شہرِذات — عمیرہ احمد

”آپ پڑھتی ہیں؟” اس نے اپنی ٹی شرٹ کے ساتھ لٹکتے ہوئے سن گلاسز اتار کر لگاتے ہوئے کہا تھا۔
فلک نے اسے اپنے بارے میں بتایا۔
”اور آپ؟”
”مجھے تو کافی سال ہو گئے اپنی تعلیم مکمل کئے۔ اکنامکس میں ماسٹرز کیا ہے۔ سرامکس کی فیکٹری ہے میرے ڈیڈی کی وہیں ہوتا ہوں۔” وہ آہستہ آہستہ اپنے بارے میں بتاتا گیا۔ پھر گفتگو کا سلسلہ طویل ہوتا گیا تھا۔
(فیوجی یاما) میں ہونے والا یہ لنچ پہلا اور آخری لنچ ثابت نہیں ہوا تھا۔ ان کی ملاقاتوں کی تعداد بڑھنے لگی تھی اور پھر اینڈ رزلٹ وہی ہوا تھا جو فلک نے چاہا تھا۔ سلمان نے اسے پروپوز کر دیا اور اس نے ایک لمحہ کے تامل کے بغیر یہ پرپوزل قبول کر لیا۔ سلمان اسے پہلی ملاقات میں ہی دوسرے مردوں سے مختلف لگا تھا۔ فلک بیس سال کی تھی اور وہ اس سے دس سال بڑا تھا فلک کی طرح وہ نہ تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھڑک اٹھتا تھا اور نہ ہی کسی بات پر فوراً اپنا رد عمل ظاہر کرتا تھا۔ وہ بہت سوبر اور ڈیسنٹ تھا۔ پر سکون انداز میں ٹھہر ٹھہر کر دھیمی آواز میں بات کیا کرتا تھا اور فلک کسی سحر زدہ معمول کی طرح اسے بات کرتے دیکھتی رہتی تھی۔ وہ کبھی بھی کسی کی بات اتنے انہماک سے نہیں سنتی تھی جس طرح وہ سلمان کو سنتی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ سلمان کے پرپوز کرنے پر جیسے اس کی دلی مراد پوری ہو گئی تھی اسے پہلی بار اپنی خوش قسمتی پر یقین آیا تھا لیکن ابھی کچھ مشکلات باقی تھیں۔
گھر میں اس پروپوزل کا ذکر کرنے پر جیسے ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔ شیرافگن کو اعتراض تھا کہ وہ اُن کی برادری کا نہیں ہے اور ویسے بھی وہ فلک سے دس سال بڑا تھا۔ ایک اور اعتراض انہیں یہ تھا کہ وہ بلاشبہ ایک ویل آف فیملی سے تعلق رکھتا تھا مگر وہ فیملی شیرافگن جلیل کی ٹکر کی نہیں تھی فلک کے لیے اگر یہ ساری باتیں بے معنی تھیں تو شیرافگن کے لیے یہی چیزیں اہمیت رکھتی تھیں۔ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کے لیے داماد بھی ویسا ہی چاہتے تھے اور سلمان اس معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ مگر فلک کی ضد کے آگے ان کی مخالفت زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکی تھی۔ وہ اس کے رونے دھونے اور خاموشی کو برداشت نہیں کر سکے تھے اور انہوں نے سلمان کے رشتہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کر لیا تھا۔
مگر شیرافگن کی ناپسندیدگی سلمان سے چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔ منگنی کے فوراً بعد ان کے اختلافات ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئے تھے جب شیرافگن نے یہ کوشش کی تھی کہ سلمان اپنی فیکٹری چھوڑ کر ان کے بزنس کو دیکھنا شروع کرے۔ انہوں نے یہ پیش کش فلک کے ذریعے کی تھی۔
”یعنی تمہارے فادر کو ایک ایسا داماد چاہئے جو ان کی فائلوں والا بریف کیس اٹھا کر ان کے پیچھے پیچھے چلے، سرونٹ کم سن ان لائ۔” اس کا لہجہ طنزیہ تھا فلک کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔





”تم کیسی باتیں کر رہے ہو سلمان؟ کیا میرے پاپا تمہیں نوکر بنا کر رکھیں گے۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم ان کا بزنس سنبھالنا شروع کر دو ظاہر ہے ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور میری شادی جس سے بھی ہوتی، اسے پاپا کا بزنس تو سنبھالنا ہی ہوتا۔” اس نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔
”اور میری سرامکس کی فیکٹری کا کیا ہو گا؟” اس نے کچھ دیر بعد فلک سے پوچھا تھا۔
”تم اپنے کسی بھائی کے سپرد کر سکتے ہو یا اپنی جگہ کوئی جنرل منیجر رکھ سکتے ہو۔” فلک نے مشورہ دیا تھا۔ وہ کافی کے سپ لیتے ہوئے کچھ دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ ”کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں، میں نے تم سے بات ہی نہیں کی اور یہی غلطی کی ہے، میرا خیال ہے انگیجمنٹ سے پہلے ہی مجھے تم سے ان چیزوں کے بارے میں بات کرلینی چاہئے تھی۔” اس کا لہجہ خاصا سرد تھا۔
فلک کچھ چونک گئی تھی۔
”مجھے شادی ایک لڑکی سے کرنی ہے۔ کوئی باس گھر لے کر نہیں آنا ہے۔ میرا خیال ہے میں اس طرح کا شوہر ثابت نہیں ہو سکتا جس طرح کا تمہیں یا تمہارے گھر والو ں کو ضرورت ہے۔ اگر میرا اپنا بزنس نہ ہوتا تو میں تمہارے فادر کے بزنس کے بارے میں سوچتا لیکن اب میری اپنی فیکٹری ہے جو پوری طرح سے اسٹیبلش ہے۔ تم چاہتی ہو، میں وہ چھوڑ کر تمہارے فادر کے بزنس کو جوائن کر لوں جو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ میں اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے گزارنا چاہتا ہوں۔ بیوی یا ان لاز کی مرضی کے مطابق نہیں۔ میرا خیال تھا ہم نے کافی وقت اکٹھا گزارا ہے تم مجھے کسی نہ کسی حد تک سمجھ چکی ہو گی مگر میرا خیال غلط ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے ہمیں کسی نئے رشتے میں بندھنا نہیں چاہئے۔”
اس نے اپنی بات کے اختتام پر اپنی انگلی سے منگنی کی انگوٹھی اتار کر فلک کے سامنے ٹیبل پر رکھ دی تھی۔ وہ بالکل بے حس و حرکت تھی۔ اس نے والٹ نکال کر بل کے پیسے مینو کارڈ میں رکھے اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ فلک کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی چھوٹی سی بات پر یہ قدم…
اس نے اسے ریسٹورنٹ کے دروازے سے نکلتے دیکھا تھا اور پھر جیسے وہ اپنے حواس میں واپس آگئی تھی۔ اپنا بیگ اور انگوٹھی اٹھا کر وہ بھاگتی ہوئی اس کے پیچھے گئی تھی۔ وہ پارکنگ کی طرف جارہا تھا۔
”آئی ایم سوری سلمان! اگر تم میری بات پر ہرٹ ہوئے ہو تو… لیکن میرا یہ مطلب نہیں تھا۔” اس نے پاس آکر اس کے کندھے کو تھام کر لجاجت سے کہا تھا۔
وہ رک گیا تھا۔ ”بات ہرٹ ہونے یا نہ ہونے کی نہیں ہے بات اپنی اپنی خواہش اور ضرورت کی ہے۔ تمہارے فادر کو واقعی ایک شخص کی ضرورت ہے جو ان کے بزنس کو سنبھالے مگر میں…”
اس نے بڑی نرمی سے اس سے کہا تھا مگر فلک نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اس موضوع پر ہمارے درمیان دوبارہ کبھی بات نہیں ہو گی۔ جو تم چاہو گے وہی ہو گا۔ پاپا کیا سوچتے ہیں یا کیا چاہتے ہیں۔ میں تم سے دوبارہ کبھی اس بات کا ذکر نہیں کروں گی۔” اس نے قطعی لہجے میں سلمان سے کہا تھا ”اور اب تم یہ انگوٹھی پہن لو۔”
سلمان نے کچھ سوچتے ہوئے رنگ پکڑ لی۔
شیرافگن کی ناراضگی سلمان کے اس انکار کے بعد کچھ اور بڑھ گئی تھی انہوں نے فلک کو سلمان کے خلاف اکسانے کی کوشش کی تھی مگر وہ اب ان کی کوئی بات سننے پر تیار نہ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ سلمان اگر ان کا بزنس جوائن نہیں کرنا چاہتا ہے تو انہیں اس پر اصرار نہیں کرنا چاہئے۔ ویسے بھی وہ سلمان کی اس حرکت کے بعد خوفزدہ ہو گئی تھی بہت دنوں تک وہ اس واقعہ کو ذہن سے نہیں نکال سکی تھی۔
”کیا سلمان کے نزدیک میری ذرا بھی اہمیت نہیں تھی کہ اس نے اتنی معمولی سی بات پر انگوٹھی اتار کر پھینک دی؟”
یہ سوال بار بار اس کو خوفزدہ کر دیتا تھا۔
”مگر… اگر اس کے نزدیک میری کوئی اہمیت نہ ہوتی تو وہ مجھے شادی کا پرپوزل کیوں دیتا۔” وہ جیسے خود کو تسلی دینے کی کوشش کرتی تھی۔ ”ایک شخص سے محبت، انسان کو کتنا مجبور کر دیتی ہے میں نے زندگی میں کسی کی پراہ ہی نہیں کی اور اب اس شخص کی پرواہ کی ہے تو مجھے احساس ہوا ہے کہ محبت کرنے کے بعد بندے کو کتنا جھکنا پڑتا ہے صرف اس خوف سے کہ کہیں دوسرا آپ کو چھوڑ نہ دے۔”
وہ سوچتی تھی۔ ہر بار یہ سوچ اسے دل گرفتہ کر دیتی تھی اور ہر بار سلمان کے سامنے آنے پر اس کی ساری دل گرفتگی جیسے دھواں بن کر غائب ہو جاتی تھی۔ اس کے سارے شکوے جیسے ختم ہو جاتے تھے۔ وہ عام مردوں کی طرح لمبی چوڑی باتیں کرتا تھا نہ ہی اس کے حسن کے قصیدے پڑھتا مگر فلک کو اس کی موسم کے حالات کے بارے میں کہی جانے والی بات بھی کسی خوبصورت اور رومینٹک شعر سے زیادہ اچھی لگتی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ سلمان کو اس کے ساتھ بیٹھنا باتیں کرنا اس کے ساتھ چلنا پھرنا کیسا لگتا تھا۔ مگر اسے سلمان کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے وجود پر فخر ہوتا تھا یوں جیسے وہ سلمان کو نہیں پورے جہان کو اپنے ساتھ لیے پھر رہی ہو۔ جیسے دنیا میں اس کے علاوہ ہر لڑکی خالی ہاتھ ہو۔
اس کی زندگی میں اگر سلمان پہلا مرد تھا تو سلمان کی زندگی میں آنے والی بھی وہ پہلی لڑکی ہی تھی۔ وہ شروع سے ہی بہت ریزرو طبیعت کا ملک تھا اور لڑکیوں کے ساتھ گھومنا پھرنا کبھی بھی اس کی عادت میں شامل نہیں رہا تھا۔ فلک کی طرح وہ بھی اپنی خوبصورتی اور صنف مخالف کے لیے اپنی کشش سے واقف تھا اور اس کی طرح وہ خود پرست بھی تھا اور انا پرست بھی لیکن ان دونوں باتوں کے باوجود بھی فلک کی محبت میں گرفتار تھا۔ ہاں یہ محبت فلک کی طرح طوفانی اور سب کچھ قربان کردینے والی نہیں تھی۔
ان کی منگنی تقریباً تین سال رہی تھی اور ان تین سالو ں میں فلک نے خود کو سلمان کی پسند کے مطابق ڈھال لیا تھا۔ وہ سلمان کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتی تھی جو رنگ سلمان کو پسند تھے اس نے بھی وہی پہننا شروع کر دئیے تھے۔ جو رنگ سلمان کو ناپسند تھے وہ جیسے اسکی زندگی سے بھی نکل گئے تھے۔ جو چیز سلمان کو کھانے میں پسند تھی۔ لاشعوری طور پر وہ اس کی پسند بھی بن گئی تھی اور جس چیز سے سلمان بھاگتا تھا۔ وہ بھی اسے اتنا ہی ناپسند کرنے لگی تھی اور یہ سب کچھ سلمان کے کہے بغیر ہوا تھا۔ سلمان نے کبھی اسے کسی بات پر مجبور نہیں کیا تھا مگر وہ خود ہی اسے خوش رکھنا چاہتی تھی۔ سرتا پا اس کی پسند میں ڈھل جانا چاہتی تھی اس کی دوستیں اس میں آنے والی تبدیلیوں پر حیران تھیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ فلک شیرافگن جو پتا نہیں خود کتنے دلوں کی دھڑکن ہے۔ وہ اپنے آپ کو صرف ایک شخص کے لیے اتنا بدل دے گی۔ اس کی ہر بات میں سلمان انصر کا ذکر آتا تھا۔ بعض دفعہ اس کی دوستیں اس بات پر اس کا مذاق اڑاتیں مگر فلک کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔
تین سال بعد بڑی دھوم دھام سے اس کی اور سلمان کی شادی ہو گئی تھی۔ شادی سے کچھ عرصہ پہلے ہی سلمان نے اپنے لیے ایک علیحدہ گھر لے لیا تھا اور فلک شادی کے بعد اسی گھر میں گئی تھی۔ شادی کے بعد فلک کے دل میں سلمان کے بارے میں جو تھوڑے بہت خدشات تھے وہ بھی ختم ہو گئے تھے، وہ ایک بہت ہی محبت کرنے والا اور خیال رکھنے والا شوہر ثابت ہوا تھا۔ شادی سے پہلے کی جس بے نیازی اور بے پروائی نے فلک کو خوفزدہ کیا تھا۔ وہ شادی کے بعد غائب ہو گئی تھی۔ وہ فلک کا کسی ننھے بچے کی طرح خیال رکھتا تھا۔ شادی سے پہلے کی اس کی کم گوئی بھی ختم ہو گئی تھی۔
فلک کو اپنی زندگی پر پہلی بار رشک آنے لگا تھا۔ ٹھیک ہے میں نے اس شخص کے لیے اپنے آپ کو بہت بدلا ہے اسے خوش کرنے اور خوش رکھنے کے لیے بہت کچھ چھوڑا ہے مگر وہ سب بے کار تو نہیں گیا۔ سلمان انصر کو احساس ہے کہ میں نے اس کے لیے کیا کیا ہے اور اس کے نزدیک میری، ہر قربانی ہر ایثار کی اہمیت ہے۔”
وہ اکثر سوچتی اور مسرور ہوتی رہتی۔ شادی کے بعد سلمان انصر کے شیرافگن کے ساتھ بھی تعلقات اچھے ہو گئے تھے حالانکہ فلک کو خدشہ تھا کہ شاید سلمان کی انا ان تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ بنے گی مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ اکثر فلک کے ساتھ اس کے گھر جایا کرتا تھا اور میمونہ اور شیر افگن دونوں کی بہت عزت کرتا تھا۔ خود شیرافگن بھی اس کے بارے میں اپنے پچھلے خیالات اور رائے بدلنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ فلک کو اس کے ساتھ اس قدر خوش دیکھ کر اور سلمان کے طور طریقے دیکھ کر وہ اسے پسند کرنے لگے تھے۔
سلمان بہت لبرل قسم کا آدمی تھا اور کچھ یہی حال فلک کا تھا۔ شیرافگن اور میمونہ نے جس ماحول میں فلک کی تربیت کی تھی وہاں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ بچپن میں ایک بار قرآن پاک پڑھ لینے کے بعد فلک نے دوبارہ اس مقدس کتاب کو ہاتھ لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ نماز اور روزے سے بھی وہ اپنی ماں کی طرح بے نیاز تھی۔ اس کا خیال تھا کہ آج کے دور میں اتنا مذہبی ہونا خاصا دقیانوسی کام ہے۔ جب کبھی دوستوں سے اس کی اس موضوع پر بات ہوتی تو وہ کہتی۔
”دیکھو یار! مجھے قیامت وغیرہ پر زیادہ یقین نہیں ہے جو کچھ ہونا ہے دنیا میں ہی ہو گا۔ اچھی یا بری جیسی زندگی بھی گزارنی ہے بس ایک بار ہی گزارنی ہے ایسا بار بار نہیں ہو گا۔
رشنا کو بعض دفعہ اس کی باتوں پر اعتراض ہوتا کیونکہ وہ باقاعدگی سے نہ سہی لیکن نماز وغیرہ پڑھ لیا کرتی تھی۔ فلک اس کے اعتراض پر ہر دفعہ مسکرا کر کہتی۔
”دیکھو رشنا! یہ عبادت وغیرہ بندہ تب کرتا ہے جب اس کی اللہ سے لمبی چوڑی فرمائشیں ہوں یا پھر اس نے اچھے خاصے گناہ کئے ہوں۔ میرے ساتھ تو دونوں مسئلے نہیں ہیں نہ تو میں اللہ سے کچھ مانگتی ہوں اور نہ ہی میں کوئی گناہ کرتی ہوں پھر ہر وقت مصلے پر بیٹھے رہنے کا کیا فائدہ۔”
رشنا ہر بار خاموش ہو جاتی تھی۔ وہ اسے دلیل سے قائل نہیں کرسکتی تھی۔ کیونکہ خود اس کا مذہب کے بارے میں علم بہت کم تھا اور وہ فلک کو دلیل کیسے دے سکتی تھی۔ فلک کے برعکس سلمان اس طرح کی باتیں تو نہیں کرتا تھا۔ لیکن نماز، روزے سے وہ بھی کوسوں دور تھا۔ اس کے نزدیک اتنا ہی اسلام کافی تھا کہ بندہ مسلمان ہو اور اس کا نام بھی مسلمانوں والا ہو۔ ہاں زندگی کو ویسے گزارنا چاہئے جیسا زمانہ ہو۔
اس سے پھر وہ دونوں راوی کی سیر کے لیے گئے تھے۔ شادی سے پہلے بھی وہ دونوں اکثر یہاں آیا کرتے تھے۔ فلک کو یہاں دریا کے کنارے پر تنہائی اور خاموشی میں آکر بیٹھنا بہت پسند تھا۔ بعض دفعہ جب سلمان اس کے ساتھ نہ ہوتا تو وہ اپنی کسی دوست کو ساتھ لے آتی۔ کشتی کے ذریعے وہ کامران کی بارہ دری میں چلے گئے۔ دریا کے وسط میں بنی ہوئی یہ مغلیہ دور کی عمارت اسے بڑی اٹریکٹ کیا کرتی تھی۔ سلمان اور وہ بارہ دری کے مختلف حصوں میں پھرتے اور باتیں کرتے رہے۔ پھر جب شام ڈھلنے لگی تو وہ دونوں ایک بار پھر کشتی کے ذریعے بارہ دری سے واپس کنارے پر آگئے تھے۔




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!