شہرِذات — عمیرہ احمد

”یہ تو کل ہے؟ یہ قناعت ہے؟ یہ صبر ہے؟ یہ عاجزی ہے؟ اور مجھے چاہئے اللہ۔”
اس کا دل ڈوب گیا تھا۔ قمیص کو اس نے ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ پاؤں میں پہنے جوتے پر اس کی نظر پڑی تھی۔ اس نے داہنے پیر کا جوتا اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیا تھا۔ اسے یاد آیا تھا آج وہ جس علاقے سے ہو کر آئی تھی۔ وہاں اس نے بہت سی عورتوں اور بچوں کے پیروں میں معمولی سی چپل تک نہیں دیکھی تھی اور یہ اس جوتے کی قیمت بھلا کیا ہو گی؟ اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی۔ اسے یاد نہیں آیا۔ وہ ہر بار شاپنگ پر جانے پر دو چار جوتے ضرور لیا کرتی تھی اور مہینے میں چھ سات بار وہ شاپنگ پر چلی جایا کرتی تھی۔ اسے یاد بھی نہیں تھا کہ یہ جوتا اس نے کب خریدا تھا مگر وہ یہ ضرور جانتی تھی کہ اس کا کوئی جوتا بھی ایک ہزار سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اس کے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے جوتا گر گیا تھا۔ وہیں دیوار کے ساتھ پیشانی ٹیک کر اس نے سسکیوں کے ساتھ رونا شروع کر دیا تھا۔ شاید کسی ملازم نے اندر جا کر اس کی ممی کو اطلاع دی تھی وہ تقریباً بھاگتی ہوئی باہر آئی تھی۔
”فلک! تم واپس آگئیں؟ کیا ہوا ہے میری جان؟ کیوں اس طرح رو رہی ہو؟” انہوں نے اسے اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا تھا۔
”ممی! آپ کو پتا ہے مجھے اللہ کیوں نہیں مل سکتا۔ میرے اور اللہ کے درمیان خواہشوں کی دیوار ہے۔ آسائشوں کی دیوار ہے۔ میں نے اپنے ارد گرد دنیا کی اتنی چیزیں اکٹھی کر لی ہیں کہ اللہ تو میرے پاس آہی نہیں سکتا ابو بن ادھم کو اس کی محبت کی چاہ تھی۔ اسے اس نے اپنی محبت دے دی۔ میری تمنا یہ چیزیں تھیں۔ آسائشات تھیں، سلمان تھا۔ مجھے اس نے بس یہ سب کچھ ہی دیا جسے وہ اپنی محبت دے دیتا ہے اسے پھر اور کسی چیز کی خواہش ہی نہیں ہوتی اور جسے دنیا دیتا ہے اس کی خواہش بھوک بن جاتی ہے۔ کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔ ممی ابو بن ادھم جیسے لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں اور میرے جیسے لوگ۔”
وہ ان کے کندھے پر سر رکھ کر بلک بلک کر رونے لگی تھی۔
”کون ابو بن ادھم؟ کیا کہہ رہی ہو تم؟ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔” ممی اب پریشان ہو رہی تھیں۔
”ممی! مجھے بھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ کچھ بھی نہیں جن لوگو ں کی سمجھ میں آجاتا ہے۔ انہیں سب کچھ مل جاتا ہے۔ میرے جیسے لوگ تو ساری زندگی سمجھنے کی کوشش ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔”
”تمہیں پھر دورہ پڑ گیا ہے پھر وہی جنون سوار ہو گیا ہے۔” اس کی ممی نے ایک گہری سانس لے کر کہا تھا۔
”یہ جنون نہیں ہے۔ ممی! یہ جنون نہیں ہے۔” وہ ایک دم کھڑی ہو گئی تھی۔
”یہ جنون ہے۔” اس نے زمین پر پڑا ہوا جوتا انہیں دکھاتے ہوئے کہا تھا۔ ایک عجیب سی وحشت اس پر سوار ہو گئی تھی۔
”یہ جنون ہے۔” اب وہ اپنی قمیص پکڑ کر انہیں دکھا رہی تھی۔
”یہ لاکھوں کی گاڑیاں جنون ہے۔” اس نے پورچ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ”یہ کروڑوں کے گھر جنون ہیں۔ آئیں میں آپ کو دکھاؤں اور کیا کچھ جنون ہے۔” وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی انہیں گھر کے اندر لے گئی۔ ”یہ کارپٹ جنون ہے جن پر چلتے ہوئے ہمیں لوگوں کے پیروں میں چبھتے ہوئے پتھر اور کانٹے محسوس نہیں ہوتے۔ یہ عالی شان اور قیمتی فرنیچر جنون ہے جن پر بیٹھ کر ہمیں اپنا وجود بھی اتنا ہی عالی شان اور قیمتی لگنے لگتا ہے۔”
وہ لاؤنج میں آکر چلانے لگی تھی۔
”تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے فلک” ممی اب گھبرا رہی تھیں۔
”ہاں ممی! میرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ میں پاگل ہو گئی ہوں۔ میرے اور آپ جیسے سارے لوگ پاگل ہی تو ہوتے ہیں ہم لوگو ں نے چیزوں سے اتنا عشق کیا ہے کہ اس دنیا میں رہنے والے انسانوں کی زندگی کو عذاب بنا دیا ہے۔ ہم سب پاگلوں نے مل کر۔ آئیں میں دکھاؤں مجھے کن چیزوں نے پاگل بنایا ہے۔ وہ ایک بار پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی اپنے بیڈ روم میں لے آئی۔ روتے ہوئے اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے ہوئے پرفیوم ان کی طرف اچھالنے شروع کر دئیے تھے۔”
”یہ بھی جنون ہے ممی! میرے اور آپ جیسے لوگ اپنے اندر کی بدبو کو چھپانے کے لیے یہ پرفیوم خود پر انڈیلتے ہیں۔ اپنے چہرے اور وجود کو میک اپ سے رنگتے رہتے ہیں۔” اس نے اب اپنی وارڈ روب کھول کر کپڑے باہر پھینکنے شروع کر دئیے تھے۔
”یہ ہے جنون ممی! یہ ابو بن ادھم جیسے لوگ لباس سے جسم کو چھپانے کا کام لیتے ہیں۔ ہمارے جیسے لوگ جسم کو دکھانے کا۔ یہ مہنگے کپڑے پہن کر ہمیں چیتھڑوں میں پھرنے والے لوگ جانور لگتے ہیں۔” اس کی وحشت بڑھتی جارہی تھی۔





”یہ جنون ہے ممی۔” اب اس نے اپنی دراز کھول کر زیور کمرے میں اچھالنے شروع کر دئیے تھے۔ ”یہ جنون ہے۔ یہاں کتنے لوگ ہیں ممی جو ایک وقت کے کھانے کے لیے صبح سے شام تک جانوروں کی طرح کام کرتے ہیں پھر بھی بہت دفعہ انہیں کچھ کھانے کو نہیں ملتا جو رات کو سوئیں تو انہیں یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ صبح تک جھگی کی ہلتی ہوئی چھت ان کے گھر کو گھر رہنے دے گی۔ یا ملبے کا ڈھیر بنا دے گی۔ ماجد جیسے بچوں کے لیے کوئی بچپن سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ ان کی زندگی پیدائش سے مرنے تک صرف بڑھاپا ہوتا ہے اور میرے جیسے لوگ روپیہ صرف زندگی کی بنیادی ضروریات پر ہی خرچ نہیں کرتے پھر انہیں اپنے وجود پر زیور بنا کر لٹکا بھی لیتے ہیں۔ جسم کے ہر حصے پر، پاؤں میں انگلیوں میں۔ کلائیوں میں، کانوں میں، ناک میں، گردن میں، ماتھے پر، سر پر، کیا حق پہنچتا ہے ممی! مجھے اور آپ جیسے لوگوں کو یہ ظلم کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔ پھر ڈاکے کیوں نہ پڑیں ہم جیسے لوگوں کے گھروں پر دن دہاڑے سڑک پر ہمارا زیور کیوں نہ لوٹا جائے۔”
وہ اب بلک رہی تھی۔ اس کی می دم بخود اسے دیکھ رہی تھیں۔ اس نے آگے بڑھ کر بیڈ روم ریفریجریٹر کھول دیا تھا۔
”یہ چیزیں ہیں ممی! جنہوں نے مجھے پاگل کر دیا ہے۔ ان چیزوں کو کھانے کے بعد ہمیں روٹی کے سوکھے ٹکڑوں سے پیٹ بھرنے والے کیڑے لگتے ہیں، انسان نہیں۔”
”یہ سب خدا کی رحمت ہے۔ اس کا فضل ہے۔ وہ جسے چاہے دے ہمیں دیا ہے تو ہمیں اسے خرچ کرنے کا حق ہے، تمہیں شکر کرنا چاہئے کہ خدا نے تمہیں ان سب چیزوں سے محروم نہیں کیا۔”
میمونہ پہلی بار بالآخر ہمت کرکے بولی تھیں۔
”ممی! دولت فضل نہیں ہے آزمائش ہے۔ کھانے کی چیزوں سے بھرا ہوا یہ فریج رحمت نہیں ہوسکتا، کپڑوں سے بھری ہوئی یہ وارڈ روب رحمت نہیں ہوسکتی، جیولری سے بھرے ہوئے یہ دراز اور روپے سے بھرا ہوا یہ لاکر بھی رحمت نہیں۔ یہ گاڑیاں، یہ بنگلے، یہ سب کچھ رحمت نہیں ہے۔ فضل نہیں ہے ممی اصراف ہے، کمینگی ہے، خود غرضی ہے، ذلالت ہے۔ آپ کے او رمیرے پاس یہ رحمت اور فضل ہے تو اس گھر کے نوکر ہماری اترن کیوں پہنتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے کوارٹروں میں کیوں رہتے ہیں۔ اس رحمت اور فضل کی حفاظت کے لیے جو گارڈ گیٹ پر کھڑے ہیں۔ وہ ٹوٹی ہوئی سائیکلوں پر کیوں جاتے ہیں۔ اس گھر میں رہنے والے نوکروں کے بچے چیزوں کے لیے کیوں ترستے ہیں، ہم نے اللہ کی رحمت اور فضل میں سے انہیں کیا دیا؟ اپنی اترنیں، بچا ہوا کھانا، جھڑکیاں، تنخواہوں میں سے کٹوتی۔ آپ نے کبھی نوکروں کے بچوں سے پوچھا کہ وہ اسکول کس طرح جاتے ہیں۔ اگر پیدل جاتے ہیں تو آپ نے کبھی اپنی ان دس گاڑیوں میں کسی ایک پر چند گھنٹوں کے لیے انہیں سفر کرنے دیا۔ اگر اسکول نہیں جاتے تو آپ نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ کیوں نہیں جاتے۔ میں سوچتی ہوں، کاش اللہ مجھے کچھ نہ دیتا پھر میں اس سے یہ سب کچھ مانگتی، مانگنے کا ہی سہی مگر اس کے اور میرے درمیان کوئی رشتہ تو ہوتا، چھبیس سال میں ایک بار ہی سہی کبھی میں اس سے کچھ مانگتی تو… اور پھر وہ مجھے وہ چیز دے دیتا تو میں خوش ہو کر اسے اور یاد کرتی۔ اس کا شکریہ ادا کرتی اور اگر وہ میری دعا قبول نہ کرتا تو بھی میں شکر کرتی۔ اس کی رضا پر خوش رہتی اور یہ شکر گزاری، یہ صبر اسے کتنا خوش کرتا۔ ممی! یہ لوگ جو ہمیں کیڑے اور جانور لگتے ہیں، یہ خدا کے نزدیک کیا ہیں کاش آپ کو بھی پتا چل جاتا۔”
وہ اب کارپٹ پر گھٹنوں کے بل گرے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ میمونہ بے بسی سے اس کے پاس کھڑی تھیں اس عمر میں اکلوتی اولاد کو اس طرح خوار ہوتے بھی دیکھنا تھا۔ انہیں بے اختیار رونا آیا تھا۔
……
اگلے تین ہفتے وہ ہاسپٹل رہی تھی۔ ایک بار پھر وہ نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو گئی تھی۔ اس بار پچھلی بار کی نسبت اس کی کیفیت زیادہ خراب تھی۔ جب تک وہ ٹرینکو لائزرز کے زیر اثر رہتی۔ سب کچھ ٹھیک رہتا۔ مگر جب بھی وہ ہوش میں آتی، چیخنے چلانے لگتی۔ اس کے سر میں درد ہوتا۔ وہ دم گھٹنے کی شکایت کرتی۔ اس کی بھوک پیاس ختم ہو گئی تھی۔ تین ہفتے بعد آہستہ آہستہ وہ نارمل ہوتی گئی تھی۔ شیرافگن ڈاکٹر سے مشورہ کے بعد اسے گھر لے آئے تھے۔ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے امریکہ بھجوا دیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ ماحول کی تبدیلی اس کی ذہنی حالت کو بہتر کر دے گی۔
اس صبح میمونہ نے اسے کمرے سے کچھ بیگز کے ساتھ نکلتے دیکھا تھا تو وہ ہول گئی تھیں۔ ”کہاں جارہی ہو فلک؟”
”تھوڑی دیر میں آجاؤں گی ممی۔” وہ آج خلافِ معمول بہت پرسکون لگ رہی تھی۔
”مگر جا کہاں رہی ہو اور ان بیگز میں کیا ہے؟” میمونہ کو تسلی نہیں ہوئی تھی۔
”میری چیزیں ہیں، کسی کو دینے جارہی ہوں۔”
”کس کو دینے جارہی ہو؟”
”جن کو ضرورت ہے۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں ممی! ان چیزوں کے بغیر کیسے رہا جاتا ہے، کل رات میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ جن کا دل مومن ہوتا ہے۔ وہ خدا کے نام پر کچھ بھی دے سکتے ہیں۔ کسی ملال کے بغیر، میں دیکھنا چاہتی ہوں ممی! کیا میرا مومن کا دل ہے۔ کیا اپنی بہترین اور پسندیدہ چیزیں دوسرے کو دینے پر مجھے ملال ہوتا ہے؟” میمونہ اسے روکنا چاہا تھا مگر وہ کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔ وہ چلی گئی تھی۔
”وہ جو کرتی ہے، اسے کرنے دو۔ اگر یہ سب کرنے سے وہ ٹھیک ہوسکتی ہے تو یہ سب کچھ مہنگا نہیں ہے۔ دے دینے دو جو دینا چاہتی ہے۔”
اس کے جانے کے بعد انہوں نے گھبرا کر شیرافگن کو فون کیا تھا اور انہوں نے اسے یہ جواب دیا تھا۔ وہ خاموش ہو گئی تھیں۔
پھر یہ سب کئی ہفتے ہوتا رہا تھا۔ اس نے اپنی تقریباً تمام چیزیں مختلف اداروں کو عطیہ کردی تھیں۔ وہ روز صبح گھر سے پیدل نکل جاتی، کبھی ایس او ایس ویلج جا کر پورا دن وہاں بچوں کو پڑھاتی رہتی یا پھر چھوٹے بچوں کو سنبھالتی، کبھی فاؤنٹین ہاؤس جا کر شیز و فرینیا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتی۔ زندگی میں پہلی بار اس نے ویگنوں میں سفر کرنا سیکھا تھا۔ لوگوں کے ہجوم میں دھکے کھاتے ہوئے سکڑتے سمٹتے ہوئے اپنے لیے جگہ بناتے ہوئے اس نے اس تکلیف کو محسوس کیا تھا، جو اس کے ارد گرد نظر آنے والے عام لوگوں کا مقدر تھی۔ زندگی میں پہلی بار وہ اپنے چیزیں خریدنے ان معمولی بازاروں کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں جانے لگی تھی پہلے جن کے تصور سے بھی اس کا دم گھٹتا تھا۔ اپنے وجو دکو سر سے پاؤں تک ایک سیاہ چادر سے چھپائے وہ لوگوں کے چہرے حسرت سے دیکھتی ہر چہرے کو دیکھ کر اسے یوں لگتا جیسے اللہ اس سے ہی محبت کرتا ہو گا۔
اس دن اپنے گھر کی طرف آتے ہوئے اسے اچانک کچھ یاد آیا تھا۔ اس نے سڑک پر چلتے ہوئے اچانک پیروں سے چپل اتار کر پیدل گرم سڑک پر چلنا شروع کر دیا تھا۔ گرم سڑک اور اس پر پڑے ہوئے پتھر اس کے پیروں کے تلوؤں کو جھلسانے لگے تھے۔ سڑک پر اکا دکا ٹریفک آرہی تھی۔ وہ گیلی آنکھوں اور جلتے تلوؤں کے ساتہ دور تک چلتی رہی پھر جب تکلیف اس کی برداشت سے باہر ہو گئی تو اس نے چپل پیروں میں پہن لی۔
”اور جب حضور ۖ اپنے صحابیوں رضوان اللہ علیہم کو ہدایت دیتے تھے کہ وہ آسائش کو عادت نہ بنائیں اور کبھی کبھار ننگے پاؤں بھی چلیں تو وہ انہیں اس تکلیف سے مانوس کرنا چاہتے تھے جسے میں برداشت نہیں کر سکی اور جو بہت سے لوگوں کا مقدر ہوتی ہے۔”
اسے اپنے پیروں میں اب بھی جلن محسوس ہو رہی تھی اور اب اسے ان لوگوں کے گندے اور ننگے پیروں سے گھن نہیں آرہی تھی جو کسی جوتے سے بے نیاز سامان کندھوں پر اٹھائے اِدھر اُدھر جاتے اسے نظر آتے تو اسے وحشت ہوتی۔ گھر آکر اس نے الماری میں پڑے ہوئے چند آخری جوتے بھی نکال لیے تھے۔
”امینہ! یہ لو یہ جوتے تم پہن لینا۔” وہ جوتے لے کر گھر کے پیچھے سرونٹ کوارٹر گئی تھی اور وہاں اس نے اپنی نوکرانی کے پیروں میں اتنی عقیدت اور عاجزی سے جھک کر وہ جوتے رکھے تھے کہ وہ گھبرا گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی مالکہ سے کچھ کہتی، وہ وہاں سے آگئی تھی۔
”بی بی کے دماغ کو واقعی کچھ ہو گیا ہے۔”
امینہ نے نئے جوتے اٹھاتے ہوئے ہمدردی سے اپنی مالکہ کے بارے میں سوچا تھا۔




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!