جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

اپنی گلی کا موڑ مڑتے ہی اسے اپنے آگے چلنے والے ٹولے میں سے روحیل کی آواز سنائی دی۔ وہ منٹوں سکنٹوں میں بھانپ گئی کہ یہ آواز اسی کی تھی۔ وہ اپنے ساتھ ساتھ چلنے والے باپ سے محو کلام تھا۔ اس نے اپنے قدموں کی رفتار تیز کردی اور سجاول اور راشدہ کو بہت پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے آگئی۔ روحیل کے موبائل پر کسی کی کال آگئی تھی۔ وہ فون کال سننے کے لیے اب سست روی سے چل رہا تھا۔ عبیرہ نے جب مکمل تسلی کرلی کہ اسے اماں یا سجاول نہیں دیکھ سکتے، تو وہ اس کے بے حد قریب آگئی اور مکمل ہوش و حواس میں اس کے ہاتھ کے ساتھ اپنا ہاتھ مس کیا۔ وہ سٹپٹا گیا اور بوکھلا کر رہ گیا۔

عابی میری جان نکال دی تم نے۔اس نے کہا۔

بہت پیارے لگ رہے ہو آج تو ۔عابی نے ٹارچ کی لائٹ اس کے سراپے پر ڈالتے ہوئے کہا اور پیچھے مڑ کر دیکھا اب اس کی تسلی و تشفی ہوگئی تھی کیوں کہ وہ دونوں بالکل بیچ میں تھے اور ان کے آگے پیچھے لوگوں کا ہجوم سا تھا۔

شکریہ! تم بھی اچھی لگ رہی ہو۔اس نے تعریف برائے تعریف کی اور وہ جانتی تھی کہ یہ تعریف نارمل وے میں کی گئی ہے جب کہ وہ تو….

موسیقی پر سانول عیسیٰ خیلوی آرہا ہے۔عابی نے بات بڑھانے کے لیے کہا۔

ہاں تو آرہا ہے اچھا گاتا ہے، میں توتھیواسنوں گا۔روحیل نے موڈی انداز میں کہا۔

روحیل میں بھی آںگی ۔روحیل نے گڑبڑاکر اسے دیکھا۔

جھلی ہوئی ہے مردوں میں تمہارا کیا کام سارے مرد ہوں گے وہاں۔اس نے ہنس کر کہا۔

تو کیا ہوا ہوں گے، تو مجھے سانول کی آواز لائیو سننے اور اسے قریب سے دیکھنے کا بڑا شوق ہے میں تو آں گی۔عابی کے من میں کوئی اور لڈو پھوٹ رہے تھے۔ ورنہ اس کی دل چسپی موسیقی کے معاملے میں زیرو تھی۔ وہ تو آج کچھ اور ارادے باندھ کر آئی تھی۔

تو میدو کے گھر آواز آئے گی سنتی رہنا۔اس نے مشورہ دیا۔

میں نے مشورہ نہیں مانگا تم سے اور میں آں گی تم ڈھونڈ لینا کوئی اچھی سی جگہ وہیں بیٹھ کر اکٹھے سنیں گے سانول کو۔عابی نے اس کے مشورے کو Reject کیا اور اپنی ضد پر ڈٹی رہی۔

جگہ، کیسی جگہ ہر پا سے منڈوں کا ٹولا ہوگا۔روحیل بولا۔

کتنے ڈرپوک ہو تم کوئی دیکھ بھی لے گا تو میں بھاگ کر واپس آجاںگی۔عابی نے آرام سے کہا۔

بی بی عبیرہ! پھر بعد میں لوگ جو باتیں بنائیں گے تو بدنام تو تم ہی ہوگی۔روحیل نے کہا۔ پھر اچانک عابی کو راشدہ کی بات یاد آگئی۔

اچھا میں نہیں آں گی۔اس نے پھولے ہوئے منہ سے کہا اور قدموں کی رفتار سست کرلی۔ روحیل بہت آگے بڑھ گیا اور وہ خراماں خراماں چلتی رہی کہ اماں نے اسے آلیا۔

کہاں آگے چلی گئی تھی۔راشدہ نے کہا۔

اماں وہ اسکول کے بچے مل گئے تھے انہوں نے اپنی باتوں میں لگالیا۔اس نے جھوٹ گھڑا جو سچ ہی ثابت ہوا۔ اس کے آس پاس چلنے والے زیادہ تر بچے ہی تھے۔

سجاول وی غائب ہوگیا ابھی تو میرے ساتھ تھا۔راشدہ نے اپنے پہلو میں دیکھا وہاں ماسی نوراں تھی۔

جب کہ سجاول اور ناجی بلاکے تیز تھے۔ پہلے پہل تو وہ ماں کے ہم قدم تھا۔ پھر جیسے ہی کھوکھا آیا وہیں رک گیا۔ ناجی بھی کھوکھے کے پاس لگے بجلی کے کھمبے کے پاس کھڑی تھی۔ لوگ اپنی ہی جون میں چلے جارہے تھے۔ بہت کم لوگوں کی نظریں ان پر پڑی تھیں اور جن کی پڑی بھی انہیں پتا نہ چلا تھا کہ وہ ناجی اور سجاول ہیں۔

کب سے کھڑی ہوں ادھر ٹائم کی ذرا پابندی نہیں کرتا تُو۔ناجی نے شکوہ کیا۔

اوہ میری پُھل جھڑی آتو گیا نہ، اماں ساتھ چمٹ گئی تھی۔ ہتھ پکڑ رکھا تھا میرا جیسے میں کوئی دودھ پیتا بچہ ہوں۔سجاول بولا۔

اچھا چل اب۔ناجی بولی۔

اس گلی والا رستہ سیدھا میدو کے گھر کو جاتا ہے۔ اسی گلی سے چلتے ہیں۔سجاول نے اسے راہ دکھائی اور انہوں نے جیسے ہی گلی میں قدم رکھا۔ بجلی آگئی۔ سارے زردی مائل بلب روشن ہوگئے تھے۔ گلی میں مکمل خاموشی تھی اور ان کے سوا کوئی نہ تھا۔

آج تو میری گلو رانی بڑی شہزادی لگ رہی ہے۔سجاول نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

کیوں نہ لگوں خوبصورت میں ہوں ہی بہت پیاری خاص تیرے لیے سجی ہوں۔اس نے شوخی سے کہا۔ یہ گلی بے حد گندی تھی۔ جگہ جگہ گٹروں سے پانی ابل رہا تھا۔ نالیاں کھلی تھیںجیسے ہی کوئی نالی آتی وہ اس کا ہاتھ پکڑ لیتا تھا۔

کتنے گندے رستے دی پاسو لے آیا تُو۔ناجی نے ایک اور شکوہ کیا۔

اوہ بھلیے لوکے فائدہ بھی تو ہورہا ہے اس رستے کا۔وہ اس کے بے حد قریب آکر بولا کہ اس کی چلتی سانسیں اسے اپنے وجود میں اترتی محسوس ہورہی تھیں۔

تو نے کیا حلیہ بنا رکھا ہے نہ تیار ہوا نہ کچھ۔ناجی نے اسے دیکھ کر کہا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح کئی سال پرانا سوٹ پہن رکھا تھا۔ آستین مڑے ہوئے، قمیص کے بٹن کھلے ہوئے اور گلے میںتعویذ لٹک رہا تھا۔

تیار ہونا تو کڑیوں کا کم ہے ہم نے کیا کرنا تیار ہوکر اور میں تو تجھے ہر حال میں قبول ہوں۔سجاول نے شوخی سے کہا۔ ابھی وہ گلی کے نکڑ تک پہنچے ہی تھے کہ تین کتے کھڑے نظر آئے جو نان سٹاپ بھونک رہے تھے۔

سجاول، کتے۔ناجی بری طرح سہم گئی اور فٹ سے سجاول کے سینے سے لگ گئی۔ سجاول اس اچانک ہونے والی افتاد پر بوکھلا گیا۔ کتے ابھی بھی بھونک رہے تھے۔

ہا ہا ہا ہا ناجی کتنا ڈرتی ہے تُو مجھ سے لپٹ کر کھڑی رہے گی تو کیسے بھگاں گا انہیں رُک۔سجاول نے بڑے جتنوں سے اسے خود سے الگ کیا اور تین چار پتھر اٹھا کر انہیں مارے اور نکل، نکل کی صدائیں بلند کیں کتے بھاگ گئے تھے۔

اُف شکر ہے۔ناجی نے گہری سانسیں لیتے ہوئے شکر کا کلمہ پڑھا۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی تھی جن کی دیوار تھی انہوں نے بلب دروازے کے باہر لگا رکھا تھا تاکہ راہ گیروں کو تکلیف نہ ہو۔ زردی مائل روشنی میں اس کا چہرہ بے حد پیارا لگ رہا تھا۔ سجاول کے ہاتھوں سے صبر کے پیمانے چھلک رہے تھے۔ ہوتے ہوتے وہ اس کے بے حد قریب آگیا۔ اتنا قریب کہ ناجی کو لگا اگر وہ مزید قریب ہوا تو وہ بھی شرم و حیا اور اجتناب کی ساری حدیں کھودے گی۔ سجاول کے وجود سے اٹھتی مہک اسے کسی اور دنیا میں لے جارہی تھی۔ ابھی وہ تھوڑا اور پاس ہوتا تو بس کی بس…. ہوجاتی، لیکن ناجی کو اپنی حدود کا علم تھا۔ اس نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا اور وہ شرمندہ سا ہوکر دور ہوگیا۔ ناجی اب اس کی نظروں سے نظریں نہ ملا پارہی تھی۔ باقی کا سفر انہوں نے خاموشی میں کاٹا اور کبھی کبھی یہ خاموشی بہت بڑے بڑے خطروں کو ہوا دیتی ہوئے سامنے آجاتی ہے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!