داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

بلوچستان کے بنجر پہاڑوں میں گھری چھوٹی سی ائیر بیس پر فیصل کی پوسٹنگ معمو ل سے ہٹ کر تھی۔ ایک مستقل کشمکش تھی جو علیحدگی پسندوں اور ریاست کے درمیان جاری تھی اور جس سے جنگی بنیادوں پر نمٹا جا رہا تھا ۔ یہاں ان افسروں کو بھیجا جاتاتھا جو ذمہ دار تھے اور دلیر تھے ، چیلنج کو آگے بڑھ کر قبول کرتے تھے۔
پہلے دن فیصل ہیلی کاپٹر کا جائزہ لینے گیا تو دور کھڑا ایک ائیرمین اسے کچھ جانا پہچانا لگا۔ اس نے قریب جاکر دیکھا تو وہ طاہر نکلا۔ طاہر اسے وہاں دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھا۔
’’بیٹی کیسی ہے تمہاری؟‘‘ فیصل نے رسمی سلام دعا کے بعد اور گھر والوں کا حال چال پوچھنے کے بعد اس سے سوال کیا۔
’’بالکل ٹھیک ہے جی! بڑی پیاری ہے۔ امی کے پاس پتوکی چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ طاہر نے مسکراتے ہوئے اسے بتایا۔
دو مہینے فیصل نے اس قدر مصروف رہ کر گزارے کہ نہ کھانے کا ہوش تھا نہ سونے کا ۔ ایک شام اس نے ثنا کو فون کیا ۔
’’میرے پاس دو خبریں ہیں ۔‘‘ ایک دوسرے کا تفصیلی حال چال جاننے کے بعد فیصل نے اس سے کہا۔
’’پہلے بری خبر سنا دیں۔‘‘ ثنا نے گھبرا کر کہا
’’بری خبر کیوں سنا دوں؟‘‘ ’’اف کیسی قنوطی لڑکی ہے۔ یہ کس نے کہا کہ بری خبر ہے ؟ میرے پاس تو دونوں اچھی خبریں ہیں۔‘‘ فیصل نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’جلدی سے سنائیں اچھی خبریں۔‘‘ ثنا خوش ہوگئی۔
’’تو سنو پہلی اچھی خبر، میر ا کورس آرہا ہے چند مہینوں تک کمانڈ اینڈ سٹاف کا لج کوئٹہ میں، وہاں تم بھی میرے ساتھ رہ سکو گی ۔ پھر اس کے بعد پروموشن۔‘‘
’’مبارک ہو فیصل! یہ تو واقعی بڑی اچھی خبر ہے، اور دوسری خبر؟‘‘ ثنا خوشی سے اچھل پڑی۔
’’دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ میں پرسوں آرہا ہوں۔‘‘
ثنا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
’’کیا ؟ سچی؟‘‘ اس نے خوشی سے کانپتی آواز میں کہا۔
’’مچی! کل صبح مجھے ایک مشن لے کر جانا ہے ۔ دوپہر تک فارغ ہو جاوؑں گا۔ پرسوں صبح تمہارے پاس ہوںگا اور پورا ایک ہفتہ رہوں گا۔‘‘ فیصل نے ہنس کر کہا۔
’’کل کا دن کیسے گزرے گا ؟‘‘ ثنا نے گویا اپنے آپ سے کہا ۔ پھر فیصل سے بولی:
’’آپ کے لیے کیا بناوؑں؟‘‘
’’بریانی!‘‘ فیصل نے فوراً فرمائش کرڈالی۔
’’Done! ‘‘
’’اور وہ جو چیز کیک تم نے لاہور میں بنایا تھا وہ بھی۔‘‘ فیصل نے یاد آنے پر کہا۔
’’و ہ تو آپ کی سال گرہ پر بناوؑں گی۔‘‘ ثنا نے مسکراتے ہوئے کہا۔





’’ارے ہاں واقعی!‘‘ ’’اگلے ہفتے تو میری سالگرہ بھی ہے۔ بس تم تیاری کرو میں آیا۔‘‘ فیصل نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
’’کتنے سال کے ہو جائیں گے آپ؟‘‘ ثنا نے شوخی سے پوچھا۔
’’میں؟ تئیس سال کا۔‘‘ فیصل نے آواز بناتے ہوئے کہا۔
’’جھوٹے! چوبیس کے ہوں گے۔‘‘ ثنا نے فوراً بلند آواز میں اسے یاد دلایا۔
’’اچھا! چلو چوبیس ہی سہی۔‘‘ فیصل نے یوں کہا جیسے بہ مشکل یہ بات ماننے پر راضی ہو۔
’’میں کل ہی موم بتیاں منگواتی ہوں ۔ برتھ ڈے کیک پر لگانے کے لیے، ہاں! باربی کیو بھی کریں گے۔‘‘ ثنا کی آواز سے خوشی چھلک رہی تھی۔
فیصل خاموش ہو گیا۔ پھر بے حد نرمی اور پیار سے کہا۔
’’ اپنے آپ کو تھکا مت لینا جان۔ اپنا خیال رکھو ۔ میں جلد آوؑں گا۔ خدا حافظ‘‘
’’خدا حافظ!‘‘ ثنا نے کہا تو ایسا لگا کہ اس کی آواز یک دم روہانسی سے ہوگئی ہو۔
٭…٭…٭
فیصل نے ہیلی کاپٹر کے کنٹرول پینل کی آخری دفعہ چیکنگ کی اور بیلٹ باندھ لی ۔ اس کے پانچ ساتھی ایک ایک کرکے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے ۔
فیصل نے گھڑی دیکھی، تین بجنے مین دومنٹ تھے ۔ پورے تین بجے ان کا ہیلی کاپٹر سمنگلی سے روانہ ہونا تھا۔
’’all aboard؟‘‘ فیصل نے کڑک دار فوجی آواز میں پوچھا۔
’’all aboard۔‘‘ اسی کڑک دار انداز میں جواب آیا۔
فیصل نے ایک مرتبہ پھر طائرانہ نظر سے ہر چیز کا جائزہ لیا ۔
تین بج چکے تھے ۔ ہیلی کاپٹر کے پنکھے گھومنے لگے اور رات کی تاریکی میں وہ ایک دیو ہیکل پرندے کی طرح ہوا میں بلند ہوا ۔ کچھ بلندی پر پہنچ کر اس نے اپنی سمت بدلی اور مڑکر منزل کی طرف روانہ ہو گیا ۔ بلوچستان کے بنجر پہاڑ ، نیم صحرائی میدان اور صنوبر کے گھنے جنگل آئے اور گزر گئے ۔ اب وہ حب ڈیم کے ساتھ پرواز کررہے تھے۔
ہیلی کاپٹر کا پہلا زور دار جھٹکا اس وقت لگا جب وہ ایک نیم پہاڑی علاقے سے متصل گاوؑں کے عین اوپر تھا۔
’’بلوچی millitants کا اٹیک‘‘ فیصل نے چیخ کر کہا۔
’’prepare for emergency landing‘‘ اس نے محتاط انداز میں وارننگ دی۔
اس کے ساتھ ہی تڑ تڑ کی تیز آوازوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر گولیاں برسنے لگیں ۔
پیچھے بیٹھے کیپٹن نے گن سیدھی کی مگر ہیلی کاپٹر بے قابو ہورہا تھا ۔ کچھ گولیا ں اس کے انجن میں لگی تھیں اور کچھ پنکھوں میں، ہیلی کاپٹر گھومنے لگا تھا۔
’’اب ہم لینڈ نہیں کر سکتے۔‘‘ فیصل نے خبر دار کیا۔
’’اب اسے کریش کرنا ہوگا۔ میں کاپٹر ڈیم کے اوپر لے جارہا ہوں۔ مجھے ہر صورت گاوؑں کو بچانا ہے۔ we will have to jump‘‘
اپنی تما م تر مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ ہیلی کاپٹر کو ڈیم کی وسیع و عریض جھیل کے اوپر لے آیا۔ ہیلی کاپٹر سے گہرا گاڑھا دھواں نکل رہا تھا ۔
’’Now jump!‘‘ اس نے چیخ کر اپنے ساتھیوں سے کہا:
’’ہیلی کاپٹر پانی میں گرا تو اس کے دروازے جیم ہو جائیں گے۔ اس سے پہلے پہلے ہم سب کو کودنا ہو گا۔‘‘
اس کے ساتھیوں نے تیزی سے life jackets پہننا شروع کیں ۔ ہیلی کاپٹر کا ایک دروازہ جیم ہو چکا تھا، سب کو ایک ہی دروازے سے کودنا تھا ۔
’’Hurry up!‘‘ فیصل چلایا۔ ہیلی کاپٹر کو ہوا میں معلق رہنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا تھا ۔
’’سر صرف ایک jacket رہ گئی ہے۔‘‘ سب سے آخر میں رہ جانے والے نے کہا۔ فیصل نے مڑکر دیکھا، یہ طاہر تھا۔ اس کا چہرہ سفید پڑ چکا تھااور اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
’’اسے پہنو اور کود جاوؑ!‘‘ فیصل نے آرڈر دیا۔
’’جلدی کرو! میں ہیلی کاپٹر کو دور لے جاکر گرانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’فیصل بھائی میں آپ کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جاوؑں گا۔‘‘ طاہر کی آواز بلند اور لہجہ اٹل تھا۔
’’طاہر ہیلی کاپٹر پانی میں گرے گا تو اس کے دروازے نہیں کھل سکیں گے۔ تم jacket پہنو اور کود جاوؑ۔ جاوؑ دیر مت کرو۔‘‘
’’مگر آپ۔۔۔۔؟‘‘
’’I will manage! طاہر تمہاری چھوٹی سی بیٹی ہے۔ اسے اور تمہاری ماں کو تمہاری ضرورت ہے جاوؑ کود جاوؑ!‘‘ فیصل نے فوجی انداز میں اسے حکم دیتے ہوئے کہا۔
طاہر نے jacket پہنی اور گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی ۔ فیصل نے ہیلی کاپٹر کا رخ جھیل کے وسط کی طرف کر دیا ۔ اس نے نیچے جھانکا۔ وہ بہت اچھا تیراک تھا، life jacket کے بغیر بھی تیر کر کنارے تک پہنچ سکتا تھا۔ اس نے چھلانگ لگانے کی تیاری کی بیلٹ کے بکل کھولے، عین اسی وقت ہیلی کاپٹر کے انجن میں شعلہ بلند ہوا اور وہ بے قابو ہو کر تیزی سے گھومنے لگا ۔ فیصل نے اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ہیلی کاپٹر کا رخ بدل چکا تھا اور اب وہ اس جگہ سے تھوڑا ہی دور تھا جہاں اس کے ساتھیوں نے چھلانگ لگائی تھی۔ اگر فیصل اس وقت اس کو چھوڑ کر کود جاتا تو ہیلی کاپٹر اپنے زور سے اس کے ساتھیوں پر جاگرتا۔ فیصل نے پانی میں تیرتے ہوئے سروں کو دیکھا۔ ایک لمحے کا فیصلہ تھا، جو اسے کرنا تھا اس لمحے کی لکیر کے دونوں طرف زندگی کھڑی تھی، اسے ان میں سے ایک کو چننا تھا ۔ وہ ’’فیصل ‘‘ تھا ،آگے بڑھ کر فیصلہ کرنے والا۔ اسے فیصلے کا اختیار دیا گیا ، ایک لمحے کا اختیار ، اور اس نے فیصلہ کر لیا ۔ زندگی کو چن لیا ۔ نہ چنتا تو وردی پہنتا ہی کیوں؟ ہوں جس کو جان و دل عزیز وہ اس کی گلی میں جائے کیوں ؟ اسے وقت سے پہلے تدبیر کرنے کی عادت تھی ۔ کیا کہا کرتا تھا وہ ؟ ہاں۔ ’’ابھی تو وقت میرے ہاتھ میں ہے ۔‘‘ ایک لمحے کا فیصلہ تھا جو اسے کرنا تھا ۔ اس نے آگے بڑھ کر وہ لمحہ اپنی مٹھی میں پکڑ لیا، ایک بار پھر وقت سے جیت گیا۔
پوری طاقت سے اس نے ہیلی کاپٹر کا رخ دوسری طرف موڑ دیا ۔ ایک دھماکے سے ہیلی کاپٹر پانی میں گرا ۔ جھیل کے وسط میں لہریں اٹھیں ، وہ ڈوبا ، پھر ابھرا ۔ فیصل نے اس کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی ۔ لیکن اس کوشش کا نتیجہ وہ پہلے ہی جانتا تھا ۔ دروازہ جیم ہو چکا تھا ۔ ہیلی کاپٹر میں پانی بھرنے لگا تھا ۔ فیصل نے دوسرے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی اپنے بھاری بوٹ سے اسے ٹھوکریں لگائیں ۔ دروازہ نہ کھلا ۔
٭…٭…٭
عطیہ لوگوں کے ہجوم سے بھرے ایک سٹیڈیم میں کھڑی تھیں ۔ ڈھول ، تاشے اور شہنائیاں بج رہی تھیں۔ لوگو ں کے جذبات کا عجیب عالم تھا۔
’’کس کی شادی ہے؟‘‘ انہوں نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا ۔
’’شادی؟ نہیں شادی نہیں جنازہ آنے والا ہے۔‘‘ جواب آیا۔
عطیہ حیران رہ گئیں۔ کچھ دیر زرق برق کپڑوں میں ملبوس آتے جاتے چہکتے گاتے لوگوں کو دیکھتی رہیں ۔ ڈھول بجنے میں تیزی آچکی تھی۔
’’نہیں یہ تو شادی ہے ۔ کس کی شادی ہے؟‘‘ انہوں نے اصرار کیا۔
’’شادی نہیں ہے، جنازہ آرہا ہے۔‘‘ پھر وہی جواب آیا۔
عطیہ کی آنکھ کھلی تو ان کے دل کی دھڑکن اس قدر تیز تھی کہ سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ کیسا عجیب خواب دیکھا تھا انہوں نے۔
’’سوری امی!‘‘ فیصل نے سرگوشی میں کہا۔
’’But I was the captain of the ship.‘‘
٭…٭…٭
زنیرہ نے اٹھ کر پانی پیا ۔ اس کے حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے ۔ اس نے سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر وقت دیکھا ۔ ساڑھے تین بجے تھے ۔ وہ جانتی تھی وہ اب دوبارہ نہیں سو پائے گی۔
٭…٭…٭
ثنا نے ساتھ سوئی ہوئی مریم پر ایک نظر ڈالی اور دبے پاوؑں بستر سے اتر گئی ۔ ساری رات اس نے سوتے جاگتے گزاری تھی ۔ کیسی عجیب سی کیفیت تھی ۔ پیٹ میں ایسی اینٹھن تھی کہ سانس نہ آتا تھا اور رہ رہ کر نیند اچٹتی تھی۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہو وہ ننھا سا ہیلی کاپٹر اٹھا لیا جو فیصل نے اسے شادی کی رات دیا تھا ۔ اسے ہاتھ میں لے کر عجیب سی تسلی ہوئی ۔وہ اٹھ کر کھڑکی میں کھڑی ہو گئی اور ایبٹ آباد کی خوب صورت فضا میں سورج طلوع ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
٭…٭…٭
فیصل نے صبح کاذب کا ہلکا سا اجالا افق پر پھیلتے دیکھا ۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ۔ وہ زیر لب گنگنانے لگا۔
؎ شہید کی جو موت ہے
ہیلی کاپٹر جھیل کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ آخری نظارہ جو اس کی آنکھوں نے دیکھا، وہ آسمان صبح پر پھیلتی نرم پاکیزہ روشنی تھی۔
٭…٭…٭
عطیہ اٹھ بیٹھیں ۔ باہر ابھی اندھیرا تھا ۔ انہوں نے اٹھ کر وضو کیا اور فجر کی نیت باندھی ۔ دل نماز میں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ بار بار آیتیں بھول رہی تھیں ۔ نماز پڑھ کر وہ وہیں جائے نماز پر بیٹھ گئیں ۔ دل کی بے چینی حد سے سوا ہو چکی تھی ۔ اسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔
٭…٭…٭
زنیرہ کا فون بجا تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا ۔ گھنٹی بجتی رہی ۔ عامر کی آنکھ کھل گئی ۔
’’فون کیوں نہیں اٹھاتی ہو ؟‘‘اس نے کہا ۔
’’فون مت اٹھانا۔‘‘ زنیرہ کے منہ سے سرگوشی نما آواز نکلی ۔ لیکن عامر فون اٹھا چکا تھا ۔
٭…٭…٭
ثنا نے کھڑکی کھول دی ۔ صاف معطر ہوا میں سانس لینے سے بھی اس کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے نہ پڑے ۔ آسمان پر ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی ۔ پریڈ گراوؑنڈ میں ڈرم بجنے لگا ۔ پھر کسی نے کڑک دار آواز میں کہا:
’’Attention! ‘‘
’’yes! I am all attention‘‘ ثنا نے سرگوشی کی۔
اسی وقت دروازہ کھلا۔ ثنا نے مڑ کر دیکھا، امی آہستہ سے دروازہ بند کر کے اندر آگئیں۔ ثنا نے ان کا دھواں ہوتا چہرہ دیکھا، مٹھی میں دبے ہوئے ہیلی کاپٹر پر اس کی گرفت اتنی سخت ہو گئی کہ وہ اس کی ہتھیلی میں چبھنے لگا۔
’’نہیں امی! نہیں امی ۔نہیں امی ۔۔۔۔‘‘ اس نے پیچھے ہٹتے ہوئے سسکی لے کر کہا۔
٭…٭…٭
کہانی شروع ہو تی ہے ، پھر ختم ہو جاتی ہے ۔ کہانی ہنستی ہے ، کہانی رلاتی ہے ۔ اس کے کردار محبت کرتے ہیں، یہ ان کی محبت کے سب رنگوں سے کھیلتی ہے ۔ یہ اس ماں کی محبت کو دیکھتی ہے جو آج بھی اپنے بیٹے کی ٹھنڈی قبر پر پھولوں سے ، افشاں سے اور موتیوں سے اس کا نام لکھتی ہے ۔ یہ اس بہن کی محبت کو کھوجتی ہے جو کئی مہینوں تک دیوانہ وار اپنے بھائی کو پکارتی جاتی ہے۔ پھر تھک کر کہیں گر پڑتی ہے اور جسے راہ گیر اٹھا کر گھر پہنچا جاتے تھے۔ یہ اس دلہن کی محبت کی گواہ ہے جس کے ہاتھ کی مہندی ابھی پھیکی نہیں پڑی تھی اور جو پانچ ماہ بعد اپنے بچے کے پیدا ہونے کے بعد انیس سال کی ہوئی تھی۔ ان سب کی محبت میں کوئی کمی نہ تھی۔ ان میں سے ہر محبت نے اپنے محبوب کا دامن پکڑا تھا۔ لیکن وہ کسی ایسی محبت کا اسیر تھا جس نے اسے ایک آواز دی اور وہ آنکھیں بند کیے اس کے پیچھے چل پڑا۔ ماں کی محبت سے ، بہن کی چاہت سے، محبوبہ کی الفت، جوانی کی امنگوں سے دامن چھڑا لیا۔ دوسرے کے بچے کا خیال کیا اپنے ہونے والے بچے کے ان دیکھے، ننھے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔ کیسی محبت تھی یہ؟ کون تھی؟ کیا تھی؟ کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے۔ یہ کیسی محبت تھی جس نے اپنی چکا چوند سے اپنے محبوب کو اتنا اندھا کر دیا کہ وہ اپنی ساری محبتوں کو چھوڑ کر اس کے ساتھ کبھی نہ واپس آنے کے لیے چل پڑا؟
کہانی خاموش ہو جاتی ہے اور گم صم اپنے کرداروں کو دیکھنے لگتی ہے ۔ اس کے کردار جیتے ہیں ، مرتے ہیں ، کچھ جیتے جی مرجاتے ہیں لیکن کوئی کردار ایسا بھی ہوتا ہے جو امر ہو جاتا ہے ۔ لازوال ، لافانی کردار ، کہانی حیران ہے ۔ وہ آگے بڑھ کر اس کا دامن پکڑتی ہے ۔
’’کیوں ؟‘‘ وہ نم آنکھوں سے پوچھتی ہے۔
وہ پلٹ کر دامن چھڑاتا ہے اور مسکرا کر کہتا ہے:
’’کیاکروں ، میں ہیرو بنے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Read Next

سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!