داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

زنیرہ کی طرح عطیہ اور دادی بھی یہی سمجھیں تھی کہ ہمیشہ کی طرح یہ بھی ایک مذاق ہے ۔ انہوں نے عادل کو ثنا کی تصویر بھی بھیج دی تھی۔ انہیں وہ عادل کے لیے بہت پسند آئی تھی ۔ فیصل کی شادی کا تو دور دور تک کوئی ارادہ نہ تھا ۔زنیرہ نے سرور کی عدالت میں کیس دائر کردیا۔ وہ بھی پس و پیش میں پڑ گئے۔ انہیں فیصل کی کم عمری پر اعتراض تھا، لیکن فیصل بھی اتنی جلدی ہار ماننے والوں میں سے نہ تھا ۔ وہ منگنی کر دینے پر اصرار کرتا رہا ۔ عطیہ پریشان ہو گئیں۔
’’کیسے کردوں؟ ابھی بڑے بھائی کی ہوئی نہیں ، چھوٹے کی کردوں۔‘‘ انہوں نے سرور سے کہا۔
’’اب عادل نہیں مانتا تو کیا کریں؟ اس کی خاطر فیصل کی بھی شادی نہ کریں ؟ ٹھیک ہے کم عمر ہے لیکن مالی طور پر ممستحکم ہے۔ لائق ہے، ترقی کے چانسز ہیں، انکار کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔‘‘ سرور نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’عقل مندی اسی میں ہے کہ جب وہ اپنے منہ سے کہہ رہا ہے تو اس کی شادی کردو۔ جوان لڑکا ہے ، اپنے پیروں پر کھڑا ہے ۔ اسے آزمائش میں مت ڈالو۔‘‘ دادی نے بھی اپنی تجویز پیش کی۔
فیصلہ ہو گیا۔ زنیرہ نے فیصل کو فون کیا۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، دوڑا چلا آیا،
’’آوؑبیٹھو! ضروری بات کرنی ہے تم سے۔ ‘‘ سرور نے سنجیدگی سے کہا۔
ان کی سنجیدگی سے فیصل کچھ پریشان ہو گیا ۔ وہ جنتا مرضی خود مختار ہو جاتا باپ سے بحث نہیں کرسکتا تھا ۔ اس نے اپنا کیس لڑنے کے لیے خود کو تیار کر لیا ۔ اس کی شکل دیکھ کر عطیہ ہنس پڑیں ۔ انہوں نے اٹھ کر اس کا ماتھا چوما ۔
’’فکر مت کرو! ہم وہاں تمہارے رشتے کے لیے راضی ہیں‘‘ انہوں نے پیار سے کہا۔ سرور بھی مسکرارہے تھے۔ فیصل کو تو اپنے کانوں پر یقین ہی نہ آیا۔
’’لیکن ایک بات میں کلیئر کر دوں ابھی ہم صرف تمہاری منگنی کریں گے۔ کیرئیر کی اس سٹیج پر تم شادی نہ کرو تو بہتر ہے۔‘‘ انہوں نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
’’ہاں! سال دو سال تک عادل کے لیے بھی رشتہ ڈھونڈ لیں، تب تک تمہاری پروموشن ہوجائے گی، تب شادی کر دیںگے۔‘‘
فیصل سعادت مندی سے سر جھکائے سنتارہا۔ اس کی مسکراہٹ تھی کہ چھپائے نہ چھپتی تھی۔
’’میں بھی کہوں یہ ہیرو کیوں بنا پھرتا ہے، بال بھی لگوا آیا، اب پتا چلا یہ تو کسی اور ہی چکر میں ہے۔‘‘ دادی نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
اس وقت عطیہ کے فون کی گھنٹی بجی۔
’’عادل کا فون ہے اس کو بھی خوش خبری سناتی ہوں۔‘‘ عطیہ نے خوش ہو کر کہا۔
’’ہیلو! ہاں بیٹا سب خیریت ہے۔ ایک اچھی خبر ہے۔‘‘ عطیہ نے فون کان سے لگائے کہا۔
’’امی میرے پاس بھی اچھی خبر ہے ۔ وہ جو تصویر آپ نے مجھے بھیجی ہے ، مجھے وہ لڑکی مناسب لگی ہے ۔ میں اب پاکستان آؤں گا تو اس سے ملوں گا ۔ پھر کچھ فیصلہ کرلیں گے۔‘‘ عادل روانی میں بول گیا، لیکن عطیہ جہاں تھیں، وہیں جم کررہ گئیں۔
٭…٭…٭





عطیہ ہمیشہ کہتی تھی کہ فیصل اپنی ضد کا پکا ہے، دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے، جس بات پر اَڑ جائے، کرکے چھوڑتا ہے۔ مگر وہ کتنا ضدی ہے، اس کا اندازہ انہیں اب ہوا۔ سب سے پہلے اس نے عادل کو فون کیا۔
’’بھائی جان آپ ذرا میری بات سنیں! جس لڑکی کو ’مناسب‘ سمجھ کر آپ کچھ فیصلہ کرنے کا سوچ رہے ہیں یہ وہی لڑکی ہے جس ساتھ عشق میں افاقے کی تراکیب آپ مجھے بتاتے رہے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنی زبان پر قائم رہیں اور نو گو ایریا میں قدم نہ رکھیں۔‘‘ وہ غصے میں ہمیشہ عادل کو بھائی جان کہتا تھا۔
عادل ہیلو ہیلو کرتا رہ گیا ، فیصل نے فون پٹخ دیا۔ دوسری دھمکی اس نے عطیہ اور دادی کو دی۔
’’یہ مت سمجھیے گا کہ اگر عادل نے دل چسپی ظاہر کردی ہے تو میں دست بردار ہو جاؤں گا۔ اگر آپ نے میری شادی یہاں نہ کروائی تو میں جب بھی ڈپیوٹیشن پر جاؤں گا، وہاں سے میم بیاہ لاؤں گا۔‘‘
’’اللہ نہ کرے!‘‘ دادی نے ہو ل کر کہا۔
’’تو پھر آپ کچھ کریں، میرا رشتہ طے کریں اور فوراً کریں۔‘‘ فیصل نے اٹل انداز میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ تیسرا الٹی میٹم اس نے ابو کو دیا۔ اب وہ منگنی نہیں سیدھا شادی کرنا چاہتا تھا۔ اس سارے چکر میں بہت سی الجھنیں تھیں جنہوں نے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی۔ پہلا روڑہ تو خود اپنے گھر میں عطیہ کی طرف سے آیا جو بڑے بھائی سے پہلے چھوٹے کی شادی نہ کرنا چاہتی تھیں۔
وہ منگنی پر راضی تھیں مگر شادی پر نہیں، زنیرہ نے ہر محاذ پر فیصل کا کیس کسی ماہر وکیل کی طرح لڑا۔ اس نے عاد ل کو فون کر کے اسے امی کو قائل کرنے کا ٹاسک سونپا کہ اسے اپنے سے چھوٹے بھائی کی پہلے شادی پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ دل وجان سے چاہتا ہے کہ فیصل کی شادی کر دی جائے تاکہ دونوں خواتین کی قربانی کے بکرے کے سر پر سہرا سجانے کی دلی خواہش پور ی ہو اور وہ اس کا پیچھا چھوڑیں۔
دوسرا پتھر ثنا کے گھر والوں کی طرف سے آیا جن کو فکر تھی کہ ثنا ابھی کم عمر ہے ۔ زنیرہ نے فیصل کی عمر کا ثنا کے ساتھ جوڑ ثابت کرنے میں اپنے سارے دلائل صرف کر دیے ۔ تیسرا خدشہ ثنا کی نامکمل تعلیم کے حوالے سے تھا ۔ یہاں بھی زنیرہ نے ذاتی ذمہ داری پر وعدہ کیا کہ ثنا کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی ۔ سوال جواب ہوئے ، مشورے ہوئے ، دونوں طرف کی دادیوں کے بیچ جذباتی سین ہوئے۔ آخر قریشی صاحب نے فائنل ووٹ ڈالا اور فیصل کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ فیصل کو معلوم ہوا تو اسے قریشی صاحب کے بارے میں اپنے پرانے ارادوں پر بہت شرمندگی ہوئی۔
’’اب ملیں گے تو ان کا سر ضرور چوم لوں گا۔‘‘
یوں فیصل کا رشتہ ثنا کے ساتھ طے ہو گیا اور شادی کی تاریخ رکھ دی گئی ۔
٭…٭…٭
ثنا کو یہ سب خواب کی طرح لگتا تھا ۔ وہ بار بار ذہن میں فیصل سے اپنی پہلی ملاقات ، وہ پریڈ گراؤنڈ کے کنارے واک، مونا لیزا میں ٹکراؤ ، وہ اکیڈمی میں اس کے ساتھ باتیں ، و ہ سرخ پھولوں کا قالین۔۔۔ وہ یہ یادیں دہراتی اور پھر اپنے ہاتھ میں پہنی اس کے نام کی انگھوٹھی کو دیکھنے لگتی ۔ اسے یقین نہ آتا تھا ۔ زندگی میں دیکھا گیا پہلا پہلا خواب پورا ہو رہا تھا ۔ جسے چاہاتھا ، وہی زندگی کا ہم سفر بننے جارہا تھا۔ وہ اپنی دھن کا پکا اور کردار کا بلند تھا۔ وہ اس کے ساتھ فلرٹ نہیں کررہا تھا۔ سچی محبت کرتا تھا۔
ثنا کے قدم زمین پر نہ ٹکتے تھے۔
٭…٭…٭
فروری کی ایک سہانی شام فیصل اور ثنا کی شادی ہو گئی ۔
’’اب بھی سوچ لو! ابھی تم صرف تئیس سال کے ہو۔ پھر نہ کہنا ہم نے سمجھایا نہیں تھا۔‘‘ عادل نے عین نکاح سے پہلے فیصل کے کان میں سرگوشی کی۔
’’پورے چار مہینے بعد میں چوبیس سال کا ہو جاؤں گا۔‘‘ اس نے بھی عادل کے کان میں سرگوشی کی۔
’’رہو گے تو بچے ہی۔‘‘
’’چپ کرو، ورنہ میں یہ ہار اتار کر تمہیں پہنا دوں گا۔ میں بھاگ گیا تو تمہیں یہ شادی کرنی پڑے گی۔‘‘ اس نے عادل کو ڈرانے والے انداز میں۔
اس بات نے عادل کی بولتی بند کر دی اور خیر خیریت سے نکاح ہو گیا۔
فیصل ثنا کو بیاہ لایا۔ دادی، عطیہ اور زنیرہ نے اپنے سب ارمان پورے کئے۔ اپنے دوستوں میں فیصل پہلا تھا جس کی شادی ہورہی تھی۔ انہوں نے خوب ہلہ گلہ کیا؎ اس کے دوست فیصل کو کمرے تک چھوڑنے آئے تو اندر گھس کر بیٹھ گئے اور ثنا کے ساتھ باتیں کرنے لگے۔ فیصل انہیں دھکے دے دے کر باہر نکالتا ، وہ پھر اندر گھس جاتے۔ آخر سرور اس کی مدد کو آئے اور پھر کہیں جاکر فیصل کی ان سے جان چھوٹی۔
دروازہ بند کرکے فیصل ثناکے سامنے آکر بیٹھ گیا ۔ دونوں کی نظریں ملیں، دونوں مسکرائے ۔ فیصل نے اس کے ہاتھ تھام لیے ۔
’’کیا میں نے کبھی تمہیں بتایا؟‘‘ فیصل نے دھیمی آواز میں کہا ۔
’’کیا؟‘‘ ثنا نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
’’سوچ رہا ہو ں کن الفاظ میں کہوں۔ یہ کہوں کہ I love you ؟ تو Love بہت چھوٹا لفظ ہے ان جذبات کے لیے جو میرے دل میں تمہارے لیے ہیں۔‘‘
ثنا شرما گئی۔ یہی بات تو اس کے اپنے دل میں بھی تھی۔
’’تم بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔‘‘ اس کی آواز دھیمی تھی لیکن ثنا کے لیے اس کی آواز کے سوا کائنات میں کچھ نہ تھا۔
’’ارے ہاں میں تو بھول ہی گیا، تمہارا تحفہ!‘‘ اس نے اچانک کہا یہ کہہ کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ ثنا نے اشتیاق سے آگے ہو کر دیکھا۔ ہاتھ جیب سے باہر نکلا تو اس کی مٹھی بند تھی۔ عین اس کی آنکھوں کے سامنے لا کر فیصل نے مٹھی کھولی اس کی ہتھیلی پر ایک چھوٹا سا ہیلی کاپٹر رکھا تھا ۔ اس کے چھوٹے چھوٹے دروازے کھلے تھے اور دم کا ننھا سا پنکھا گھوم رہا تھا۔
ایک لمحہ کو وہ اسے حیرت سے دیکھتی رہی ، پھر ہنس پڑی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ہیلی کاپٹر اٹھا لیا۔
’’ہیلی کاپٹر میرا ہو گیا ؟‘‘ اس نے ناز سے پوچھا۔
’’ہیلی کاپٹر کا پائلٹ بھی تمہارا ہو گیا، Buy one, get one free‘‘ دونوں کی کھنکتی ہنسی سے کمرہ گونجنے لگا۔
٭…٭…٭
زنیرہ کو خوشی صرف فیصل کی شادی کی ہی نہیں ملی ، ایک اور شادی کی بھی ملی۔ لاہور آنے سے پہلے اس نے حسب عادت عامر کا فون چیک کیا تو اس میں سحر عثمان کے نمبر سے آئی کال دیکھ کر چونک گئی ۔ اس نے اپنے نمبر سے اسے فون کیا۔ کال فوراً کاٹ دی گئی ۔زنیرہ کو غصہ آگیا۔ زنیرہ اس کے بینک کال ملائی۔
’’سحر عثمان سے بات کروادیجیے ۔‘‘اس نے فون اٹھانے والے سے کہا ۔
’’وہ تو جاب چھوڑ کر جا چکی ہیں۔‘‘ فون اٹھانے والے نے اسے آگاہ کیا۔
’’کیوں ؟‘‘ زنیرہ کے دل میں خطرے کی گھنٹی بجی۔
’’ان کی شادی ہو گئی ہے۔‘‘ اس شخص نے بتایا۔
’’تو جاب کیوں چھوڑ گئیں؟‘‘ زنیرہ چونک گئی۔ اس نے اس بریکنگ نیوز کے شاک سے سنبھل کر کہا۔
’’امریکا چلی گئی ہیں وہ۔‘‘ اس نے بتایا۔
زنیرہ کے دل پر ٹھنڈی پھوار گری ۔ اس نے فون بند کردیا ۔
’’خس کم جہاں پاک‘‘ اس نے اونچی آواز میں کہا ۔ پھر خود ہی ہنس پڑی۔
’’I hope she gets the husband she deserves‘‘
٭…٭…٭
فیصل کی شادی پر فوزیہ طاہر کے ساتھ آئی تھی ۔ وہ اپنی زندگی میں جن دو لوگوں کی سب سے زیادہ احسان مند تھی ، وہ سرور اور فیصل تھے۔اس نے بڑی خوشی سے شادی میں شرکت کی۔ بھا گ بھاگ کر گھر کے کام کرتی رہی۔
’’ہاں بھئی کیسی چل رہی ہے نوکر ی ؟‘‘ فیصل نے طاہر سے پوچھا ۔
’’بڑی اچھی سر، دعا ہے آپ کی مٹھائی کھلانی ہے آپ کو۔‘‘ طاہر نے دانت نکال کر کہا۔
’’مٹھائی تو مجھے کھلانی چاہیے۔ میری شادی ہے۔‘‘ فیصل نے کہا۔
’’وہ بات نہیں جی! میرے گھر بیٹی ہوئی ہے۔‘‘ وہ شرما کر بولا۔
’’ارے! یہ تو واقعی بڑی اچھی خبرہے۔ لاوؑ مٹھائی۔‘‘ فیصل نے خوشی سے کہا۔
فوزیہ کے ساتھ اس کی ایک رشتہ دار لڑکی بھی آئی تھی ۔ شادی کے ہنگاموں میں وہ چپ چاپ ایک طرف بیٹھی رہتی، کسی نے اس پر زیادہ دھیان نہ دیا۔ شادی ہو گئی۔ گھر میں ٹھہرے مہمان واپس جانے لگے تو فوزیہ بھی جانے کی تیاری کرنے لگی۔
زنیرہ اپنے کمرے میں سامان سمیٹ رہی تھی جب فوزیہ اس لڑکی کے ساتھ اس کے کمرے میں آئی۔
’’آپ سے بڑی ضروری بات کرنی ہے جی! یہ میری بہن کی بیٹی ہے تسنیم۔‘‘ زنیرہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بولو! پیسے چاہئیں؟‘‘ زنیرہ نے کپڑے تہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں نہیں جی۔‘‘ تسنیم نے بے ساختہ کہا۔
’’پھر؟‘‘ زنیرہ کے ہاتھ رک گئے۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ جیسے بات کرنے کے لیے موزوں الفاظ ڈھونڈھ رہی ہو۔
’’میرے چار بچے ہیںجی۔‘‘ آخر اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
زنیرہ حیران رہ گئی۔ وہ تو چھوٹی سی عمر کی لگتی تھی، دبلی پتلی کمزور سی۔
’’پانچواں میرے پیٹ میں ہے۔‘‘ تسنیم نے بات جاری رکھی۔
زنیرہ آہستگی سے بستر پر بیٹھ گئی۔ اس کے لاغر پن، چہرے کی جھائیوں اور آنکھوں کے حلقوں کو وہ غربت کا شاخسانہ سمجھی تھی۔ اس نے ہم دردی سے اس لاغر لڑکی کا جائزہ لیا۔
’’کچھ کھاتی پیتی نہیں ہو تم؟ اس حالت میں تو تمہیں اپنا بہت خیال رکھنا چاہیئے۔‘‘ زنیرہ کے لہجے میں اب افسردگی تھی۔
’’کیا کروں جی۔ بچوں کا پیٹ بھروں یا خود کھاوؑں؟‘‘ وہ پھیکی سی ہنسی ہنس پڑی۔
’’شوہر کیا کرتا ہے تمہارا؟‘‘ زنیرہ نے ہم دردی سے پوچھا۔
’’مر گیا۔‘‘ اس نے بے تاثر چہرے کے ساتھ کہا۔ زنیرہ کا سانس لمحہ بھر کو بند ہوا۔ بے اختیار اس نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’کب ؟ کیسے؟‘‘
’’دو مہینے ہوئے، ایکسیڈنٹ میں۔‘‘ اس نے سر جھکا کر جواب دیا۔زنیرہ اس کے جھکے سر کو دیکھ کر سوچتی رہی کہ اسے کن الفاظ میں تسلی دے۔
’’باجی آپ میرا ایک کام کریںگی ؟‘‘اس نے سر اٹھا کر بڑی آس سے پوچھا۔
’’ہاں کہو!‘‘
’’میں یہ بچہ نہیں پال سکتی۔ اب مجھے اپنے بچوں کے لیے کمانے نکلنا ہو گا۔ میرے باقی بچے بھی چھوٹے چھوٹے ہی ہیں۔ اس بچے کو کون سنبھالے گا؟‘‘ اس نے یاسیت بھرے لہجے میں کہا۔
’’شاید پیسوں کا تقاضا کررہی ہے۔‘‘ اس نے سوچا لیکن اس کی اگلی بات نے اس کے ہوش اڑا دیئے۔ زنیرہ الجھن سے اس کی بات سنتی رہی۔
’’آپ کے کوئی جاننے والے ایسے ہیں جو بچہ گود لینا چاہتے ہوں ؟ آپ سے اس لیے کہہ رہی ہوں کہ آپ نیک لوگ ہیں ، اپنے جیسے کسی شریف گھرانے میں میرا بچہ دے دیں ۔ میں بڑی احسان مند ہوں گی جی۔ میں یہ بچہ نہیں پال سکتی۔‘‘ وہ اب باقاعدہ رونے لگی تھی۔
زنیرہ کے ذہن میں روشنی کا ایک کوندا سا لپکا اور اس کے کانوں میں ایک آواز گونجی۔
’’سید صاحب کیا میرے گھر اولاد ہو گی؟‘‘
’’تمہارے پاس محبت کا ایک سمندر ہے نچھاور کرنے کو، اللہ نے چاہا تو تمہیں وہ بچہ ضرور ملے گا جسے اس محبت کی ضرورت ہوگی۔‘‘ اس کے ذہن میں سید صاحب سے ہونے والی گفت گو کی ریکارڈنگ سی چلنے لگی۔
تسنیم کہہ رہی تھی ’’میں لاہور یہ بچہ ضائع کرانے آئی تھی لیکن ڈاکٹروں نے انکار کر دیا ۔ وہ کہتے ہیں میری جان کو خطرہ ہے۔‘‘ تسنیم کہے جارہی تھی اور زنیرہ کو لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کا دل مٹھی میں بھینچ لیا ہو۔
وہ بہ خود بیٹھی رہی۔ اس کے کانوں میں اب بھی اس آواز کی باز گشت تھی۔
’’تمہیں وہ بچہ ضرور ملے گا جسے اس محبت کی ضرورت ہو گی۔‘‘ اس نے سید صاحب کے الفاظ پر غور نہیں کیا تھا۔ وہ پیشن گوئی نہیں کررہے تھے، اسے راہ سمجھارہے تھے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کے گھر اولاد ہو گی، انہوں نے اسے اپنی محبت کسی ایسے بچے پر نچھاور کرنے کا عندیہ دیا تھا جسے اس کی ضرورت تھی۔
’’بیٹا ہو یا بیٹی میں دونوں ہی دینے کو تیار ہوں۔‘‘ تسنیم کہہ رہی تھی۔
’’تمہاری ہیرے کی سنار کے پاس ہے۔ وہ جانے اس کا کام‘‘ زنیرہ ہونک بنی وہ ساری باتیں یاد کررہی تھی۔
’’آپ بے شک مجھے نہ بتائیے گا کہ آپ نے بچہ کس گھر میں دیا ۔ بس مجھے آپ کی گارنٹی چاہیے کہ لوگ عزت دار ہوں ۔‘‘
زنیرہ نے اپنے رخسار پر بہتے آنسو پونچھ لیے اور بے اختیار آگے ہو کر اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’اس بچے کو میں ایک بہترین گھر دوں گی۔ یہ میرا وعدہ ہے۔‘‘ اس نے نرمی سے کہا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Read Next

سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!