جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

سجاول کے تیز تیز چلتے ہوئے قدم اس بات کے غماز تھے کہ اسے اپنی منزل پر پہنچنے کی کتنی جلدی ہے۔ دھول اڑاتا، لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ ہری بھری فصلوں، کھیت کھلیانوں سے ہوکر وہاں پہنچنے ہی والا تھا۔ اس نے ذرا سا قریب پہنچ کر اسکول کی عمارت کے گیٹ کے اوپر نصب بورڈ کو دیکھا جہاں موٹے موٹے الفاظ میںگرلز ہائی اسکوللکھا تھا۔ وہ شرارت سے مُسکادیا۔ ٹھیلے اور ریڑھی والوں کا آنا جانا بھی شروع ہوچکا تھا۔ گولے گنڈے والے کرمُو نے اپنی مونچھوں کو تادیتے ہوئے نخوت سے سجاول کو دیکھا اور برف کو بلیڈ پر رگڑتے ہوئے بڑبڑایا۔

بے شرمی دی حد ہوگئی روز آجاندا اے اسکول دے گیٹ تیں کمینہ کدی ماسٹرانی نوں پتا لگ گیا تیں ایندی خیر نئیں۔“ (بے شرمی کی حد ہوگئی روز آجاتا ہے اسکول کے گیٹ پر کمینہ کبھی ماسٹرانی کو پتا لگ گیا تو اس کی خیر نہیں ہوگی)۔ کرمُو نے جملہ ختم کرتے ہوئے اس پر ایک نظر ڈالی۔

نہ تیرے ابے نے اسکول کھولا ہے جو یہ بکواس کررہا ہے۔ میری مرضی میرا کم (کام) تیرا کیا لینا دینا تو چپ چپتے کھڑا لال، پیلے تے ہرے شربت والے گولے ویچ ) آئی سمجھ۔اس نے کرمو کی بات سن لی تھی وہ اس کی ریڑھی کے پاس آکر انگلی اُٹھاتے ہوئے بولا۔ کرمو نے بات کا جواب نہ دینے میں ہی عافیت سمجھی اور گولے کی ڈنڈیوں والا تھیلا نکالنے لگا۔

سجاول کو دور ہی سے ناجی آتی نظر آگئی تھی۔ اس نے اپنی جیب سے چھوٹا شیشہ اور کنگھی نکالی اور بال سنوارنے لگا۔ مانگ نکال کر اس نے شیشہ اور کنگھی جیب میں رکھے۔ مڑی ہوئی آستینوں کو سیدھا کیا۔ قمیص کے اوپر جھولتے چاندی کے لاکٹ نما تعویذ کو اندر کیا۔ بٹن بند کیے اور چہرے پر عجیب سی بشاشت اور خوشی طاری کرلی اور دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ اسکول داخل ہوتی اکثر و بیشتر لڑکیاں اسے سختی سے ہونٹ بھینچ کر دیکھ رہی تھیں اور ان کے مَن میں اس قسم کے جملے گردش کررہے تھے۔

توبہ، توبہ نہ شکل نہ صورت، نہ سیرت ناجی اندھی ہوگئی جو اس سے دل لگی کرلی۔

بے حیا، بے غیرت اپنے گھر میں بھی ایک بہن بیٹھی ہے۔ ذرا برابر احساس نہیں۔ کتنی گندی نظروں سے دیکھتا ہے ہمیں۔

عشق، معشوقی کرنی ہے تو کہیں اور جاکے کرے یہ محبت بھرے جملے اور توصیفی قصیدے پڑھنے کو یہی اسکول کا گیٹ ہی ملا ہے اسے۔

اِکا دُکا لڑکیاں تھیں جو ٹافی، ٹکی والے سے کھٹی میٹھی املی یا چورن لے رہی تھیں اور کچھ جو ناجی کی سہیلیاں تھیں اسے دیکھ کر اس کے انتظارمیں ٹھہر گئیں تھیں۔

دیکھ نہیں رہی تُو ناجی میڈم کا محبوب کھڑا، اس کے آنے کی گھڑیاں گن رہا ہے۔ میں کہتی ہوں اندر چل اسمبلی ہونے والی ہے آجائے گی ناجی وی۔ایک نے اپنے ساتھ کھڑی کوچٹکی کاٹتے ہوئے کہا۔

چپ کر روز روز کی کہانی جو ناجی سناتی رہتی ہے، آج اس کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو مل رہا ہے دیکھیں تو کیا ہوتا ہے۔دوسری نے سہیلی کو چپت لگاتے ہوئے کہا۔

ناجی اب پہنچنے ہی والی تھی۔ تمام لڑکیوں کی نظریں ناجی اور سجاول پر ہی ٹھہری ہوئی تھیں اس کی سہیلیوں نے رُخ دوسری جانب پھیرلیا اور کان کھڑے کردیے۔

آگئی تُو کہاں رہ گئی تھی میں کب سے دُھپ میں کھڑا سڑ رہا ہوں۔سجاول نے اس کے آتے ساتھ ہی اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور ناجی شرم کے مارے سرخ انار کی طرح گلنار ہوگئی۔

ہتھ چھوڑ میرا سجاول سارے دیکھ رہے ہیں۔ناجی نے ہاتھ چھڑانا چاہا اور سجاول نے اپنے ہاتھوں کی گرفت سخت کردی۔

نہ ہتھ کدی چھوڑنے کے لیے بھی پکڑا جاتا ہے بھلا، تو میری من تو اسکول سے چھٹی کرلے میں نے ماجے سے اس کی موٹر سائیکل مانگی ہے۔ ہیڈ پر چلتے ہیں۔ دودھ ہور کھوئے والی منٹھار قلفی، جلیبی تے مچھی (مچھلی) کھواں گا۔سجاول اپنی کالی سیاہ آنکھوں میں دیوانے پن کے کئی موسم سموئے ہوئے بولا۔ 

بالانہ بن مجھے دیر ہوگئی اور میں گھر نہ گئی تو اماں نے بڑی جلی کٹی سنانی ہے۔ناجی نے بالآخر ہاتھ چھڑا ہی لیا۔ اور ڈرے سہمے لہجے میں بولی۔

لے دس انی جئی گل (لو بتااتنی سی بات) میں پورے چھٹی والے ٹائم پر تیرے کو ادھری چھڈ جاں گا یہاں کسی کو کیا خبر۔سجاول اسے تسلی دیتے ہوئے بولا۔

اگر میری کسی سکھی سہیلی نے مجھے تیرے ساتھ جاتے دیکھ لیا اور اماں سے شکایت لگادی تو؟ناجی یہاں وہاں، ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولی۔ کیکر کے پاس کھڑی سہیلیاں کیکر کے پیچھے چھپ گئیں۔ ناجی اُن کی طرف نہ دیکھ سکی۔

سجاول میکوں مجبور نہ کر، ہیڈ پر جاتے کسی کی نظر پڑگئی تو؟ناجی نے ایک اور عقدہ پیش کیا۔

ہا ہا ہا توں وی ناجی بڑی بھولی ہے اس لیے تو میرے دل میں وس گئی ہے۔ سارے جھوکی تو اپنی اپنی زمینوں پر چلے جاتے ہیں۔ ہور تیرا ابا اپنی ڈیری اور تیری ماں نے دانے چھننے ہوں گے ہور تیرا بھرا (بھائی) پڑھاکو اندری اندر بیٹھا پڑھ دا رہے گا۔سجاول نے منٹوں میں اس کی پریشانی کو دور بھگانا چاہا۔

اچھا چل میں چلتی ہوں پر چھٹی سے پہلے آنا ہوگا منظور۔ناجی نے گردن ہاں میں ہلاتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا۔ سجاول نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئےمنظورکہا اور پھر دونوں کھکھلا کر ہنس پڑے۔

آموٹر سائیکل ورکشاپ پر کھڑی ہے استاد کی۔سجاول اس کے آگے آگے چلتا گیا اور وہ اپنی سہیلیوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کرتی اس کے سنگ ہولی۔

چھوری دی دیدہ دلیری تاں ڈیکھو (دیکھو) کیسے اس کے پیچھاں پیچھاں ہولی۔کرمو نے گاہک کو فارغ کرتے ہوئے کہا۔

ہاں بھرا وڈا اوکھا (مشکل) زمانہ آگیا ہے رب سوہنا سب کی دھیوں، بہنوں، بیٹیوں کو اپنی امان میں رکھے آمین۔بھٹے والے نے کہا۔ کرمو نے بھی آمین کہا اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

اُف پینو میرے کو تو یقین ہی نہیں آرہا یہ اپنی ناجی تھی۔بانو نے اسکول کی طرف قدم بڑھائے اور پینو کو دیکھتے ہوئے بولی۔

ہاں بانو ناجی کتنا بدل گئی ہے اس پیار ویار کے چکر نے تو اس کا ستیاناس کردیا ہے۔پینو بولی اور دونوں اسکول کے اندر داخل ہوگئیں۔ جہاں اسمبلی کے لیے لڑکیاں لائنیں بنارہی تھیں۔ انہوں نے کلاس روم میں اپنے بستے رکھے اور قطاروں میں کھڑی ہوگئیں۔ تلاوت کلامِ پاک کا آغاز ہوچکا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!