جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

ناجی نے ڈھولکی بجانا شروع کردی۔ ساتھ ہی ساتھ گاتی جاتی تھی۔ سب لڑکیاں اُس کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر گا رہی تھیں۔ بڑی بوڑھیاں چارپائیوں پر بیٹھی تالیاں بجارہی تھیں۔ مختاراں نے مہمانوں کو دودھ کی لسی پلائی۔ درمیانی گرمی تھی زیادہ نہ کم پھر بھی ٹھنڈی ٹھار لسی نے مزہ دوبالا کردیا۔

دوسری جانب مردوں میں موسیقی کا سسٹم سیٹ کیا جارہا تھا۔ سانول عیسیٰ خیلوی آچکے تھے۔ مختاراں نے سانول کے لیے ایک لڑکے کے ہاتھ خصوصی کھانا بھجوایا ۔ تمام مردوں کے ساتھ سانول بڑے اخلاق سے مل رہے تھے۔ انہیں اسٹیج پر بٹھا دیا گیا اور تمام مرد، بڑے بوڑھے، لڑکے جوان سرخ رنگ کی ترتیب سے رکھی گئی کرسیوں پر براجمان ہوگئے۔ جب کبھی موسیقی کی محفل سجتی ٹھیلے والوں کی چاندی ہوجاتی تھی۔ دودھ کی لسی بیچنے والا، چپس والا، بریانی والااور جلیبیاں والا سب ترتیب سے ریڑھیاں لگائے کھڑے تھے۔

وہ اس انتظارمیں تھے کہ کب سانول موسیقی کا آغاز کریں۔

فرمائشی پروگرام کا سلسلہ بھی چلنے والا تھا۔ روحیل نے ایک چٹ پرتھیوالکھا اور چٹ سانول تک پہنچادی۔

مختاراں کے گھر گیتوں کا مقابلہ شروع ہوچکا تھا۔ اب میدو کی ہونے والی ساس، سالیاں وغیرہ بھی آگئیں تھیں۔ کیوں کہ یہ ایک رِیت تھی کہ سہروں میں شرکت کا دعوت نامہ خصوصی طور پر لڑکی والوں کو بھیجا جاتا تھا اور تمام لڑکی والیاں اپنی شرکت یقینی بناتی تھیں اور ان کی لڑکے والے اچھی خاصی خاطر تواضع کرتے تھے۔ ناجی گاگا کر تھک گئی تو اِس نے ڈھولکی عبیرہ کے حوالے کی۔

عبیرہ سنا ہے تمہاری بھی اچھی سریلی آواز ہے تم گانہ۔ناجی نے کہا۔

نہیں ، نہیں مجھے گانا نہیں آتا۔عبیرہ نے نفی میں سرہلایا۔

کیوں نہیں آتا، گھر میں تو ہر وقت گاتی رہتی ہو۔ میری عابی کی بہت پیاری آواز ہے گا نہ عابی۔چارپائی پر بیٹھی راشدہ نے کہا۔

ہاں، ہاں عابی گا۔

گا، گا۔اب دوسری لڑکیوں نے بھی بے حد اصرار کرنا شروع کردیا۔ اسے ماننا ہی پڑا۔ پر اس وقت خوشی کے گیت کے بجائے یہ گیت کیوں لبوں پر آگیا وہ سمجھ ہی نہ پائی تھی۔ وہ آنکھیں بند کرکے کسی اور ہی وادی میں گم ہوکر شدت سے گانے لگی ۔

میں تینوں سمجھا واں کی نہ تیرے باجوں لگدا جی

تو کی جانڑے پیار میرا میں کراں انتظار تیرا

تو دل توں اوں جان میری 

میں تینوں سمجھاواں کی….

وہ ابھی گاہی رہی تھی کہ روحیل کسی کام کے لیے اندر آیا۔ وہ اتنی لڑکیوں کا جھرمٹ دیکھ کر دروازے پر ہی رک گیا۔ پھر جل تو جلال تو کا ورد کرکے اندر گھس گیا۔ وہ اب عابی کے بالکل سامنے ہی کھڑا تھا جہاں عابی دنیا و مافیہا سے بیگانی ہوکر گارہی تھی اور وہ اسے دیکھے جارہا تھا۔ یہ گیت سیدھا اس کے دل پر اثر کررہا تھا۔ وہ جس کام سے آیا تھا وہ بھول گیا اور اب وہ صرف عابی کا گیت سن رہا تھا….

میرے دل وچ رہ کے میرے دل دا حال نہ جانڑے

تیرے باجوں کلے آں بے کے روندے نین نماڑے

جینا میرا ہائے، مرنا میرا نال تیرے سی 

تو کر اعتبار میرا، میں کراں انتظار تیرا

توں دل توں اوں جاں میری

میں تینوں سمجھاواں کی نہ تیرے باجوں لگداجی

ہاں روحیل پتر کچھ چاہیے۔مختاراں اس کے پاس آئی۔ جب کہ وہ عبیرہ کی گائیکی کے سحر میں کھویاہ ہوا تھا۔ عبیرہ نے بند آنکھیں کھول لیں۔ وہ اب اسے ہی دیکھ رہی تھی اور آنکھوں میں آئی نمی چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔ راشدہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کوئی ایسا صور پھونکے اور روحیل نو دو گیارہ ہوجائے، لیکن یہ راشدہ کی بھول تھی کہ آج کی ہی مبارک گھڑی میں تو اُس کے دل پر دستک پڑنا شروع ہوئی تھی۔ عبیرہ کے گائے ایک ایک لفظ نے روحیل کو حقیقت سے آشکار کیا تھا۔ اس کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھل گئی تھی وہ صاف دیکھ سکتا تھا کہ عبیرہ کے مٹیالے نینوں میں اس کے لیے کیا تھا اور کون سے جذبے امڈ رہے تھے۔ دل کی دھڑکن اس کی بھی تیز تھی اور عابی کا دل تو ایسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی نکل جائے گا۔

عابی چپ کیوں ہوگئی آگے گانہ۔

پورا گیت ختم کرو۔

گانہ عابی گا۔لڑکیوں نے پھر سے اصرار کرنا شروع کردیا۔

سنجھیاں، سنجھیاںدل دیاں گلیاں 

سنجھیاں میری آں راہاں

آجا تیری آں خوشبواں نوں لبھدیاں میری آں ساہاں

وہ گاتے ہوئے بنا پلک جھپکائے روحیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی تھی۔ سب عابی کی گائیکی میں محو تھے کسی کو کچھ پتا نہ تھا۔ اگر پتا تھا تو صرف راشدہ کو۔ اس کا بس نہ چل رہا تھا کہ ابھی اٹھے اور عابی کی آنکھیں پھوڑ ڈالے۔

کتھے کھو گیا، عابی دی آواز ہی اتنی سریلی ہے، ہا ہا ہا ہا …. ڈساکی ہے۔خالہ مختاراں نے اسے دھموکا جڑا۔

آ، آ، آ ہاں خالہ میدو کہہ رہا ہے خالد خان کے لیے بھی کھانا بھجوا دے۔ سانول اور وہ ایک ساتھ کھائیں گے۔وہ عبیرہ کو ہی دیکھ کر کہہ رہا تھا جو آنکھوں سے آنسو صاف کررہی تھی۔ وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظر راشدہ کی غضب برساتی نگاہوں پر ٹکیں تو وہ ٹھٹک گئی۔

میں تجھے کیسے سمجھاں عابی کہ تو نے اوکھے پاسے نین لڑائے ہیں پلٹ آ۔

نہیں تو خاک ہوجائے گی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!