داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

’’آج میرے پاس تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔‘‘ فیصل آئینے کے سامنے کھڑی ثنا کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ وہ اپنے بالوں میں برش کررہی تھی۔ فیصل نے اس کے ہاتھ سے برش لے لیا اور اس کے کمر تک آئے بالوں میں پھیرنے لگا۔
’’کیسا سرپرائز ؟‘‘ ثنا نے اسے آئینے میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’میں تمہیں کہیں لے کر جارہا ہوں ۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ اس نے بہ غور فیصل کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’تم بتاؤ۔ کہاں جانا تمہاری سب سے بڑی خوشی ہے؟‘‘
ثنا نے نظریں جھکا لیں ۔ فیصل نے برش ہاتھ سے رکھ کر اس کا رُخ اپنی طرف موڑا۔
’’بتاوؑ نا!‘‘ فیصل نے اس کے ماتھے پر آئے ہوئے بال ہٹاتے ہوئے پوچھا:
’’کہاں جانا چاہتی ہو تم ؟‘‘
’’In the arms of my husband.‘‘ ثنا نے نظریں جھکائے جھکائے کہا۔
’’اُف تمہاری انہی باتوں نے تو مجھے دیوانہ بنا دیا ہے۔‘‘ فیصل نے نرمی سے اسے بازووؑں میں لے لیا۔
اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی تو ثنا کسمسا کر پیچھے ہونے لگی۔
’’رہنے دو! خود ہی چلا جائے گاجو بھی ہوگا۔‘‘ فیصل نے اس کے بالوں میں منہ چھپائے سرگوشی کی۔
لیکن وہ جو بھی تھا جانے کے موڈ میں نہیں تھا ۔ چوتھی دستک پر فیصل نے غصے سے دروازہ کھولا ۔
آگے ریسٹ ہاوؑس کا چوکی دار کھڑا تھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ فیصل نے تحمل سے پوچھا۔
’’سر یہ رقعہ ہے آپ کے نام، ارجنٹ ہے۔‘‘ چوکی دار نے اسے لفافہ پکڑاتے ہوئے کہا۔
فیصل کاغذ ہاتھ میں لیے پلٹا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ ثنا نے پوچھا۔
’’تمہارا سرپرائز ہے تمہیں یاد ہے ایک مرتبہ تم نے مجھ سے ایک فرمائش کی تھی؟‘‘ وہ آگے بڑھ آیا۔
’’میں نے ؟‘‘ کون سی فرمائش؟ ثنا نے حیرت سے یاد کرنے کی کوشش کی۔
’’ہیلی کا پٹر رائڈ کی فرمائش، یاد کرو کاکول اکیڈمی میں۔‘‘ فیصل نے اس کا ماتھا چوم کر کہا۔





’’اوہ ہاں! اور آپ نے کہا تھا کہ civilians کو رائڈ نہیں دے سکتے آپ۔‘‘ ثنا نے یاد کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’correct!، اس لیے my darling wife ہم نے آپ کے لیے پرائیویٹ پلین کا بندوبست کیا ہے۔‘‘ فیصل نے سر خم کرکے کہا۔
ثنا کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔ اس کے تصور میں وہ عظیم الشان پرائیویٹ پلین لہرائے جن پر ارب پتی سفرکرتے ہیں۔
’’پرائیویٹ پلین ؟ ‘‘ اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
’’ہاں! میرا ایک دوست اسلام آباد میں فلائنگ کلب چلاتا ہے ۔ اس سے جہاز مانگا، اتھارٹیز سے فلائنگ کی اجازت مانگی اور اب وہ جہاز یہاں کھڑا ہے اور ہمارے پاس اس کو اڑانے کے لیے صرف پندرہ منٹ ہیں ۔ اس لیے بھاگووووو۔۔۔۔‘‘ آخری لفظ اس نے اتنی اونچی آواز میں کہا کہ ثنا کے ہاتھ سے برش گر گیا ۔
وہ ہنی مون کے لیے کاغان گئے تھے ۔ وہاں سے واپسی پر فیصل کچھ دنوں کیلئے کاکول رکا ۔ ان کا ارادہ ایک مرتبہ لاہور جا کر پھر واپس آنے کا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ ثنا کچھ دن لاہور اس کے گھر میں رہ لے تاکہ عطیہ اور دادی بہو کے لاڈ اٹھانے کے ارمان پورے کر لیں ۔ کاکول میں اس نے ثنا کو وہ کمرہ بھی دکھایا جہاں اسے رہنا تھا ۔ یہ بس ایک ہی کمرہ تھا ۔ جہاں صرف ایک بیڈ اور دو صوفے رکھنے کی گنجائش تھی۔
’’اور کچن ؟ کھانے کا کیا کریں گے؟‘‘ ثنا نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’میس زندہ باد۔ کھانا میس سے آئے گا ۔ ہم تم عیش کریں گے۔‘‘
اور اس عیش کی پہلی کڑی یہ پرائیویٹ پلین تھا ۔ بھاگم بھاگ وہ ائیر فیلڈ پہنچے تو پرائیویٹ پلین دیکھ کر ثنا کو ہنسی آگئی ۔ ننھا منا سا دوسیٹوں والا کھلونا نما جہاز۔
فیصل نے اسے سیٹ پر بٹھا کر چار پانچ بیلٹس اس کے گرد باندھیں ۔
’’comfortable?‘‘ اس نے پوچھا۔
’’very!‘‘ ثنا نے جواب دیا۔
جہاز کا انجن سٹارٹ کرکے فیصل نے ایک ایک چیز کا تفصیلی جائزہ لیا ۔ ثنا اس کے ہاتھوں کو کنٹرول پینل پر مختلف knobs اور buttons کو چیک کرتے دیکھتی رہی ۔ اس نے فیصل کو پہلی مرتبہ ایک پروفیشنل کے طور پر اپنا کام کرتے دیکھا تھا ۔ اسے اپنے شوہر پر فخر محسوس ہوا۔
جہاز آہستہ آہستہ چلنے لگا ۔ ثنا نے اس کے پروں کو ہلتے دیکھا۔
’’یہ جہاز ۔۔۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
’’ہاں؟‘‘ فیصل نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جان گیا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ اس لیے ہنس کر بولا
’’فکر نہ کرو، وزن میں ہلکا ہے مگر کارکردگی میں بھاری ہے۔ ویسے بھی اپنی جان سے پیاری بیوی کو میں کسی خطرے میں ڈالوں گا؟‘‘ اس نے جھک کر ثنا سے پوچھا تو وہ مسکرا دی۔
’’یار ویسے تم مسکراتے ہوئے بہت پیاری لگتی ہو ۔‘‘ فیصل نے کہا۔
لیکن یہ پیاری مسکراہٹ جلد ہی غائب ہو گئی ۔ جہاز فضا میں بلند ہو ا تو ثنا کو لگا وہ بس کرسی پر بندھی بیٹھی ہے اور کرسی ہوا میں اڑ ی جارہی ہے ۔جہاز کا کیبن شیشے کا تھا اور اس سے زمین و آسمان حدِ نگاہ تک نظر آتے تھے ۔ ثنا خوف سے دم سادھے بیٹھی رہی ۔ اسے فیصل کے سامنے اپنے خوف کا اعتراف کرتے ہوئے شرم آتی تھی ۔
’’ڈر تو نہیں لگ رہا؟‘‘ فیصل نے اس کی خاموشی کو محسوس کیا۔
’’نہیں۔‘‘ ثنا بہادری سے بولی۔
’’good!‘‘ اس نے مطمئن ہو کر کہا:
’’ابھی ہم پہاڑوں کے پاس سے گزریں گے ۔ ان پہاڑوں کو تم نے نیچے سے دیکھا ہو گا۔ یہ منظر کبھی کبھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ انجوائے کرو۔‘‘ تھوڑی دیر بعد ثنا کا ڈر واقعی کم ہوگیا اور وہ سر سبز پہاڑوں کو دیکھنے لگی جن کی چوٹیوں پر برف جمی تھی۔ وہ اب ایبٹ آباد کی حدود سے نکل آئے تھے۔
’’ہم کہاں جارہے ہیں ؟‘‘ ثنا نے تجسس پوچھا۔
’’ایک بہت خوب صورت جگہ۔‘‘ فیصل نے جواب دیا۔
ثنا کو تو ہر جگہ ہی بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ چیڑ کے درختوں سے لدے پہاڑ سر اٹھائے کھڑے تھے۔ ان کے بیچ میں سڑک بل کھاتی چلی جارہی تھی اور اوپر سے سلیٹس ربن کی طرح لگتی تھی ۔ اس پر چلتی گاڑیاں کھلونا معلوم ہو تی تھیں ۔ ایک سر سبز پہاڑ کا چکر کاٹ کر وہ دوسری طرف نکل آئے جہاں پہاڑ بالکل بنجر تھے ۔
’’یہ پہاڑ۔۔۔۔‘‘ ثناکی بات منہ میں ہی رہ گئی۔
اسی وقت بادل کے پیچھے سے سورج نکل آیا اور پورے کا پورا پہاڑ چاندی کی طرح دمک اٹھا۔ ثنا کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ فطرت کے اس حسن نے اسے گنگ کردیا۔ وہ کچھ نہ بول پائی۔
’’یہ ابرق کے پہاڑ ہیں۔ یہ جگہ ڈھاڈر کہلاتی ہے ۔ یہیں لانا چاہتا تھا میں تمہیں۔‘‘ فیصل نے پیار سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
ابرق کے پہاڑ، چمکتی دمکتی سورج سے آنکھ مچولی کھیلتی ابرق۔ ایک زاویے سے دیکھتے تو وہ بالکل عام سا بنجر، سلیٹی پتھروں سے بنا پہاڑ نظر آتا۔ اگلے ہی لمحے زاویہ بدلتا اور پورا پہاڑ اس طرح چمک اٹھتا کہ آنکھیں چندھیا جاتیں۔
ایسے یہاں کئی پہاڑ تھے۔ فیصل نے ان کے گرد دو چکر لگائے۔ اوپر سے ثنا کو کہیں کہیں چشمے بھی بہتے دکھائی دیے۔ چشموں کا پانی بھی پگھلی ہوئی چاندی کی طرح چمک رہا تھا ۔ نہ جانے اس میں بھی ابرق گھلی تھی یا پہاڑوں کے غیر آلود ہ دامن میں وہ سکون سے اپنی شفافیت لئے مسکراتے، گنگناتے بہے جارہے تھے۔
’’Time to go back!‘‘ فیصل نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
ثنا مڑ مڑ کر ابرق کے پہاڑوں کو دیکھتی رہی۔ یہ خوب صورتی ساری زندگی اس کے ساتھ رہنے والی تھی۔
٭…٭…٭
زنیرہ نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں اور سردی کی نرم گرم دھوپ کو محسوس کیا ۔ اس نے اپنے سامنے بیٹھے عامر کو دیکھا ۔ اس میں ابھی تک بیماری کی تھوڑی بہت کمزوری باقی تھی۔
’’شاید غلطی میری ہی تھی۔ میں مسکرانا بھول گئی تھی۔ اپنے دکھ میں اتنی اندھی ہو گئی تھی کہ سامنے کھڑی خوشی دیکھنے سے قاصر تھی۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے سوچا۔
’’عامر!‘‘ اس نے یک دم پکارا۔
’’ہوں؟‘‘ وہ تھکا تھکا لگ رہا تھا ۔ وہ اس کے پاس نرم نرم گھاس پر بیٹھ گئی۔
’’تم نے کبھی ایڈاپشن کے بارے میں سوچا؟‘‘ وہ سیدھا مدع پر آئی۔
عامر اس اچانک سوال سے چونک اٹھا۔ اس نے سرجھکا لیا اور کچھ دیر سوچتا رہا۔
’’نہیں زنیرہ! میں کسی دوسرے کے بچے کو پیار نہیں دے سکتا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ زنیرہ کی مسکراہٹ پھیکی پڑگئی۔ اس نے کچھ کہنے کو لب کھولے ۔ ایک نرم آواز اس کے ذہن میںگونجی:
’’راستے کو آسان کرنا پڑتا ہے۔۔۔ ہمت سے، دعا سے، صبر سے‘‘ وہ کوشش کر کے مسکرائی۔
’’دیکھیں گے!‘‘ اس نے دل میں کہا۔
’’سنار جانے اس کا کام۔‘‘
٭…٭…٭
’’میرے پاس آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔‘‘ ثنا نے فیصل سے کہا۔
’’کیسا سرپرائز ؟‘‘ وہ دراز کھولے اس میں کچھ ڈھونڈرہا تھا۔
’’آپ کو یاد ہے آپ نے مجھ سے ایک فرمائش کی تھی ؟‘‘ ثنا نے پوچھا۔
’’میں نے ؟ کون سی فرمائش؟‘‘ فیصل کے ہاتھ رک گئے ۔ اس نے سر اٹھا کر ثنا کو دیکھا۔
’’یاد کریں، کاکول اکیڈمی میں ، منی ایچر کی فرمائش۔‘‘ ثنا مسکراتے ہوئے اسے یاد دلا رہی تھی۔
’’او ہاں! یا د آیا، تو بنا لیا تم نے میرا منی ایچر؟‘‘ فیصل کام چھوڑ کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا:
’’ہاں!‘‘
’’دکھاوؑ!‘‘
’’ابھی نہیں دکھا سکتی!‘‘ ثنا شرما کر بولی۔
’’ہیں ! وہ کیوں؟‘‘ فیصل نے اس کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’اکتوبر میں دکھاوؑں گی۔‘‘ وہ شرم کے مارے لال ہوئے جارہی تھی۔
’’وہ کیوں؟ اکتوبر میں کیا ہے؟‘‘ فیصل کا تجسس بھی اب بڑھنے لگا تھا۔
’’وہ پیدا ہی تب ہو گا۔‘‘ آخر کار ثنا سر جھکائے شرما کر بولی اور حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات لیے فیصل اسے دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
’’دو دن سے میں دیکھ رہی ہوں ثنا کچھ چپ چپ سی ہے۔‘‘ وہ دونوں گھر آئے ہوئے تھے تو عطیہ نے ثنا کی چپ محسوس کرکے سرور سے کہا۔
’’طبیعت نہ خراب ہو۔‘‘ سرور نے اخبار سے نظریں ہٹا کر کہا۔
’’پتا نہیں، نئی نئی شادی ہے، ایڈجسٹمنٹ پیریڈ ہے دونوں کا، کہیں فیصل نے کچھ کہہ نہ دیا ہو۔‘‘ ’’پوچھو ںگی فیصل سے ۔ سمجھاوؑں گی اسے۔‘‘ انہوں نے سوچتے ہوئے کہا۔
فیصل سے کچھ پوچھنے کی نوبت نہ آئی۔ اگلے دن عطیہ لاوؑنج میں بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھیں جب فیصل آکر ان کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا۔
’’پرے ہو کر بیٹھو فیصل! گرمی لگتی ہے مجھے۔ ‘‘ عطیہ نے اسے دور کرتے ہوئے کہا۔
’’امی آپ کو ایک بات بتاوؑں۔‘‘ اس نے روایتی بے نیازی سے کہا۔
’’ہاں بتاوؑ۔‘‘ ان کا سار ا دھیان اخبار پر تھا۔
’’آپ کا بے بی آنے والا ہے ۔‘‘و ہ بڑے آرام سے بولا۔
’’کیا؟‘‘ انہوں نے حیران ہو کر پوچھا، جیسے انہیں یقین نہ آیا ہو کہ فیصل نے کیا کہا ہے۔
’’وہ جو تین بچے میں نے آپ کو دینے کا وعدہ کیا تھا نا ؟ ان میں سے پہلا آنے والا ہے۔‘‘ وہ ایسے بتا رہا تھا جیسے معمول کی کوئی بات بتا رہا ہو۔
’’مذاق کررہے ہو؟‘‘ عطیہ حیران ہو کر اس کی شکل دیکھنے لگیں۔
’’نہیں۔‘‘
’’ابھی تو صرف ایک مہینہ ہوا ہے شادی کو ابھی سے۔۔۔۔‘‘ دادی نے بے ساختہ کہا پھر کہتے کہتے وہ خود ہی شرما گئیں۔
’’جی ابھی سے۔‘‘ وہ بے شرمی سے بولا۔
’’ میں بلا کر لاتا ہوں ثنا کو۔ آپ خود پوچھ لیں باقی تفصیلات ۔‘‘ وہ اٹھ کر چلا گیا۔
عطیہ دادی سے لپٹ گئیں۔ دادی نے ان کا ماتھا چوم لیا۔
’’بہت بہت مبارک ہو! اللہ اولاد کی ہزاروں خوشیاں دکھائے۔ وہ آب دیدہ ہو گئیں۔
’’ہرکام میں جلدی پڑی ہوتی ہے اس لڑکے کو۔‘‘ عطیہ کی خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی ۔
’’پہلے رشتہ کرنے میں جلدی کی، پھر فوراً شادی کے لیے پیچھے پڑ گیا اور اب یہ۔‘‘ وہ ہنسنے لگیں۔
’’اور ہم اس کو چھوٹا کہتے تھے۔ یہ تو سب سے بڑا نکلا۔‘‘ دادی پیار سے بولیں۔
٭…٭…٭
ثنا نے اپنے گھر کے اکلوتے کمرے کو خوب سجایا۔ خوب صورت لیمپس رکھے، کافی ٹیبل پر کرسٹل کے پیالے میں پانی ڈال کر اس میں تیرنے والے موم بتیاں سجائیں، دیواروں پر اپنی بنائی پینٹنگز اور شادی کی تصویرں لگائیں ۔ لیڈیز کلب کے فنکشنز میں بھی اس کا دل لگ گیا ۔ فیصل ہر روز ہنستا مسکراتا گھر آتا۔ میس سے کھانا آجاتا۔ کبھی کبھی دوست بھی اکٹھے ہو جاتے۔ ہردن عید تھا، ہر رات شب رات۔
یہ خوشیاں عارضی ثابت ہوئیں۔ ایک دن فیصل منہ لٹکائے گھر آیا ۔
’’میرے پاس ایک اچھی خبر ہے اور ایک برُی خبر۔‘‘
’’پہلے بُری خبر سنا دیں۔‘‘ ثنا نے اسے پانی دیتے ہوئے فکر مندی سے کہا۔
’’بُری خبر یہ کہ میری پوسٹنگ سمنگلی ہو گئی ہے، بارڈر ایریا ہے۔ میں فیملی ساتھ نہیں رکھ سکتا، بلوچی علیحدگی پسندوں کا زور ہے وہاں۔‘‘
ثنا پریشان ہو گئی۔ فیصل نے اس کا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے سہلایا۔
’’دل مضبوط کرو یار! فوجی کی بیوی ہو۔‘‘
’’اور اچھی خبر کیا ہے؟‘‘ وہ زبردستی مسکرائی۔
’’اچھی خبریہ ہے کہ میں تمہارے لیے سموسے لایا ہوں۔‘‘ فیصل نے بے ساختہ کہا۔ ثنا ہنس پڑی۔
’’یہ اچھی خبر ہے ؟‘‘ اس نے ہنستے ہوئے مصنوعی خفگی سے کہا۔
’’اچھی خبر نہیں ہے ؟ اچھا چلو دوسری اچھی خبر سن لو ۔ مجھے رپورٹ کرنے سے پہلے ایک ہفتے کا ٹائم ملا ہے، گھومنے چلتے ہیں۔ پھر تم اپنے پیرنٹس کے گھر چلی جانا۔ اگلے پانچ چھے مہینے تم وہیں آرام سے رہ لینا۔‘‘ فیصل نے اسے لائحہ عمل بتاتے ہوئے کہا۔
’’آپ کے بغیر؟‘‘ ثنا نے بے ساختہ پوچھا۔
’’میرے بغیر کیوں؟ دل میں بسا کر رکھو میری تصویر جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔‘‘ فیصل نے ڈرامائی اندا ز میں کہا۔
’’پھر تو گردن مستقل ٹیڑھی ہو جائے گی میری ہروقت جھکائے رکھنے سے۔‘‘ ثنا نے ہولے سے کہا۔ تو دونوں ہی ہنس دیے۔
فیصل کے چہرے پر کرن کرن روشنی نمودار ہوئی ۔محبت کا عکس نور بن کر اس کی آنکھوں میں جھلملانے لگا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Read Next

سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!