جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

رات کی چادر تن گئی تھی۔ صفیہ اور روحیل ایک دوسرے کے سائے سے بھی نظریں چرا رہے تھے۔ مشتاق احمد کا کچھ پتانہ تھا۔دھیرے دھیرے رات سرکتی گئی لیکن ان کے لیے تو جیسے سب سے بڑی اور بھاری رات تھی۔روحیل کبھی اٹھتا، کبھی بیٹھ جاتا اورکبھی ٹہلنے لگتا۔صفیہ آنسو بہائے جاتی اور ناجی کو کوستی رہتی تھی۔

دوسری جانب….

عابی سجاول کو فون ملا دے،وہ خیریت سے تو ہے نہ۔وہ ہسٹریائی انداز میں چلاتے ہوئے کہتی تھی۔

اماں نمبر بند جارہا ہے،کیسے بات کرواں، حوصلہ کرو سجاول ٹھیک ہوگا۔وہ بڑی مشکل سے آنسو ضبط کیے ہوئے کہتی۔

میرا دل بیٹھا جارہا ہے عابی،اگر میرے پتر کو ان ظالموں نے….“

نہیں، نہیں وہ ایسا کیوں کریں گے،مارنا ہے تو اپنی دھی کو ماریں نا۔وہی لے گئی میرے پتر کو، میرا پتر ایسا تھوڑی تھا،ناجی ایسی تھی ماں جیسی۔

دیکھ تو دروازہ بج رہا ہے جاکے دیکھ سجاول آیا ہوگا۔وہ پاگلوں کی طرح بولنے لگی۔

اماں کوئی دروازہ نہیں بج رہا کوئی نئیں آیا سنبھال خود کو۔وہ ماں کے وجود کو ڈھارس دیتے ہوئے بولی۔

تو بہری ہوگئی ہے سنتی نہیں۔ارے وہ آواز دے رہا ہے۔کہہ رہا ہے کہاں مرگئی ہے عابی، دروازہ کھول۔ وہ جب غصے میں ہوتا ہے تو ایسے ہی کہتا ہے۔راشدہ بازو پھیلا پھیلا کر دروازے کی طرف دیکھ کررہی تھی جس کے دونوں پٹ بند تھے۔

اسے بھوک لگی ہوگی عابی سن تو لاتیں مار رہا ہے دروازے کو۔

اماں تمہارا وہم ہے،کوئی نئیں ہے وہاں۔اتنی رات ہوگئی ہے وہ کیوں آئے گا۔وہ بھی اب پھوٹ پھوٹ کررو رہی تھی۔

عابی بیٹی توں کیوں رو رہی ہے،تجھے ارمان تھا نہ ویر کی شادی کا، میں طلاق دلوادوں گی اس کمینی کو سجاول سے۔دوجا ویاہ رچاں گی اپنے بیٹے کا۔ رو مت پھر تم اپنے سارے ارمان پورے کرنا۔ سہرے گانا، جھمر مارنا، لڈی ڈالنا۔اب راشدہ پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھی۔

اماں چپ کر جا،بس اماں۔وہ اٹھی اور پانی لے آئی۔

میں نے نئی پیناپانی ،میں کہہ رہی ہوںسجاول آیا ہے۔

میں خود جاکے دیکھتی ہوں۔تجھے تو خدا واسطے کا بیر ہے میرے بیٹے سے،وہ کب سے کھڑا انتظار کررہا ہے۔راشدہ دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔

 عابی نے ماں کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ شکست خوردگی سے چارپائی پر بیٹھی ماں کو گھور ے گئی۔

آئی پتر آئی دروازہ توڑے گا کیا؟

اج میں نے تیری پسند کا پالک گوشت پکایا ہے کھائے گا نا۔

لے میں آگئی، اے لے کھل گیادروازہ۔

عابی!عابی!“ راشدہ نے جوںہی دروازہ کھولا وہ چلائی۔ سجاول گھر کی دہلیز کے باہر چت لیٹا تھا۔ آج بھی اس نے بازو اوپر چڑھا رکھے تھے۔ قمیص کے بٹن کھلے تھے اورتعویذلٹک رہا تھا، مگراس کی نبض نہیں چل رہی تھی۔ اس کے جسم پر گولیاں لگنے سے خون نکل رہا تھااور سفید کاٹن کی قمیص سرخ ہو چکی تھی۔

راشدہ اس کے اوپر گر پڑی اورعابی بے ہوش ہوگئی۔ راشدہ کواس کا دھڑکن سے عاری دل دھڑکتا محسوس ہورہا تھااور وہ سن سکتی تھی۔ اس کے سینے سے نکلنے والی آواز کیا تھی،کیا نام تھا،کس نام کی پکار تھی۔

ناجی۔

ناجی۔

ناجی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!