہتا ہے سر کو مت ڈھانپو۔ میری بیوی کو ماڈرن ہونا چاہئے۔ وہ اللہ کی نہیں سنتی۔ مرد کی سنتی ہے۔ اللہ کہتا ہے اپنے وجود کو ڈھانپو، اپنی زینتوں کو چھپاؤ، مرد کہتا ہے ایسا مت کرو تاکہ میرے ساتھ چلتی پھرتی اچھی لگو۔ وہ اللہ کی نہیں مانتی مرد کی مانتی ہے،وہ کہتی ہے مرد کے ساتھ رہنا ہے۔ ساری عمر بسر کرنی ہے، اس کی نہیں مانیں گے تو کس کی مانیں گے۔ مرد کی بیوی ہے، یہ رشتہ تو کبھی بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ اللہ کی تو مخلوق ہے یہ رشتہ تو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔ وہ دائمی رشتہ کی فکر نہیں کرتی۔ ساری عمر عارضی رشتوں کو روتی رہتی ہے۔ ان کی فکر کرتی ہے اللہ نے تو عورت کو غلام نہیں بنایا۔ مجبور نہیں بنایا۔ محکوم نہیں بنایا اس نے خود بنالیا ہے، اپنا محور ”ذات” کو نہیں ”وجود” کو بنا لیا ہے۔”
میمونہ نے اس کے گالوں پر آنسوؤں کو بہتے دیکھا تھا۔
”فلک! فلک! مت روؤ میری جان۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں پھر تم۔”
”ممی! مجھے کچھ نہیں ہوا۔ میں بالکل ٹھیک ہوں بس رونا چاہتی ہوں۔ آپ نے کبھی کیکڑے کو دیکھا ہے؟ ممی! مجھے اپنا وجود ایک کیکڑا لگتا ہے۔ محتاج، بے کس، مجبور۔”
اس نے چہرے کو ہاتھوں میں چھپا لیا تھا۔ ”مجھے یقین نہیں آتا ممی چھبیس سال۔ پورے چھبیس سال میں اللہ کے بغیر کیسے رہتی رہی ہوں۔ چھبیس سال اللہ مجھے کیسے برداشت کرتا رہا ہے۔ میرے غرور، میرے فخر، میری انا، میری خود پرستی۔ ممی! کیسے… ؟ آخر کیسے وہ یہ سب نظر انداز کرتا ہے۔ جن سے وہ محبت کرتا ہے۔ ان پر آزمائشیں ڈالتا ہے۔ چھبیس سال تک اسے میرا خیال ہی نہیں آیا۔ سب کچھ دیتا رہا بغیر مانگے بغیر چاہے، کسی مصیبت، کسی تکلیف، کسی تنگی، کسی آزمائش کے بغیر یعنی چھبیس سال تک میں اللہ کی محبت کے بغیر جیتی رہی اور آپ آپ سب مجھ پر رشک کرتے رہے۔ میرے مقدر پر۔”
وہ گھٹنوں کے بل چہرے کو ہاتھوں میں چھپائے لان میں بیٹھ گئی تھی۔ ایک بار پھر وہ اسی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی۔
”میں انسانوں کی محبت پر شاکر رہی۔ بس انسانوں کی محبت پر… مجھے اللہ کا خیال ہی نہیں آیا۔ آپ نے ظلم کیا مجھ پر ممی! آپ نے ظلم کیا۔”
میمونہ گم صم اسے بلکتے ہوئے دیکھتی جارہی تھیں۔ ان کا وجود کسی گلیشیئر کی طرح سرد ہوتا جارہا تھا۔
……
سلمان کی تابندہ کے ساتھ شادی دونوں خاندانوں کے لیے دھماکے سے کم نہ تھی۔ فلک کی ذہنی کیفیت کی وجہ اب سب کی سمجھ میں آگئی تھی۔ وہ چند ہفتے فلک کی خیریت دریافت کرنے آتا رہا تھا اور پھر یک دم اس نے آنا چھوڑ دیا تھا پھر فلک کے والدین کو اس کی دوسری شادی کی اطلاع مل گئی تھی۔ وہ سلمان کے پاس گئے تھے اور انہوں نے اسے بے نقط سنائی تھیں۔
”میں نے فلک سے دوسری شادی کی اجازت لی ہے۔ آپ اس سے پوچھ سکتے ہیں۔”
وہ بے حد مطمئن تھا۔ میمونہ اور شیرافگن جلے بھنے گھر واپس آگئے تھے۔
”تم نے اسے دوسری شادی کی اجازت کیوں دی؟ تمہیں یہ سب کچھ ہمیں بتانا چاہئے تھا۔ میں دیکھتا وہ کیسے اس عورت سے شادی کرتا ہے۔ میں ان دونوں کو گولی نہ مروا دیتا تو پھر کہتیں تم۔ مگر تم نے اجازت کیوں دی؟”
شیرافگن گھر آکر اس پر بگڑنے لگے تھے۔ وہ اس خبر پر بالکل نارمل تھی یوں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
”مجھے کیا فرق پڑتا ہے پاپا! وہ جس سے چاہے شادی کرے میرے لیے میرا اللہ کافی ہے۔” اس کا انداز شیرافگن کو تپا گیا تھا۔
”تم پاگل ہو گئی ہو۔ کیا دنیا میں نہیں رہتی ہو؟”
”میں نے جو کیا ٹھیک کیا۔ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے مجھے فرق نہیں پڑتا اس کی دوسری شادی سے، اس کی زندگی میں ایک اور عورت آگئی تو کیا۔”
وہ بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئے تھے۔ جو ملگجے کپڑوں میں ہمیشہ کی طرح کمرہ بند کئے بیٹھی تھی۔
رشنا کو جب اس کے بارے میں پتا چلا تھا تو وہ اس سے ملنے آئی تھی۔ فلک کو دیکھ کر اسے شاک لگا تھا وہ جیسے ایک پرچھائیں بن کر رہ گئی تھی۔
”کیا حال بنا لیا ہے تم نے اپنا فلک؟ اس طرح تو مر جاؤ گی۔” وہ اس کے بالوں کو ہاتھوں سے سنوارنے لگی تھی۔




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!