داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

زنیرہ سامان پیک کرتی رہی۔ اس کے ذہن میں ملے جلے خیالات کی یورش تھی ۔ ایک طرف وہ اپنے گھر جانے پر سکھ کا سانس لیتی تھی تو دوسری طرف اپنی ناقدری اور بے عزتی کا احساس اس کے دل کو مٹھی میں لے لیتا تھا ۔ وہ کھلے سوٹ کیس کے پاس تھک کر بیٹھ گئی۔
’’اب یہ باتیں سوچنے کا فائدہ؟ جو فیصلہ کر لیا سو کرلیا۔ اب خوشی سے جائے یا رو کر ، جانا تو تھا ہی۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔
اس وقت فیصل دستک دے کر اندر داخل ہو ا۔
’’آؤ فیصل! مجھے تم سے کا م تھا ۔ یہ بتاؤ تم واپس کب جارہے ہو ؟ میں تمہارے ساتھ ہی چلی جاؤں۔‘‘ زنیرہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’آپی کل تو پتو کی جانا ہے ایک شادی میں۔ پرسوں انشاء اللہ صبح صبح نکل چلیں گے۔‘‘
’’ارے ہاں! اس عورت کی بیٹی کی شادی ہے نا جو کینسر کی مریضہ تھی ؟ کیا نام تھا اس کا ؟ ہاںفوزیہ۔‘‘ اسے یا د آیا۔
’’چلو میں بھی چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔‘‘ زنیرہ نے یک د م کہا۔
’’پتو کی؟‘‘ فیصل نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ہاں!‘‘
’’آپ وہا ں جا کر کیا کریں گی؟‘‘ اس نے پھر تصدیق چاہی۔
’’تم کیا کرو گے؟‘‘ اس نے الٹا سوال کردیا۔
’’Good question! ٹھیک ہے ۔ آپ چلیں میرے ساتھ ۔ اکیلے بور ہونے سے بہتر ہے ہم دونوں مل کر بور ہو لیں۔‘‘ فیصل نے کہا تو دونوں ہی ہنس پڑے۔
٭…٭…٭





فیصل کی توقعات کے برعکس وہ شادی پر بور نہیں ہوئے۔ فوزیہ انہیں دیکھ کر نہال ہو گئی۔ تھوڑے سے لوگ تھے۔ مرووں عورتوں کا ایک ہی جگہ انتظام تھا۔ تنگ گلی میں گاڑی لے جانے کے بجائے فیصل نے گاڑی مین روڈ پر کھڑی کی اور دونوں چل کر اندر آئے۔ ان کے گلی میں داخل ہونے کے چند سیکنڈ کے اندر اندر وہاں ایک ہلچل مچ گئی۔ یہ ہلچل اس وقت دو چند ہو گئی جب فیصل ٹینٹ میں داخل ہوا اور وہاں موجود تمام نوجوان لڑکیاں بہ شمول دلہن، اسے دیکھنے کیلئے امڈ پڑیں۔ طاہر نے گھور گھور کر اور ڈانٹ ڈپٹ کر لڑکیوں کو وہاں سے بھگایا۔ وہ دور دور سے اسے دیکھ دیکھ کر آپس میں سرگوشیاں کرکے شرماتی رہیں۔ فیصل کو بہت ہنسی آرہی تھی۔ اسے فکر ہوئی کہ کہیں کوئی اس کی ہنسی کا غلط مطلب نہ لے لے۔ وہ اٹھ کر گلی میں نکل گیا اور وہاں ٹہلنے لگا ۔ اتنے میں طاہر سخت گھبرایا ہوا اس کے پاس آیا۔
’’فیصل بھائی! آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ اس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔
’’کیاہوا‘‘؟ فیصل کے سارے حواس بیدار ہو گئے، اس نے چوکنا ہو کر پوچھا۔
’’اندر آئیں!‘‘ طاہر اسے چھوٹے سے گھر کے اندر لے گیا ۔ وہاں فوزیہ سفید چہرے اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ موجود تھی۔ کمرے میں اس کے علاوہ صرف ایک موٹا پہلوان نما شخص تھا جو کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھا تھا اور پاؤں ہلا رہا تھا ۔
زنیرہ نے فیصل کو اندر جاتے دیکھا تو تجسّس سے اٹھ کر وہ بھی اس کے پیچھے چلی آئی ۔ وہ اور فیصل آگے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہو ئے تھے۔ فوزیہ نے انہیں دیکھا تو کرسی پر گر پڑی۔ زنیرہ نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔
’’کیا ہوا آنٹی ؟ آپ کی طبیعت خراب ہے؟‘‘ زنیرہ نے تشویش سے پوچھا۔
فوزیہ نے نفی میں سر ہلا کر ہاتھ میں پکڑے چند کاغذ اس کی طرف بڑھا دیے ۔
زنیرہ نے ان پر ایک نظر ڈالی اور الجھن بھری نظروں سے فوزیہ کو دیکھا۔ و ہ جوں جوں پڑھتی گئی اس کے ماتھے پر بل پڑتے گئے۔ پھر جیسے سارا معاملہ اس کی سمجھ میں آگیا۔
’’لو لیٹر! بلیک میل…‘‘ اس نے فیصل سے کہا۔
’’میری بیٹی سے غلطی ہو گئی تھی۔ اب یہ شخص کہتا ہے کہ میں ابھی کے ابھی یہ مکان اس کے نام کردوں ورنہ وہ یہ خط لے جاکر باراتیوں میں بانٹ دے گا۔‘‘ فوزیہ کانپتی آواز میں کہا۔
فیصل نے خشمگیں نظروں سے پہلوان نما شخص کو گھورا۔ اس کا اعتماد پہلے ہی فیصل کو دیکھ کر متزلزل ہو چکا تھا ۔ ایک سیکنڈ میں اس نے فیصل کے لمبے قد اور فوجی کٹ بالوں کو دیکھ کر دو جمع دو کا حساب لگا لیا تھا۔ اب وہ اس حساب کتاب کو تولنے میں مصروف تھا۔ آخر اس بدمعاش نے ایک اور دلیرانہ کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’ایسے کئی اور خط ہیں میرے پاس گھر پر پڑے ہیں۔ جلدی جلدی فیصلہ کرو۔ میں نے ابھی یہ خط یہاں بانٹ دیئے تو تمہاری لڑکی ساری زندگی کے لیے گھر بیٹھی رہ جائے گی۔‘‘ اس نے اکڑ کر کہا۔
فیصل نے بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھ کر اسے گریبان سے پکڑ کر اٹھا لیا اور رکھ کر ایک مکا اس کے جبڑے کے نیچے دیا۔ اس نے ایک ہاتھ سے اس کا بازو مروڑ کر اس کی پشت سے لگا دیا اور دوسرے بازو سے اس کی گردن شکنجے میں کس لی۔
’’آپی میرا فون نکالیں۔‘‘ اس نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
زنیرہ نے جلدی سے بڑھ کر اس کی جیب سے اس کا فون نکالا۔
’’جنرل صاحب کو فون کریں۔‘‘ اس نے اونچی آواز میں کہا تو زنیرہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’جنرل صاحب؟‘‘
’’ملا لیا نمبر؟ لائیں میرے کان سے لگائیں فون‘‘ فیصل نے کہا۔
زنیرہ نے اسی طرح بند فون اس کے کان سے لگا دیا ۔
’’السلام علیکم سر! میجر فیصل خان بول رہا ہوں۔‘‘ فیصل نے کڑک کر خاموش فون میں کہا تو زنیرہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی دبا لی۔
’’we have an emergency sir، ایک شخص بدمعاشی کرتا پکڑا گیا ہے سر۔ بیوہ خاتون کو بلیک میل کررہا ہے۔ یس سر! دہشت گرد ہے سر۔ یس سر! میں نے پکڑ لیا ہے سر۔‘‘ وہ خالص فوجی انداز میں ’’سر‘‘ کا لفظ جھٹکا دے کر ادا کررہا تھا۔
عین اس وقت اس کے کان سے لگے فون پر کال آنے لگی ۔ زنیرہ گڑبڑا گئی ۔فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین سے گرپڑا ۔ لیکن فیصل بھی پھر فیصل تھا، اس کو بھی سورڈ آف آنر مفت میں نہیں ملی تھی۔ اس کے حواس قائم رہتے تھے۔
’’اوہو! کال کٹ گئی تھی ۔ اب جنرل صاحب کال کر رہے ہیں ۔ اٹھا کر فون مجھے دیں۔‘‘ اس نے رسان سے کہا۔
زنیرہ نے فون اٹھا کر کال کاٹی ۔ فون سائیلنٹ پر لگایا اور پھر اسے اس کے کان سے لگا دیا ۔
’’یس سر! سور ی سر۔ کال کٹ گئی تھی۔‘‘ یہ بولنے کے بعد اس نے تھوڑا وقفہ لیا پھر بولا:
’’یس سر! میرے قابو میں ہے سر۔‘‘
’’یس سر! پسٹل میرے پاس ہے ۔گاڑی میں پڑی ہے ۔ فکر نہ کریں سر۔ باندھ کر گولی ماردوں گا۔ بچے گا نہیں ۔یس سر، اوکے سر۔‘‘
اب تک موٹے شخص کا منہ لالچقندر ہو چکا تھا۔ فیصل نے اس کی گردن چھوڑ ی اور پھرتی سے اس کا دوسرا بازو بھی اس کی کمرسے لگا دیا ۔
’’مارچ!‘‘ اس نے دبنگ آواز میں حکم دیا ۔
’’معاف کر دیں صاحب غلطی کی معافی دے دیں ۔ آئندہ شکایت نہیں ہو گی۔‘‘ موٹے نے گھگھیا کر کہا۔
’’وہ تو ویسے بھی نہیں ہو گی۔ ابھی تمہیں گولی ماردوں گا تو آئندہ شکایت نہیں ہو گی تم سے۔‘‘ فیصل نے اس کے بازو کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا۔
’’معاف کر دیں صاحب! میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘ پہلوان رونے لگا۔
’’اوئے! لڑکی سے چکر چلاتے وقت نہیں یاد آئے چھوٹے چھوٹے بچے؟‘‘ فیصل نے کڑک دار فوجی انداز میں پوچھا۔
وہ روتا رہا، فیصل کچھ سوچنے کی اداکاری کرتا رہا۔
’’کتنے بچے ہیں تمہارے؟‘‘ آخر اس نے پوچھا ۔
’’پانچ! سارے ہی چھوٹے ہیں جی ۔ بوڑھے ماں باپ بھی ہیں۔‘‘ اس نے گھگھیا کر کہا ۔
’’ماں باپ بھی ہیں ؟‘‘ فیصل نے اس طرح چونک کر کہا جیسے یہ دنیا کی سب سے انوکھی بات ہو۔
’’خط کہاں ہیں باقی؟‘‘ فیصل نے اس سے پوچھا۔
’’اور کوئی خط نہیں ہے جی بس یہی ہیں سارے ۔’’اس نے نا ک سڑک کرکہا۔
’’تو بکواس کیوں کررہا تھا پہلے ؟‘‘ فیصل نے ایک اور جھٹکا اس کے بازو کو دیا۔
’’غلطی ہو گئی جی‘‘ وہ شخص اب باقاعدہ رونے لگا تھا۔
’’آنٹی آپ کیاکہتی ہیں؟ چھوڑ دوں اسے یا گولی ماردوں؟‘‘ فیصل نے فوزیہ سے پوچھا۔
’’گولی مار دو۔‘‘ فوزیہ نے جذباتی ہو کر کہا۔
فیصل کا خیال تھا وہ کہے گی چھوڑ دو اور اس بہانے اسے چھوڑ دے گا لیکن یہاں تو یہ چھچھوندر گلے میں اٹک گیا۔ پہلوان پھر سے گھگھیانے لگا تھا۔ فیصل کی شکل دیکھ کر زنیرہ کو ہنسی آگئی۔ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی وہ اس کی مدد کو آئی اور فوزیہ کو سمجھا بجھا کر اس بدمعاش کو معاف کرنے پر رضامند کر لیا۔
’’دیکھیں نہ آنٹی شادی کا موقع ہے۔ اس موقع پر یہ بات ہو ئی تو لوگ سو سو باتیں کریں گے بدنامی ہو گی۔ یہ نہ ہو بارات واپس چلی جائے۔‘‘ وہ فوزیہ کو رضا مند کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
یوں اس بدبخت کی جان چھوٹی۔ فیصل نے دو چار اپرکٹ مزید اس کی ٹھوڑی پر رسید کیے ۔ ایک دو ٹھڈے طاہر نے بھی مار کر بہادروں میں نام لکھوایا اور کمر پر لات رسید کرکے اسے دفع کیا۔
فوزیہ بے چاری فیصل کے گھٹنے پکڑنے لگی۔
’’ارے ارے یہ کیا کررہی ہیں آپ۔‘‘ فیصل تیزی سے اسے اٹھاتے ہوئے بولا۔
’’میں تو پہلے ہی آپ کے احسانوں کے بوجھ تلے دبی ہوں۔ کسی طرح نہیں اتار سکتی۔ صرف دعا دے سکتی ہوں۔ اللہ آپ کو دنیاو آخرت میں اونچا ترین مرتبہ عطا کرے۔ فوزیہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اسے دعائیں دے رہی تھی۔
فیصل خوش ہو گیا۔
’’چیف آف آرمی سٹاف!‘‘ اس نے زیر لب کہا۔
٭…٭…٭
’’میجر فیصل خان! جنرل صاحب کا فون۔‘‘ باہر ٹینٹ میں بیٹھ کر زنیرہ ہنستی رہی۔
’’ایڈونچر ہی ہو گیا یار ۔ بڑ ا عرصہ ہو گیا تھا کسی کو اس طرح دھمکائے۔‘‘ فیصل بھی ہنسنے لگا۔
’’میرے تو ہاتھ سے فون ہی گر گیا جب اچانک تمہاری بات کے بیچ میں گھنٹی بجی۔‘‘
’’اور آنٹی کو بھی دیکھو کتنے آرام سے بولیں گولی ماردو ۔‘‘فیصل نے قہقہہ لگایا ۔
’’ویسے فیصل مجھے بڑا ترس آیا ان پر ۔ دیکھو کیسے غریب لاچار لوگوں کو ستاتے ہیں یہ بھیڑیئے۔‘‘
’’ہاں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔ ان کا بیٹا طاہر بھی بالکل بے کار پھرتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اس کو اپنے پاس بلاؤں اور اس کی پکی نوکری کا بندوبست کروں۔‘‘ فیصل نے سنجیدگی سے کہا۔
’’یہ تو تم بہت نیکی کا کام کرو گے۔ پیروں پر بھی کھڑا ہو جائے گا اور سرکاری نوکری کا ٹھپہ بھی ہو جائے گا برادری میں۔‘‘
دولہن رخصت ہوگئی۔ فوزیہ نے ایک آنسو نہ بہایا ۔ وہ آکر زنیرہ کے پاس بیٹھ گئی۔
’’میں بڑی خوش قسمت ہو ںجی۔ مجھ سے زیادہ خوش قسمت عورت تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔‘‘
زنیرہ نے اس کے ٹوٹے پھوٹے گھر کو دیکھا ، گھر پر راج کرتی غربت کو دیکھا، اس کی بیوگی پر نگاہ کی پھر اس کے بیٹے کے ناکارہ پن پر نظر ڈالی ۔اسے اپنے آپ پر شرم آئی۔
٭…٭…٭
دنیا میں محبت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔۔ اس کے آگے نہ اس کے پیچھے۔ ہرروگ محبت کا، ہرشان محبت کی، ہر ایثار محبت کا، ہرتخلیق محبت کی۔ یہ صبر ایوب میں ہے، گریۂ یعقوب میں ہے، دمِ عیسیٰ میں ہے، یدِ بیضا میں ہے، شعبِ ابی طالب کی گھاٹیوں میں ہے ، عام الحزن میں ہے ، انصار کے گھروں میں بٹتی ہے، بدھ کے پیڑ کے نیچے گیان کرتی ہے، لکشمن کی بانسری کے سروں میں ناچتی ہے۔ یہی خدائی کا جوہر، یہی بندگی کا است، یہی اول، یہی آخر یہی ظاہر یہی باطن۔ ہر سو، ہر سمت، ہر ذرہ، ہر کرن، ہر الفت ، ہر نفرت، صرف محبت، سوزو ساز و دردوداغ و جستجو و آرزو۔۔ صرف محبت، صرف محبت!
زنیرہ نے انا کو تیاگ دیا ، خدمت کو اختیار کیا۔
عطیہ نے ممتا کو تھپک کر سلا دیا، اپنی اولاد کی خوشی کے لیے اس کی جدائی قبول کی، فیصل نے سالارِ لشکر ہونے کی آرزو میں ریاضت کشی کو شعار کیا۔
فوزیہ کے گھر میں جشنِ مسرت منایا گیا ، طاہر کی نوکری لگ گئی، ثنا کی سکیچ بک میں سبزہ زاروں کی جگہ سبز آنکھوں نے لے لی۔
رہ گئیں دادی، تو۔۔۔۔۔
’’سن فیصل! ایک لڑکی دیکھی ہے میں نے‘‘
’’میرے لیے؟‘‘
’’نہیں نہیں ، عادل کے لیے۔‘‘
’’کون ہے؟ کیا کرتی ہے ؟‘‘
’’کیا کرتی ہے؟ دادی سوچ میں پڑگئیں۔ ان کی یاداشت کا اب یہی عالم رہنے لگا تھا ۔ یادداشت اب ختم ہورہی تھی۔ پرانی سے پرانی باتیں ازبر تھیں، صبح ناشتے میں کیا کھایا تھا، یہ بھول جاتی تھیں۔
عطیہ نے فون نرمی سے دادی کے ہاتھ سے لے لیا۔
’’شمیم آراء کی بات کررہی ہیں ’’کل اس کی فلم دیکھ بیٹھی ہیں ،بس کل سے رٹ ہے کہ اس کی عادل سے شادی کرائیں گی۔‘‘ انہوں نے چپکے سے بتایا اور فیصل ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔
٭…٭…٭
’’کہاں گئے تھے یہ دن؟ میں نے خود کھو دیے تھے یہ لمحے یا میرے ہاتھوں سے وقت نے چھین لیے تھے؟‘‘ زنیرہ نے عامر کے ساتھ لان میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔
اسے اپنی شادی کے پہلے پانچ سال یاد آئے، جب ان دونوں کے درمیان محبت تھی، اعتماد تھا، الفت تھی۔
عامر لڑکھڑایا تو بے ساختہ زنیرہ نے اسے سہارا دیا ۔
’’تھینک یو!‘‘ اس نے دھیمے سے کہا۔
وہ مسکرائی۔ شاید ان کے رشتے کو ایک مرتبہ پھر سے جوڑنے کے لیے ایک جھٹکا دینا ضروری تھا۔
’’سنار جانے تو اس کا کام‘‘ اس کے کانوں میں آواز گونجی ، اس نے عامر کا ہاتھ تھام لیا ۔
زنیرہ جب گھر واپس آئی تھی تو ملازم عامر کو ہسپتال لے گئے تھے ۔ زنیرہ اسے واپس گھر لے آئی۔ اس کی دوا، خوراک ، ہسپتال کے وزٹ ، اس نے عامر کے لیے دن رات تیاگ دیے۔ وہ بخار کی شدت میں نیم بے ہوشی کے عالم میں بڑ بڑاتارہا۔ زنیرہ اسے پٹیاں، اس کے تلوے سہلاتی، رات کو جاگ کر اسے دوا کی خوراک دیتی، وہ اچھا ہونے لگا، اس سے نظریں چرانے لگا، اس کا احسان مند ہونے لگا۔
’’میرا خیال تھا تم واپس نہیں آؤ گی۔‘‘ ایک دن اس نے رات کو سونے سے پہلے دھیرے سے کہا۔‘‘
تم بیمار نہ ہوتے تو نہ آتی۔‘‘ زنیرہ نے اندھیرے میں چھت کودیکھتے ہوئے کہا ۔ وہ خاموش ہو گیا ۔ بڑی دیر خاموش رہا ۔ پھر اس نے ہولے سے زنیرہ کا ہاتھ چھوا ۔
’’تھینک یو!‘‘ وہ مسکرائی۔
’’ایک بات بتاؤں عامر؟ جب آپ توانا اور عروج پر ہوتے ہیں۔ تو آپ کے ساتھ اڑنے کو بہت تتلیاں آتی ہیں لیکن جب آپ کم زور اور لاغر ہوجاتے ہیں تو صرف بیوی ہوتی ہے ساتھ نبھانے کو‘‘
عامر خاموش تھا، سوجب کہ زنیرہ نے مسکرا کر کروٹ بدل لی۔
٭…٭…٭
فوزیہ کے صبر کے دن گزر گئے۔ اب اس کے شکر کے دن تھے۔ بیٹی عزت سے بیاہی گئی۔ بیٹا نوکری پر لگ گیا۔ جس بیماری کو وہ اپنے لیے موت کا پیغام سمجھی تھی، وہ اس کے لیے اپنی زندگی کی نوید لائی تھی۔ وہ بیمار پڑتی، نہ لاہور جاتی، نہ اسے سرور صاحب ملتے، نہ فیصل اس کی بیٹی کی شادی پر آتا اور نہ ہی آج طاہر سرکاری نوکری پر لگتا۔
فیصل نے طاہر کو اپنے پاس بلالیا تھا ۔طاہر پہلے ہی اس کا اس قدر عقیدت مند تھا کہ فیصل اسے زہر کھانے کو بھی کہہ دیتا تو وہ بھی کر گزرتا ۔ فیصل نے اسے اپنے پاس کچھ عرصہ رکھ کر تیاری کروائی، پھر ائیرفورس میں ائیر مین کی نوکری کا امتحان دلوایا ۔ طاہر پاس ہو گیا ۔نوکر ی ، کوارٹر ، پینشن۔۔ اس کی زندگی بن گئی۔
فوزیہ نے فیکٹری کی نوکری چھوڑ دی ۔ اب اسے کام کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس کا بیٹا کماؤ پوت بن گیا تھا۔ طاہر کی پہلی پوسٹنگ کامرہ ہوئی تھی ۔ فوزیہ کے دل میں بیٹے کی شادی کے ارمان جاگ اٹھے ۔ زندگی کا کیا بھروسہ ؟وہ بیٹے کی خوشی دیکھ لیتی ، پوتا کھلا لیتی ، اس سے بڑ ھ کر خوشی تو اس نے خواب میں بھی نہ دیکھی تھی ۔
فوزیہ نے خاندان کی سب سے اچھی لڑکی کا رشتہ مانگا فوراً ہی قبول کر لیا گیا ۔ یہ سب اس نوکری کا کمال تھا جو فیصل نے دلوائی تھی۔ فوزیہ اٹھتے بیٹھتے فیصل کو دعائیں دیتی تھی ۔ طاہر کی شادی ہو گئی۔ فیصل آسکا نہ زنیرہ۔ ایک کو چھٹی نہیں ملی، دوسری کو فرصت، وہ اپنی زندگیوں میں مصروف تھے۔ زندگی انہیں دیکھ کر مسکراتی تھی اوروہ زندگی کو۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Read Next

سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!