لباس — حریم الیاس

آج کل گھر میں ایک ہی”ہاٹ ٹاپک” تھا اور وہ تھا ارسل بھائی کی شادی، بھاوج ہونے کے ناطے مجھ پر جیٹھانی ڈھونڈنے کا دباؤ تھوڑا زیادہ تھا لیکن اب یہ دباؤ میرے کاندھوں اور اعصاب پر بوجھ بننے لگا تھا۔
ارسل بھائی ہر لحاظ سے اچھے انسان تھے۔ خوش شکل، خوش مزاج، پڑھے لکھے اور ایک مشہور کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز۔ مذہب کی طرف اُن کا رجحان بھی کافی تھا۔ غرض یہ کہ کسی بھی لڑکی کے”آئیڈیل شوہر” کے خاکے پر پورا اترتے مکمل انسان تھے۔ بس ایک ہی ”سیاہ پہلو” تھا ان کی زندگی میں اور وہ تھا ان کی پہلی بیوی سے خلع۔ یہ کوئی اتنا بھی سیاہ پہلو نہ تھا کیوں کہ ان کی پہلی بیوی نے اپنی مرضی سے علیحدگی چاہی تھی اور وجہ یہ تھی کہ اس شادی میں ان کی رضامندی شامل نہ تھی۔ انہیں کوئی اور پسند تھا جسے وہ دل سے نہ نکال پائی تھیں یا شاید انہوں نے دل سے نکالنے کی کوشش ہی نہ کی۔ خیرچند مہینوں بعد ہی انہوں نے خلع کا مطالبہ کر ڈالا اور ارسل بھائی اس قدر شریف النفس تھے کہ انہوں نے کسی زور زبردستی کے بجائے ان کا مطالبہ پورا کر دیا، اماں جان نے لاکھ سمجھایا کہ نئی نئی محبت ہے، چند دنوں میں بھول جائے گی تو تمہارے ساتھ ایڈجسٹ کر لے گی لیکن ارسل بھائی نے کہا کہ وہ زبردستی کسی کے اوپر مسلط نہیں ہونا چاہتے اس طرح تین ماہ بعد ہی وہ شادی ختم ہوگئی اور اب ڈیڑھ سال بعد جب ارسل بھائی قدرے سنبھل گئے تو اماں جان کو پھر سے بہو لانے کی خواہش جاگی۔ میںان کی اس تلاش میںبڑھ چڑھ کر ان کاساتھ دے رہی تھی لیکن اب ان کے لیے بہو تلاش کرنا مجھے اس لیے دشوار لگنے لگا تھا کہ دوسری شادی کے باوجود اماں جان کو بہو کنواری، خوب صورت اور ہر لحاظ سے مکمل چاہیے تھی۔ یہ کوئی ایسی ناجائز خواہش بھی نہ تھی۔ ہر ماں کا ہی ارمان ہوتا ہے کہ صورت و سیرت میں اچھی لڑکی اس کی بہو بنے، لیکن میری سوچ اس معاملے میں ذرا مختلف تھی،مجھے لگتا تھا کہ شکل و خوب صورتی کو زیادہ فوقیت دینے سے انسان سیرت کے معاملے میں کوتاہی برت جاتا ہے اور نتیجہ خسارے ہی نکلتا ہے۔
مجھے اپنے سسرال کے رشتہ داروں کی ایک لڑکی بہت پسند تھی، خدیجہ۔ وہ اماں جان کے چچازاد بھائی فرقان ماموں کی بڑی بیٹی تھی اور سچ کہوں تو مجھے اپنے سسرال میں بس ان کی فیملی پسند تھی۔ وہ سیدھے اور صاف دل کے لوگ تھے۔ خدیجہ بھی پڑھی لکھی، شریف اور معصوم سی لڑکی تھی۔ قد کاٹھ کی بھی اچھی تھی۔ بس رنگت تھوڑی سانولی تھی لیکن میرے خیالات شادی کے معاملے میں ذرا مختلف ہیں۔ میں نے پہلے بھی اماں جان کی توجہ خدیجہ کی طرف مبذول کروائی تھی لیکن انہوں نے اس وقت بھی سابقہ بڑی بھابھی کو ان کی خوب صورتی اور ارسل بھائی کے ساتھ سوٹ کرنے کی وجہ سے فوقیت دی تھی اور آج جب دوسری شادی کے وقت بھی میں نے خدیجہ کا ذکر کیا تو انہوں نے انکار ہی کیا تھا۔
”اماں جان آپ کو خدیجہ میں کیا برائی نظر آتی ہے؟” اس بار اُن کے انکار پر میں نے بغیر کسی تردد ان سے استفسار کر ڈالا تھا۔
”ہم نے کب کہا کہ خدیجہ میں کوئی برائی ہے؟”انہیں شاید میرا اس طرح بولنا بُرا لگا تھا۔
”اگر برائی نہیں ہے تو آپ اس کو ارسل بھائی کے لیے منتخب کیوں نہیںکر لیتیں ؟”میں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا۔
”ارے بیٹی وہ اچھی لڑکی ہے لیکن ہر اچھی لڑکی کو تو میں اپنی بہو نہیں بنا سکتی نا، جوڑ بھی تو دیکھنا ہوتا ہے” وہ اب نارمل ہوگئی تھیں۔
”کیا مطلب جوڑ دیکھنا پڑتا ہے اماں جان؟ خدیجہ اور ارسل بھائی ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھے لگیں گے، دیکھیں نا دونوں ہی قد میں لمبے ہیں اور خدیجہ بھی اسمارٹ سی ہے ہمارے ارسل بھائی کی طرح ، پڑھی لکھی ہے ، سگھڑ ہے اور شرافت کی تو آپ بھی قائل ہیں، بچپن سے اسے دیکھتی آرہی ہیں، کسی فضول سرگرمی میں بھی نہیں رہتی، سیدھی سی لڑکی ہے کتنا سلیقہ ہے اس میں، گھر کو بھی آئے روزکسی نا کسی طرح ڈیکوریٹ کرتی رہتی ہے ، مزاج کی کتنی دھیمی ہے بالکل ارسل بھائی کی طرح۔” میں نے خدیجہ کی تعریفوں کے پل باندھے اور سچی بات ہے اس میں سے کچھ بھی جھوٹ نا تھا۔
”ہاںہاں! ہم سب جانتے ہیں وہ بچی ایسی ہی ہے ، مگر اس کا رنگ…” اماں جان جملہ مکمل کیے بغیر ہی خاموش ہوگئیں۔
”اماں جان رنگ سے کیا ہوتا ہے؟ ہمارے ارسل بھائی کون سا بہت صاف رنگ کے ہیں؟ تقریباً ایک جیسا ہی رنگ ہے دونوں کا اورخدیجہ شروع سے تو سانولی نہیں ہے ، دیکھی ہیں اس کے بچپن کی تصویریں میں نے بھی،بہت صحت مند اور گوری سی تھی ، اب جاب اور گھر کی ذمہ داریوں کی وجہ سے اپنا خیال نہیں رکھ پاتی۔ فرقان ماموں جب سے بیمار ہوئے ہیں اُن کے حصے کے کام بھی اسے ہی کرنے پڑتے ہیں۔ دن رات اسے دعائیں دیتے ہیں، اس نے کبھی انہیں احساس نہیں ہونے دیا کہ ان کا بیٹا نہیں ہے۔” اس بار اماں جان چپ رہیں اور پر سوچ انداز میں گردن ہلاتی رہیں۔




”فرقان ماموں بتا رہے تھے کہ خدیجہ اُن کے اور اپنے عمرہ کے لیے پیسے بھی جمع کر رہی ہے۔ سوچیں اماں جان آج کل کی لڑکیوں کو کہاں فکر ہوتی ہے دینی امور کی ادائیگی کی، خدیجہ تو ماشااللہ شادیوں میں بھی سر سے دوپٹہ نہیں سرکنے دیتی۔ سچ پوچھیں تو عورت کا سارا حسن ہی اس کی حیا میں پوشیدہ ہے اور وہ ماشاللہ بہت با حیا ہے ، مجھے تو ارسل بھائی کے لیئے پرفیکٹ لگتی ہے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ فرقان ماموں کو ان کی پہلی شادی ٹوٹ جانے پر بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ آپ ارسل بھائی سے بات تو کر کے دیکھیں۔” میں نے آخر میں ارسل بھائی کی پہلی شادی کا ذکر دانستہ طور پرکیا۔
”ہمم” اماں جان نے گردن ہلائی۔
”اور رہی بات سانولی رنگت کی تو شادی کے بعد اچھا کھائے گی پئے گی، خوش رہے گی، پریشانیاں اورذمہ داریاں کم ہوں گی تو خود ہی روپ رنگ سنور جائے گا۔” میں نے اب چپ رہنا مناسب سمجھا۔ مجھے لگا کہ شائد اماں جان کو میرے دلائل نے قائل کر لیا ہے لیکن میں اس وقت غلط ثابت ہوگئی جب اگلے دن اماں جان کسی میرج بیورو کے آفس فون کر کے ارسل بھائی کے کوائف لکھوا رہی تھیں۔ میں سوائے افسوس کے اور کچھ نا کر سکی۔ اماں جان مجھے ایسے خیالات کی لگتی نہیں تھیں یا شاید میرے خیالات مختلف تھے۔ میرا دل بے حد بوجھل ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭
اس بات کو چند ہفتے گزر چکے تھے ۔ ابھی بھی ہم ارسل بھائی کے لیے دلہن ڈھونڈ رہے تھے اور ابھی بھی اماں جان کی وہ ہی ڈیمانڈز تھیں لیکن اب میں نے خدیجہ کا ذکر کرنا بھی ترک کر دیا تھا۔ جہاں اماں جان لڑکی دیکھنے کا کہتیں میں ان کے ساتھ چل پڑتی۔ جب بھی وہ کسی لڑکی کی تصویر دکھاتیں تو میں دل سے اس کا تجزیہ کرتی۔ حالاں کہ مجھے یہ سب بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا کہ کسی لڑکی کو ایسے پرکھا جائے جیسے گھر کے لیے صوفہ سیٹ لینا ہو اور اس کی ہر چیز جانچی جا رہی ہو، لیکن اتنی باریک بینی سے ہر لڑکی کو دیکھنے کے بعد بھی اماں جان کی تلاش ختم نا ہوتی تھی۔
ایک دن میں اور اماں جان لاؤنج میںبیٹھے تھے اور وہ مجھے ایسے ہی کسی رشتے کے بارے میں تفصیلات بتا رہی تھیں کہ اس ہی وقت میری چھوٹی نند فرح بازار سے لوٹ کر گھر آئی۔
”السلام علیکم لیڈیز…اماں! بھابھی! دیکھیں میں نے اپنے کالج کی پارٹی کے لیے ڈریس لے لیا ہے”. وہ سلام کر کے جواب سنے بغیر ہی نہایت جوش و خروش کے ساتھ شاپنگ بیگ میں سے خریدے ہوئے نئے کپڑے نکالنے لگی پھر ایک ہاتھ سے قمیص اور دوسرے ہاتھ سے پاجامے کو اپنے ساتھ لگا کر منتظر نگاہوںسے ہمیں دیکھنی لگی.
جہاں اماں جان حیرت سے آنکھیں وا کیے اس کے قیمتی جوڑے کو تک رہی تھیں وہیں میری بھی تنقیدی حس جاگ اٹھی تھی لیکن میں خاموش رہی کیوں کہ میں جانتی تھی بولنے کا بلکہ ڈانٹنے کا فریضہ اماں جان ہی انجام دیں گی.
“یہ کس قسم کا جوڑا اٹھا لائی ہو تم فرح؟ ہم پوچھتے ہیں کوئی شرم کوئی حیا باقی بچی ہے یانہیں۔ اس کی تراش خراش دیکھو اپنے باپ بھائی کسی کا خوف نہیں رہا کیا تمہیں؟” اماں جان گویا ہوئیں تو ہتھے سے اکھڑ گئی تھیں،فرح کی شکل رونے والی ہوگئی تھی۔
اس کا مہرون اور آف وائٹ امتزاج کا سوٹ اس کے ہاتھوں میں ہی رہ گیا تھا، سوٹ کا رنگ بے حد خوب صورت تھا لیکن اس کی تراش خراش دیکھ کر اماں جان کو غصہ آنا ہی تھا ، قمیص کی آستینیں تقریباً نا ہونے کے برابر تھیں، اور قمیص کی لمبائی کو لمبائی کہنا بھی مناسب نا تھا،اگر فرح پہنتی تو وہ قمیص اس کے گھٹنوں سے بھی اوپرہوتی، اس کا پاجامہ بھی نہایت ہی تنگ تھا اور ٹخنوں سے قدرے اونچا تھا، بلا شبہ وہ ایک مہنگا سوٹ ہوگا اس کے گلے دامن پر نہایت نفیس اور مہنگا کام کیا گیا تھا ، لیکن وہ ہم جیسے مشرقی روایت رکھنے والے لوگ نہیں پہن سکتے تھے.
”اماں اتنی مشکل سے تو مجھے سوٹ پسند آیا ہے۔” وہ روہانسی ہوگی تھی۔
”سوٹ پسند کرنا تھا تو ڈھنگ کا پسند کرتیں۔” اماں جان نے اس ہی غصے سے کہا۔
میں نے مناسب سمجھا کہ منظر سے غائب ہوجاؤں کہیں میرے سامنے اماں جان سے اس طرح ڈانٹ کھانے پہ اسے شرمندگی نہ ہو۔ میں کچن میں چائے بنانے آگئی، میرے اٹھنے کے بعد بھی اماں جان اس کو سمجھانے بجھانے لگیں، لاؤنج سے منسلک کچن میں ان کی آواز صاف آرہی تھی۔
”فرح دیکھو لباس کا اصل مقصد ہوتا ہے جسم کو ڈھانپنا، جسم کے پیچ و خم کو ابھرنے نہ دینا، لباس نام ہوتا ہے جسم کے مستور اعضا کو چھپا کر رکھنے والا ، اگر لباس ایسا ہو کہ وہ دیکھنے میں بے حدخوبصورت ہو، مہنگا کپڑا ہو، شاندار سلائی، خوب اچھے نگ نگینے جڑے ہوں،چاہے سونے کے تاروں سے ہی کیوں نہ بنا ہو اگر وہ انسان کے جسم کو ڈھانپ نہیں سکتا اس کے ستر کی حفاظت نہیں کرسکتا تو تم بتاؤ وہ لباس کس کام کا ہے؟” اماں جان اب دھیمے انداز میں بیٹی کو قائل کرنے لگیں۔ میرا ذہن لفظ ”لباس” میں اٹک کر رہ گیا تھا۔
”بیٹا میرے نزدیک تو اگر لباس سادہ ہو، بغیر کسی نگ اور موتیوں کے کام کا ہو لیکن اگر وہ تمہیں ڈھانپ رہا ہے اور لباس کی تعریف پہ پورا اتر رہا ہے تو وہ ایسے لباس سے کروڑ درجہ بہترین ہے۔” اماں جان نے اس کے جدید ڈریس کی طرف اشارہ کیا ہوگا۔
”اچھا اماں میں اسے تبدیل ہی کروا دوںگی۔” فرح کی آواز آئی۔
میں چائے کی ٹرے تھامے کچن سے باہر آگئی ، فرح جا چکی تھی۔
میں نے اماں جان کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھمایا اور ٹرے سینٹرل ٹیبل پر رکھ کر صوفے پر ان کے برابرمیںبیٹھ گئی۔
”اماں جان لباس کی بہت اچھی تعریف سمجھائی آپ نے فرح کو۔” میں نے ستائشی انداز میں کہا، وہ مُسکرائیں اور چائے پینے لگیں۔
میں چند لمحوں تک خاموش رہی اور لفظوں کے تانے بانے بننے لگی پھر ان سے گویا ہوئی۔
”اماں جان اللہ تعالی نے قرآن میں میاں بیوی کو بھی تو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے نا؟” میں نے جیسے ان سے تائید چاہی، وہ اثبات میں سر ہلانے لگیں۔
”تو پھر ہم ”اس لباس” کے معاملے میں آپ کی لباس کی تعریف پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟ ہم ہمیشہ ایسا لباس کیوں ڈھونڈتے ہیں جو فرح کے لباس کی طرح جدید ہو، نگ نگینوں سے سجا ہواور مہنگے کام سے مزین بہت خوبصورت سا ہو، پھراس وقت ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ وہ ستر کو ڈھانپے گا بھی یا نہیں، ہماری عصمت کی حفاظت کرے گا بھی یا نہیں،ہم بس اس کی خوب صورتی سے متاثر ہو کر اسے اپنا لیتے ہیں، اور ایسے سادے لباس کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو جسم کو ڈھانپتا ہو ستر چھپاتا ہو، لباس کی تعریف پہ پورا اترتا ہو۔” میں نے اس بار کافی طویل بات کی پھر اپنا چائے کا کپ اٹھایا اور اس کے کناروں پہ انگلی پھیرنے لگی، اماں جان سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
“اماں جان! خدیجہ بھی تو ایسا ہی سادہ سا لباس ہے نا۔” امی نے ایک ثانییکو ان کو دیکھا پھر نظریں کپ پر مرکوز کر لی تھیں،میری بات مکمل ہوگئی تھی ، میں اب اطمینان سے چائے پینے لگی۔
مجھے یقین تھا کہ اماں جان کی رائے ابھی بھی نہیں بدلی ہوگی لیکن آج میرے دل میں سکون سا اتر گیا تھا اور وہ بوجھ جو اتنے دن سے میرے دل پر تھا اب ہلکا ہوگیا تھا۔
میں نے اس کے بعد پھر اماں جان سے اس حوالے سے بات نہیںکی تھی اور اس باربھی اماں جان نے مجھے غلط ثابت کر دیا تھا کیوں کہ اگلے ہی دن وہ فرقان ماموں کو فون کر کے خدیجہ کا ہاتھ مانگ رہی تھیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Read Next

شہرِذات — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!