شہرِذات — عمیرہ احمد

کنارے سے اوپر سڑک پر جانے کے لیے انہوں نے چلنا شروع کیا تھا جب فلک نے پھٹے کپڑوں اور لمبے بالوں اور داڑھی والے ایک فقیر کو دیکھا تھا۔ وہ دریا کے کنارے سے کچھ فاصلے پر بیٹھا تھا۔ اس کی داڑھی اور بالوں میں کیچڑ لگا ہوا تھا اور پھٹے کپڑوں میں سے اس کا سیاہ سوکھا ہوا جسم نظر آرہا تھا۔ اس نے اپنی قمیص کے دامن میں کچھ پتھر اکٹھے کئے ہوئے تھے اور وہ وقفے وقفے سے گڑھے میں پتھر پھینک رہا تھا۔ پتھر گرنے پر کیچڑ اور پانی اچھل کر ادھر ادھر گر رہا تھا۔ ان دونوں کو فقیر کے سامنے گزر کر جانا تھا اور فلک کا خیال تھا کہ ان کے گزرتے وقت فقیر پانی والے گڑھے میں پتھر نہیں پھینکے گا یہی اطمینان لیے وہ باتیں کرتی ہوئی سلمان کے ساتھ اس گڑھے کے پاس سے گزرنے لگی اور اسی وقت فقیر نے اپنی گود میں رکھا ہوا سب سے بڑا پتھر اٹھا کر گڑھے میں پھینکا تھا۔ ایک چھپاکے کے ساتھ گدلا پانی اڑ کر فلک کے چہرے اور لباس کو داغدار کر گیا تھا۔ سلمان دوسری جانب تھا اس کے کپڑوں پر بھی چھینٹے پڑے مگر ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی مگر فلک کے سفید لباس پر وہ کیچڑ بہت نمایاں ہو گیا تھا۔
”یوایڈیٹ! اندھے ہو تم، نظر نہیں آتا تمہیں کہ کوئی گزر رہا ہے۔” وہ غصے کے عالم میں چلائی تھی۔
”میں واقعی اندھا ہوں۔ مجھے دنیا نظر نہیں آتی۔”
وہ ا سکی بات پر ایک لمحے کے لیے ساکت ہو گئی تھی۔ اپنے حلیے کے برعکس اس فقیر کی آنکھوں اور آواز میں بہت سکون، بہت ٹھہراؤ تھا۔ اس کا لب و لہجہ بہت شائستہ تھا۔ وہ ان پڑھ نہیں لگتا تھا۔
”اگر اندھے ہو تو یہاں بیٹھ کر لوگوں کو گندا کیوں کر رہے ہوں جاؤ کہیں اور جا کربیٹھو یا اپنے ہاتھوں پر قابو رکھو۔” اس کا غصہ پھر عود کر آیا۔ اس نے ٹشو نکال کر چہرے سے کیچڑ صاف کرنا شروع کیا تھا۔
”بیبی! تو گندگی سے کیوں ڈرتی ہے۔ تجھے کیا لگتا ہے، یہ کیچڑ تجھے کسی کی نظر سے اوجھل کر دے گا۔ تجھے لگتا ہے اتنا سا کیچڑ اس شخص کی محبت کو ختم کر دے گا۔”
اس بار اس نے عجیب سے لہجے میں سلمان کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا تھا۔
”اس شخص کی پرواہ نہ کر۔ اللہ کی پرواہ کر۔ اللہ کو کیچڑ اور گندگی سے غرض نہیں ہوتی۔ اس کی نظر میں جو ایک بار آجاتا ہے۔ ہمیشہ رہتا ہے اور اس نظر کو کیچڑ کی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ دیکھو دیکھو۔”
وہ ایک دم اٹھ کر کیچڑ کے اس گڑھے کے پاس آکر بیٹھ گیا اور پھر اس نے کیچڑ نکال نکال کر اپنے چہرے اور لباس پر ملنا شروع کر دیا۔
”دیکھو، میں تو کیچڑ سے نہیں ڈرتا۔ میں تو گندگی سے خوف نہیں کھاتا۔ جانتا ہوں۔ اس کی نظر اس کیچڑ اور گندگی پر نہیں جائے گی۔ وہ صرف میرے وجود کو دیکھے گا۔”
اس بار بات کرتے ہوئے وہ ہذیانی کیفیت میں تھا۔ وہ ٹشو کے ساتھ چہرہ صاف کرتے ہوئے اسے دیکھتی رہی اور اس کے اشتعال میں اضافہ ہوتا گیا تھا۔ ”میں جس کی نظر میں ہوں، میرے لیے کافی ہے۔ مجھے جس کی محبت چاہئے، مل چکی ہے مجھے اورکسی کی محبت کی پرواہ نہیں ہے۔”
”یہ تو دروازہ ہے، دروازے کا کام رستہ دینا ہوتا ہے یا رستہ روکنا، تیرا رستہ اس نے روک دیا ہے۔ تیرا ہی کیا ہر عورت کا رستہ اس نے روک دیا ہے۔ آگے جانے ہی نہیں دیتا۔ اسے لے کر کیا کرے گی تو یہ کُل نہیں ہے بی بی! یہ کُل نہیں ہے۔ تو کُل کی خواہش کیوں نہیں کرتی وجود کی طلب کیوں ہے تجھے۔ ذات کی چاہ کیوں نہیں ہے؟” اس کا ہاتھ ایک بار پھر سلمان کی طرف اٹھا ہوا تھا۔
”تم بھکاری لوگ رستے میں بیٹھ جاتے ہو اور پھر بکواس کرنا شروع کر دیتے ہو چلو سلمان۔”





اس نے یک دم سلمان کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے چلنا شروع کر دیا جو اب تک بالکل خاموشی سے ساری گفتگو سنتا رہا تھا۔
”ہر ایک کو بھکاری بنا کر رستے میں بٹھایا ہوا ہے اور ہر ایک خود کو مالک سمجھتا ہے جب تک ٹھوکر نہیں لگتی، جب تک گھٹنوں پر نہیں گرتا۔ اپنی اوقات کا پتا ہی نہیں چلتا۔ وجود کے نصیب میں ہے بھکاری ہونا، بس ذات بھکاری نہیں ہو سکتی۔ وجود کے مقدرمیں مانگنا ہے، ذات کا وصف دینا ہے۔ میں کیا، تو کیا بی بی! سب بھکاری ہیں۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، کبھی نہ کبھی بھکاری بننا ہی پڑتا ہے۔ مانگنا ہی ہوتا ہے۔ کوئی عشق مانگتا ہے کوئی دنیا اور جو یہ نہیں مانگتا وہ خواہش کا ختم ہو جانا مانگتا ہے۔”
وہ فقیر بلند آواز میں بڑبڑاتا جارہا تھا۔ اوپر سڑک کی طرف جاتے ہوئے بھی اس کی بڑبڑاہٹ اس کے کانوں میں آرہی تھی اور اس کے اشتعال میں اضافہ ہو رہا تھا۔
”تم بھی عجیب ہو سلمان! تم سے اتنا نہیں ہوا کہ اسے جھڑک ہی دو، وہ کس طرح مجھ سے بات کر ہا تھا۔ مگر تم بالکل چپ کھڑے رہے۔” اس نے یک دم سلمان سے کہنا شروع کیا تھا۔
”میں کیاکہتا اسے، وہ کوئی پاگل تھا۔ اس سے بحث کرکے مجھے کیا ملتا؟ تم نے بھی تو بحث کی ہے کیا فائدہ ہوا؟ بہتر تھا، تم بات بڑھاتیں ہی نہ خاموشی سے نظر انداز کرکے وہاں سے آجاتیں۔”
سلمان نے اس سے کہا تھا۔ وہ اس کی بات پر کچھ اور بھڑک اٹھی۔ ”اسے نظر انداز کرکے آ جاتی تاکہ وہ کسی اور کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتا، پاگل نہیں تھا وہ، ڈھونگی تھا۔ دیکھا نہیں کس طرح کی باتیں کر رہا تھا۔ کیا باتوں سے اس کے پاگل پن کا پتہ چلتا ہے؟ نئے نئے طریقے اپنائے ہوئے ہیں ان لوگوں نے بھیک مانگنے کے۔ ہر جگہ بیٹھ جاتے ہیں اور تمہارے جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی ان کا حوصلہ اتنا بڑھ جاتا ہے۔ میرا تو دل چاہ رہا تھا، میں وہی پتھر اٹھا کر اس کے سر پر ماروں۔ اسے پتا تو چلے۔ اندھا ہے وہ الو کا پٹھا۔” اس کا غصہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔
”کول ڈاؤن یار! اب اتنا زیادہ غصہ کرنے کا کیا فائدہ ہے، جو ہو گیا ہو گیا۔ اب ان باتوں کو دہرانے کا کیا فائدہ، گھر چل رہے ہیں، تم کپڑے بدل لینا بلکہ نہا لینا۔ یہ کیچڑ ختم ہو جائے گی تم خوامخواہ اس بات کو سر پر سوار کر رہی ہو۔”
سلمان نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ ”خیر میں کسی بھی بات کو خواہ مخواہ سر پر سوار نہیں کیا کرتی۔ جو بات ٹھیک تھی، میں نے وہی کہی ہے۔ آئندہ کم از کم کسی دوسرے کے ساتھ ایسا کرے ہوئے دس بار سوچے گا۔” اس کا غصہ ابھی بھی کم نہیں ہوا تھا مگر اس نے مزید کوئی بات نہیں کی تھی سلمان نے بھی اس کے خاموش ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا تھا گھر پہنچنے تک اس کے ذہن سے یہ بات نکل چکی تھی۔
اس واقعہ کو تقریباً چھ ماہ گزر گئے جب اس نے سلمان میں کچھ تبدیلیاں نوٹ کرنی شروع کی تھیں۔ شادی کے ڈھائی سال اور اس سے پہلے کے تین سال جو اس نے سلمان کے ساتھ گزارے تھے۔ ان میں اس نے سلمان کو ایک بے حد ٹھنڈے مزاج کا انسان پایا تھا۔ وہ بڑی سے بڑی بات پر بھی فوری ردِّ عمل کا اظہار نہیں کرتا تھا او رنہ ہی غصہ میں آتا تھا بلکہ اپنی ناراضگی کا اظہار بھی بڑے دھیمے لہجے میں کرتا تھا لیکن اب وہ یک دم چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھڑکنے لگا تھا۔
فلک نے پہلے اس بات پر اتنی توجہ نہیں دی۔ لیکن پھر جب ایسا اکثر ہونے لگا تھا تو وہ کچھ پریشان ہوئی لیکن پھر اس نے یہ سوچ کر سب کچھ نظر انداز کرنے کی کوشش کی کہ ہو سکتا ہے فیکٹری کے کسی معاملے کی وجہ سے وہ پریشان ہو۔ اس نے سلمان سے یہ پوچھنے کی کوشش کی تھی مگر ان دنوں وہ اس کی کسی بھی بات کا ڈھنگ سے جواب نہیں دیتا تھا۔ وہ ہر وقت جھنجھلایا رہتا تھا اور کسی بھی چھوٹی سی بات پر اسے فلک پر اپنا غصہ اتارنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اس نے پہلے کی طرح فلک کے ساتھ اس کے میکے جانا چھوڑ دیا تھا بلکہ اسے فلک کے وہاں جانے پر بھی اعتراض ہونے لگا تھا اس کا خیال تھا کہ فلک کو اپنے گھر سے زیادہ اپنے ماں باپ کے گھر میں دلچسپی تھی اور وہ اپنا زیادہ وقت وہاں گزارنا چاہتی تھی۔ جب ایک دوبار اس نے اس طرح کی باتیں کیں تو فلک نے بہتری اسی میں سمجھی کہ وہ فی الحال اپنے والدین کے گھر جانا چھوڑ دے اس کا خیال تھا کہ اگر اس کی ناراضگی اور رویے میں تبدیلی کی وجہ یہ ہے تو یہ وجہ ختم ہونے کے بعد وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا تھا، اس کے اعتراض اور نکتہ چینیوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ پہلے کی طرح اسے وہ ہر شام اسے اپنے ساتھ باہر لے کر نہیں جاتا تھا اور فلک کے اصرار پر وہ بگڑ جاتا تھا اس کا خیال تھا کہ اسے صرف باہر گھومنے پھرنے سے دلچسپی ہے گھر کا کوئی خیال نہیں۔
یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا اور فلک حقیقت میں پریشان ہو گئی تھی پھر ان ہی دنوں وہ گھر سے رات دیر تک غائب رہنے لگا تھا۔ اس سے پہلے اس کی عادت تھی کہ وہ صبح نو بجے فیکٹری جاتا اور شام پانچ بجے گھر آجاتا۔ اگر اسے ایمرجنسی میں کہیں اور جانا پڑتا یا فیکٹری میں رکنا پڑتا تو وہ فلک کو اطلاع دے دیا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ پانچ بجے کے بجائے رات دس گیارہ بجے واپس آنے لگا تھا۔ اگر فلک اس سے پوچھنے کی کوشش کرتی تو وہ کہتا۔
”میری مرضی، میں جب چاہوں گھر میں آؤں اور ضروری نہیں ہے کہ میں جہاں جاؤں، تمہیں اطلاع دے کر جاؤں۔ میں تمہارا ملازم نہیں ہوں۔”
فلک اس کی بات سے زیادہ اس کے لہجے پر روہانسی ہو جاتی۔
”لیکن میں پریشان ہو جاتی ہوں۔”
”تم کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ننھا بچہ نہیں ہوں۔” وہ بات ہی ختم کر دیتا تھا۔
فلک اس صورتِ حال سے بہت پریشان ہو گئی تھی۔ رشنا شادی کے بعد کوئٹہ چلی گئی تھی وہ اس کے ساتھ یہ سب ڈسکس نہیں کر سکتی تھی۔ پھر کچھ سوچ کر اس نے مریم سے بات کی تھی۔ وہ اس کی بات پر جیسے اچھل پڑی تھی۔
”اتنے مہینوں سے سلمان کا یہ رویہ ہے اور تم نے مجھے بتایا تک نہیں۔”
”میں نے تمہیں کیا کسی کو بھی نہیں بتایا۔ میرا خیال تھا وہ کسی وجہ سے پریشان ہے اس لیے وقتی طور پر اس طرح ہو گیا ہے مگر اب تو۔”
”تم احمق ہو جو تم نے اسے اتنی ڈھیل دے دی۔ یہ سب اس کے آگے پیچھے پھرنے کا نتیجہ ہے۔ میرا خیال ہے وہ کسی اور لڑکی کے چکر میں ہے۔”
وہ مریم کے اندازے پر ہکا بکا رہ گئی۔
”تم کیا کہہ رہی ہو مریم؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سلمان اس طرح کا نہیں ہے اور ابھی تو ہماری شادی کو صرف ڈھائی تین سال ہوئے ہیں۔” وہ جیسے خوفزدہ ہو گئی تھی۔
”تم اگر حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتیں تو اور بات ہے ورنہ اس طرح بات بے بات لڑنا، تم میں نقص نکالنا، تمہارے کاموں پر اعتراض کرنا، راتوں کو دیر تک گھر سے باہر رہنا اس سب کا مطلب ایک ہی ہے کہ ان کی زندگی میں کوئی اور موصوفہ آچکی ہیں۔”
وہ ہونق بنی مریم کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تو پھر اب میں کیا کروں مریم؟ اب کیا ہو گا؟”
کچھ لمحے گزرنے کے بعد اسے مریم کی باتوں پر یقین آنے لگا تھا۔
”کچھ نہیں ہوگا، تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس یہ ہے کہ تم ذرا خود پر پہلے سے زیادہ دھیان دو، ذرا اچھے اور ٹھیک ٹھاک قسم کے کپڑے پہنو۔ اس پر زیادہ توجہ دو۔ ہو سکے تو اس کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے کہیں باہر چلی جاؤ جن باتوں پر اسے اعتراض ہے، وہ چیزیں ہونے ہی نہ دو کوشش کرو کہ اسے کسی بات پر اعتراض کا موقع ہی نہ ملے اور پھر بھی اگر وہ ٹھیک نہیں ہوتا تو اس سے صاف صاف بات کرو کہ اس کے اس رویے کی کیا وجہ ہے وہ کیا چاہتا ہے۔”
مریم نے اسے جیسے گر بتانے شروع کر دئیے تھے۔ وہ بڑے انہماک سے اس کی باتیں سنتی رہی، اس کے گھر سے واپسی پر وہ سیدھا گھر جانے کے بجائے بیوٹی پارلر چلی گئی تھی۔ اس نے وہاں جا کر اپنی ہیئر اسٹائل تبدیل کروایا۔
بالوں میں اسٹریکس ڈلوائیں۔ آئی براؤز کی شیپ کو کچھ اور تیکھا کروایا۔ واپس گھر آنے کے بعد اس نے سلمان کا پسندیدہ لباس پہنا تھا مگر میک اپ کرنے کے بعد اس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو دیکھا اسے یقین تھا کہ وہ کبھی بھی اتنی خوبصورت اور فریش نہیں لگی تھی جتنی آج لگ رہی تھی۔
وہ رات گیارہ بجے آیا تھا اور خلافِ معمول اس نے فلک کو لاؤنج میں دیکھا تھا۔ اس نے کچھ حیرانی سے اس کی تیاریوں کو دیکھا تھا اور پھر ایک لفظ بھی بولے بغیر بیڈ روم میں چلا گیا۔ وہ کچھ دل گرفتہ ہوئی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اتنی خوبصورت لگ رہی ہے کہ وہ چند لمحوں تک تو اس سے نظرنہیں ہٹا پائے گا مگر ایسا نہیںہوا تھا۔ اس کی نظر بہت سرسری تھی۔
وہ اس کے پیچھے بیڈ روم میں چلی آئی۔ ”میں کھانا لگادوں؟” خود پر قابو پاکر اس نے بڑے ہشاش بشاش انداز میں پوچھا تھا۔
وہ ایک بار پھر ٹھٹھکا تھا۔ ”کیا میں تمہیں احمق نظر آتا ہوں کہ اس وقت کھانا کھانے بیٹھوں گا۔”
”لیکن میں نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔”
”کیوں نہیں کھایا؟ روز تو کھالیتی ہو تم پھر آج اس خاص عنایت کی وجہ کیا ہے؟ بہر حال کھانا نہیں کھایا تو کھالو۔ یہ تمہارا مسئلہ ہے۔” وہ بیڈ پر بیٹھا ہوا شوز اتار رہا تھا۔
”میں نے آج تمہاری پسند کی ڈشز بنوائی ہیں۔” وہ اب مایوس ہو رہی تھی۔
”مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان ڈشز میں اور ہاں ایک بات اور۔” وہ واش روم کی طرف جاتے جاتے مڑا تھا۔




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!