داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

زنیرہ کی زندگی میں آہستہ آہستہ سکون آنے لگا تھا۔ عامر کے وہی مصروف شب وروز دوبارہ شروع ہو گئے تھے مگر اس میں ایک تبدیلی آتی جارہی تھی ۔ وہ اس کا احسان مند تھا ۔ اس کا یہ زعم ٹوٹ گیا تھا کہ زنیرہ اس کے گھر کی ایک فالتو چیز ہے اور وہ اپنا گھر اور اپنی زندگی اس کے بغیر بھی بہ خوبی چلا سکتا ہے۔ اس کے پاس پیسہ ہے ، ملازم ہیں ، بیوی نہ بھی ہوتی تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ اس کی بیماری نے اس کے چودہ طبق روشن کردیے تھے۔ اب یہ طبق کتنے دن تک روشن رہنے تھے ، یہ زنیرہ نہیں جانتی تھی ۔ اس نے تو بس اپنی معمول کی زندگی شروع کر دی تھی ۔ سید صاحب کی باتوں نے ا س پر جادو کا سا اثر کیا تھا ۔ ان کی بچے کے بارے میں کی گئی پیشین گوئی نے اسے ہر دوسری چیز سے بے نیاز کر دیا تھا ۔ عامر سے ، اس کی مصروفیت سے اور شاید اس کی گرل فرینڈ سے بھی۔ اگرچہ وہ کبھی کبھار موقع ملنے پر اس کا فون چیک کر لیتی تھی لیکن اس میں اسے کچھ نہ ملتا تھا ۔ کوئی میسج نہیں ، کوئی کال نہیں یا تو عامر یہ معاملہ ختم کر چکا تھا یا وہ کال اور میسج ڈیلیٹ کر نے کا ماہر ہو گیا تھا ۔زنیرہ کو اب کچھ خاصی پروا بھی نہ رہی تھی۔ اس نے اللہ سے سکون مانگا تھا، اسے سکون مل گیا تھا۔ وہ اپنے آپ میں مگن تھی۔ وہ جب شاپنگ پر نکلتی، بچوں کی چیزیں خرید کر واپس آجاتی۔ ان چیزوں کو اپنے کمرے میں سامنے ہی رکھ دیتی، آتے جاتے چھوٹے چھوٹے کپڑوں، جوتے، ہیئر بینڈز اور جرابوں پر اس کی نظر پڑتی اور اس کا دل خوشی سے معمور ہو جاتا ۔ سید صاحب کی آواز اس کے کانوں میں آتی۔
’’انشا اللہ تمھارا بچہ ضرور ہو گا۔‘‘ وہ ضعیف الا عتقاد نہ تھی۔ کسی انسان کو عالم الغیب نہ جانتی تھی مگر یہ وہ امید تھی جس پر یقین کرنے کووہ دل وجان سے آمادہ تھی ۔ یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کی آس تھی ۔
٭…٭…٭
فیصل کاکول واپس آیا تو سب سے پہلے بھاگم بھاگ ایبٹ آباد گیا ۔ پریڈ گراؤنڈ کی سڑک پر اسے قریشی صاحب تنہا ٹہلتے نظر آئے ۔ اس کی ساری خوشی پراوس پڑ گئی ۔ وہ دومہینے بعد ثنا کو دیکھنے کی آس میں آیا تھا ۔ کہاں تھی وہ؟ یہ سوال وہ کسی سے نہیں پوچھ سکتا تھا ۔ قریشی صاحب سے تو بالکل نہیں ۔
دودون و ہ نہ آسکا۔ کہیں جاکر تیسرے دن اسے ثنا کی جھلک نظر آئی ۔ وہ اپنی گاڑی میں کہیں جارہی تھی ۔ یہ وہی گاڑی تھی جسے فیصل دکھا لگا کر اس کے گھر تک لایا تھا ۔ فیصل ضرور اس کا راستہ روک لیتا مگر اس کے ساتھ اس کی امی تھیں۔ وہ دل مسوس کررہ گیا ۔ اکیڈمی آکر بھی وہ بجھابجھا رہنے لگا تھا۔ اسے سار ی دنیا ظالم لگنے لگی۔
خود ترسی کے عالم میں اسے زیادہ دن نہ رہنا پڑا ۔ ایک دن وہ مونا لیزا گیا تو قریشی صاحب اور ان کی بیگم وہاں سے نکل رہے تھے۔ وہ فوراً اوٹ میں ہوگیا۔ قریشی صاحب اپنے دھیان میں نکل گئے مگر علی کی اس پر نظر پڑ گئی ۔
’’آپ کو معلوم ہے لاہور جارہے ہیں ہم؟‘‘ اس نے خوشی خوشی فیصل کو بتایا۔
’’ہیں؟ کیوں ؟ واپس کب آؤ گے ؟ اور لاہور میں کہاں ۔۔۔۔؟‘‘ وہ ایک سانس میں ہی سارے سوال پوچھنے لگا۔
’’اور آپ کو معلوم ہے وہاں ہمارے کزنز بھی آئیں گے ۔۔۔‘‘
علی کے پیچھے کھڑی ثنا نے تین انگلیاں فیصل کو دکھائیں ۔
’’کیا؟‘‘
’’تین دنوں کے لیے جارہے ہو؟‘‘ فیصل نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’جلو پارک بھی جائیں گے۔‘‘ علی اپنی روانی میں لگا ہوا تھا۔
ثنا نے نفی میں سر ہلایا۔
’’تین ہفتے ؟‘‘ فیصل پریشان ہوا۔
’’آجاؤ بچو!‘‘ قریشی صاحب کی آواز آئی۔
ثنا نے نفی میں سر ہلایا اور علی کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کی طرف بڑھ گئی ۔
’’تین مہینے ؟‘‘ فیصل نے بے یقینی سے کہا۔
’’تین مہینے!‘‘ وہ دھم سے کرسی پر گر گیا۔
’’قریشی صاحب آپ کو اللہ پوچھے۔‘‘ فیصل اپنی آواز کہیں اندر سے آتی ہوئی محسوس کی۔
٭…٭…٭





فیصل کے لیے ایبٹ آباد ویران ہو گیاتھا۔ اسے مونا لیزا اور پریڈ گراؤنڈ سے نفرت ہوگئی ۔ اس نے عادل کو فون کیا اور اس سے لڑ پڑا۔
’’تم نے کہا تھا افاقہ ہو جائے گا۔‘‘ وہ بے ساختہ چیخ پڑا۔
’’دوائی لینی پڑتی ہے بیٹا۔‘‘ عادل نے آرام سے کہا۔
’’کیسی دوائی؟‘‘ اس کا لہجہ اب بھی سخت تھا۔
’’اس سے ملنا چھوڑ دو ، ایکسر سائز ڈبل کر دو، رات کو جلدی کھانا کھا کر نماز پڑھو اور فوراً سوجاؤ۔ ہفتے بھر میں ٹھیک ہو جاؤ گے۔‘‘ عامر جیسے واقعی اسے نسخہ پڑھ کر سنا رہا تھا۔
فیصل نے بھنا کر فون بند کر دیا۔
’’کیسے گزریں گے تین مہینے؟‘‘ یہاں تو ایک ہی مہینے میں دل ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ کسی کام میں جی نہیں لگتا۔‘‘ وہ بڑ بڑاتا رہا۔
دو مہینے فیصل نے مصیبت کے وقت کی طرح گزارے ۔ اب نہ جانے یہ عشق تھا یا ایبٹ آباد کا پانی، اس کے بال تیزی سے گرنا شروع ہو گئے تھے۔ تین مہینے میں سر کے بال آدھے گر گئے۔ اس نے ایک ہفتے کی چھٹی لی اور لاہور جا پہنچا ۔ ہمیشہ کی طرح وہ آتے ہوئے زنیرہ کو بھی لیتا آیا ۔ دادی اور عطیہ نہال ہو گئیں۔ فیصل جب بھی آتا تھا ،گھر ہنسی مذاق ، قہقہوں اور آوازوں سے بھر جاتا تھا ۔ عطیہ کچن میں گھس گئیں۔ اس کی محبت کاسب سے بڑا اظہار اپنے بچوں کو کھلانے پلانے میں تھا ۔ دادی کی سوئی حسبِ معمول عادل کے رشتے پر اٹکی تھی۔
’’بڑی اچھی لڑکی ہے، پھوپھو خالدہ یاد ہیں تمہیں ؟‘‘ انہوں نے فیصل اور زنیرہ کو بتایا۔
’’ہماری کوئی پھوپھو خالدہ بھی تھیں ؟‘‘ فیصل زنیرہ کی طرف دیکھنے لگا اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
’’ کون پھوپھو خالدہ دادی؟‘‘ زنیرہ نے پوچھا۔
’’وہ جو گوری سی تھیں، لمبے قد کی، نہیں نہیں! تمہارے پیدا ہونے سے پہلے مر گئی تھیں۔‘‘ دادی نے یاد کروایا تو فیصل ہنسنے لگا۔
’’ہاں یاد آیا۔ اپنی پیدائش سے پہلے کے لوگوں کو تو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ آپ کی پھوپھو خالدہ جنت میں ملی تھیں مجھے، میں کھیل رہا تھا کہ لاٹھی ٹیکتی آئیں اور بولیں ڈاکٹروں نے ٹھیک علاج نہیں کیا۔‘‘ فیصل ہنستے ہوئے بول رہا تھا۔
’’چپ کر بڑی پیاری پھوپھی تھیں میری۔‘‘ دادی برا مان گئیں۔
’’لیکن دادی و ہ تو مرگئیں ۔ اب عادل کی شادی ان سے کیسے ہو گی ؟‘‘ فیصل نے ہنس کر پوچھا۔
’’پوری بات سنا کر، بیچ میں مت بولا کر۔‘‘ دادی نے اسے ڈپٹا۔
’’پھوپھو خالدہ کی بیٹی ہے رضیہ!‘‘
’’یعنی آپ کی کزن؟‘‘ زنیرہ نے لقمہ دیا۔
’’ہاں! اس کی پوتی ہے، بڑی پیاری ہے ۔ میں پچھلے دنوں شادی میں گئی تھی نا، اوہووہی ننھی کے بیٹے کی شادی پر۔ تو وہاں میں نے دیکھی۔ فوراًمجھے پسند آگئی۔‘‘ دادی نے اس کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا؟ کیا نام ہے اس کا؟ کیا کرتی ہے؟‘‘ زنیرہ کو دلچسپی ہوئی۔
’’نام؟‘‘ دادی سوچ میں پڑ گئیں۔
’’شمیم آراء۔‘‘ فیصل نے کہا۔
’’بڑا پرانے زمانے کا نام ہے۔‘‘ زنیرہ نے حیرت سے فیصل کو دیکھا اور بڑبڑائی۔
’’ہاں ہاں! شمیم آراء۔‘‘ تمہارے داد ا جی نے پہلی فلم مجھے اسی کی دکھائی تھی۔ سفید غرارہ پہنا ہوا تھا اس نے اور اوپر ساٹن کی پھولوں والی قمیص سر پر چار موم کا دوپٹہ۔۔۔۔۔‘‘ دادی خوش ہو کر بولیں اور وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
٭…٭…٭
فیصل کوعادل کے رشتے سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ وہ سرور کے ساتھ ان کے کاموں کیلئے نکل جاتا۔ ان کی ریٹائرمنٹ قریب تھی۔ زندگی کا ایک طویل حصہ تھا جسے اب انہیں سمیٹنا تھا۔ فیصل کو احساس تھا کہ دونوں بیٹو ں کی عدم موجودگی میں وہ اپنا ہر کام اکیلے کرتے تھے۔ وہ جب بھی آتا تھا، تو ان کے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ بل جمع کروانے ، گاڑی کو ورک شاپ لے جانا، ڈاکٹر کی اپائنمنٹس، یہ سب وہ کام اپنے ذمہ لے لیتا تھا۔
’’جب سے آیا ہے فیصل دوگھڑی کو ہمارے ساتھ نہیں بیٹھا باہر ہی پھرتا رہتا ہے۔‘‘ دادی نے شکوہ کیا۔
’’میرے کاموں سے جاتا ہے اماں۔ اب آپ ہی کے پاس رہے گا۔‘‘ سرور نے انہیں تسلی دی۔
’’میں نے فون کیا تھا رضیہ کو کل جائیں گے اس کے گھر ، تم لوگ اس کی پوتی کو دیکھ لینا، پھر عادل کا رشتہ دے دیں گے۔‘‘ دادی نے بتایا۔
’’اماں مجھے تو کل کہیں جانا ہے۔ آپ لوگ ہو آئیے گا، فیصل لے جائے گا۔‘‘ سرور نے کہا۔ ’’میں کیاکروں گا وہاں جا کر؟ میرا وہاں کیا کام؟‘‘ فیصل گڑبڑا کر بولا۔
’’لے تیرا کام کیوں نہیں؟ تو لڑکے کا بھائی ہے ۔ ہونے والی بھابھی کو دیکھنا ضروری ہے۔‘‘ دادی بولیں۔
’’چلے جاؤ، وہ خوش ہو جائیں گی۔‘‘ سرور نے آہستہ سے اس کے کان میں کہا۔
’’لیکن ابو کل تو۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
’’کل میں ذرا مصروف ہوں۔‘‘
’’کہاں مصروف ہو؟‘‘ سرور نے پوچھا۔
’’کچھ کام ہے۔‘‘ اس نے گول مول جواب دیا۔
’’اماں آپ لوگوں کو کتنے بجے جاناہے ؟‘‘ سرور نے پوچھا۔
’’شام کو چھے بجے!‘‘
’’چھے بجے تک آجاؤ گے تم؟‘‘ سرور نے فیصل کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔
’’کوشش کروںگا۔ ’’فیصل نے تابع داری سے کہا۔
اگلے دن وہ صبح صبح گھر سے غائب ہو گیا۔ سارا دن اس کا کچھ پتا نہ چلا، زنیرہ نے ایک دو مرتبہ اسے فون بھی کیا لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا ۔شام کو دادی ،عطیہ اور زنیرہ تیار ہو کر اس کے انتظار میں لاؤنج میں بیٹھ گئیں۔
’’کہاں رہ گیا؟ کچھ بتا کربھی نہیں گیا۔‘‘ عطیہ بار بار گھڑی دیکھتیں۔
’’آجائے گا امی، بچہ تو نہیں ہے ۔ گیا ہو گا دوستوں میں۔‘‘ سار ہ نے کہا۔
’’ہاں ہاں! بڑا ذمہ دار ہے میرا بچہ۔‘‘ دادی نے فخر سے کہا۔
اسی وقت دروازہ کھلا اور فیصل اندر داخل ہوا ۔ دادی ،عطیہ اور زنیرہ تینوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔
’’یہ کیا؟‘‘ عطیہ کے منہ سے نکلا۔
فیصل! ’’تم ہیئر ٹرانسپلائٹ کر و ا کر آئے ہو؟‘‘ زنیرہ نے بے یقینی سے کہا۔
فیصل نے بھنویں اچکا کر انہیں دیکھا اور بڑی بے نیازی سے بولا:
’’ہاں!‘‘
’’لیکن کیوں؟ گنجے تو نہیں ہو ئے تھے تم ابھی زنیرہ نے حیرانی سے کہا۔
’’ہورہا تھا آپی! اس سے پہلے کہ معاملہ میرے ہاتھ سے نکلتا، میں نے سوچا کچھ تدبیر کرلوں۔‘‘
’’اے وہ شہزادہ بھی تو گنجا ہے۔ ’’دادی نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
’’کون سا شہزادہ ؟‘‘ فیصل نے حیران ہو کر پوچھا ۔
’’میرا خیال ہے پرنس ولیم کی بات کررہی ہیں ۔ ‘‘ زنیرہ بولی
’’ہاں ہاں! وہی اس نے تو بال نہیں لگوائے۔‘‘ دادی کو یاد آگیا۔
’’لگوانے چاہیے تھے۔ وہ انسان ہی کیا جو سمارٹ نظر نہ آئے۔‘‘ فیصل دروازے کی طرف مڑا۔
’’کتنا خیال ہے اس اپنی سمارٹنیس کا۔‘‘عطیہ نے ہنس کر کہا۔
فیصل نے گردن موڑ کر عطیہ کو دیکھا اور مسکرا کر بولا۔
’’کیاکروں امی ، میں ہیرو بنے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘
٭…٭…٭
دادی کی کزن کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ لڑکی اپنے ماں باپ کے ساتھ کہیں گئی ہے۔ یہ دادی نے ان لوگوں کو یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ لڑکی دیکھنے آرہے ہیں۔ عادل کا کیا بھروسہ؟ شادی کے لیے مانے یا نہ مانے، بعد میں شرمندگی تو نہ ہو گی۔
عورتیں بیٹھی باتیں کررہی تھی اور فیصل جی بھر کر بور ہوتا رہا ۔ اسے زیادہ دیر بیٹھنے کی عادت نہیں تھی۔ جب بیٹھے بیٹھے اسے اپنے ہاتھ پاؤں بے کار لگنے لگے تو وہ پانی پینے کے بہانے اٹھا ۔ ڈرائینگ روم کے ساتھ متصل ڈائیننگ روم تھا۔ اس نے وہاں جا کر ایک گلاس میں پانی ڈالا اور پینے لگا۔ اس کے دائیں طرف دیوار پر ایک سنہری فریم والا آئینہ لگا تھا۔ وہ پانی پیتے پیتے اپنے نئے نویلے بال دیکھنے میں مگن تھا، جب آئینے میں اسے وہ نظر آئی۔ وہ دروازے سے اندر داخل ہورہی تھی۔ پانی کا گھونٹ فیصل کے گلے میں اٹک گیا ۔ اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا ۔ تیزی سے وہ اس کی طرف مڑا۔ تبھی ثنا کی نظر اس پر پڑی۔ وہ بھی ہکا بکا رہ گئی۔ وہ جہاں تھی وہیں تھم گئی اور دم بہ خود فیصل کو دیکھنے لگی۔ اسی وقت اس کے پیچھے سے قریشی صاحب نمودار ہوئے ، ساتھ ہی ان کی بیگم اور کچھ دوسرے لوگ میں ثنا بھی کھنچی کھنچی ڈرائنگ روم کی طرف چلی گئی۔
٭…٭…٭
رات کو فیصل نے زنیرہ کے دروازے پر دستک دی ۔ زنیرہ اس کو اتنا سنجیدہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ چپ چاپ آکر اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور کتنی ہی دیر سر جھکائے بیٹھا رہا ۔ پہلے تو زنیرہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتی رہی ۔ پھر اسے احساس ہوا کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے ۔ پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ پھٹ پڑا ، ساری بات الف سے یے تک زنیرہ کے گوش گزار کر دی۔
’’ہوں! تویہ بات ہے۔ لڑکی تو پیاری ہے۔‘‘ زنیرہ نے پر سوچ لہجے میں کہا۔
فیصل خاموش رہا۔
’’لیکن فیصل صرف شکل و صورت دیکھ کر تو آپ اتنا بڑا فیصلہ نہیں کر سکتے۔‘‘ زنیرہ اسے سمجھانے والے انداز میں کہہ رہی تھی۔ وہ اب بھی چپ رہا۔
’’تمہیں اس میں کیا پسند ہے ؟‘‘ زنیرہ نے نرمی سے پوچھا۔
’’ذہین ہے، شریف ہے اور سب سے زیادہ یہ کہ خوش مزاج ہے۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے روانی میں کہا۔
’’یہی تین چیزیں اہم ہیں ایک لڑکی میں۔‘‘ زنیرہ نے سر ہلایا۔
’’بالکل!‘‘ فیصل نے پرجوش انداز میں کہا۔
زنیرہ کچھ دیر پرسوچ نظروں سے اسے دیکھتی رہی ۔
’’تم ابھی صرف تیئس سال کے ہو۔‘‘ زنیرہ نے اسے یاد دلایا۔
’’وہ بھی صرف اٹھارہ سال کی ہے۔ آج آپ لوگ اسے عادل کے لیے پسند کررہے ہیں، کل کو کوئی اور پسند کرے گاتو میں کیا کروں گا؟ ابھی تو وقت میرے ہاتھ میں ہے اور پھر میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوں۔ اگلی پوسٹنگ جہاں ہو گی وہاں گھر بھی مل جائے گا ۔بیوی افورڈ کرسکتا ہوں میں۔‘‘ وہ شاید اسے قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
’’میں تو آج تک یہی سمجھتی تھی کہ تم مذاق کرتے ہو اپنی شادی کے بارے میں۔‘‘ رنیرہ مسکرائی۔
’’مذاق ہی کرتا تھا مگر اب سیریس ہوں۔‘‘ فیصل نے کہا ۔ وہ اب بھی سنجیدہ تھا
’’تم فکرمت کرو۔ میں ابو سے بات کرتی ہوں۔‘‘ زنیرہ نے تسلی اسے دی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Read Next

سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!