جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

تیری گل بھی میرے دل کو لگی ہے۔ اس بات کا افسوس تو میکو وی ہے کہ اس نے ساکوں نہ ڈسیا۔پینو نے بھی تردید نہیں کی تھی۔

میں نہ بتاتی تو سب کو خبر ہوجانا تھی ایسی باتیں چھپی کہاں رہتی ہیں۔بانو نے چہک کر کہا۔

وہ دونوں یہ بھول گئیں تھیں کہ اس وقت وہ اپنی کلاس کے پاس ہی کھڑی ہیں۔ جہاں کچھ دیر پہلے ناجی اندر گئی ہے۔ وہ وہاں بیٹھی غصے سے لال پیلی ہورہی تھی۔ یعنی سارا کیا کرایا پینو اور بانو کا تھا۔ اب اُس کے لیے مزید اندر بیٹھنا محال ہوگیا تھا۔ وہ ڈیسک سے اٹھی اور باہر آگئی۔ پینو اور بانو یوں اس کی اچانک آمد پر گڑبڑا کر رہ گئیں تھیں۔ اس سے قبل کہ وہ اپنے دفاع میں کچھ کہتیں۔ ناجی پھٹ پڑی۔

آستین کا سانپ ہو تم دونوں۔ میں تم لوگوں کو اپنا دوست سمجھتی آئی۔ پکا دوست، ہور کسی کے ساتھ دوستی نہ کی۔ بچپن سنگ سنگ گزارہ۔ کوکھلے چھپک جمعرات کھیڈی، سٹاپو کھیڈا، رسی ٹاپی، وستی میں ہر ہونے والی شادی میں ساتھ سہرے گائے، لڈی ڈالی، بھنگڑے ڈالے، گرمیوں میں باغوں سے جاکے آم توڑے، بارش میں نہائیں، اک دوجے کے گھر رات رہنے آتیں تو ساری ساری رات باتوں میں گزار دیتیں۔ پوری جھوک میں جھوکی ہماری دوستی کی مثالیں دیتے نہ تھکتے۔ ہور میڈے راز کوں یوں فاش کیا کہ ساری یاری دوستی بھل گئی۔ناجی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے تھے۔

اپنا کیتا کرایا میڈے پلے نہ تھوپ ناجی۔ مانا کے ساتھ کھیلتی تھیں، پکی سہیلیاں تھیں۔ ہر پکی سہیلیوں کے درمیان وی کوئی راز ہوتا ہے بھلا؟ توں نے ہمیں پرایا کردیا ناجی ہم سے پہلے خبر تھی سارے جھوکیوں کو، ہم نے تو اس روز دیکھا جب تو اسکول کے گیٹ سے باہر سجاول سے ملی اور چلی گئی۔ ہم خود حیران کھڑیں ایک دوجے کو تکتی تھیں۔پینو نے دھیرج سے کہا۔

ہمیں بے وقوف نہ بنا ناجی۔بانو بولی۔

توں ساکوں اندھیرے میں رکھ کر جو اڑان اڑنے چلی تھی۔ وہ ہمیں بتاکر اڑتی تو یوں بے آبرو نہ ہوتی۔پینو نے کہا۔

نہ کس نے کہا میں بے آبرو ہوئی، محبت کرنا کوئی گناہ ہے! عشق دے جھوٹے (جھولے) جھوٹنا (جھولنا) کوئی برائی ہے۔ناجی کی آواز رندھی ہوئی تھی۔

ناجی پیار کرنا گناہ نہیں ہے۔ پر اس طرح وی صحیح نئیں ہے۔ چاچے مشتاق کو پتا چلا تو سوچ کیا ہوگا۔ روحیل کتنا پیارا ویر ہے تیرا اس کے بارے میں سوچ لوگ اسے طعنے نہ دیں گے کہ تیری بہن سجاول کے ساتھ….“ پینو نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

کہہ دے کہہ دے رنگ رلیاں مناتی پھرتی ہے اس کے ساتھ، سکوٹی تیں بیٹھ کے ہیڈکی سیر کوجاتی ہے، ہاتھ تھامے کھیتوں میں گھومتی ہے، اس کے مونڈھے (کندھے) پر سر رکھ کے سوتی ہے۔ اس کو دیسی گھیو کی چوریاں کھواتی ہے، اسے عشق و عاشقی والے شعر پڑھ پڑھ کے سناتی ہے، وفا کی قسمیں کھاتی ہے، عمر بھر ساتھ نبھانے کے وعدے کرتی ہے، وہ روٹھے تو اسے منانے کے کئی سو ترے کرتی ہے، وہ مان جائے تو اس کے لیے سرائیکی گیت گاتی ہے۔ وہ نہ رُکے تو اس کی راہوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے بارے میں کوئی مندی بات کرے تو اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے، دن، رات اُسدے ناں دی مالا جپتی ہے۔ ہاں، پینو ناجی سب کچھ کردی ہے۔ پر ناجی اپنی حد کراس نئیں کردی۔ ناجی کوں اپنی حدود کا علم ہے۔وہ ایک ہی سانس میں اونچا اونچا کہے گئی۔ اس کی آواز اتنی اونچی تھی کہ سب لڑکیاں جمع ہوگئیں۔

ناجی تو جھلی ہوگئی….

ناجی تو دیوانی ہوگئی….

ناجی عشق میں اندھی ہوگئی۔سب کے لبوں پر اسی طرح کے جملے باز گشت کررہے تھے۔ 

وہ اماں سے پوچھ پوچھ کر تھک گئی تھی۔ پر اماں کے بند لبوں کا قفل ٹوٹنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ ایسی ہی حالت میں تین چار روز سرک گئے۔ وہ اسکول جاتی، اسکول سے واپس آتی گھر کے کام کاج کرتی۔ اماں سے بات کرنے کے بہانے تلاشتی۔ پر وہ چپ کی چپ رہیں۔ بس حیرت کی تصویر بنی بیٹھیں اسے تکے جاتی تھیں۔

آج وہ اسکول سے لوٹی تو کسی اور کام کو سرانجام دینے سے قبل چادر اور کتابیں رکھ کر وضو کرنے کو چل دی ظہر کی نماز پڑھی۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی گھر آتے ہی سلام کیا جس کا جواب راشدہ خاتون نے حسب معمول روکھے پھیکے انداز میں ہی دیا۔ وہ جھنجھلا کر رہ گئی سوچا کہ نماز پڑھ کے تسلی سے اس سب کی بابت پوچھے گی۔ ابھی چار فرض پڑھ کر سلام پھیرا ہی تھا کہ سجاول کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔

اماں میں بڑے دنوں سے تجھے پریشان پریشان دیکھ رہا ہوں، خیر تو ہے کہیں ابے کی یاد تو نہیں ستارہی۔وہ سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتا چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔تجھے کیا غرض ہے تُو اپنے اللے تللے یاروں کی محفلیں بھگتا ماں کی کیا فکر تجھے۔راشدہ خاتون نے ناراضی سے کہا۔

سو بار کہا، کئی بار کہا کوئی کام دھنداڈھونڈو، پر نہیں جی، بہن خوار ہوتی پھرے منظور ہے پر خود ہاتھ پاں مارنے میں موت پڑتی ہے۔ میں پوچھتی ہوں سجاول تمہاری غیرت کہاں گھاس چرنے گئی ہے۔ کب تک بہن کا بویا کاٹ کر کھائے گا۔ اپنی ووہٹی لائے گا تو کیا یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہے گا۔وہ سلگ کر بولی۔

بس کر اماں، ایہو کسر رہ گئی تھی۔ لیکچر شروع معاف کردے مجھے اماں بخش دے مجھے گزارہ ہورہا ہے کافی نہیں ہے! عابی کو کس نے مجبور کیا ہے، نہ کرے نوکری نہ کرے خواری۔ اپنی مرضی سے کررہی ہے۔ اسکول چھوڑ دے گی تو ابے دی پنشن زندہ باد۔پہلے تو اس نے بے زاری سے ماں کے آگے ہاتھ جوڑے پھر ابے دی پنشن زندہ باد پر تو اس کی باچھیں ہی کھل اٹھی تھیں۔ 

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!