داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

’’ تم مجھے حمیرا کے گھر اتار دو۔ ‘‘ زنیرہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس سے کہا:
ایک گھنٹے بعد لے لینے آجانا ۔‘‘
فیصل نے اس کا چہرہ دیکھا ۔ وہ اس قدر تھکی ہوئی ، اداس اور بجھی ہوئی لگ رہی تھی کہ اس سے بحث کرنے کی اس کی ہمت نہ ہوئی۔
’’جیسے آپ کی خوشی آپی! ‘‘ اس نے اسے خوش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ عام حالات میں اس کی ایسی باتوں کے جواب میں وہ اس کے گال پر پیار سے چٹکی بھر لیتی یا اس کے بال بگاڑ دیتی تھی، مگر اب وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی ۔
حمیرا اسے دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ اس نے بڑ ھ کر زنیرہ کو گلے لگا لیا ۔
’’شکر ہے تم گھر سے نکلیں! کیسی ہو ؟‘‘ اس نے کہا۔
’’سید صاحب سے ملنے آئی ہوں ۔’’ زنیرہ نے بغیر کسی تمہید کے کہا۔
’’ضرور! اس وقت وہ آرام کرکے اٹھ چکے ہوں گے ۔ آؤ میں تمہیں ان کے کمرے میں لے جاؤں۔‘‘ حمیرا اس کا ہاتھ پکڑ کر ان کے کمرے تک لے گئی۔
دروازے پر دستک دے کر وہ اندر داخل ہوئی توسید صاحب صوفے پر بیٹھے کوئی کتاب دیکھ رہے تھے ۔ اسے دیکھ کر مسکرائے اور شفقت سے بولے:
’’بلایا ہے تو آئی ہو ۔ خود سے آکر ملنے کاخیال نہیں آیا ؟‘‘
’’میں نے آپ کو خواب میں ۔۔۔۔۔‘‘ زنیرہ دم بہ خود رہ گئی۔
’’ہاں ہاں!‘‘ جانتا ہوں۔ وہی تو کہہ رہا ہوں بلایا ہے تو آئی ہو۔‘‘انہوں نے سر ہلایا۔
زنیرہ یک د م پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔ بھاگ کر وہ ان کے پاس گئی اور ان کے صوفے کے پاس گھٹنوں کے بل گر گئی ۔
’’میں مرجاؤں گی سید صاحب! مجھے لگتا ہے میرا دل پھٹ جائے گا ۔‘‘ اس نے ہچکیوں میںروتے ہوئے کہا
حمیرا نے بڑھ کر اسے فرش سے اٹھانا چاہا تو سید صاحب نے اشارے سے منع کر دیا ۔ وہ وہیں بیٹھی روتی رہی اور وہ خاموشی سے اس کا سر تھپکتے رہے ۔ اچھی طرح رو لینے کے بعد جب اس کے آنسو ذرا تھمے تو انہوں نے حمیرا کو اشارہ کیا۔
’’پانی !‘‘ انہوں نے دھیمی آواز میں کہا ۔
حمیرا نے آگے بڑھ کر اسے فرش سے اٹھایا اور سید صاحب کے پاس صوفے پر بٹھایا ۔ پانی کا گلاس اس کے منہ سے لگا کر اس کے آنسو پونچھے ۔ اس کی اپنی آنکھیں بھی نم تھیں ۔
’’اب بتاؤ کیا ہوا ؟‘‘ سید صاحب نے نرمی سے کہا ۔
زنیرہ نے انہیں اپنی ساری بپتا کہہ سنائی۔





’’میں اپنے آپ کو مصروف رکھتی ہوں ، خوش رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہوں لیکن میری زندگی بنا پتوار کی کشتی ہے ، ڈانواڈول !‘‘ وہ سرجھکائے کہتی رہی۔ اس کے آنسو تھم گئے تھے مگر سسکیاں اس کے وجود کو ہلائے دیتی تھیں۔
’’مجھے لگتا ہے میں گھپ اندھیرے میں کھڑی ہوں ۔ نہ آگے کچھ نظر آتا ہے نہ پیچھے ۔‘‘
سید صاحب خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے ۔وہ خاموش ہوئی تو وہ بولے:
’’اولاد نہ ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ کمی کس میں ہے؟‘‘
’’مجھ میں۔‘‘ زنیرہ نے سر جھکا لیا ۔ اس کی آنکھ بھر آئی۔
’’کیا اس نے کبھی تمہیں طعنہ دیا ہے؟‘‘
’’نہیں‘‘ زنیرہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔
’’کیا اس نے کبھی دوسری شادی کا ارادہ ظاہر کیا ؟‘‘
زنیرہ نے نفی میں سر ہلا یا۔
’’اور اس کے ماں باپ یا گھر والے ؟ کیا وہ اسے دوسری شادی پر مجبور کرتے ہیں ؟‘‘
’’وہ تو شادی کے ایک سال بعد ہی سے اسی کوشش میں ہیں۔‘‘ زنیرہ پھیکی سی ہنسی ہنس پڑی۔
’’گھر میں اس کی دل چسپی کا سامان کیا ہے ؟‘‘ سید صاحب نے پوچھا ۔
’’وہ گھر آئے تو دل چسپی کا سامان ہو۔ ‘‘ اس نے تلخی سے کہا۔
’’میرا مطلب ہے کیا اس کی ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا ہے؟ اس کے مہمانوں اس کے گھر والوں کا؟‘‘
’’میں سب کچھ کرتی ہوں لیکن وہ پھر بھی سمجھتا ہے کہ میں بے کار ہوں۔ اس کا خیال ہے کہ سب کچھ ملازم کرتے ہیں ، میں صرف عیش کرتی ہوں۔ میں نے اس کی خاطر سب کچھ کیا ، اس کے ماں باپ کی خدمت کی ، اچھے برے وقت میں اس کا ساتھ دیا ، اس کے ساتھ وفا داررہی ۔ صرف بچہ ہی پیدا نہیں کرسکی، اس وجہ سے معتوب ہوں ۔‘‘ اس کے آنسو پھر سے بہنے لگے۔
’’ہوں! اور اب وہ بہت بیمار ہے ؟‘‘ سید صاحب جو پر سوچ انداز میں ڈاڑھی پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ پھر انہوں نے کچھ دیر توقف کے بعد پوچھا۔
زنیرہ نے ہاں میں سر ہلایا ۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا اور نظریں اپنی گود میں رکھے ایک دوسرے میں پیوست ہاتھوں پر جمی تھیں ۔ وہ خود بھی کسی گہری سوچ میں گم نظر آتی تھی ۔
’’اب میرے ایک سوال کا جواب سوچ سمجھ کر دینا، کیا تم اسے چھوڑنا چاہتی ہو ؟‘‘ سید صاحب نے کہا
’’میں اسے چھوڑ چکی ہوں!‘‘ زنیرہ نے اسی طرح جھکے سر کے ساتھ کہا۔
’’پھر اب کیا کرو گی ؟‘‘
یہ وہ سوال تھا جو زنیرہ پچھلے دو ہفتے سے اپنے آپ سے پوچھ رہی تھی ۔ پھر کیا کرو گی ؟ پھر کیا کرو گی ؟ پھر کیا کرو گی ؟ اس جملے کی باز گشت نے اسے پاگل کر دیا تھا ۔
’’ اسے وہاں۔۔۔۔۔۔‘‘ حمیرا نے کچھ کہنا چاہا تو سید صاحب نے ہاتھ اٹھا کر نرمی سے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔
’’ میں ایک اور سوال پوچھتا ہوں ۔ اگر تمہاری ہیرے کی انگوٹھی تمہیں تنگ ہو جائے تو تم کیا کرو گی ؟ اتار کر پھینک دو گی ؟‘‘ انہوں نے اسی نرمی سے کہا
’’ یہ ہیرے کی انگوٹھی نہیں ہے ۔‘‘ زنیرہ ان کا سوال سمجھ گئی۔اس نے دل برداشتہ لہجے میں کہا۔
’’یہ تو سٹرک کی بجری ہے۔‘‘ وہ روانی میں کہے جارہی تھی۔
’’اپنے آپ سے وابستہ ہر رشتہ ہیرے کی انگوٹھی ہی ہوتاہے بیٹا اور ہیرے کی انگوٹھی تنگ ہو جائے تو اس ے اتار کر پھینکا نہیں جاتا یا اپنا وزن کم کیا جاتا ہے یا اسے سنار سے کھلا کروایا جاتاہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ میرے پاس ایسا کوئی سنار نہیں۔ ‘‘ زنیرہ نے سر اٹھا کر ان کا چہرہ دیکھا ۔
’’سنار تو سب کے پاس ہے ۔ بس کھوجنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘ انہوں نے مسکر اکر کہا۔
زنیرہ ان کاچہر ہ دیکھتی رہی ۔
’’تم واپس چلی جاؤ۔‘‘ میں جانتا ہوں تمہارے لیے یہ بہت مشکل ہو گا لیکن تم جاؤ اور بیماری میں اس کا خیال رکھو۔‘‘ وہ بڑی پیار سے اسے سمجھا رہے تھے۔
’’ اتنی بے عزتی کے بعد میں اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی ۔‘‘ زنیرہ نے نفی میں سر ہلا یا ۔
’’بے عزتی اگر کسی کی ہوتی ہے تو خود اس کی، تمہاری نہیں ۔۔بے وفائی تم نے نہیں ، اس نے کی۔ دیکھو بیٹا! طلاق مسئلے کا حل نہیں ہوتی ، نئے مسائل کی بنیاد ہوتی ہے ۔ وہ تمہارا گھر ہے ۔ تم جاؤ اور استحقاق سے وہاں رہو۔ اپنے حق کے لیے لڑے بغیر ہا ر مت مانو۔‘‘ انہوں نے کہا
’’کیا وہ لڑکی اس کی زندگی سے نکل جائے گی ؟‘‘ اپنے لہجے کی آس نے خود اس کو حیران کر دیا ۔
’’بالکل!‘‘ اور یہی وقت ہے اسے دکھا دینے کا کہ اس کی زندگی میں تمہارا کیا مقام اور اہمیت ہے ۔ وہ یہ بات اپنی آنکھوں سے دیکھے گاکہ جب آپ توانا اور عروج پر ہوتے ہیں تو آپ کا ساتھ دینے کو بہت سی تتلیاں آتی ہیں۔ لیکن جب آپ لاغر اور کم زور ہو جاتے ہیں تو پھر صرف بیوی ہوتی ہے ساتھ نبھانے اور خدمت کرنے کے لیے۔‘‘ سید صاحب شفقت بھرے لہجے میں اسے سمجھا رہے تھے۔
’’میں جانتی ہوں میرے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔‘‘ زنیرہ نے شکست خوردہ انداز میں سر جھکا لیا۔
اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور فیصل خاموشی سے آکر ایک کونے میں رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’میں اولاد پیدا نہیں کر سکتی۔ میرے پاس آگے کوئی راستہ نہیں ۔‘‘ زنیرہ کہہ رہی تھی ۔
’’راستے تو ہر کسی کے پاس کئی ہوتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی آسان راستہ نہیں ہوتا ۔ راستے کو آسان بنانا پڑتا ہے ۔ محنت سے، دعا سے، صبر سے۔‘‘ سید صاحب بڑے پیار سے اسے سمجھا رہے تھے۔
’’کیا میرا یہ راستہ آسان ہو جائے گا ؟‘‘ زنیرہ نے بڑی آس اور امید سے پوچھا ۔
’’ہاں! میں ایک مسنون دعا لکھ کر دے رہا ہوں ۔ ہر نماز کے بعد اسے پڑھو ۔ اللہ نے چاہا تو میاں بیوی کے درمیان محبت بڑھے گی۔ ‘‘انہوں نے یقین سے کہا۔
’’کسی چیز کے بڑھنے کے لیے اس کا ہونا ضروری ہے۔ ‘‘زنیرہ پھیکی سی ہنسی ہنس پڑی۔
محبت ہے ہی نہیں تو بڑھے گی کس طرح؟‘‘
’’آپ تھیں آج سے تیس سال پہلے؟ ’’تو اب اتنی بڑی کیسے ہو گئیں؟‘‘ سید صاحب نے مسکرا کر پوچھا تو زنیرہ نے حیران ہو کر ان کا چہرہ دیکھا
’’نہیں نا؟‘‘ وہ مسکرا رہے تھے ۔زنیرہ لاجواب ہو گئی ۔
’’محبت اپنی صفت میں انسانوں جیسی ہوتی ہے۔‘‘ سید صاحب نے ایک سفید کاغذ اور پین اٹھاتے ہوئے کہا:
پیدا ہوتی ہے ، جوان ہو تی ہے ، کبھی کبھی ڈھل بھی جاتی ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ محبت مرتی نہیں ، کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہتی ہے ۔‘‘
زنیرہ خاموشی سے کچھ سوچتی رہی ۔ سید صاحب نے کاغذ پر کچھ لکھتے رہے ۔ اپنا کام ختم کرکے انہوں نے کاغذ زنیرہ کی طرف بڑھایا۔
’’فکر کرنا چھوڑ دو اب تمہاری ہیرے کی انگوٹھی سنار کے پاس ہے۔ وہ جانے اور اس کا کام۔‘‘ انہوں نے شفقت سے کہا۔
زنیرہ نے ان کے ہاتھ سے کاغذ لے لیا ۔ ایک فیصلے پر پہنچ کر اب وہ پرُسکون نظر آرہی تھی۔ ’’سید صاحب! کیا میرے گھر اولاد ہو گی ؟‘‘اس نے جھجھک کر پوچھا ۔
’’تمہارے پاس نچھاور کرنے کے لیے محبت کا سمند رہے۔ انشااللہ ایک دن تمہیں وہ بچہ ضرور ملے گا جسے اس محبت کی ضرورت ہو گی ۔‘‘ انہوں نے نرمی سے کہا۔
زنیرہ کے چہرے پر روشنی کِھل اٹھی ۔ ایک سچی مسکراہٹ اس کے لبوں پر کھیلنے لگی ۔ اس نے خوش ہو کر حمیرا کو دیکھا ۔ تب اس کی نظر کونے میں بیٹھے فیصل پر پڑی۔
’’آپ کا بہت شکریہ سید صاحب میں نے آپ کا بہت وقت لیا ۔ اب اجازت دیجیے ۔‘‘
’’یہ میرا بھائی ہے لینے آیا ہے ۔ میں چلتی ہوں۔ ‘‘ اس نے کونے میں بیٹھے فیصل کی طرف اشارہ کیا۔
سید صاحب نے چہرہ گھما کر فیصل کو دیکھا ، فیصل نے انہیں سلام کیا۔ سید صاحب کی نظریں اس پر جم گئیں ۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آکر ٹھہر گیا ۔ ایک ٹرانس کے سے عالم میں وہ اٹھے اور فیصل کی طرف قدم بڑھا یا ۔ وہ تعظیماً اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔ سید صاحب اس کے سامنے آکرٹھہر گئے ۔ وہ بہ مشکل اس کے کندھے تک آئے تھے ۔ کچھ دیر وہ اس کے سامنے کھڑے وہ اس کا چہرہ دیکھتے رہے پھر انہوں نے بے ساختہ اس کے ہاتھ تھام کر چوم لیے ۔ فیصل بھونچکا رہ گیا ۔ متامل ہو کر اس نے اپنے ہاتھ کھینچنے چاہے مگر انہوں نے اس کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے ۔
’’تم زندگی میں بہت اونچا مقام پاؤ گے انشااللہ! ‘‘ انہوں نے اس سے کہا۔
’’واقعی؟ چیف آف آرمی سٹاف بنوں گا میں ؟‘‘ فیصل خوش ہو گیا۔
’’ہاں! سردار ہو گے تم ۔ سالارِ لشکر۔‘‘ سید صاحب نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔
٭…٭…٭
’’ فیوچر چیف آف آرمی سٹاف سے آٹو گراف لے لیں آپ لو گ ابھی سے پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی ۔‘‘ فیصل نے اپنا دودھ کا جگ نما گلاس اٹھاتے ہوئے کہا
’’کھلنڈرا پن ختم ہو گا تمہار تو چیف بنو گے۔ہر وقت تو ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہو۔‘‘ عطیہ نے چائے میں چینی ہلاتے ہوئے کہا۔
’’گھر کی مرغی دال برابر! ہیرے کی قدر جوہری ہی پہچان سکتا ہے ۔ سید صاحب نے مجھے کہا سردار ہو گے تم ، اور بھی کچھ کہا۔‘‘ فیصل نے منہ بنا کر کہا وہ سوچ میں پڑگیا ۔
’’ہاں ! سالارِ لشکر‘‘ اس نے ڈرامائی انداز میں کہا۔
’’کیا ؟ سالا ر سکندر ؟‘‘دادی چونکیں۔
’’ہائے! وہ تو میرا ہیرو ہے۔‘‘ عطیہ شرما کر بولیں۔
’’یہ ہے کون ! سالار سکندر ؟ پندرہ سال سے لے کر پچاسی سال کی خاتون جس پر فدا ہے ؟ فیصل بھنا کر بولا۔
’’بس یہ نہ پوچھو! ‘‘ عطیہ نے مسکر اکر کہا ۔
’’کیوں نہ پوچھوں ؟ ہیرو صرف میں ہوں امی ۔‘‘اس نے تنتنا کر کہا۔
عطیہ ہنسنے لگیں ۔ ہیرو تو وہ اپنے آپ کو بچپن سے سمجھتا تھا ۔ جب حسن ابدال کے بعد اس نے آرمی میں کمیشن لیا تو عطیہ رو پڑی تھیں ۔ ان کا خیال تھا شاید اس کا شوق ٹھنڈا پڑ گیا ہو گا ۔ لیکن وہ تو خوشی خوشی سامان پیک کررہا تھا ۔
زنیرہ شادی کر کے چلی گئی ، عادل امریکہ کو پیارا ہو گیا ۔ اب تم بھی چلے جاؤ گے تو میں تو بالکل اکیلی ہو جاؤں گی ۔ ‘‘ عطیہ نے مغموم ہو کر کہا ۔
’’بس امی ، میرے لیے کسی اور فیلڈ میں جانا ممکن نہیں تھا۔ ‘‘ فیصل نے سنجیدگی سے کہا ۔
’’کیوں؟‘‘ عطیہ نے حیران ہو کر پوچھا ۔
’’کیوں کہ میں پیدائشی ہیرو ہوں ۔ ہیرو بنے بغیر نہیں رہ سکتا ۔‘‘عطیہ روتے روتے ہنس پڑی تھیں ۔
اب بھی تصور میں انہوں نے اپنے سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے کو گارڈ آف آنر لیتے دیکھا۔
’’اس میں تو کوئی شک نہیں اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے ۔‘‘انہوں نے نثار ہو کر کہا
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Read Next

سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!