شہرِذات — عمیرہ احمد

اتنے ڈائریکٹ ریفرنس پر ان کے چہرے پر پسینے آنے لگے تھے۔
”کیوں کیا یہاں ایسی کوئی لڑکی نہیں ہے، جس کے ساتھ سلمان انصر۔” اس نے تلخ لہجے میں کہتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔
”میڈم! دیکھیں، مجھے تو اس بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔ میں تو۔”
اس نے ان کی بات کاٹ دی تھی۔ ”اگر مجھے گھر میں بیٹھ کر اس چکر کا پتا چل سکتا ہے تو میں یہ تو نہیں مان سکتی کہ آپ کو ان سب باتوں کا پتا نہ ہو۔ آفٹر آل آپ ایڈمن آفیسر ہیں۔ باس اور ورکرز کے روابط کا آپ کو پتا نہیں ہو گا تو کس کو پتا ہوگا۔ بہر حال، میں آپ کو کوئی الزام نہیں دے رہی ہوں۔ میں صرف اس لڑکی سے ملنا چاہتی ہوں۔ آپ اسے بلوائیں۔”
اس نے جیسے بات ہی ختم کر دی تھی۔ اس بار الیاس صاحب کے چہرے پر ندامت نمایاں تھی۔
”میڈم! میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں لیکن میں بے بس تھا۔ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ آپ ورکر کو تو سمجھا سکتے ہیں مگر باس کو نہیں۔ میں نے سلمان صاحب سے بات کی تھی کہ ان کے اور اس لڑکی کے بارے میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں، مگر انہیں اس کی پرواہ ہی نہیں ہے۔ وہ اسے ہر روز چھٹی کے وقت ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ وہ پیکنگ کا کام کرتی تھی مگر سلمان صاحب نے اسے شعبہ کا انچارج بنا دیا ہے۔ میرے بات کرنے پر صاحب نے مجھے بری طرح جھڑک دیا ان کا خیال ہے کہ مجھے ان سے سب چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہئے۔ مجھے صرف اپنے کام سے کام ہونا چاہئے۔”
الیاس صاحب نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی تھی۔
”آپ اسے بلائیں۔” اس نے ایک بار پھر ان سے کہا تھا۔ انہوں نے بیل بجا کر چپڑاسی کو بلایا اور پھر اسے اس لڑکی کو بلانے کے لیے بھیج دیا۔
چپڑاسی کے جانے کے بعد انہوں نے ایک بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا۔
”میں یہاں آپ کی وضاحتوں کے لیے نہیں آئی ہوں، آپ خاموش رہیں۔” اس نے بڑے خشک لہجے میں ان سے کہا تھا۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ سرجھکا کر رہ گئے۔ وہ تیز ہوتی ہوئی دھڑکن کے ساتھ اس لڑکی کا انتظار کرتی رہی۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ بے اختیار اپنی سیٹ سے کھڑی ہو کر پیچھے مڑی اور پھر جیسے وہ پتھر کی ہو گئی تھی۔
”سر! آپ نے مجھے بلوایا ہے؟” اس نے الیاس صاحب سے کہا تھا۔
”ہاں میڈم تم سے…”
”اسے بھجوا دیں۔” وہ جیسے کسی پاتال سے بولی تھی۔ سب کچھ دھواں دھواں ہوتا جارہا تھا۔ اسے اپنا جسم مفلوج ہوتا ہوا لگا تھا۔ وہ سوالیہ نظروں سے فلک کو دیکھتی ہوئی کمرے سے نکل گئی تھی۔ وہ سانس روکے بے حس و حرکت کسی مجسمے کی طرح ابھی تک ویسے ہی کھڑی تھی۔
”تم جانتیں نہیں وہ کیا ہے۔ میں اگر اسے نہ دیکھوں تومیں کچھ اور دیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔ تم نے کبھی کسی چمگادڑ کو دن کے وقت دیکھا ہے۔ میں اس کا چہرہ دیکھے بغیر بالکل ویسا ہی ہو جاتا ہوں۔” اس کے کانوں میں کسی کی آواز آرہی تھی۔





”یاد ہے تم نے ایک بار کہا تھا فلک! محبت تو رگوں میں خون بن کر بہتی ہے۔ میں نے اسے دیکھا تو مجھے پتا چلا، یہ کیسے ہوتا ہے۔ وہ قدم اٹھائے تو میرا دل چاہتا ہے۔ میں زمین بن جاؤں تاکہ اس کے پیروں کو بھی اگر کوئی چیز چھوئے تو وہ میرا وجود ہو۔ تم نہیں جانتیں فلک! وہ اگر ایک خنجر لے کر میرے وجود کو کاٹنا شروع کر دے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اسے حق ہے چاہے تو مارے، چاہے تو کاٹے چاہے تو جلا دے۔ مگر سب کچھ اپنے ہاتھ سے کرے۔” ہر لفظ اس کے چہرے کو تاریک کرتا جارہا تھا۔
ہر ایک کو بھکاری بنا کر رستے میں بٹھایا ہوا ہے اور ہر ایک خود کو مالک سمجھتا ہے جب تک ٹھوکر نہیں لگتی، جب تک گھٹنوں پر نہیں گرتا اپنی اوقات کا پتا ہی نہیں چلتا۔ وجود کے نصیب میں ہے بھکاری ہونا بس ذات بھکاری نہیں ہوتی۔ وجود کے مقدر میں مانگنا ہے۔ ذات کا وصف دینا ہے۔ میں کیا تو کیا بی بی! سب بھکاری ہیں۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، کبھی نہ کبھی تو بھکاری بننا ہی پڑتا ہے۔ مانگنا ہی ہوتا ہے۔ کوئی عشق مانگتا ہے کوئی دنیا اور جو یہ نہیں مانگتا، وہ خواہش کا ختم ہونا مانگتا ہے۔”
اس کا وجود جیسے کسی زلزلے کی زد میں تھا۔
”اس کی نظر میں جو ایک بار آجاتا ہے۔ ہمیشہ رہتا ہے اور اس نظر کو کیچڑ کی پرواہ نہیں ہوتی۔”
چھ ماہ پہلے دریا کے کنارے اس فقیر کے کہے گئے لفظ اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔
”ہاں، ساری بات نظر ہی کی تو ہے جس سے اس نے مجھے محروم کر دیا ہے اور اس عورت کو نواز دیا ہے ورنہ سلمان انصر کبھی اس عورت کو تو نہ چاہتا۔ مگر یہ تو اللہ ہے نا جس نے میرے چہرے سے نظر اٹھالی ہے پھر سلمان انصر کو کیا نظر آئے۔” وہ بڑبڑانے لگی تھی۔
”میڈم! آپ ٹھیک تو ہیں؟”
اسے الیاس صاحب کی آواز آئی تھی۔ اس نے پلٹ کر انہیں دیکھا تھا۔ الیاس صاحب کو اس کی آنکھوں میں وحشت کا ایک عجیب عالم نظر آیا تھا۔ وہ نارمل نہیں لگ رہی تھی۔ وہ چند لمحے کچھ کہے بغیر انہیں دیکھتی رہی پھر کرسی سے اپنا بیگ اٹھا کر کمرے سے نکل گئی۔
”مرد تو دروازہ ہے۔ دروازے کا کام رستہ دینا ہوتا ہے یا رستہ روکنا۔ تیرا رستہ اس نے روک دیا ہے۔ تیرا ہی کیا ہر عورت کا رستہ اس نے روک دیا ہے۔ آگے جانے ہی نہیں دیتا۔ اسے لے کر کیا کرے گی تو۔ یہ کُل نہیں ہے بی بی! یہ کُل نہیں ہے۔ تو کُل کی خواہش کیوں نہیں کرتی وجود کی طلب کیوں ہے۔ تجھے ذات کی چاہ کیوں نہیں ہے۔”
ذہن کی دیوار پر کچھ لفظ باربار ابھر رہے تھے۔ ایک آواز بار بار گونج رہی تھی وہ چپ چاپ گھر آگئی تھی۔ کمرے میں آکر اس نے ایک ایک زیور اتار کر پھینکنا شروع کر دیا تھا۔ کسی جنونی کی طرح وہ سب کچھ اتارتی گئی تھی۔ کاٹن کا ایک سوٹ پہن کر چہرہ دھو کر وہ واپس واش روم سے کمرے میں آگئی تھی۔ کمرے میں ہر طرف چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔ گھڑی، نیکلس، انگوٹھیاں، بریسلیٹ، چوڑیاں، ایئر رنگز وہ خالی نظروں سے ان سب چیزوں کو دیکھتی رہی تھی۔ پھر صوفہ سے ٹیک لگا کر کارپٹ پر بیٹھ گئی تھی۔ ٹیوب لائٹس کی روشنی کمرے میں بکھری ہوئی جیولری کو چمکا رہی تھی۔ وہ کسی بت کی طرح ان پر نظریں گاڑے بیٹھی تھی۔ وہ نہیں جانتی، کتنی دیر وہ اس طرح بیٹھی رہی تھی۔
وہ رات کے وقت واپس گھر آیا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ کمرے میں بکھری ہوئی چیزوں کو دیکھ کر چونکا تھا۔ وہ صوفے سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی۔
”تم آج فیکٹری آئی تھیں؟” اپنا بریف کیس بیڈ پر اچھال کر وہ اس کے سامنے آکر کھڑا ہوا تھا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور پیروں سے سر تک اس کے دراز قد و وجود کو دیکھا تھا۔
”تم تابندہ سے کیوں ملنا چاہتی تھیں؟” اس بار اس کا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ جارحانہ تھا۔
”میں تمہیں اجازت دیتی ہوں سلمان! تم تابندہ سے شادی کرلو۔”
چند لمبے بعد جب وہ بولی تو اس کا جواب سلمان کو حیران کر گیا تھا۔ وہ اب اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ کمرے کا دروازہ کھول کر وہ لاؤنج میں آگئی۔ فون کا ریسیور اٹھا کر اس نے اپنے گھر کا نمبر ملانا شروع کیا تھا۔
”اوہ فلک! یہ تم ہو۔ اس وقت کس لئے فون کیا ہے؟ خیریت تو ہے؟ خاموش کیوں ہو؟”
اس کی ممی نے فون اٹھاتے ہی اس کی آواز پہچان لی تھی۔
”ممی! آپ کہتی تھیں۔ آپ نے مجھے زندگی میں سب کچھ سکھایا ہے۔ کبھی کسی چیز کی کمی نہیں رکھی۔ آپ جھوٹ بولتی ہیں ممی! آپ نے۔ مجھے سب سے بڑی۔ سب سے اہم چیز نہیں سکھائی۔”
وہ بول رہی تھی۔ ”کیا ہوا میری جان کیا نہیں سکھایا۔ تمہاری آواز کو کیا ہوا ہے؟”
”ممی! آپ نے مجھے اللہ سے، اللہ سے محبت کرنا نہیں سکھایا۔ آپ نے، آپ نے مجھے اس کو ڈھونڈنا نہیں سکھایا۔ آپ نے مجھے کنگال کر دیا ممی آپ نے مجھے بھکاری بنا دیا۔ ایسا کیو ں کیا ممی! ایسا کیوں کیا؟”
وہ اب چیخ رہی تھی۔ چلا رہی تھی۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔
”آپ نے مجھے کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ممی! مجھے تو کوئی اٹھانے والا ہی نہیں رہا۔ آپ نے مجھے دنیا میں اکیلا کر دیا۔ ممی آپ نے مجھ پر ظلم کیا۔”
وہ پاگلوں کی طرح چیختی جارہی تھی۔ گھر کے ملازم لاؤنج میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ اس کی چیخوں کی آواز سن کر سلمان بھی لاؤنج میں آگیا تھا۔ ریسیور اب اس کے ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا۔ وہ نیم غشی کے عالم میں اب بھی وہی چلاّ رہی تھی۔
”مجھے اللہ کی محبت نہیں دی۔ مجھے… مجھے، اس کو ڈھونڈنا نہیں سکھایا مجھے گرا دیا۔ اس کی نظر سے گرا دیا۔”
……
اس نے بہت آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دی تھیں، کمرے میں اس کے بیڈ کے پاس ممی بیٹھی تھیں اور تھوڑی دور کچھ فاصلے پر ایک آدمی پاپا کے پاس کھڑا تھا، وہ اس سے کچھ باتیں کر رہے تھے، اس کی آنکھیں کھلی تھیں لیکن ذہن ابھی غنودگی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے اپنے اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔
”کمرہ… یہ کون سا کمرہ ہے۔ ہاں یاد آیا، یہ تو میرا کمرہ ہے۔ اپنے گھر میں یعنی میں سلمان کے گھر میں نہیں ہوں۔”
اس نے آہستہ آہستہ ہر چیز کو پہچاننا شروع کر دیا۔ کسی نے بھی اس کے پاس آنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کے اعصاب پر ایک عجیب نشہ آور کیفیت سوار تھی۔ تھوڑی دیر بعد پاپا اور وہ آدمی اس کے پاس آگئے تھے پھر اس نے اپنے بازو میں ہلکی سی چبھن محسوس کی تھی اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔
”دس پندرہ منٹ تک یہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ آہستہ آہستہ نارمل ہو رہی ہیں۔ میرا خیال ہے اب یہ پہلے کی طرح نہیں چیخیں گی۔” اس نے اپنے کانوں میں کسی کی آواز سنی تھی۔ شاید اسی آدمی کی۔ اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ غنودگی بڑھتی جارہی تھی۔ پلکیں اور بوجھل ہو گئی تھیں۔
دوبارہ جب اسے ہوش آیا۔ تب بھی کمرے میں وہی لوگ تھے۔، ممی، پاپا اور وہ آدمی مگر اب اسے آنکھیں کھلی رکھنے میں دقت نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے آنکھیں کھولی تھیں اور کچھ دیر سب کو دیکھنے کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئی تھیں۔ ممی نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی مگر اس آدمی نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔
”یہ اب بالکل ٹھیک ہیں اور اگر اٹھ کر بیٹھنا چاہتی ہیں تو انہیں بیٹھنے دیں بلکہ چلنے پھرنے دیں باہر جانے دیں، اس بستر میں قید کرنے کی کوشش نہ کریں انہیں ایسی کوئی تکلیف نہیں ہے کہ جو چلنے پھرنے یا اٹھنے بیٹھنے سے بڑھ جائے۔”
اس آدمی نے ممی سے کہا تھا۔
”کیسی ہیں آپ؟ کیسا محسوس کر رہی ہیں؟”
وہ آدمی اب اس سے مخاطب تھا۔ وہ سپاٹ آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔” وہ کچھ دیر بعد بولی تھی۔ ایک بار پھر اسے سب کچھ یاد آنا شروع ہو گیا تھا۔




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!