شہرِذات — عمیرہ احمد

”کیا سارا دن اس تماشے سے تمہارا دل نہیں بھرتا جو اب تم رات کو بھی اسے لاد کر بیٹھ گئی ہو۔ تم بیوی ہو، ماڈل یا ایکٹریس نہ بنو۔” اس کا اشارہ اس کے میک اپ اور کپڑوں کی طرف تھا۔ وہ سن ہو گئی تھی۔
”اسے کیا ہو گیا ہے؟ یہ پہلے تو۔ کیا واقعی کوئی دوسری لڑکی۔”
وہ ایک بار پھر خوفزدہ ہو گئی تھی۔ سلمان انصر کے معمولات کو اس کی کسی ”کوشش” نے نہیں توڑا تھا۔ وہ جس طرح چاہتا رہتا جہاں چاہتا جاتا، جب چاہتا گھر آتا اور جب دل چاہتا گھر نہ آتا۔ دن بہ دن فلک کی فرسٹریشن میں اضافہ ہوتا گیا تھا۔
”تمہیں کیا ہوا ہے، مجھے بتاؤ۔ سلمان تمہیں کیا ہوا ہے؟”
وہ اس دن اس کے انتظار میں رات کے دو بجے تک بیٹھی رہی تھی اور اس کے آتے ہی اس نے اس سے پوچھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ جواب دئیے بغیر سیدھا بیڈ روم میں چلا گیا تھا۔ وہ لپکتی ہوئی اس کے پیچھے گئی۔ سلمان اپنی ٹائی کھول رہا تھا۔
”سلمان! میرے ساتھ اس طرح کیوں کر رہے ہو؟ میں نے ایسا کیا کر دیا ہے؟” وہ اس کے مقابل آکر کھڑی ہو گئی تھی۔ وہ سرد نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر بازو پکڑ کر سامنے سے ہٹا کر ڈریسنگ میں چلا گیا۔ وہ برف کے مجسمے کی طرح وہیں کھڑی رہی۔
”میں تمہارے سامنے آتی تھی تو سلمان! تمہارا سانس رک جاتا تھا۔ میں بالمقابل آتی تھی تو تمہاری نظر کو اسیر کر لیتی تھی تمہارے وجود کو ہپناٹائز کر دیتی تھی۔ تم میرے معمول بن جاتے تھے۔ اب تم میں یہ طاقت کہاں سے آگئی کہ تم مجھے سامنے سے ہٹا دو۔ میرا جادو توڑ دو۔ مجھ سے نظر چرا جاؤ۔ سلمان انصر میرا خدشہ ٹھیک ہے۔ تمہارے اور میرے درمیان کوئی تیسرا آگیا ہے، نہیں آگئی ہے۔ کوئی فلک سے بڑھ کر، کوئی فلک سے بہتر اور اب تمہارے وجود پر کیا اسکا جادو چلا کرے گا۔”
اس کا دل چاہ رہا تھا وہ زور زور سے چلائے چیخے اسے بتائے کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتی ہے۔ اسے یاد دلائے کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتا تھا۔ وہ وہیں بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔ وہ چند منٹ بعد نائٹ ڈریس میں ملبوس ڈریسنگ سے باہر آگیا تھا۔ فلک نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس کے چہرے کو پڑھنا شروع رک دیا تھا اسے وہ بے حد تھکا بہت بجھا بجھا لگا تھا۔ سلمان نے اپنے بیڈ کی طرف جاتے ہوئے ایک نظر اس کے چہرے پر دوڑائی تھی۔ اس کے گال آنسوؤں سے بھیگ رہے تھے وہ آنکھیں چرا کر اپنے بیڈ کی طرف چلا گیا۔ فلک کے دل پر جیسے کسی نے گھونسہ مارا تھا۔





”تو اب میرے آنسوؤں میں بھی اتنی طاقت نہیں رہی کہ یہ تمہیں باندھ لیں۔ تمہیں ہلنے نہ دیں۔ کیا ہر چیز آج ہی بے اثر ہو جائے گی۔”
”فلک! اور کچھ بھی کرو مگر میرے سامنے رویا مت کرو۔ میں تمہارے آنسو برداشت نہیں کر سکتا ہوں، دنیا میں کون سی چیز ہے جو تمہیں رونے پر مجبور کرتی ہے، مجھے بتاؤ۔ میں وہ چیز ہی ختم کر دوں گا۔ میں نے تم سے شادی تمہیں رلانے کے لیے نہیں کی ہے۔ تمہارے آنسو دیکھنے کے لیے نہیں کی ہے۔ تم جانتی ہو تمہاری آنکھوں کو خدا نے آنسوؤں کے لیے نہیں بنایا ہے تمہاری آنکھوں کو ہنسنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ فلک! رونے کے لیے نہیں۔ تم روتی ہو تو مجھے لگتا ہے جیسے دنیا میں کچھ بھی باقی نہیں رہا، جیسے دنیا ختم ہو گئی ہے۔”
اسے یاد آرہا تھا، یہ سب اسی شخص نے تو کہا تھا اور آج اس کو میرے آنسو نظر نہیں آئے۔ آج میرے آنسو دیکھ کر کیا اس کے لیے دنیا ختم نہیں ہوئی؟ کیا اس کا سب کچھ باقی رہ گیا ہے۔
وہ یک دم سسک سسک کر رونے لگی تھی۔ وہ بیڈ پر لیٹ کر لائٹ آف کر چکا تھا۔
”فارگاڈ سیک بند کرو یہ رونا دھونا۔ کیا چاہتی ہو تم، کیا میں یہاں نہیں آیا کروں۔ کیا اس گھر سے چلا جاؤں کہیں۔”
وہ ایک دم اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ اس نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا۔ وہ بیڈ پر اپنا سر پکڑے ہوئے بیٹھا تھا۔ فلک نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کر دی۔ کمرے میں روشنی پھیل گئی تھی۔ وہ اپنے بیڈ سے اٹھ کر اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
”تمہیں میں اتنی بری کیوں لگنے لگی ہوں سلمان! بات کرتی ہوں تو تمہیں اچھا نہیں لگتا۔ ہنستی ہوں تو تمہیں برا لگتا ہے۔ روتی ہوں تو تم چلاتے ہو۔ اتنی نفرت کیوں ہو گئی ہے تمہیں مجھ سے ایسے تو کبھی بھی نہیں تھے۔ تم مجھے دیکھنا نہیں چاہتے میری آواز سننا نہیں چاہتے تم ایسے نہیں تھے۔ سلمان! تم کبھی بھی ایسے نہیں تھے۔”
اس نے بات کرتے ہوئے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا۔ اسے جیسے کرنٹ لگا تھا۔ وہ بیڈ سے اٹھ گیا تھا۔
”میں خود نہیں جانتا، مجھے کیا ہو گیا ہے؟”
اس نے فریج کے پاس جاکر پانی کی بوتل نکالی تھی اور اسے کھول کر پانی کے چند گھونٹ پئیے۔ وہ بیڈ پر بیٹھی بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھتی رہی، وہ اب بوتل ہاتھ میں لئے بے چینی سے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔
”کیا تم کسی اور سے محبت کرنے لگے ہو؟”
اس نے سانس روکتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔ وہ یک دم اپنی جگہ ٹھہر گیا تھا۔ اس کے چہرے پر شکست خوردگی تھی۔ تھکے تھکے قدموں سے وہ آکر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔ وہ ابھی تک سانس روکے پلکیں جھپکائے بغیر اس کے جواب کی منتظر تھی۔
”کیا کوئی اور؟” اس نے ایک بار پھر پوچھنے کی کوشش کی۔ اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا تھا۔
”ہاں فلک! میں کسی اور سے محبت کرنے لگا ہوں۔”
اسے پہلی بار پتہ چلا تھا، کانوں میں سیسہ اترنا کسے کہتے ہیں۔ وہ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھے گئی۔ ”کیا فلک کے سوا سلمان انصر کو کسی سے محبت ہو سکتی ہے؟ کیا فلک کے ہوتے ہوئے سلمان انصر کو کسی سے محبت ہو سکتی ہے؟” وہ جیسے گنگ ہو گئی تھی۔
”اب کیا پوچھنا چاہئے؟ وہ کون ہے؟ کیسی ہے؟ یا پھر یہ کہ تمہیں اس سے محبت کیسے ہوئی؟ کیوں ہوئی؟ یا یہ کہ تم اس سے کہاں ملے؟ کیوں ملے؟ یا پھر یہ کہ تم نے مجھ سے یہ سب کیوں چھپایا؟ مجھے دھوکا کیوں دیا؟”
وہ سوالوں کا انبار ذہن میں لیے لرزتے جسم کے ساتھ وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔
”میں نہیں جانتا، یہ سب کیسے ہو گیا۔ میں تمہیں دھوکا نہیں دینا چاہتا تھا، تمہارے ساتھ بے وفائی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر میرے اختیار میں کچھ نہیں تھا۔ یقین کرو فلک! میں نے یہ سب کچھ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔”
وہ سر ہاتھوں میں تھامے بول رہا تھا۔ وہ کسی مجسمے کی طرح اسے دیکھتی رہی۔
”وہ میری فیکٹری میں کام کرتی ہے، پیکنگ ڈپارٹمنٹ میں اس کا نام تابندہ ہے۔”
”کیا وہ بہت خوبصورت ہے؟” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
”خوب صورت؟ تم نہیں جانتیں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے۔ میں اسے اگر دن میں ایک بار نہ دیکھوں تو یقین کرو، میں کچھ اور دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ یقین کرو فلک! میں چاہوں بھی تو کچھ اور دیکھ نہیں پاتا۔ مجھے کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ تم نے کبھی کسی چمگادڑ کو دن کے وقت دیکھا ہے فلک! میں اس کا چہرہ دیکھے بغیر بالکل ویسا ہی ہو جاتا ہوں۔”
وہ بول رہا تھا، فلک کا چہرہ آنسوؤں سے ایک بار پھر بھیگنے لگا تھا۔
”سلمان! کیا وہ تم سے، مجھ سے زیادہ محبت کرتی ہے؟” اس نے ڈوبتے ہوئے جہاز کے کسی بادبان کو کھینچنے کی کوشش کی تھی۔
”ہاں، وہ کرتی ہے، وہ دنیا میں سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔ وہ یہی کہتی ہے اور مجھے اس کی باتوں پر یقین ہے۔” وہ اب اس کا چہرہ دیکھنے لگا تھا۔
”کوئی تمہیں مجھ سے زیادہ کیسے چاہ سکتا ہے؟”
”وہ چاہتی ہے، تابندہ چاہتی ہے۔ میں جانتا ہوں۔”
”وہ جھوٹ بولتی ہے سلمان! وہ غلط کہتی ہے۔” اس نے کسی ننھے بچے کی طرح روتے ہوئے سلمان کا ہاتھ پکڑا تھا۔ اس نے ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑا لیا۔
”نہیں، وہ جھوٹ نہیں بولتی۔ تابندہ کبھی جھوٹ بول ہی نہیں سکتی۔ مجھے اس کے ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف پر یقین ہے۔ میں نہیں جانتا، ایسا کیوں ہے مگر فلک! وہ بولتی ہے تو میرا دل چاہتا ہے، اس پر اعتبار کرنے کو۔ میرا دل گواہی دیتا ہے اس کے ایک ایک لفظ کی سچائی کی۔ اس پر یقین کرنا یا نہ کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے جیسے اس سے محبت کرنا یا نہ کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے۔” وہ کسی آری کے ساتھ اسے کاٹ رہا تھا۔
”تم اس سے محبت کیسے کر سکتے ہو سلمان! تم تو مجھ سے محبت کرتے تھے۔” اس نے جیسے اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔
”مجھے نہیں پتا میں تم سے محبت کرتا تھا یا نہیں مگر مجھے اس سے محبت ہے۔ نہیں محبت نہیں مجھے عشق ہے، یاد ہے۔ تم نے ایک بار کہا تھا فلک! محبت تو رگوں میں خون بن کر بہتی ہے۔ میں نے اسے دیکھا تو مجھے پتا چلا، یہ کیسے ہو تا ہے؟ فلک! میں اسے دیکھتا ہوں تو ہپنا ٹائز ہو جاتا ہوں، وہ جو کہتی ہے میں وہی کرتا ہوں۔ وہ جو چاہتی ہے۔ مجھ سے وہی ہوتا ہے۔ میں اس کی آواز نہ سنوں تو مجھے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی وہ ہنستی ہے تو اس کے ہر قہقہے کے ساتھ میرے دل کی ایک دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ وہ قدم اٹھائے تو میرا دل چاہتا ہے میں زمین بن جاؤں۔ صرف اس لیے کہ اس کے پیروں کے نیچے آجاؤں وہ مجھ پر سے گزرے اس کے پیروں کو بھی اگر کوئی چیز چھوئے تو وہ میرا وجود ہو۔ وہ رکے تو میرا دل چاہتا ہے، دنیا کی ہر حرکت کرنے والی چیز کو روک دوں، ہر چیز کو چاہے وہ انسان ہو یا مشین یا پھر ہوا یا بہتا پانی۔ میں اسے سب کچھ دے دینا چاہتا ہوں سب کچھ، ہر چیز جو میرے پاس ہے۔ میں اسے دے دینا چاہتا ہوں چاہے وہ اسے رکھے یا آگ لگا دے یا کسی کو دے دے۔ مجھے پرواہ نہیں بس میں اسے خوش کرنا چاہتا ہوں۔ اسے بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے، مجھے اس سے عشق ہے۔ تم نہیں جانتیں فلک وہ اگر ایک خنجر لے کر میرے وجود کو کاٹنا شروع کر دے۔ ایک ایک پور، انگلی، ہاتھ، کلائی، بازو، کہنی، کندھا تو میں میں اسے اپنا ایک ایک حصہ دیتا رہوں گا۔ کسی ہچکچاہٹ، کسی اعتراض کے بغیر اسے حق ہے چاہے تو مارے چاہے تو کاٹے چاہے تو جلا دے۔ مگر سب اپنے ہاتھ سے کرے اپنے ہاتھ سے میں نہیں جانتا فلک، یہ سب کیسے ہوا ہے؟ کیوں ہوا ہے مگر یہ سب ہو چکا ہے۔ میں تابندہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہوں میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں۔ ہر چیز کے بغیر رہ سکتا ہوں۔ مگر اس کے بغیر نہیں۔ اس کے بغیر رہوں گا تو نہ مجھے کچھ نظر آئے گا، نہ میں کچھ سن سکوں گا نہ کچھ بول سکوں گا۔ میں ایسی زندگی گزارنا نہیں چاہتا فلک! میں ایسی زندگی گزارنا نہیں چاہتا۔”
وہ اب رو رہا تھا۔ اسے یاد نہیں تھا اس نے کبھی سلمان انصر کو روتے دیکھا ہو، یوں بلک بلک کر پھوٹ پھوٹ کر زار و قطار اور وہ بھی ایک عورت کے لیے۔ ایک دوسری عورت کے لیے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اسے بتائے کہ میرے لیے تم وہی سب کچھ ہو جو وہ تمہارے لیے ہوگئی ہے۔ میں بھی تمہیں دیکھے بغیر اندھی ہو جاتی ہوں۔ میں بھی تمہاری آواز سنے بغیر کچھ اور سننے کے قابل نہیں رہتی۔ میں بھی تم سے باتیں کیے بغیر کسی دوسرے سے بات نہیں کر سکتی پھر تمہیں یہ سب کچھ پتا کیوں نہیں چلا۔ مگر وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ خاموش بیٹھی اسے دیکھتی رہی تھی۔
”میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں فلک! تم اجازت دو گی تو بھی، نہیں دو گی تو بھی میں اس سے شادی کر لوں گا۔ مگر میں چاہتا ہوں یہ کام تمہاری رضامندی سے ہو۔ ہم دونوں نے بہت سا وقت اکٹھے گزارا ہے۔ اچھا وقت گزارا ہے۔ میں تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتا۔ میں تمہیں ناراض بھی نہیں کرنا چاہتا مگر میں تابندہ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تم تو محبت کرتی ہو مجھ سے۔ جو محبت کرتے ہیں وہ تو بہت بڑی بڑی قربانیاں دے دیتے ہیں کیا تم مجھے اس سے شادی کی اجازت نہیں دے سکتیں۔”
وہ اب اس کا ہاتھ تھامے اس سے کہہ رہا تھا۔ صورِ اسرافیل کیسا ہو گا؟ وہ اب اندازہ لگا سکتی تھی۔
”میں بھی تو تم سے محبت کرتی ہوں، اتنی نہیں بلکہ اس سے زیادہ محبت جتنی وہ لڑکی تم سے کرتی ہے۔”
اس نے اپنے مہروں کو آگے بڑھانے کی آخری کوشش کی تھی۔ وہ مایوسی سے اس کا ہاتھ جھٹک کر کھڑا ہو گیا تھا۔




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!