داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

فیصل کو جب بھی موقع ملتا وہ بھاگم بھاگ مونا لیزا پہنچ جاتا ۔ لیکن وہ جب بھی نظر آئی اپنے امی، ابو اور بھائی کے ساتھ ہی نظرآئی۔ وہ پریڈ گراؤنڈ کے پاس اسے ملنے کی آس میں ٹہلتارہتا ۔ قریشی صاحب کو بھی شام کی چہل قدمی شاید کسی ڈاکٹرنے کہہ رکھی تھی۔ وہ ایک دن کا بھی ناغہ نہ کرتے تھے ۔ شو مئی قسمت سے اگر فیصل پر نظر پڑ جاتی تو اس سے بات چیت کرنے کھڑے ہو جاتے ۔ ان کی موجودگی میں ثنا سے بات کرنا تو درکنار ، وہ ڈھنگ سے اسے دیکھ بھی نہ سکتا تھا ۔ دو تین باتیں کرکے قریشی صاحب اپنی راہ لیتے اور فیصل دل مسوس کررہ جاتا ۔ اسے اپنے آپ پر غصہ آتا ۔ پچھلی ملاقات میں فون نمبر کیوں نہ لیا اس نے ؟ خیر اب ذرا موقع تو ملے ۔ یہ قریشی صاحب بھی تو ٹلنے کا نام نہیں لیتے ۔ کباب میں ہڈی! بیمار بھی نہیں پڑتے ۔ بلائے بے درماں کی طرح ہر وقت محبو ب کے سر پر سوار رہتے ہیں۔
ادھرفیصل پیچ و تاب کھاتا تھا، ادھر ثنا آنند کے تار چھیڑتی تھی ۔یہی تو فرق ہے مرد اور عورت کی محبت میں ۔ مرد ملاقات چاہتا ہے ،عورت دید پر ہی خوش ہوجاتی ہے۔
ایبٹ آباد کی پہاڑیوں نے برف کی چادر اوڑھ لی، سبزہ سفید ہو گیا۔ پائن کے درخت فادر کرسمس کا انتظارکرنے لگے ۔ ثنا اپنے امتحانوں میں مصروف ہو گئی۔ فیصل نے کاکو ل سے ایبٹ آباد آنا نہ چھوڑا۔ ہار مان لینا اس کی سرشت میں نہیں تھا ۔ ناموافق حالات اور ناکامی اس کی ضد نہ توڑ سکتے تھے ۔ اس کا ارادہ مزید مصمم ہوتاچلا جاتا تھا۔
تقدیر اور تدبیر کے عجیب کھیل ہیں، دونوں بلا کی طاقتور ہیں۔ دونوں اپنی اپنی جگہ زندگی کو بنا دیتی ہیں، تو توڑ بھی دیتی ہیں۔ دونوں اپنی فطرت میں تخلیقی بھی ہیں، تحریبی بھی۔ چاہیں تو جہاں سنوار دیں، چاہیں تو عالم بگاڑ دیں جو تقدیر پر راضی بہ رضا ہو جاتے ہیں، تدبیر ان پر افسوس کرتی ہے۔ جو صرف تدبیر پر بھروسہ کرتے ہیں، تقدیر ان پرہنستی ہے۔ لیکن کوئی کوئی خوش قسمت ایسا ہوتا ہے جس کے لیے یہ دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایک منظر نامہ تخلیق کرتی ہیں اور پھر اسے بازو سے پکڑ کر۔۔ اس منظر میں لا کھڑا کرتی ہیں۔
فیصل دفتر کے کسی کام سے ایبٹ آباد گیا تھا۔ کام جلدی ہو گیا، اس نے گھڑی دیکھی۔ پریڈ گراؤنڈ اور مونا لیزا کا چکر لگایا جاسکتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ثنا کا چہرہ آگیا۔ مسکراتا ہوا معصوم چہرہ۔ آخری مرتبہ جب وہ اسے نظر آئی تھی تو اس نے کس رنگ کا لباس پہن رکھا تھا ؟ فیصل نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ ایسی باتیں وہ نوٹ کرتا تھا نہ اسے یاد رہتی تھیں ۔ شاید گلابی! اس نے سوچا، کینٹ کی کشادہ سڑکوں پر گاڑی چلتے چلتے اسے گلابی کپڑوں میں ایک لڑکی نظر آئی۔ فیصل کو اس پر ثنا کا گمان ہوا۔
’’اس حد تک سوچنے لگا ہوں میں اس کے بارے میں؟ اب وہ مجھے جگہ جگہ نظر آنے لگی ہے۔‘‘ فیصل نے حیران ہو کر سوچا۔
وہ آگے نکل آیا تھا۔ اس نے بیک ویو مرر میں نظر ڈالی ۔ وہ لڑکی اس کی طرف دیکھ رہی تھی اور وہ سچ مچ ثنا تھی ۔
فیصل نے اس زور کی بریک لگائی کہ برف سے پھسل کر سڑک پر اس کی جیپ کئی فٹ تک پھسلتی چلی گئی۔ اس نے جلدی سے اسے ریورس گئیر میں ڈالا اور پیچھے لے آیا ۔ کو د کر وہ جیپ سے اتر ا تو اس کے چہرے پر بے یقینی ، حیرت اور خوشی صاف لکھی نظر آرہی تھی۔
خلافِ معمول ثنا اسے دیکھ کر مسکرائی نہیں ۔ وہ ہراساں سی کھڑی تھی ۔ اس کی گاڑی درخت سے برُی طرح ٹکرا گئی تھی اور بونٹ انجن میں دھنس گیا تھا۔ وہ بے بسی سے اس کے پاس کھڑی اسے دیکھ رہی تھی ۔ ہا تھ میں موبائل فون تھا جو ڈیڈ لگ رہا تھا۔ یہ وہی منظر تھا جسے دیکھ کر فیصل کی تمام حسیات بیدار ہوجاتی تھیں۔ وہ آگے بڑھ کر معاملات اپنے ہاتھ میںلینے کا عادی تھا ۔ یہ تو پھر ثنا کا معاملہ تھا۔
’’آپ کو چوٹ تو نہیں آئی ؟‘‘اس نے ثنا سے پوچھا۔
’’زیادہ نہیں۔‘‘ وہ ابھی ہراساں کھڑی تھی۔





’’مطلب چوٹ آئی ہے، کہاں لگی ہے چوٹ؟‘‘ فیصل نے تشویش سے کہا۔
یہ کہتے کہتے اس کی نظر ثنا کے ماتھے پر پڑی ۔ جہاں نیل کا نشان ابھر رہا تھا ۔ ثنا نے ہلکے سے اس نشان کو چھوا ۔
’’نہیں! کچھ زیادہ چوٹ نہیں لگی ۔‘‘ اس نے اپنا ماتھا سہلاتے ہوئے کہا۔
فیصل گاڑی کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کا بونٹ پچک گیا تھا۔
’’کیسے ہوا ایکسیڈنٹ؟‘‘ اس نے تشویش سے پوچھا۔
’’موٹر سائیکل کو بچاتے بچاتے۔ شاید میں ٹھیک طرح بریک نہیں لگا سکی۔‘‘ اس نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں آپ کا قصور نہیں آج کل سڑکوں پر پھسلن ہے، برف باری کے بعد اس طرح کے ایکسیڈنٹ ہو جاتے ہیں۔‘‘ فیصل نے تسلی دی۔
وہ خاموش رہی۔
’’آپ نے اسے سٹارٹ کرنے کی کوشش کی ؟‘‘ فیصل نے پوچھا۔
’’جی! لیکن سٹارٹ نہیں ہو رہی۔‘‘ اس نے فکر مندی سے کہا۔
’’میں کوشش کرتا ہوں ۔ چابی دیجیے۔‘‘ اس نے آگے بڑھتے ہوئے کہا تو ثنا نے چابی اس کی طرف بڑھا دی۔
جب فیصل اس کے ہاتھ سے چابی لے رہا تھا تو اس کا دل چاہا وہ ہمیشہ اسی طرح کھڑی اس کی طرف چابی بڑھاتی رہے اور ہ اس سے چابی لیتا رہے۔
’’حد ہو گئی یہی ہے تیرے رومانس کی انتہا فیصل ؟‘‘ اس نے اپنے آپ کو ڈانٹا۔
اس سوال کے جواب میں اس کے ذہن نے اسے کئی منظر دکھانے شروع کیے جن میں نہ گاڑی تھی ، نہ چابی اور نہ قریشی صاحب ۔ وہ منہ پھیر کر مسکرایا اور گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ ساتھ والی سیٹ پر ثنا کا پر س پڑا تھا اور ایک سکیچ بک جو شاید جھٹکا لگنے سے کھل گئی تھی ۔ فیصل نے اس کے دونوں صفحات پر آنکھیں دیکھیں۔ سبز آنکھیں۔۔۔ اس کی اپنی آنکھیں۔۔ وہ دم بہ خود رہ گیا۔ وہ جانتا تھا وہ اسے پسند کرتی ہے مگر اس حد تک؟ وہ آج تک اس کی مسکراہٹ کو، اس کی چمکتی آنکھوں کو، اس کی خوش مزاجی کو پسندیدگی پر محمول کرتا آیا تھا۔ا س نے یہ فرض کر لیا تھا کہ مرد ہونے کے ناطے اس کی پسندیدگی زیادہ شدت رکھتی ہے اور ثنا تک اس کی محبت کی آنچ نہیں پہنچ پائی۔ لیکن یہ آنکھیں؟ اس نے ہاتھ بڑھا کر سیکچ بک کا صفحہ اگلے دونوں صفحے بھی آنکھوں سے بھرے تھے۔
جس جوش سے فیصل نے گاڑی سٹارٹ کی ، اصولاً اسے سٹارٹ ہو جانا چاہیے تھا مگر افسوس کہ گاڑی پانی بیٹری سے چلتی تھی ، فیصل کے دل سے نہیں ۔ اگر وہ اس کے انجن میں اپنا دل فٹ کر سکتا تو سڑکوں پر دوڑنا تو ایک طرف رہا ، وہ اڑنے لگتی ۔
دو تین مرتبہ کوشش کرنے کے بعد وہ گاڑی سے نکل آیا ۔
’’لگتا ہے انجن damage ہوگیا ہے۔‘‘ اس نے اپنی خوشی چھپا تے ہوئے کہا تو ثنا نے مایوسی سے سر جھکا لیا۔
’’میرے فون کی بیٹری بھی ختم ہے ۔ آ پ کے پاس فون ہو گا؟ میں ابو کو کال کرلوں۔‘‘ اس نے کچھ شرمندگی سے پوچھا۔
فیصل نے غیر محسوس انداز میں سائیڈ پاکٹ میں پڑا فون مزید نیچے کھسکا دیا۔
’’کرواتا ہوں میں فون قریشی صاحب کو۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’اوہو مجھے لگتا ہے میں فون بھول آیا۔‘‘ معصومیت سے کہا۔
اب آئیڈیل سچویشن تو یہ ہوتی کہ بے چاری اکیلی لڑکی رونے لگتی اور فیصل ہیرو کی طرح اسے خاموش کرواتا، اس کے آنسو پونچھتا اور اپنی جیپ میں بٹھا کر اسے گھر چھوڑ آتا، لیکن ایسا ہو نہیں۔
ثنا نے اعتماد سے گاڑی میں سے اپنا پرس نکالا ، گاڑی لاک کی اور مزے سے بولی:
’’خیر اب کیا ہوسکتاہے ۔ گھر قریب ہی ہے ۔ میں پیدل چلی جاتی ہوں۔‘‘
اور فیصل یہ کیسے گوارا کر سکتا تھا کہ اس کی ثنا پیدل جائے؟
’’آپ پیدل مت جائیے ۔گھر اتنا بھی قریب نہیں، میں آپ کو جیپ میں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اس نے ثنا کو آفر کی۔
’’نہیں! امی ابو یہ پسند نہیں کریں گے۔‘‘ ثنا تامل سے بولی تو فیصل کی امیدوں پر پانی پھر گیا ’’اف! یہ امی ابو۔‘‘
وہ کچھ دیر یونہی سوچتا رہا۔ اگر وہ اس کے ساتھ جیپ میں نہیں جانا چاہتی تھی تو پھر وہ اس کے ساتھ پیدل بھی نہیں جائے گی۔
’’گاڑی یہاں نہیں چھوڑی جا سکتی ایک تو یہ آدھی سڑک گھیرے کھڑی ہے ،دوسرے یہاں سے چوری ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘ فیصل نے آخری کوشش کی۔
’’آپ گاڑی میں بیٹھیں ۔ اس کی ہینڈ بریک نیچے کریں۔ میں آپ کی گاڑی گھر تک چھوڑ آتا ہوں۔‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’آپ گاڑی گھر تک دھکا لگا کر لے جائیں گے ؟‘‘ ثنا نے بے یقینی سے پوچھا ۔
’’جی ہاں۔‘‘
’’سڑک ڈھلوانی پر ہے۔‘‘ ثنا نے سڑک کی طرف اشارہ کیا ۔
’’اتنی زیادہ بھی نہیں۔‘‘
ثنا متاثر نظر آنے لگی۔ وہ کچھ دیر سوچتی رہی۔
’’اچھا! کوشش کر کے دیکھ لیجیے۔‘‘ اس نے حیرت اور بے یقینی کے ملے جلے تاثرات سے کہا۔
ثنا نے گاڑی میں بیٹھ کر ہینڈ بریک نیچے کی، سٹیئرئینگ سیدھا کیا اور فیصل نے اسے پیچھے دھکیل کر درخت سے علیحدہ کیا۔ گاڑی سٹرک پر آگئی تو وہ اس کے پیچھے آگیا اور دھکا لگانے لگا۔ کچھ گاڑی بھی چھوٹی تھی، کچھ سڑک بھی سیدھی تھی، کچھ جوانی کا زور بازو تھا، کچھ محبت کی طاقت بھی تھی اور کچھ تقدیر کی شرارت بھی تھی، گاڑی بڑی آسانی سے اگلی سڑک پہنچ گئی۔ یہ سڑک اونچائی کی طرف جاتی تھی۔ ثنانے گاڑی کی بریک لگائی اور سر باہر نکالا۔
’’اس سٹرک پر نہیں چڑھے گی گاڑی۔‘‘ اس نے نفی میں سر ہلاکر کہا۔
’’چڑھ جائے گی۔‘‘ فیصل نے اپنی جیکٹ اتارکر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’سڑک کی ایسی کی تیسی‘‘ اس نے دل ہی دل میں بڑھک ماری۔
کئی چڑھائیاں اور ڈھلوانیں آئیں، آخر گاڑی پریڈ گراؤنڈ کے کنارے پہنچ گئی۔ ثنا نے سٹیئرنگ موڑ کر گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کی ۔ سامنے اس کا گھر تھا ، وہ گاڑی سے نکل آئی ۔ فیصل گاڑی کے پیچھے کھڑا ہاتھ جھاڑ رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے تھے۔ وہ اپنی جیکٹ اٹھانے کے لیے جھکا تو ثنا نے دیکھا کہ اس شدت کی سردی میں بھی اس کی شرٹ پسینے میں بھیگ کر اس کی کمر سے چپک چکی تھی ۔
ثنا کے دل پر بہت اثر ہوا ۔ اتنی دور سے گاڑی کو چڑھائی والی سڑکوں پر دھکا لگا کر لانا واقعی آسان کا م نہیں تھا۔ اسے اس بات کا احساس تھا کہ اتنی مشقت فیصل نے صر ف اس کے لیے اٹھائی ہے۔ اس نے گاڑی میں سے پانی کی بوتل نکال کر فیصل کو دی۔ وہ ایک سانس میں سارا پانی پی گیا۔ ثنا نے دیکھا، اس کے ہاتھ بھی سرخ ہورہے تھے۔
فیصل نے پانی پی کر سڑک کے دائیں بائیں دیکھا اور ثناکو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ سڑک پار کرکے وہ اس راستے پر اتر آئے جو ثنا کے گھر کو جاتی تھی۔
’’گھر بڑا پیارا ہے آپ کا۔‘‘ فیصل نے گھر کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
’’شکریہ! ابھی تو سردی میں پھول ختم ہو گئے ہیں۔ بہار میں پھولوں کے ساتھ زیادہ اچھا لگتا ہے۔‘‘ ثنا نے مسکرا کر جواب دیا۔
’’پھول نہیں تو کیا ہوا آپ بیٹھ جایا کیجیے باغ میں۔‘‘ فیصل نے شوخی سے کہا تو ثنا کے گال سرخ ہو گئے۔ کچھ دیر دونوں خاموشی سے چلتے رہے۔
’’لیکن یہ راستہ کیوں اتنا پتھریلا ہے؟‘‘ فیصل نے خاموشی توڑی۔

’’I see!، دل والوں کا ٹیسٹ کرنے کے لیے لگائے گئے ہیں یہ پتھر؟‘‘ثنا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھے بغیر کہا تو فیصل ہنس پڑا۔
وہ گیٹ تک پہنچ گئے تھے۔
’’آپ کا بہت شکریہ!‘‘ ثنا نے گیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’کس بات کا ؟‘‘ فیصل نے انجان بن کر
’’میری مدد کرنے کا۔‘‘
’’کل کیجیے گا شکریہ ادا۔‘‘ فیصل نے ہاتھ جیبوں میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’کیوں کل کیا ہوگا ؟‘‘ اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
’’بس انتظار کریں کل کا۔‘‘ فیصل بھی کم نہیں تھا۔
دونوں کچھ دیر کھڑے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔
’’خداحافظ!‘‘ ثنانے ہولے سے کہا
’’خداحافظ!‘‘ فیصل نے بادل نہ خواستہ کہا۔
وہ گیٹ کھول کر اندر چلی گئی۔
اگلی صبح ثنا نے اٹھ کر اپنی کھڑی کا پردہ ہٹایا تو ششدررہ گئی ۔ گیٹ سے آگے سڑک تک کے راستے پر بجری کے اوپر سُرخ گلا ب کی پتیاں کسی قالین کی طرح بچھی تھیں۔ دل والے نے اپنا دل اس کے قدموں میںرکھ دیا تھا۔
٭…٭…٭
سبزہ زاروں نے برف کا سفید چولا اتار کر ست رنگی چُنری اوڑھ لی۔ سڑکوں پر پھسلن ختم ہو گئی۔ پائن کے درخت جوان لگنے لگے ، ثناکے گھر میں پھول کھل اٹھے ۔ کچھ پھول اس کے دل میں بھی کھلتے تھے، ان کی خوش بو سے اس کا تن من مہکتا تھا۔ کیسی عجیب سی محبت تھی یہ! فیصل نے کچھ کہا نہ ثنا نے، ادھوری سی چند ملاقاتیں، ڈھکی چھپی سی چند باتیں۔ نہ اظہار ہوا، نہ وعدے ہوئے نہ خط لکھے گئے، نہ تحفے بھیجے گئے، نہ فون پر باتیں ہوئیں اور وہ دونوں ایک ان دیکھی سنہری زنجیر میں بندھ گئے۔
فیصل کو دو مہینے کے کورس کے لیے پشاور جانا پڑا۔ وہ ہر نئی اسائنمنٹ اور نئے تجربات کے لیے بہت پر جوش ہوتا تھا۔ پورا پورا دن کلاسز ہوتیں۔ ورکشاپس، لیکچر ز اسے کام کے علاوہ کسی چیز کا خیال نہ آتا۔ لیکن جب وہ رات کو سونے لیٹتا تو ثنا کا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے آجاتا۔ ثنا کی آواز اس کے کانوں میں لہرانے لگتی۔ جب اس نے ثنا کی سیکچ بک میں اپنی آنکھیں بنی دیکھی تھیں، تو اسے اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ یہ بندھن معمولی نہیں۔ یہ محبت چندروزہ نہیں، زندگی بھر کی بات ہے۔ اپنے دل کو تو وہ جانتا ہی تھا ثنا کیا سوچتی تھی وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ اب اسے یقین تھا۔ اس کی سکیچ بک اور وہ اس کا چیلنج۔۔۔۔
؎ انہی پتھروں پر چل کر اگرآسکو تو آؤ
ڈھکا چھپا سا عندیہ تھا۔ کس مشکل سے اس نے راتوں رات پھول منگوائے تھے۔ صبح تین بجے دوستوں کے ساتھ جا کر اس کے گھر کے پتھریلے راستے پر پھول بچھا آیا تھا۔ کاش وہ اس وقت اس کا چہرہ دیکھ سکتا جب اس نے وہ سرخ پھولوں کا قالین دیکھا ہو گا۔ وہ حیران ہوئی ہو گی یا خوش ہوئی ہو گی؟ وہ تصور میں اسے دیکھتا اور اس کے چہرے پر نظر جمائے نیند کی وادی میں اتر جاتا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Read Next

سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!