شہرِذات — عمیرہ احمد

”نہیں مروں گی رشنا! میں نہیں مروں گی۔” وہ مسکرائی تھی۔
”مجھے یقین نہیں آتا کہ سلمان… اس طرح کر سکتا ہے۔ وہ تو تم سے بہت محبت کرتا تھا پھر اسے کیا ہو گیا۔” وہ اس کے پاس کارپٹ پر بیٹھ گئی تھی۔
”اس کا قصور نہیں ہے رشنا! اس کا کوئی قصور نہیں۔ وہ تو وہی دیکھ رہا ہے جو اللہ اسے دکھا رہا ہے۔ وہی کر رہا ہے جو اللہ کروانا چاہتا ہے۔ مجھے اپنے حسن، اپنے وجود پر بڑا غرور تھا نا… اللہ نے مجھے میری اوقات دکھائی ہے۔”
رشنا نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔ وہ بے حد تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔
”جانتی ہو رشنا! میرے ساتھ کیا ہوا۔ میں نے سوچا تھا سلمان کو مجھ سے چھیننے والی مجھ سے بڑھ کر نہیں تو میرے برابر ضرور ہو گی۔ میں یہی سوچ کر اسے دیکھنے گئی تھی فیکٹری، میں نے سوچا تھا اس سے کہوں گی سلمان کے بدلے جتنا روپیہ چاہے لے لے اور اگر وہ میری بات نہ مانتی تو میں اس کے چہرے پر تیزاب ڈال دیتی۔ میں نے اسے بلوایا تھا۔ وہ کمرے میں آئی اور میں نے اسے دیکھا۔ جانتی ہو، رشنا وہ کیسی تھی، ایک موٹے اور بھدے جسم والی۔ سیاہ رنگت والی عورت۔ وہ مسکرا رہی تھی اور اس کے ٹیڑھے میڑھے دانت اس کے چہرے کو اور بھی بدصورت کر رہے تھے۔ اس نے اپنے چہرے کو میک اپ کی دکان بنایا ہوا تھا، کوئی بھی مرد اسے دیکھ کر جان سکتا تھا کہ وہ کس کردار کی عورت ہے مگر سلمان کو اس کے چہرے پر کچھ اور نظر آرہا تھا۔ میں پتھر کی ہو گئی تھی اسے دیکھ کر جان گئی تھی۔ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ساری بات نظر کی ہوتی ہے اور اللہ نے مجھ سے وہ چھین لی تھی۔ مجھے لگا تھا کسی نے پوری دنیا کی گندگی میرے وجود پر اچھال دی تھی۔ مجھے کسی سے کئی شکوہ نہیں رہا تھا نہ سلمان سے نہ تابندہ سے میں جان گئی تھی۔ اللہ کن کہتا ہے تو چیزیں کیسے ہو جاتی ہیں۔ مجھے پتا چل گیا تھا اللہ دل کیسے پھیر دیتا ہے۔ وہ تو عورت تھی۔ بدصورت سہی مگر عورت تھی۔ اللہ چاہتا تو زمین پر پڑے ہوئے ایک پتھر کے لیے سلمان کے دل میں وہ عشق ڈال دیتا جو اس کے دل میں میرے لیے تھا۔ اللہ نے بتایا ہے مجھے چھبیس، سال تم میرے بغیر رہ سکتی ہو اپنے آقا، اپنے مالک، اپنے معبود کے بغیر تو پھر اس شخص کے بغیر بھی رہ سکتی ہو۔ اگر اللہ کی محبت کے بغیر جی سکتی ہو تو کسی بھی شخص کی محبت کے بغیر جی سکتی ہو۔ ممی پاپا سمجھتے ہیں میرے دماغ پر اثر ہو گیا ہے۔ سلمان کی بے وفائی کی وجہ سے… مجھے سائیکاٹرسٹ کے پاس لے کر پھرتے ہیں۔ چھبیس سال اللہ کا نام نہیں لیا تو کس کو خیال نہیں آیا کہ میں ابنارمل ہوں۔ اب چند ماہ سے اللہ کا نام لے رہی ہوں تو ہر ایک کو میں پاگل کیوں لگنے لگی ہوں۔ تم بتاؤ کیا میں پاگل ہوں؟”
رشنا نے سرجھکا لیا۔ فلک کے چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ آگئی تھی۔ اس نے رشنا کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ پھر وہ خاموش ہو گئی۔ دوبارہ نہیں بولی۔
……





وہ دریا کے کنارے پر وہیں آگئی تھی۔ جہاں اس نے اس فقیر کو دیکھا تھا۔ وہاں اب کوئی نہیں تھا۔ اس کے دل پر جیسے ایک گھونسہ پڑا تھا۔ پتا نہیں اسے کیوں آس تھی کہ وہ وہاں ہو گا۔ اس کے انتظار میں، اسے کچھ بتانے، اس کے اعصاب پر ایک عجیب سی تھکن سوار ہو گئی تھی۔ وہ گڑھا ابھی بھی وہیں تھا اس ی طرح پانی اور کیچڑ سے بھرا ہوا۔ وہ اس کے پاس آکر ریت پر بیٹھ گئی تھی۔
”یہاں کیوں بیٹھ گئی ہو فلک؟ اٹھ جاؤ۔” میمونہ نے اسے بیٹھتے دیکھ کر کہا تھا۔
وہ گڑھے کو گھور رہی تھی پھر اس نے اپنا ہاتھ گڑھے میں ڈال کر کچھ کیچڑ بھرا پانی ہاتھ میں لیا تھا۔ اسے یاد آیا تھا اس دن وہ فقیر کس طرح کیچڑ اپنے چہرے اور بالوں پر ملنے لگا تھا۔
”دیکھو۔ میں تو کیچڑ سے نہیں ڈرتا، میں تو گندگی سے خوف نہیں کھاتا جانتا ہوں اس کی نظر اس کیچڑ اور گندگی پر نہیں جائے گی وہ صرف میرے وجود کو دیکھے گا۔”
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ اس نے کیچڑ بھرا ہاتھ اپنے چہرے پر ملنا شروع کر دیا۔ میمونہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی تھیں۔
”کیا کر رہی ہو تم فلک؟” وہ حواس باختہ ہو گئی تھیں۔ انہوں نے پرس سے ٹشو نکال کر اس کا چہرہ صاف کرنا چاہا تھا۔ اس نے ہاتھ پکڑ لیا۔
”رہنے دیں ممی! کچھ دیر تو اس کیچڑ سے میرے چہرے کو سجا رہنے دیں۔” اس نے گھٹنوں میں اپنا منہ چھپا لیا تھا۔
”میں جس کی نظر میں ہوں۔ میرے لیے کافی ہے۔ مجھے جس کی محبت چاہئے مل چکی ہے۔ مجھے اور کسی کی محبت کی ضرورت نہیں ہے۔” اسے یاد تھا۔ اس دن یہاں اس نے یہی کیا تھا۔
”تجھے وجود کی طلب کیوں ہے ”ذات” کی چاہ کیوں نہیں ہے؟” کوئی آواز ایک بار پھر لہرائی تھی۔
”اب مجھے ذات کی چاہ ہے تو ذات کیوں نہیں ملتی۔” اس نے اپنے کیچڑ بھرے ہاتھ کو دیکھا تھا۔ اب اسے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی۔ اس روز اسے بھکاری کے وجود سے گھن آئی تھی۔ اب اسے پتا چل رہا تھا کہ کب کیچڑ کیچڑ نہیں لگتی۔ گندگی گندگی نہیں رہتی وجود کی طلب کیسے ختم ہو جاتی ہے۔
”ہر ایک کو بھکاری بنا کر رستے میں بٹھایا ہوا ہے۔ ہر ایک خود کو مالک سمجھتا ہے۔ جب تک ٹھوکر نہیں لگتی۔ جب تک گھٹنوں کے بل نہیں گرتا۔ اپنی اوقات کا پتہ ہی نہیں چلتا۔”
”فلک پھر رونے لگی ہو۔ چلو گھر چلیں۔ میرا خیال تھا تم یہاں آکر ریلیکس ہو جاؤ گی۔ خوش ہو گی مگر تم یہاں آکر بھی… چلو گھر چلیں۔”
میمونہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھالیا تھا۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے ان کے ساتھ چلنے لگی۔ سڑک پر چڑھنے سے پہلے اس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔ پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔
……
اس کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھیں۔ کوئی سائیکاٹرسٹ اسے نارمل نہیں کر سکا تھا۔ وہ سارا دن جہاں بیٹھتی بیٹھی رہتی جب اذان کی آواز آتی تو کسی معمول کی طرح اٹھ کر نماز پڑھنے لگتی۔ میمونہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتیں، اور اس کی باتیں پھر اسی ایک محور ایک مرکز کے گرد گھومنے لگتیں۔ اللہ، خدا، رب، مالک، آقا، معبود، میمونہ کو لگتا وہ جب تک ایسی باتیں نہیں چھوڑے گی تب تک نارمل نہیں ہو سکتی۔ اس کے سلوٹوں سے بھرے ہوئے کپڑے اور جیولری اور میک اپ سے خالی چہرہ انہیں وحشت میں مبتلا کر دیتا۔ انہیں وہ پہلے والی فلک یاد آجاتی جس کی ایک ایک چیز نفاست کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ وہ اسے بیوٹی پارلر لے جانے کی کوشش کرتیں تو وہ چلانے لگتی۔ وہ اسے کسی فنکشن میں لے جانا چاہتیں تو وہ کمرہ بند کر لیتی۔
”اس طرح کمرے میں بند رہ کر تم مر جاؤ گی فلک! خود کو اس طرح تباہ نہ کرو کہیں آیا جایا کرو کہیں باہر چلو۔”
انہوں نے ایک دن اس سے کہا تھا۔ وہ خالی آنکھوں سے انہیں دیکھتی رہی۔
”باہر جانے سے کیا ہو گا ممی؟ کیا مل جائے گا باہر؟” کچھ دیر بعد اس نے تھکے تھکے انداز میں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا تھا۔
”اندر رہ کر اس طرح گھر میں بند ہو کر کیا مل رہا ہے تمہیں؟”
اس کی امی آج بحث کے موڈ میں تھیں۔
”ہاں، کچھ نہیں مل رہا اندر رہ کر بھی مگر باہر جا کر لوگوں کو دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔ میں کہیں چھپ جانا چاہتی ہوں ممی! اس طرح کہ دوباہر کسی کو نظر آؤ نہ کوئی مجھے دیکھ سکے۔”
اس کا لہجے اتنا عجیب تھا کہ میمونہ ہول کر رہ گئی تھیں۔
”سلمان کو بھول جاؤ، دفع کردو اسے۔ اس کے لیے کیا جوگ لے لو گی۔” انہوں نے جیسے اسے بہلانے کی کوشش کی تھی۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔
”سلمان! سلمان کو کون یاد کرتا ہے ممی! اس کے لیے کون جوگ لیتا ہے۔ وہ تو انسان ہے انسانوں کے لیے کون جوگ لیتا ہے۔ جوگ تو بس۔”
وہ بات ادھوری چھوڑ کر رونے لگی تھی۔
”تم صبر کیوں نہیں کر لیتیں فلک! سب کچھ بھول کیوں نہیں جاتیں؟” وہ ایک ٹک ماں کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”آپ کو کیا پتا ممی! ہر چیز پر صبر نہیں آتا ہر نقصان صبر کرنے والا نہیں ہوتا۔ آپ کو کیا پتا میرے پاس کیا نہیں رہا۔ میرے پاس ایک تنکا تک نہ رہے اور لوگوں کو پوری دنیا مل جائے تو مجھے پرواہ نہیں پر جب سوچتی ہوں کہ لوگوں کو ممی لوگوں کو، اللہ مل رہا ہے تو مجھ سے صبر نہیں ہوتا۔ صبر آہی نہیں سکتا اور میرے علاوہ اس وقت سب کے پاس اللہ ہے کوئی محروم ہے تو میں ہوں خالی ہاتھ ہوں تو میں ہوں بد قسمت ہوں تو میں ہوں۔”
وہ ایک بار پھر بچوں کی طرح زار و قطار رو رہی تھی۔ میمونہ بے بسی سے اسے دیکھتی رہیں۔ وہ جانتی تھیں اب وہ کئی گھنٹے اسی طرح بلند آواز سے روتی رہے گی۔ بال بکھرائے، سر پر ہاتھ رکھے، گیلے گالوں، لرزتے وجود، بلند سسکیوں اور آنکھوں میں لہراتی وحشت کے ساتھ وہ فلک کا صرف سایہ لگ رہی تھی۔ ایک پرانا اور بدصورت سایہ۔
اس دوپہر سائیکاٹرسٹ کے کلینک سے واپسی پر ممی نے گاڑی کا رخ لبرٹی کی طرف موڑ لیا تھا۔ انہیں کچھ ضروری چیزیں خریدنی تھیں۔ پارکنگ میں گاڑی پارک کرنے کے بجائے انہوں نے باہر ہی سڑک کے ایک کنارے پر گاڑی پارک کر دی تھی۔
”نہیں، مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔” اس نے ممی کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا۔
”میں گاڑی میں ہی بیٹھتی ہوں۔ آپ کو جو لینا ہے لے آئیں۔”
ممی گاڑی سے اتر کر چلی گئی تھیں۔ وہ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر سڑک پر چلی ہوئی ٹریفک کو دیکھتی رہی، سڑک پر گاڑی کا ایک ہجوم تھا وہ بے تاثر آنکھوں سے کسی روبوٹ کی طرح انہیں دیکھتی رہی۔ پھر اچانک اس نے دس بارہ سال کے چھوٹے سے قد اور دبلے پتلے وجود کے ایک بچے کو پھٹے پرانے کپڑوں اور ٹوٹی ہوئی چپل پہنے بازو پر کچھ اخبار لٹکائے اپنی گاڑی کی طرف آتے دیکھا تھا۔ وہ بچہ پاس آکر ایک اخبار ہاتھ میں پکڑ کر کھڑکی کے شیشے پر دستک دینے لگا۔ اسے کسی اخبار میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی وہ اس طرح راستے میں اخبار لیا کرتی تھی۔ مگر آج بے اختیار اس نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کر دیا تھا۔
”اخبار لے لیں باجی!” اس بچے کی آواز بھی اس کے وجود ہی کی طرح نحیف تھی، وہ اخبار اس کے سامنے لہرا رہا تھا مگر اس کی نظریں گاڑی کے اندر ادھر ادھر گھوم رہی تھیں۔
فلک کو کوئی عجیب سا احساس ہوا تھا۔ ڈیش بورڈ کے ایک کونے میں اس نے کچھ روپے پڑے دیکھے تھے۔ ممی اکثر اپنی گاڑی میں اوپر تھوڑی بہت رقم اس طرح گلو کمپارٹمنٹ اور ڈیش بورڈ کے اوپر ضرور رکھتی تھیں۔ اس نے وہ روپے اٹھا کر اسے بچے کے ہاتھ میں تھما دئیے اس نے کچھ حیرانی سے فلک کو دیکھا تھا یوں جیسے اسے فلک سے یہ توقع نہیں تھی۔
”یہ روپے رکھ لو، مجھے اخبار کی ضرورت نہیں ہے۔”
اس نے نرم آواز میں اس بچے کو مخاطب کیا تھا۔
”مگر یہ تو بہت زیادہ ہیں۔” بچے کی آواز میں کچھ گھبراہٹ تھی۔
”پھر بھی رکھ لو۔”
اس نے روپے اس کے ہاتھ میں تھما دئیے تھے۔ اس بچے کی آنکھوں میں لمحہ بھر کے لیے ایک چمک ابھری تھی پھر وہ سو کا نوٹ جیب میں ڈال کر کھڑکی سے پیچھے ہٹ گیا۔ فلک نے ایک بار پھر گاڑی کا شیشہ اوپر چڑھا لیا۔ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے وہ اس بچے کو دور جاتا دیکھتی رہی۔ چلچلاتی ہوئی دھوپ نے اس کے پورے وجود کو پسینہ سے شرابور کیا ہوا تھا۔ اسے اس بچے پر ترس آیا تھا، پتا نہیں کون سی مجبوری اسے اس عمر میں یوں خوار کر رہی تھی۔ بچہ بہت دور چلا گیا تھا مگر اس کی نظریں ابھی بھی اس پر مرکوز تھیں پھر اچانک اس نے بچے کو بھاگ کر سڑک کراس کرنے کی کوشش کرتے دیکھا اور پھر بائیں سمت سے آنے والی گاڑی نے اسے بہت زور سے چند فٹ اوپر اچھال دیا تھا فلک کے حلق سے بے اختیار چیخ نکلی تھی۔ وہ اب اسے نظر نہیں آرہا تھا سڑک پر گزرے والی ٹریفک نے اسے اس کی نظروں سے اوجھل کر دیا تھا۔ اس نے چند گاڑیوں کو اس جگہ رکتے دیکھا جہاں وہ گرا تھا، پھر فٹ پاتھ پر چلنے والے کچھ لوگ بھی تقریباً بھاگتے ہوئے اس جگہ کی طرف گئے تھے۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی۔
”کیا بات ہے فلک؟ کہاں جارہی ہو؟” ممی گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ رہی تھیں۔
”وہاں ممی! وہاں ایک بچے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔”
اس نے ہاتھ اٹھا کر گاڑی کے کھلے دروازے سے دور اس جگہ کی طرف اشارہ کیا تھا جہاں اب رش بڑھتا جارہا تھا۔ ممی اپنی سیٹ سنبھال چکی تھیں۔




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!