جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

آسمان پر ٹمٹماتے تاروں کا جھرمٹ آباد تھا۔چاند کی چاندنی ویسی ہی تھی،ہمیشہ کی طرح قائم و دائم۔ہر گھر سے اِکا دُکا مردسردار خالد خان کی زمینوں کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔ان مردوں کے ٹولے میں روحیل کہیں نہیں تھا،اگر تھا تو وہ تھا جو سب سے آگے آگے چل رہا تھا جس کے دونوں ہاتھوں میں گیلن تھے،جس کا دماغ سن نہیں ہوا تھا، مفلوج نہیں ہوا تھا، سائیں سائیں نہیں کررہا تھا۔بس اس کے دماغ میں ہر سیکنڈ ، ہر منٹ کے بعد جملے باز گشت کررہے تھے۔اس کے پیچھے چلنے والا مردوں کا ٹولا نعرے لگا رہا تھا۔

قدم بڑھا مشتاق ہم تیرے ساتھ ہیں۔

ہمت پکڑ، شیر، بن۔ دلیر بن۔“ 

اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں سن رہا تھا۔ کچھ سمجھ نئیںرہا تھا۔ اسے ان لوگوں کی آوازیں آنا بند ہوگئیں تھیں۔وہ ان لوگوں کو،ان کی بولیوں کو، ان کی گالیوں کو اتنی بار سن چکا تھا،اتنی بار جھیل چکا تھا کہ اب اس میں برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی تھی۔ اس نے کانوں میں روئی نہیں ٹھونسی تھی۔ بس ایسا خود بہ خود ہوا تھا کہ اس کے اوسان کام کرنا چھوڑ گئے تھے۔ اس کے دل اور دماغ سے جو صدائیں،جو آوازیں، جو جملے بلند ہورہے تھے وہ انہیں سن رہا تھا۔

اس کی آنکھوں میں خون ابل رہا تھا۔اس کے ڈھیلے ڈھالے سست وجودمیں حرارت آگئی تھی،وہ چست ہوگیا ۔وہ جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا، توں توں الرٹ ہوتا جارہا تھا۔ اب وہ بستی سے ویرانے کی طرف قدم بڑھا چکے تھے جہاں روشنی نام کو نہ تھی۔ کتوں کی بھونک تھی،مینڈکوںکے ٹرٹرانے کی آوازیں تھیں،گیدڑوں کی آوازیں تھیں۔ مردوں نے لال ٹین جلالیں۔مشتاق احمد کے ساتھ چلنے والوں نے ٹارچیں روشن کرلیں۔اب روشنی ہی روشنی تھی لیکن یہ روشنی نہیں تھی،یہ اندھیرا تھا بس انہیں اس کی خبر نہ تھی۔

وہ بہت تیز تیز قدم بڑھا رہا تھا۔ اسے دورہی سے سردار خالد خان کی گاڑیاں نظر آگئی تھیں۔ وہ اب آگے بڑھ رہا تھا اور دیکھ رہا تھا کہ سردار خالد خان گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل رہا تھا۔

کیوں رُلے گا یہ،پاگل تو تم ہو جو ذرا سی تکلیف وی نئیں سہ پایا۔ہور سب کچھ تیاگ کر اے روگ پال لیا۔ میں ہور سجاول بڑے صبر والے ہیں۔ اپنے عشق پر آنچ وی نہ آنے دیں گے۔زمانہ بھاویں جو مرضی کہہ لے ہم ایک ہوکے رہیں گے۔ وڈا آیا خود ناکام عاشق اور ہمیں لگا عاشقی کا قاعدہ پڑھانے۔

سردار خالد خان گاڑی سے باہر آ چکا تھا،اب کالی سی چادر نظر آرہی تھی اور ایک بازو جس میں سرخ رنگ کی چوڑیاں چڑھی ہوئیں تھیں۔

میڈی محبت سچی ہے، سجاول دا عشق کھرا اور ساڈے جذبے سُچل،اسی ضرور ہک ہوں گے۔

نی سن تجھے اس کے لچھنوں کا پتاچلا، توبہ توبہ کیسی میسنی بنی پھرتی تھی۔ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے اپنے یار کے ساتھ،سکوٹی پر چڑھ کے جارہی تھی۔

دونوں آمنے سامنے آگئے تھے۔ ان کے درمیان صرف چند قدموں کا ہی فاصلہ رہ گیا تھا۔وہ گاڑی سے نکل آئی تھی۔ اب رحم کی اپیل کررہی تھی جسے بار بار مسترد کیا جارہا تھا۔ 

کہہ دے، کہہ دے رنگ رلیاں مناتی پھرتی ہے اس کے ساتھ، سکوٹی تیں بیٹھ کے ہیڈ کی سیر کو جاتی ہے، ہاتھ تھامے کھیتوں میں گھومتی ہے، اس کے مونڈھے پرسر رکھ کے سوتی ہے۔ اس کو دیسی گھیو کی چوریاں کھواتی ہے۔ اسے عشق و عاشقی والے شعر سناتی ہے۔ وفا کی قسمیں کھاتی ہے، عمر بھر ساتھ نبھانے کے وعدے کرتی ہے، وہ روٹھے تو اسے منانے کے کئی سوترے کرتی ہے۔ وہ مان جائے تو اس کے لیے سرائیکی گیت گاتی ہے، وہ نہ دکھے تو اس کی راہوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے بارے میں کوئی مندی بات کرے تو اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے، دن رات اس دے ناں دی مالاجپتی ہے۔ہاں پینو ناجی سب کچھ کردی ہے،پر ناجی اپنی حد کراس نئیں کردی،ناجی کوں اپنی حدود کا علم ہے۔

وہ اپنے باپ کے بالکل سامنے آکھڑی ہوئی اوراس کے قدموں میں ہی گر گئی۔ اس نے اپنی چادر اتار کر باپ کے قدموں میں رکھ دی تھی۔

مشتاقے دلیر بن، شیر بن، مردانگی دکھا۔

عورت کو بڑے مکرو فریب آتے ہیں ،اس کے فریب میں نہ آنا جو کرنے آیا ہے وہ کر۔

ہاں اوئے کلدی کوں مکا مشتاقے ،ختم کر چھوڑ سارا قصہ۔

لیکن وہ کچھ نہیں سن رہا تھا۔ بس دماغ کی سن رہا تھا،دل کی سن رہا تھا اور دل اور دماغ….

نہ جانے اماں نے کیا دیکھا تھا تیرے پیو میں،جو مجھے اس کے پلے باندھ دیا،نہ صورت نہ سیرت۔ ہائے کیا ہوجاتا اگر اماں میرا ویاکرامت سے کردیتی۔ پوریاں باراں جماعتاں پاس تھا۔ ان دنوں باراں جماعتوں تک پڑھنے والوں کی بھی بڑی عزت ہوتی تھی۔کرامت کی تو ٹورہی وکھری تھی،اوچا لمبا قد، سوہنڑاں گھبرو جوان،ہر ہر جگہ اس دی پڑھائی ہور ذہانت دا چرچہ تھا۔ میکوں بڑا اچھا لگتا تھا،پر اماں منتی تب نا۔

وہ زاروقطار رو رہی تھی۔اتنا رو رہی تھی کہ اگر آج ساری رات روتی رہتی تو ابے کے دونوں پاں بھیگ جاتے۔ اس کی آنکھوں سے سیلاب امڈ رہا تھا،لیکن مشتاق احمد ننگے سر قدموں پرپڑی ہوئی بیٹی کو دیکھ بھی نہیں رہا تھا،وہ بس سن رہا تھا۔ 

کتنی بار کہا ہے تجھے نہ کیاکر اس طرح کی گلاں باتاں جوان جہان کڑی سے۔تیرا دماغ تو تھا ہی خراب، اب میری دھی کا بھی کرے گی۔

نہ کیوں نہ بتاوں ناجی کو،اسے بھی ساری کہانی کا پتا چلے کہ کیسے تو نے میری حیاتی خراب کردی۔ پہلی واری کسی کے ساتھ سچا عشق کیتا تیں توں متھے لگ گیا۔

دائیں ہاتھ کے شکنجے میں جڑے گیلن کا ڈھکن کھولا جارہا تھا۔ڈھکن ٹائٹ بند تھا کھل نہیں رہا تھا۔ پیچھے کھڑا کرم دین آگے بڑھا اور ڈھکن کھول دیا۔ پہلی بوند سے اس کے وجود کو نہلایا گیا۔ وہ لمحے کے دوسرے سیکنڈ میں ہی بھانپ گئی کہ اس کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے، وہ تڑپ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

نئیں ابا نئیں،یہ تو کیا کررہا ہے اپنی دھی کے ساتھ ۔ ابا میں تو تیری پیاری دھی ہوں نا،تو ایسے نہ کر ابا ،تو یہ نہ کر۔وہ چلا چلا کر کہہ رہی تھی۔ دونوں ہاتھ جوڑ جوڑ کر فریاد کررہی تھی، لیکن آج مشتاق احمد بہرا ہو چکا تھا۔ وہ اب پورا گیلن اٹھا کر ناجی کے اوپرانڈیل چکاتھا۔ ناجی مزاحمت کررہی تھی،بار بار پوری قوت سے ہاتھ مار کر گیلن پرے کرتی تھی۔ مٹی کے تیل کی بو اسے کسی اور دنیا میں لے جارہی تھی۔ وہ چیخ رہی تھی، چلارہی تھی، مگر کوئی سننے والا نہیں تھا۔

ہائے روحیل تجھے وی بل دار پراٹھے پسند ہیں۔کرامت کوں وی بڑے اچھے لگتے تھے میرے ہتھ دے پکے بل دار پراٹھے۔

گیلن کا سارا تیل ناجی کے کپڑوں کو بھگو چکا تھا۔ اس کے بال اجڑ چکے تھے اورکپڑے مٹی سے اٹ چکے تھے، لیکن وہ گلاپھاڑ پھاڑ کر چلا رہی تھی۔

ماما کرم دین میں تو تیری دھیوں جیسی ہوں نا؟ کیوں چپ کھڑا تماشا دیکھ رہا ہے؟ تو ابے کو منع کر نامیرے ساتھ یہ سلوک نہ کرے ،ماما جی! ماما جی!“ وہ کرم دین کے قدموں میں آگری تھی۔ کرم دین سختی سے ہونٹ بھینچے کھڑا تھا۔ اسے ناجی کا بچپن بھول گیا تھاجب وہ چھوٹی تھی تو مامے کرم دین کو گھوڑا بناکر اس کی کمر پر بیٹھ جایا کرتی۔ اس کی دکان سے چیزیں چرا چرا کر کھاتی تھی۔

بھرا کرمو بھل گیا میں ہر ویلے تجھ سے گولے لیتی تھی ادھی چھٹی کے وقت۔ توں تو ادھار بھی رکھ لیتا تھا جب میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔وہ اب کرمو کے آگے ہاتھ پھیلا رہی تھی۔ اس نے چادر اٹھا کر اس کے قدموں میں رکھ دی ۔ کرمو بھی اسے نہ دیکھتا تھا۔ سب گونگے، بہرے ہوگئے تھے۔

تیڈے میڈے عشق دا چرچہ ہورہا ہے سجاول،ا سکول میں ساری کڑیوں کو پتالگ گیاہے۔ ساریاں میکوں میلی نظروں سے دیکھتی ہیں۔ میرے بارے میں الٹی سیدھی بکواسیں کرتی ہیں۔ ہور اسکول دے باہروں کھڑے پھیری والے میکوں مشکوک نگاہ واں نال ویکھتے ہیں۔

اوہ میری شوہدی جئی شہزادی،نکی جئی گل تیں اتنا پریشان ہوگئی تو۔عشق کے ہور وی بہت سے امتحان ابھی باقی ہیں۔ وہ کیسے پاس کرے گی۔ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پرسر پکڑ کر بیٹھ گئی تُو۔

دوسرے گیلن کا ڈھکن کھول دیا گیا۔وہ بھی اس پر ڈالا جانے لگا۔ وہ سسکتی رہی، بلکتی رہی، دہاڑیں مار مار کے روتی رہی،کراہتی رہی، چیختی رہی پرکوئی سننے والا نہیں تھا۔ سب اسے زندہ جلانے آئے تھے،اسے سزا دینے آئے تھے۔ان کی نام نہاد غیرت پر بہت بڑا دھبّاتھی وہ، کلنک کا ٹیکا تھی وہ، داغ تھی وہ ، سیاہی تھی وہ جس سے جیسے سارے جھوکیوں کی عزت پر حرف آیا تھا۔ اس نے بھاگ کر بیاہ رچایا تھا اس لیے۔اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے جھوک کی باقی لڑکیوں کے لیے دروازہ کھول دیا تھا کہ اگر انہیں ان کے عاشق کے ساتھ شادی کرنے نہ دی جائے تو وہ بھاگ جائیں۔ یہ ان کی سوچ تھی،وہ عشق کے سائے سے بھی دور بھاگنا چاہتے تھے،لیکن یہاں کتنے ہی ایسے تھے جو رات کی تاریکیوں میں سیاہ کاریوں میں ملوث ہوتے تھے۔ کیا حرام کاری سے حلال زیادہ بہتر نہیں،کیا شادی کرنا گناہ ہے یا یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی اتنی ہول ناک سزا دی جائے؟

کرمو نے اپنی جیب سے ماچس نکال کر مشتاق احمد کو تھما دی۔ناجی نے جیسے ہی باپ کے ہاتھ میں ماچس دیکھی وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی اور الٹے قدموں سے پیچھے ہوتی ہوئی سردار خالد خان کو جالگی۔

سردار آپ تو اس جھوک کے سرپنچ ہو، مجھے بچالو۔ یہ میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہیں سردار، میکوں بچالو۔وہ بار بار سردار کے آگے گڑ گڑارہی تھی،ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہہ رہی تھی۔پرے مر کمینی، پلید۔سردار نے اتنے زور کا دھکا دیا کہ وہ پھر سے اپنے باپ کے قدموں میں آگری۔

ابا معافی، ابا معافی، ابا رحم، رحم ابا توں جو کہے گا میں وہ کروں گی میرے ساتھ یہ ظلم نہ کرو۔وہ پھر سے چلارہی تھی۔

مشتاق احمد نے تیلی سلگالی تھی اور آج ایک ہی تیلی کا تو کھیل تھا سارا اور پھر ناجی کے وجود کو راکھ کا ڈھیر ہوجانا تھا۔ اس نے جیسے ہی تیلی جلتی دیکھی،سر پٹ بھاگی۔ نام نہاد غیرت مند مردوں نے اپنا گھیرا تنگ کردیا۔ وہ بیچ میں تھی اور وہ سب بالکل ایسے ہی گول دائرے کی شکل میں اس کے اردگرد کھڑے تھے،جیسے دو مرغوں کی لڑائی کے وقت جمع ہوتے ہیںتاکہ شکار چنگل سے نکل نہ جائے۔

ہوا آئی اور تیلی بجھ گئی۔ دوسری تیلی جلاتے وقت مشتاق احمد کے ہاتھ لرز رہے تھے، کانپ رہے تھے۔ کرمو نے اپنی جیب سے لائٹر نکال لیا۔ پھرجلتے ہوئے لائٹرکو کرمو نے ناجی کی طرف اچھال دیا۔ ایک چنگاری سے بھڑکی اس نے ناجی کے بالوں کو اپنی لپیٹ میں لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ناجی کا پورا جسم جلنے لگا۔

آگ کے شعلے بھڑکنے لگے۔

ناجی کی دل دوز چیخیں پورا جھوک سن سکتا تھا۔

بچاﺅ!“

بچاﺅ!“

بچاﺅ!“

واہ مشتاق واہ ،یہ کیا نادلیروں شیروں والا کم۔

اب کوئی لڑکی ناجی دی طرح گھروں نس کے ویاہ نئیںکرے گی۔

عبرت دا مقام بن گئی ہے ناجی۔

جس بارش کے برسنے کا امکان تک نہ تھا،وہ برسنے لگی لیکن افسوس تب تک بہت دیر ہوچکی تھی،ناجی راکھ کا ڈھیر ہوگئی تھی۔

سجاول کا خون بارش کے پانی سے راشدہ کے صحن میں تیر رہا تھا۔

نالیوں سے ہوتا ہوا لیمو اور مالٹے کے درختوں کے کھڈوں میں جمع ہورہا تھا۔

ناجی کے وجود کی راکھ اُس درخت کے پاس جمع ہوچکی تھی جس کوٹیک لگائے وہ دونوں ہمیشہ ملتے تھے اورجس درخت پر سجاول اور ناجی نے بڑے شوق سے چاقو سے S اور Nکھنڈا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!