شہرِذات — عمیرہ احمد

اس دن وہ اچھرہ بازار میں کپڑے کی ایک چھوٹی سی دکان پر گئی تھی۔
”مجھے وہ سوٹ دے دیں جو بہت سستا ہو پھر بھی ہر کوئی اس میں نقص نکال کر ناپسند کرتا ہو اور خریدنے سے انکار کر جائے۔”
دکاندار نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔ اس کی اس بات سے اسے اس لڑکی کی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا۔ مگر اس کی شکل و صورت اسے اپنا خیال بدلنے پر مجبور کر رہی تھی۔ کچھ ہچکچاتے ہوئے اس نے ایک سوٹ پیس اس کے سامنے رکھ دیا تھا اس نے کچھ کہے بغیر قیمت ادا کی اور کپڑا اٹھا کر باہر نکل آئی۔
میمونہ اور شیرافگن نے جیسے اس کے حال پر صبر کر لیا تھا۔ ان کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ اب وہ پہلے کی طرح معمولی باتوں پر روتی تھی نہ اس پر ڈپریشن کے دورے پڑتے تھے۔ وہ صبح گھر سے نکلتی اور سہ پہر کو مقررہ وقت پر گھر آجاتی۔پھر خاموشی سے اپنے کمرے میں بیٹھ کر قرآن پاک کا انگلش ترجمہ پڑھتی رہتی۔ ان کا خیال تھا آہستہ آہستہ وہ نارمل ہوتی جائے گی اور پھر وہ سلمان سے طلاق لے کر اسے باہر بھجوا دیں گے۔ انہوں نے اس کے منہ سے یہاں آنے کے بعد کبھی سلمان کا ذکر نہیں سنا تھا۔ اس سے کوئی شکوہ اس کی کوئی شکایت اپنا کوئی پچھتاوا وہ انہیں کچھ بھی نہیں بتاتی تھی۔
رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ رمضان کے پہلے جمعے کو وہ صلوٰة التسبیح پڑھنے شہر کے وسط میں واقع ایک جامع مسجد میں آئی تھی۔ ویگن سے اترنے کے بعد مسجد کی طرف آتے ہوئے اس نے فٹ پاتھ پر ایک درخت کے نیچے ایک بوڑھے آدمی کو کچھ روپے گنتے دیکھا تھا۔ وہ لاشعوری طور پر اس آدمی سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔ وہ آدمی مختلف مالیت کے مڑے تڑے اور میلے کچیلے نوٹ اور سکے فٹ پاتھ پر گن گن کر رکھتا جارہا تھا۔ ایک بار گننے کے بعد اس نے دوبارہ روپے گننے شروع کر دئیے تھے۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر نظر آرہا تھا۔ وہ وہیں کھڑی اسے بار بار روپے گنتے دیکھتی رہی۔ وہ یا تو بار بار گنتی بھول رہا تھا یا پھر اس کے روپے کم تھے۔ فلک بے اختیار سی اس پاس آگئی تھی۔
”کیا بات ہے بابا؟” بوڑھے آدمی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا پھر لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
”بیں روپے کہیں گر گئے ہیں میری کل کی دیہاڑی میں سے۔”
فلک نے چند لمحے اس بوڑھے آدمی کے جھکے ہوئے سر کو دیکھا تھا اور پھر اپنی چادر کے پلو کو کھول کر اس میں بندھے ہوئے روپے نکال لیے تھے پچاس کا نوٹ تڑوا کر اس نے دس روپے ویگن والے کو کرائے کے طور پر دئیے تھے۔ باقی چالیس روپے اس نے پلو میں باندھ لئے تھے۔ اب وہ چالیس روپے اس نے جھک کر اس بوڑھے آدمی کے سامنے رکھ دئیے تھے۔
”یہ لیں بابا” وہ دھیمے قدموں سے چلتے ہوئے مسجد کی طرف بڑھ گئی تھی۔ آج وہ پہلی بار بالکل خالی ہاتھ تھے۔ لیکن اسے کوئی رنج نہیں تھا۔ وہ جانتی تھی واپسی پر اسے چار میل کا فاصلہ پیدل طے کرنا ہو گا۔ وہ بھی روزے کی حالت میں ۔ مگر وہ اس چیز کے بارے میں نہیں سوچ رہی تھی۔
صلوٰة التسبیح کی نماز پڑھنے کے بعد وہ مسجد سے باہر نکل رہی تھی۔ جب اچانک بغیر کسی وجہ کے اس کا دل بھر آیا تھا۔ پتا نہیں کیوں اس کا دل گھر جانے کو نہیں چاہا تھا۔ وہ سیڑھیوں کے ایک کنارے پر بیٹھ گئی۔ عورتیں مسجد کے اس مخصوص دروازے سے نکل کر جارہی تھیں وہ گھٹنوں میں سر چھپائے وہیں بیٹھی رہی۔





”تجھے کیا ہوا ہے؟” کسی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تھا۔ اس نے سر اٹھایا۔ وہ ایک بوڑھی عورت تھی جو اس کے سامنے سیڑھی پر کھڑی تھی۔
”پتا نہیں اماں۔” اس نے کہا تھا۔
”کس کے ساتھ آئی ہے؟” اس عورت نے اِدھر اُدھر دیکھ کر پوچھا تھا۔
”پتا نہیں۔”
”روتی کیو ںہے؟” اس عورت کی نظر اب اس کے چہرے پر تھی۔
”یہ بھی پتا نہیں۔”
”کوئی بیماری لگ گئی ہے؟” اس عورت کی آواز میں اب تشویش تھی۔
”بیماری نہیں اماں! روگ۔”
”ہائے ہائے! اس جوانی میں روگ لگ گیا۔” اب اس کی آواز میں ہمدردی تھی۔
”یہ روگ جوانی میں ہی لگتے ہیں اماں۔”
”گھر کیوں نہیں جاتی؟”
”گھر ہو تو جاؤں۔”
”گھر چاہئے؟”
”نہیں”
”تو پھر؟” وہ عورت اب حیران تھی۔ وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس عورت کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تمہیں کیا بتاؤں اماں کیا چاہئے؟”
”تو بتا تو سہی۔” عورت نے اصرار کیا۔
”بتانے سے مل جائے گا کیا؟”
”سب کچھ بتانے سے ہی ملتا ہے۔ نہ بتانے سے کیسے ملے گا۔ مانگنا پڑتا ہے۔ کہنا پڑتا ہے۔ منت کرنی پڑتی ہے، وجود کے نصیب میں ہے بھکاری ہونا بس ذات بھکاری نہیں ہو سکتی۔”
وہ سن ہو گئی تھی۔ایک سرد لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سے گزر گئی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر بوڑھی عورت کا چہرہ دیکھا تھا۔
”وجود کے مقدر میں مانگنا ہے۔ ”ذات” کا وصف دینا ہے۔ کوئی عشق مانگتا ہے، کوئی دنیا اور جو یہ نہیں مانگتا وہ خواہش کا نہ ہونا مانگتا ہے۔”
اس نے بے اختیار اس بوڑھی عورت کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے پوری طاقت سے یوں جیسے وہ غائب ہو جائے گی۔
”تو بتا، تجھے کیا چاہئے؟” پچھلے ایک سال سے جو فقرے رات دن اس کے کانوں میں گونجتے رہتے تھے۔ وہ انہیں سننے میں غلطی نہیں کر سکتی تھی۔ پورے دو سال بعد اس نے ایک بار پھر وہی کلمات اس عورت کے منہ سے سنے تھے جو دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے اس فقیر نے کہے تھے۔
”ہاں تو بتا، تجھے کیا چاہئے؟” عورت ایک بار پھر سے اس سے پوچھ رہی تھی۔ اس کا پورا وجود کسی پتے کی طرح لرز رہا تھا۔
”مجھے کُل چاہئے۔ مجھے ذات چاہئے۔ مجھے اللہ چاہئے، صرف اللہ چاہئے۔”
وہ کسی ننھے بچے کی طرح اس کا ہاتھ پکڑ کر بلکنے لگی تھی۔
”اس سے کہو۔ مجھے دیکھے اس سے کہو۔ مجھ پر نظر کرے، ایک بار ایک لمحہ کے لیے، میں دیکھنے کے قابل نہیں ہوں پر اس سے کہو مجھے دیکھے اسے کہو میرے گندے وجود پر بھی ایک بار اپنی نظر کرے۔ اسے تو ٹھوکر مارنا نہیں آتا۔ اسے تو دھتکارنا نہیں آتا۔ وہ تو فرق نہیں کرتا۔ وہ تو آس نہیں توڑتا۔
اس نے اب عورت کا ہاتھ چھوڑ کر اس کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ دئیے تھے۔
”تجھے بنایا ہے اس نے تو کیا تجھے چھوڑ دے گا؟ کبھی ماں میلے میں بچے کی انگلی چھوڑتی ہے۔ اگر چھوٹ بھی جائے تو بچہ اتنا بے قرار نہیں ہوتا جتنی ماں ہوتی ہے۔ پھر اللہ انسان کو کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ تجھے کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ اس کی نظر میں جو ایک بار آجاتا ہے ہمیشہ رہتا ہے۔”
اس نے اس عورت کے منہ سے ایک بار پھر وہی لفظ سنے تھے۔ اس نے سیڑھی سے ٹیک لگا لی۔ ایک عجیب سی ٹھنڈک اسے اپنے حصار میں لے رہی تھی۔ بہت گہرا سکون اس کے اندر اترتا جارہا تھا اس کے آنسو تھم گئے تھے۔
”گھر جا، اب اور کیا چاہئے تجھے؟”
اس عورت نے ایک بار پھر اس سے کہا تھا۔اس نے گہرا سانس لے کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔
”چلی جاؤں گی اماں! اب واقعی اور کیا چاہئے۔”
بڑبڑاتے ہوئے اس نے آنکھیں کھول دیں، سامنے سیڑھی پر کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ عورت غائب ہو چکی تھی۔ وہ پرسکون انداز میں وہیں بیٹھی رہی اس نے اسے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
……
وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی تھی۔ بہت عرصے بعد اس نے آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے وجود کو دیکھا تھا۔ ایک سال نے کتنی بہت سی تبدیلیاں کر دی تھیں۔ ہر چیز میں، باطن میں، ظاہر میں اس نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تھے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے دائیں ہاتھ سے چہرے کے ہر حصے کو چھوا تھا۔ آج کچھ بھی دلفریب نہیں لگ رہا تھا۔ آج پہلے کی طرح اپنا وجود آئینے میں دیکھ کر اس پر سحر نہیں ہو رہا تھا۔ اسے ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا تھا۔ پورے ایک سال بعد وہ آج بیوٹی پارلر گئی تھی۔ ممی کے ساتھ وہ بہت خوش تھیں اس کے نارمل ہو جانے پر ممی نے اس کا فیشل کروایا تھا، پلکنگ، تھریڈنگ، بلیچنگ وہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی رہی تھی۔ اس نے پہلے کی طرح بیوٹیشن کے کام میں باربار مداخلت نہیں کی تھی نہ ہی کوئی اعتراض کیا تھا۔
بیوٹی پارلر سے نکلتے ہوئے اس نے جسم کے گرد لپٹی ہوئی چادر کو ایک بار پھر اچھی طرح لپیٹ لیا تھا۔ میمونہ کے ماتھے پر کچھ شکنیں ابھری تھیں۔
”کوئی بات نہیں، آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی۔” انہوں نے خود کو دل ہی دل میں سمجھایا تھا۔
”تم نے اپنی اسکن کا ستیاناس کر لیا ہے۔”
گاڑی میں بیٹھ کر انہوں نے فلک سے کہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ ابھری تھی۔
”اللہ نے میرے دل کے داغ صاف کر دئیے ہیں، چہرے کی مجھے فکر نہیں ہے۔”
میمونہ خاموش رہی تھیں وہ نہیں چاہتی تھیں۔ وہ دوبارہ پہلے جیسی باتیں کرنے لگے۔
اور اب وہ آئینے کے سامنے کھڑی دیکھ رہی تھی اسی وجود کو جس سے اسے عشق تھا، فخر تھا اور اب سب کچھ جیسے دھواں بن کر اڑ چکا تھا۔ عشق بھی، فخر بھی وہ ایک گہری سانس لے کر آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی تھی۔
”فلک! فلک! سلمان آیا ہے۔”
ایک دم میمونہ اس کے کمرے میں آئی تھیں۔ خوشی ان کے پور پور سے چھلک رہی تھی اس نے ایک لمحے کو نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا تھا پھر نظر ہٹالی۔
”جانتی ہوں ممی! کہ وہ آگیا ہے۔ جانتی تھی کہ وہ آجائے گا۔”
”وہ اس عورت کو طلاق دے آیا ہے۔ معافی مانگی ہے اس نے، کہتا ہے تمہیں لینے آیا ہے۔” میمونہ نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ ڈالا تھا۔
”برا کیا اس نے۔” چند لمحے ماں کا چہرہ دیکھنے کے بعد اس نے کہا تھا۔
”ٹھیک کیا اس نے بالکل ٹھیک کیا۔ اس عورت کے ساتھ یہی ہونا چاہئے۔ تمہیں کیا پتہ اس نے کس طرح دونوں ہاتھوں سے اس کا روپیہ لٹایا ہے۔ تم تو…”
میمونہ اشتعال میں بول رہی تھیں اس نے ہاتھ اٹھا کر بڑی ملائمت سے ان کی بات کاٹی تھی۔
”می! بس آپ چپ ہو جائیں۔ کچھ نہ کہیں نہ اس عورت کے بارے میں نہ روپے کے بارے میں نہ سلمان کے بارے میں۔”
”وہ تم سے ملنا چاہتا ہے۔” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میمونہ نے اس سے کہا تھا۔
”بھیج دیں اسے۔” وہ اب بھی اسی طرح پر سکون تھی۔ میمونہ مسکرا کر کمرے سے نکل گئی تھیں۔
پورے ایک سال بعد دروازے سے وہ وجود اندر آیا تھا جسے دیکھ کر اس کی دھڑکن رک جایا کرتی تھی۔ جس کے چہرے سے وہ کوشش کے باوجود نظر نہیں ہٹا سکتی تھی۔ جس کی آواز اس کے ذہن میں نہیں دل میں گونجتی تھی۔ جس سے چند لمحوں سے زیادہ نظریں ملائے رکھنا اس کے لیے بہت دشوار ہو جاتا تھا۔ آج… آج ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ نہ دل دھڑکنا بھولا تھا نہ اس سے نظر ملانی مشکل ہوئی تھی۔ وہ پرسکون انداز میں اسے کمرے میں آتا دیکھتی رہی۔ وہ شرمندہ تھا یہ اس کے چہرے سے عیاں تھا۔
”السلام علیکم!” گفتگو میں پہل اس نے کی تھی۔ وہ چونکا تھا۔ وہ ہمیشہ ہیلو کہہ کر مخاطب ہوتی تھی اب چند لمحوں کے لیے وہ کچھ نہیں بول سکا پھر اس نے کچھ جھجکتے ہوئے وعلیکم السلام کہا تھا۔
”بیٹھ جاؤ۔” وہ کسی معمول کی طرح صوفہ پر بیٹھ گیا تھا۔
”کیسے ہو؟” وہ اب حیران ہو رہا تھا۔
”ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو؟” اس نے جواباً پوچھا تھا۔
”بہت اچھی ہوں۔”
اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا، سیاہ کاٹن کے لباس میں ملبوس وہ سیاہ ہی رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ وہ بہت دیر تک اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکا تھا۔ اس کا چہرہ خلافِ معمول میک اپ سے عاری تھا اور کوئی بہت ہی خاص کیفیت لئے ہوئے تھا۔
”میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ جانتا ہوں۔ میں یہ بات کہنے کا حق نہیں رکھتا، مگر پھر بھی تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ اس سب کے لئے۔ جو میں نے کیا۔ میں نہیں جانتا، میں نے یہ سب کیسے کیا ہے؟ مگر میں۔” اس نے دھیمی آواز میں کہنا شروع کیا تھا۔
”تمہاری جدائی نے مجھے جس چیز سے نوازا ہے۔ اس کے آگے میرے لئے سلمان انصر یا کسی کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ چھبیس سال کے بعد میں نے ایک سال اللہ کے ساتھ گزارا ہے اور اس پورے سال میں میرا دھیان کسی اور طرف گیا ہی نہیں۔ تمہاری طرف بھی نہیں۔ مجھے کوئی دکھ، کوئی افسوس نہیں ہے کہ ایک سال کے لئے تم نے مجھے جو کچھ دیا وہ چھبیس سال نہیں سے سکے۔ میں نے تو اس پورے سال تمہارے بارے میں سوچا ہی نہیں ہے۔ تم کس کے ساتھ تھے۔ کیوں تھے اس سب کا خیال نہیں آیا پھر تم کیوں شرمندہ ہو؟”
وہ بہت دیر تک کچھ بول نہیں سکا تھا۔ صرف اس کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔
”میرے ساتھ چلو فلک! میں تمہیں لینے آیا ہوں۔” فلک نے اسے دیکھا تھا۔
”کیا میرے لئے اس شخص کی اہمیت اس کمرے میں لٹکے ہوئے پردوں، کارپٹ، صوفہ بیڈ، فریج جیسی نہیں ہو گئی۔ چیزیں ہیں تو ہیں نہ ہوں تو نہ سہی اور میں… میں کسی زمانے میں اس شخص سے اتنا عشق کرتی تھی کہ اس کے علاوہ مجھے کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا اور اب مجھے یہ شخص نظر نہیں آرہا۔”
اس نے سوچا تھا اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی تھی۔
”میں چلوں گی لیکن تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں جس فلک سے تم نے چار سال پہلے شادی کی تھی۔ وہ مر چکی ہے۔ آج تم جسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہو۔ وہ کوئی اور ہے۔ اس فلک کے لئے سب کچھ تم تھے۔ میرے لئے سب کچھ اللہ ہے۔ اس فلک کے پاس صرف ظاہر تھا۔ میرے پاس صرف باطن ہے۔ وہ تماشا دیکھنا بھی پسند کرتی تھی، بننا بھی۔ مجھے یہ دونوں چیزیں پسند نہیں ہیں۔ وہ سوسائٹی میں زندگی گزارتی تھی۔ مجھے گھر کے اندر گزارنا ہے اسے نہ عیب چھپانا آتا تھا نہ جسم میں دونوں کو چھپانا چاہتی ہوں تم اگر ان سب باتوں کے باوجود مجھے ساتھ لے جانا چاہو تو ٹھیک ہے ورنہ واپس چلے جاؤ اپنی اور میری زندگی تباہ کرنے کی کوشش نہ کرو۔”
وہ باریباری اپنے سارے مہرے آگے بڑھاتی گئی تھی۔
”مجھے تمہاری کسی بات پر اعتراض نہیں ہو گا۔ صرف تم میرے ساتھ چلو۔”
اس نے سلمان کو کہتے سنا تھا اور وہ کھڑی ہو گئی تھی۔
گاڑی میں بیٹھنے کے بعد سلمان نے ایک انگلش کیسٹ لگا دی تھی۔ وہ بے حد خوش تھا۔ فلک نے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔ ایک انسان سے محبت ہو جائے تو پھر اس کے بعد بندے کے دل میں کچھ اور نہیں آسکتا اور اگر اللہ سے محبت ہو جائے تو پھر انسان کسی اور سے محبت کرنے کے قابل رہتا ہے؟ وہ بھی کسی انسان سے؟ وجود سے؟ ذات کی چاہ کے بعد وجود کی طلب ختم ہو جاتی ہے اور میرے ساتھ بیٹھا ہوا یہ شخص یہ بات کبھی نہیں جان سکتا کہ اب میرے لئے اس کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہو گیا ہے۔
میں نے ذات کو چاہا تھا۔ ذات کے بعد وجود کا کوئی رنگ آنکھوں کو بھاتا ہے نہ دل کو قید کرتا ہے۔
اس شخص کو گمان ہے سب کچھ پھر پہلے کی طرح ہو جائے گا۔
اللہ کے آنے کے بعد یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ پہلے میں اس کے ساتھ زندگی جیتی تھی۔ اب زندگی بسر کروں گی اور یہ شخص ساری عمر اس خوش فہمی میں رہے گا کہ پہلے کی طرح اب بھی میرے لئے یہی سب سے اہم ہے۔ مگر اسے کیا پتا، میں نے دروازے کو رستہ روکنے نہیں دیا کم از کم ایک عورت کا تو۔”
وہ گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی۔
جدائی۔
بے بسی… تنہائی۔
آنسو۔
کسی کی آس۔
خواہش
عشق لاحاصل
یہ سب کیا ہے؟
جنون کے راستے اور
بے نشاں منزل۔
سلمان انصر اب گانے کی ٹیون کے ساتھ ساتھ سیٹی بجا رہا تھا۔ کھڑکی سے باہر سڑک کو دیکھتے ہوئے فلک کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگنے لگا تھا۔
…ختم شد…




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!