شہرِذات — عمیرہ احمد

”ایسے ایکسیڈنٹ ہوتے رہتے ہیں۔ تم بھلا وہاں جا کر کیا کرو گی؟” انہوں نے ڈور ہینڈل کو پکڑ کر اس کی طرف والا دروازہ بند کر دیا تھا۔
”ممی وہ بچہ… پتا نہیں وہ۔”
آواز اس کے حلق میں اٹک گئی تھی۔ ممی نے کار اسٹارٹ کر لی تھی۔
”اتنے لوگ ہیں وہاں، لے جائیں گے اسے ہاسپٹل۔ ہم بھلا کیا کرسکتے ہیں وہاں جاکر، اور ویسے بھی مجھے جلدی گھر پہنچنا ہے۔ مسز انور کے گھر جانا ہے ان کے بوتیک کا افتتاح ہے۔”
وہ بے یقینی سے ممی کے چہرے کو دیکھتی رہی، گاڑی اب سڑک پر دوڑ رہی تھی۔
”کیا انہیں کچھ محسوس نہیں ہوا؟ کچھ بھی نہیں؟ آخر کیوں؟ کیا وہ انسان نہیں تھا۔”
ممی اس کی سوچوں سے بے خبر اپنی باتوں میں مصروف تھیں۔ اس نے اپنے اندر خلا کو ایک بار پھر پھیلتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ ”یہ بے حسی ہمارے وجود، ہماری کلاس کا حصہ کیوں بن گئی ہے؟ چوٹ کھانے والا اپنا نہ ہو تو کیا اسکی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ میری کلاس میزز کی بات کرتی ہے، ایٹی کیٹس کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے، کیا انسانی ہمدردی مینرز سے باہر کی کوئی چیز ہے کیا زندگی گزارنے کے لیے کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کا طریقہ آنا ہی کافی ہے؟” سوالات کی ایک بھرمار نے اسے نئے سرے سے گھیر لیا تھا۔
”اور پھر اللہ اتنا دور لگتا ہے تو ہمیں اس بات کا شکوہ کرنے کا کیا حق ہے۔”
اس نے اپنی ماں کے چہرے کو دیکھا تھا۔ وہ اب بھی مسلسل بول رہی تھیں۔ اس کی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک بار پھر اس بچے کا چہرہ آگیا تھا۔ گاڑی کے ساتھ ٹکرانے کے بعداچھلتا ہوا اس کا وجود اور ہوا میں لہراتے ہوئے اخبارات اس نے اپنے وجود کو ریت کا ڈھیر بنتے محسوس کیا تھا۔
”ممی! چپ ہو جائیں۔ فارگاڈ سیک چپ ہو جائیں۔ بند کر دیں یہ ساری باتیں میرا دم گھٹ رہا ہے، بس خاموش ہو جائیں۔ یہ سب کچھ مجھے نہ بتائیں۔”
وہ پاگلوں کی طرح کانوں پر ہاتھ رکھ کر یک دم چیخنے لگی تھی۔ میمونہ کچھ خوفزدہ ہو کر خاموش ہو گئی تھیں۔
”ابھی تو سائیکاٹرسٹ کے ساتھ سیشن کروا کر لائی ہو ں اور پھر بھی آدھ گھنٹہ بعد ہی اس کا یہ حال ہو گیا ہے۔” میمونہ نے مایوسی سے سوچا تھا۔
اگلے کئی دن تک وہ گم صم اپنے کمرے میں قید رہی تھی۔ وہ کوشش کے باوجود اس بچے کو اپنے ذہن سے محو نہیں کر سکی تھی۔ وہ جیسے اس کے ذہن پر نقش ہو گیا تھا۔ ”پتا نہیں اسے کتنی چوٹ آئی تھی پتا نہیں وہ زندہ بھی ہو گا یا۔”
وہ آگے کچھ نہ سوچ پاتی۔ اس دن عصر کی نماز پڑھنے کے بعد وہ اپنے کمرے کی کھڑکیوں کے پاس رکھی ایزی چیئر کے اوپر آکر بیٹھ گئی۔ کھڑکی کے باہر لان میں مدھم آوازیں ابھر رہی تھیں۔ اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے آواز کو پہچاننے کی کوشش کی تھی پھر اس نے الفاظ کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ آواز اس کے ڈرائیور کی بیٹی رضیہ کی تھی۔ جو ٹوٹے پھوٹے تلفظ کے ساتھ انگلش کا کوئی سبق دہرا رہی تھی۔
”ابو بن ادھم ایک عابد و پرہیز گار شخص تھے۔ ایک رات کو اچانک ان کی آنکھ کھل گئی۔ ان کا کمرہ نور سے روشن تھا۔ انہوں نے ایک فرشتے کو دیکھا جو اپنی سنہری کتاب میں کچھ لکھ رہا تھا۔”
بہت آہستگی سے فلک نے اپنی بند آنکھیں کھول دی تھیں۔ اس کی سماعتیں اب کھڑکی کے باہر گونجنے والی آواز پر مرکوز تھیں۔ رضیہ تقریباً ہر لفظ کو بہت برے طریقے سے ادا کر رہی تھی مگر وہ پھر بھی لفظوں کو پہچان رہی تھی۔





”ابو بن ادھم نے فرشتے سے پوچھا کہ وہ کیا کر رہا ہے تو اس نے کہا کہ ان لوگوں کے نام لکھ رہا ہوں جو اللہ سے محبت کرتے ہیں۔” فلک اب سانس تک روک چکی تھی۔ اس کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ رضیہ اب لڑکھڑاتی آواز کے ساتھ رک رک کر بول رہی تھی۔
”ابو بن ادھم نے پوچھا کیا اس فہرست میں ان کا نام بھی شامل ہے؟ فرشتے نے نفی میں جواب دیا تو ابو بن ادھم نے درخواست کی کہ ان کا نام ان لوگوں میں شامل کر لیا جائے جو اپنے ساتھی انسانوں سے محبت کرتے ہیں۔
فلک کو اپنی آنکھوں میں کچھ کرچیاں سی چبھتی محسوس ہوئی تھیں۔
”فرشتے نے ابو بن ادھم کا نام لکھا اور غائب ہو گیا، اگلی رات فرشتہ پھر آیا اور اس نے ابو بن ادھم کو ان لوگوں کی لسٹ دکھائی جن سے اللہ محبت کرتا ہے۔
ابو بن ادھم کا نام اس لسٹ میں سب سے اوپر جگمگا رہا تھا۔”
رضیہ ایک بار پھر اپنے سبق کو شروع سے پڑھنے میں مصروف تھی اور فلک اندر کسی پتھر کے بت کی طرح ساکت بیٹھی تھی۔ گالوں پر پھسلتا ہوا گرم پانی اس کی گود میں رکھے ہوئے ہاتھوں پر گر رہا تھا۔
”اور میں تم تک کسی انسان کے لیے کچھ کیے بغیر ہی پہنچنا چاہتی تھی پھر تم رستہ کیسے دکھاتے؟ اور اب اگر میں لوگوں کے ذریعے تم تک آؤں تو کیا تم مجھے مل جاؤ گے؟ کیسے لوگ ہوتے ہیں، اللہ جن سے تو محبت کرتا ہے، جنہیں تو چاہتا ہے، جنہیں تو مل جاتا ہے؟ کیا ابو بن ادھم جیسے لوگ؟ اور ان کی طرح کیسے بنا جاتا ہے؟ اللہ تو بتا ان میں کیا خاص چیز ہوتی ہے؟”
اس کا ذہن جیسے کسی گرداب میں پھنسا ہوا تھا۔
…ة…
”باجی! یہ گھر ہے اس کا۔” بالآخر ایک گھر کے سامنے پہنچ کر وہ لڑکا رک ہی گیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک جھگی کے دروازے پر دستک دی تھی فلک طائرانہ نظروں سے اس خستہ حال جھگی کا جائزہ لیتی رہی۔ چند لمحوں بعد سترہ اٹھارہ سال کی ایک لڑکی نے دروازہ کھولا تھا۔
”یہ باجی ماجد سے ملنا چاہتی ہیں۔” اس کے ساتھ آنے والے بچے نے جیسے اس کا تعارف کروایا تھا۔ اس لڑکی کے چہرے پر تعجب اور سراسیمگی اکٹھی ابھری تھی، وہ بچہ چلا گیا تھا۔
”تم ماجد کی بہن ہو؟” فلک نے اس سے پوچھا۔
”ہاں!” اس لڑکی کا جواب مختصر تھا۔
”میں اندر آجاؤں؟” فلک نے اس سے اجازت طلب کی تھی۔ وہ ہچکچاتے ہوئے دروازے کے سامنے سے ہٹ گئی۔
فلک دروازہ پار کرکے اندر آگئی تھی۔ جھگی کی ہر چیز اپنے مکینوں کی خستہ حالی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ اندر عجیب سی گھٹن اور حبس تھا یوں جیسے وہاں ہوا کا گزر کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔ فلک کو بے اختیار اپنا چھ کنال کا گھر یاد آیا تھا۔ اس کا باتھ روم بھی اس کمرے سے زیادہ بڑا تھا۔ لڑکی کی تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے کہاں بٹھائے۔ سادہ لباس میں ملبوس ہونے کے باوجود وہ اپنے چہرے اور حلیے سے اسے کوئی معمولی عورت نہیں لگی تھی۔ اس نے کچھ بوکھلاہٹ کے بعد ایک جھلنگاسی چارپائی اس کے سامنے بچھا دی تھی، فلک چار پائی پر بیٹھنے کے بجائے مٹی سے لیپے ہوئے فرش پر بیٹھ گئی تھی۔ لڑکی جیسے سکتہ میں آگئی تھی۔ پھر کچھ ہچکچاہٹ کے بعد وہ خود بھی فلک کے پاس ہی فرش پر بیٹھ گئی تھی۔
”تمہاری امی کہاں ہیں؟” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پوچھا تھا۔
”وہ کچھ گھروں میں کام کرتی ہیں، وہاں گئی ہوئی ہیں۔”
”اور ابو؟”
”انہیں مرے دو سال ہو گئے ہیں۔”
فلک ایک لمحے کو چپ ہو گئی تھی۔ ”کتنے بہن بھائی ہو؟”
”تین بہنیں اور دو بھائی۔” اس نے لڑکی کے چہرے پر ایک سائے کو گزرتے دیکھا تھا۔
”ماجد کے مرنے کا مجھے بہت افسوس ہوا۔ دوسرا بھائی کیا اس سے بڑا ہے؟”
”نہیں، وہ سات سال کا ہے۔”
”تم سب سے بڑی ہو؟”
”ہاں، باقی دو اماں کے ساتھ لوگوں کے گھر کام کرنے جاتی ہیں۔ میں گھر پر ہوتی ہوں۔ کپڑے سیتی ہوں لفافے بناتی ہوں اور بھی بہت سے کام کرتی ہوں، تمہیں کوئی کام کروانا ہے کیا؟”
فلک گم صم اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر عجیب سی آس تھی۔ یوں جیسے… فلک نے اپنا بیگ کھولا تھا پھر ایک پیکٹ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
”یہ کچھ روپے ہیں، تم اپنی امی کو دے دینا۔ میں دوبارہ آؤں گی۔ تم لوگوں کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دینا وہ لڑکی کو ہکا بکا چھوڑ کر وہاں سے نکل آئی تھی۔
اس دن وہ اس بچے کے بارے میں پوچھنے کے لیے اسی سڑک پر آئی تھی۔ سڑک پر اخبار بیچنے والے بچوں سے اس نے اس بچے کے بارے میں پوچھا تھا اور یہ جان کر وہ دل گرفتہ سی ہو گئی تھی کہ وہ بچہ مر چکا ہے۔ ”کیا تم مجھے اس کا پتا بتا سکتے ہو؟” فلک نے ایک بچے سے کہا تھا وہ بچہ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد اسے اس علاقے میں لے آیا تھا جہاں جھگیوں اور ٹوٹے پھوٹے مکانوں کا پورا جہاں آباد تھا اور پھر وہ ماجد کے گھر پہنچ گئی تھی۔
اپنے گھر واپس آتے ہوئے اسے پہلی بار اپنے گھر کے در و دیوار مانوس نہیں لگ رہے تھے، اسے آدھے گھنٹے پہلے دیکھی ہوئی وہ جھگی یاد آگئی تھی۔ اسے یوں لگا تھا جیسے کسی نے اسے حلق سے دبوچ لیا تھا۔
”لوگ کن کن چیزوں کے بغیر رہ رہے ہیں اور میں۔ مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں کسی پر قیامت ٹوٹی ہے تو وہ میں ہی ہوں۔ چھ کنال کے بنگلے میں رہ کر، آٹھ آٹھ لاکھ کی گاڑیوں میں پھر کر، اپنے وجود کو آسائشوں سے سجا کر اور اپنے پیٹ کو دنیا کی ہر نعمت سے بھر کر آخر مجھے کس اللہ کی تلاش ہے۔ وہ آخر مجھ پر نظر کرے تو کیوں کرے۔ مجھ سے محبت کرے تو کیوں کرے۔ مرد محبت کرے تو تحائف کا ڈھیر عورت کے سامنے لگا دیتا ہے۔ اس کے لیے بے تحاشا روپیہ خرچ کرتا ہے اسے ہوٹلز میں لے کر جاتا ہے۔ وہ کسی چیز کی طرف اشارہ کرے تو یہ ممکن نہیں کہ وہ اسے خرید کر نہ دے۔
عورت مرد سے محبت کرتی ہے تو اس مرد کے اشارے پر چلتی ہے۔ وہ اس سے روپیہ مانگے تو وہ سو جھوٹ بول کر ہر قیمت پر اسے روپیہ دیتی ہے۔
اللہ سے انسان محبت کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اللہ بھی اس سے محبت کرے مگر محبت کے لیے وہ کچھ دینے کو تیار نہیں۔ اللہ کے نام پر وہی چیز دوسروں کو دیتا ہے جسے وہ اچھی طرح استعمال کر چکا ہو یا پھر جس سے اس کا دل بھر چکا ہو۔ چاہے وہ لباس ہو یا جوتا۔ وہ خیرات کرنے والے کے دل سے اتری ہوئی چیز ہوتی ہے اور اس چیز کے بدلے وہ اللہ کے دل میں اترنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے اس پرانے لباس، گھسی ہوئی چپل یا ایک پلیٹ چاول کے بدلے اسے جنت میں گھر مل جائے۔ اللہ اس کی دعائیں قبول کرنا شروع کر دے۔ اس کے بگڑے کام سنورنے لگیں۔ وہ جانتا ہے، اللہ کو دلوں تک سرنگ بنانا آتا ہے پھر بھی وہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتا ہے او رمیں میں فلک شیرافگن صرف آنسو بہا کر، مصلے پر بیٹھ کر، صرف اللہ کا نام لے لے کر اللہ کی محبت حاصل کرنا چاہتی ہوں اس کی نظر چاہتی ہوں مگر اس کے لیے کرنا کچھ نہیں چاہتی۔”
کوئی اس کے دل کو جیسے مٹھی میں لے رہا تھا۔ لاؤنج کے اندر جانے کے بجائے وہ باہر دروازے کے پاس بیٹھ گئی۔ سامنے نظر آنے والا وسع و عریض لان جیسے اسے ہولا رہا تھا۔ اس نے اپنی قمیص کے دامن کو پکڑ کر دیکھا۔ لباس سادہ تھا مگر قیمتی تھا۔ اسے یاد تھا چند ماہ پہلے اس نے کراچی سے سلمان کے ساتھ گرمیوں کے ملبوسات کی شاپنگ کی تھی تب ابھی وہ واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ اسے اس کپڑے کی قیمت یاد نہیں تھی مگر یہ یاد تھا کہ وہ قیمت ہزاروں میں تھی۔




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!