جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

صبح ہوئی تو صفیہ کی آنکھیں پرنم اور سوجی ہوئی تھیں۔ وہ عموماً فجر کی اذان سے پہلے ہی اٹھ جاتی اور ساتھ روحیل بھی جاگ جاتا تھا۔ دونوں ماں بیٹا وضو کرتے اور نماز کی تیاری کرتے۔ صفیہ اور روحیل نماز کے پابند تھے۔ جب کہ ناجی اور مشتاق اس معاملے میں سستی کرتے تھے۔ وہ دونوں ماں بیٹا وضو کرنے میں مصروف تھے۔ صفیہ چہرہ دھو رہی تھی۔ آنکھیں بند کرتے ساتھ ہی کرامت کا عکس نمودار ہوا۔ اس نے اس خیال کو جھٹکنا چاہا۔ پروہ ایسا کرنے میں ناکام رہی تھی۔

روحیل بڑے آرام اور تحمل سے وضو کررہا تھا۔ اس کے چہرے سے عاجزی اور انکساری جھلک رہی تھی۔ وضو کرنے کے بعد وہ مسجد کی طرف چل دیا اور صفیہ جائے نماز لے کر باہر آگئی۔ اس جگہ جہاں وہ اکثر نماز ادا کرتی تھی۔ اس نے دوپٹے سے سر ڈھانپا اور نماز کے لیے نیت باندھ لی۔ سلام پھیرنے کے بعد جب اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو وہ شش و پنج میں گرفتار ہوگئی۔ لاشعوری طور پر ہی صحیح اکثر ایسا ہوتا کہ وہ جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی تو کرامت یاد آجاتا اور وہ محو اور مگن ہوکر دعا مانگے جاتی تھی۔

کرامت تو جہاں وی ہو خیر نال ہو، میڈا رب سوہنا تیکوں اپنی امان اچ رکھے۔ میکوں تیرے نال سچی محبت تھی۔ تیرے دل کی تیکوں خبر توں بھی تو محبت کرتا تھا پر انجان بنتا تھا۔ میڈی دعا ہے تیکوں تتی واوی نہ لگے (تجھے گرم ہوا بھی نہ لگے)۔ ابھی وہ اس کی سلامتی کے لیے اور بھی ڈھیروں ڈھیر دعائیں مانگنا چاہتی تھی کہ مشتاق احمد کے خراٹوں کی آواز نے خلل ڈال دیا۔ اس نے منہ پر ہاتھ پھیرا۔ جائے نماز لپیٹی اور اسے کمرے میں رکھ آئی۔

اب وہ اپنے اور روحیل کے بستروں کی جانب آئی۔ اس نے جالی اتاری اسے لپیٹا پھر تکیے گدے اٹھا کر کمرے میں چلی گئی۔ بستر رکھ کر واپس آئی تو روحیل بھی مسجد سے آچکا تھا۔ وہ چارپائی پر بیٹھا تسبیح پڑھنے میں مصروف تھا۔ تسبیح کے دانے گرتے جاتے اور اس کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے۔ صفیہ کی نظر اس پر پڑی تو اسے ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔

میرا شہزادہ، چندر (چاند) را ٹکڑا پوری جھوک میں ہے کوئی میرے پتر جیسا۔وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی اور دونوں ہاتھوں سے سر پر پیار کرتے ہوئے بولی۔

اماں ساری ماں کو اپنی اولاد سب سے اچھی لگتی ہے وہ سمجھتی ہیں کہ ان کی اولاد ہی سب توں چنگی ہے۔روحیل نے یار رحمٰنُ پڑھا پھر جواب دیا۔

ٹھیک آکھدا ہے توں پتر، میں سوچ رہی تھی تیری پڑھائی وی مکمل ہوگئی ہور اکیڈمی میں پڑھاتا ہے تو خدا نے کرم کیتا تیں سرکاری نوکری وی لگ جائے گی۔ ساریاں کڑیاں دیاں ماواں تیڈے اُتے نظر رکھے بیٹھی ہیں۔ تیکوں کوئی کڑی پسند ہے تو بتادے بات پکی ہوجائے گی۔ شادی اگلے سال۔صفیہ نے سبھاسے کہا اور روحیل کے چہرے کے تاثرات دیکھے جس پر ہوائیاں سی اڑ رہی تھیں۔ وہ ٹھٹکا ماں کی شادی والی بات سن کر نہیں تھا بلکہ اسے حیرت اس بات پر ہوئی تھی کہ اماں اس کی شادی کسی جھوک والی سے کروانا چاہتی ہے۔

اماں کیوں اتنی جلدی پڑگئی ہے۔ جدوں ویلا آئے گا تو ہوجائے گی۔ میں نے فی الحال اس بارے میں قطعی نہیں سوچا۔ اس نے شانتی سے کہا۔

جھلا پتر نئیں سوچا تو سوچ۔ ابھی نئیں سوچا تو کب سوچے گا۔ جھوک آلے پوچھتے ہیں مجھ سے کہ (کدوں کررہی ہے صفیہ پتر دی شادی)۔ ہر اک چاہتی ہے اپنی دھی اٹھاکے تیرے پلے باندھ دے سب نوں معلوم ہے تیری تربیت دا کہ میں نے کتنی اچھی تربیت کی ہے تیری۔ (حالاں کہ وہ بہ خوبی اس بات سے واقف ہے کہ روحیل کی تربیت میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں۔) صفیہ نے اک ادا سے کہا۔ روحیل نے تسبیح چوم کر جیب میں ڈالی۔

میں نے بھی انکار نہیں کیا اماں۔ تھوڑا صبر کرلے جب مجھے شادی کرنی ہوگی بتادوں گا۔

میکوں پہلے خبر تھی توں نئیں منے گا۔صفیہ نے غصے سے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ روحیل نے نظر انداز کردیا۔ وہ سوکھی لکڑیوں کی طرف بڑھ گئی اور انہیں توڑنے لگی۔ جب سوکھی پتلی لکڑیوں کا ڈھیر لگ گیا اور اسے لگا کہ آج کا ناشتا بنانے کے لیے کافی ہیں تو انہیں ایک طرف رکھا اور دیوار سے اپلے اتارنے لگی۔ اپلوں کا ٹوکرا اٹھائے وہ چولہے کی جانب بڑھ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ ٹوکرا سر سے اتار کر چولہے کے پاس رکھتی۔ روحیل لکڑیاں اٹھا لایا۔ ابھی اس نے لکڑیاں رکھی ہی تھیں کہ صفیہ نے بھی اپلے اتار کے رکھ دیے۔ ایک لحظے کے لیے ان دونوں کی نظریں ملیں اور صفیہ نے غصے سے نظریں پھیرلیں اور چولہے میں لکڑیاں ڈالنے لگی۔ روحیل نے چولہے کی طرف جاتا ماں کا ہاتھ پکڑلیا۔

اماں….“

مت بول اماں کچھ نئیں لگتی میں تیری، اماں کہتا ہے تو اماں آلا درجہ وی دے۔وہ اب اپلے ڈال رہی تھی۔

درجہ کیوں نہیں دیا اماں عزت کرتا ہوں تیری، ماں ہے تو میری پر میں نے ذہنی طور پر خود کو شادی کے لیے تیار نہیں کیا۔ سوچا بھی نہیں اس حوالے سے۔اس نے ماں کے ہاتھ سے ماچس لی اور خود آگ جلانے لگا۔

کیوں اپنی عمر دیکھ تیڈے سارے دوست بیلی پرینج (شادی) گئے۔ اپنی ماسی بھاگاں کا بیٹا ایسا بھاگ لگا اسے کہ ایف سی میں بھرتی وی ہوگیا۔ نشے تے چھوٹ گئے۔ دو، دو بالاں کا پیو۔ہلکی سی چنگاری بھڑکی اور بجھ گئی۔ صفیہ نے ماچس اس کے ہاتھ سے جھپٹی اور تیلی جلائی۔

لوگوں کی شادی کی مثالیں نہ دے اماں ہر ایک کا اپنا نصیب ہوتا ہے۔اس نے کہا۔

نصیب وی انسان خود بناتا ہے۔ ہتھ پہ ہتھ رکھے بیٹھے رہنے سے رشتے نہیں ہوجاتے۔

صفیہ بولی۔ آگ جل چکی اور لکڑیاں سلگ رہی تھیں۔

پریشان کیوں ہوتی ہو اماں میری ووہٹی سب سے زیادہ خوبصورت ہوگی۔ بس اتنی جلدی ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی تیاری نہ کر۔روحیل شرارت سے بولا۔

میرا اکو اک پتر ہے تو میں کیوں نہ چاہوں گی کہ میری نوں (بہو) بہوں سوہنڑی ہووے۔صفیہ نے اک ادا سے کہا اور چولہے پر چائے کا پانی چڑھانے لگی۔

تو پھر میری من سال سوا سال ان چکروں کے بارے میں نہ سوچ تھم کہ بیٹھی رہ۔روحیل یہ کہتا ہوا اُٹھا اور کمرے میں چلاگیا۔

چائے کا پانی کھولنا شروع ہوگیا تھا۔ صفیہ نے چینی ڈالی اور آگ کے شعلوں کو دیکھنے لگی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!