جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

یہ ان دنوں کی بات ہے جب گاں میں بجلی نہ آئی تھی۔ لوگوں کے گھر گھر پانی والی موٹریں نہ چلتی تھیں۔ لوگ کنویں سے پانی بھرتے تھے۔ پیار محبت کے سائے گہرے تھے۔ غربت تھی پر دل کشادہ تھے۔ دلوں میں جگہ تھی وسعت تھی۔ ایک دوسرے کے برے وقت میں ہمیشہ کام آنے والے، دکھ درد کے سانجھی ۔ جھوک میں پیار ہی پیار تھا۔ پیار کی بولیاں تھیں، نفرتیں ناپید تھیں اور عشق کی ننھی سی کلی صفیہ کے من میں بھی پھوٹی تھی اور پانی دیتے دیتے عشق تناور درخت بن گیا تھا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی لڑکی تھی۔ زمان احمد ملتان سے عورتوں کے لیے دوپٹے لاتے تھے جنہیں عورتیں سیاکرتی تھیں اور انہیں ایک دوپٹا سینے کے عوض 35 روپے ملا کرتے تھے۔ ان دنوں 35روپے بھی بہت ہوا کرتے تھے۔ ایک دن کی چولہا ہانڈی تو ہوہی جاتی تھی۔ زمان احمد ٹھیکے پر دوپٹے لاتے تھے۔ 

جتنے دوپٹے ہفتے کے ہفتے مکمل ہوتے۔ ملتان سے اتنوں کے حساب پر ڈبل رقم انہیں دی جاتی۔ صرف اتنا نہیں بلکہ چھوٹی سی پرچون کی دکان بھی تھی۔ جو گاہ بہ گاہ بڑے کریانے اسٹور میں بدل گئی تھی۔ چینی، چاول، آٹا، دالیں، مرچ، مسالے، سبزی سب کچھ بارعایت ہی مل جاتا تھا۔ جھوکیوں کوکسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ صفیہ کی ماں حسینہ مکمل ہاس وائف تھی ۔ اسے دو اور دو چار کرنا نہ آتے تھے۔ ہاں گھر داری ساری آتی تھی۔ صبح تڑکے تڑکے لسی بلوتی، مکھن نکالتی، بھینسوں کو چارہ ڈالتی، بکریوں کا دودھ دوہتی، ناشتا تیار کرکے، سب کو کھلا پلا کے، گھر کی صفائی میں جت جاتی، دیواروں اور چھتوں کو لپائی کی ضرورت ہوتی تو وہ تک خود کرلیتی، غرضیکہ ہر فن مولا تھی حسینہ۔ اس نے کبھی صفیہ پر ذمے داریوں کا بوجھ نہ ڈالا تھا جس عمر میں لڑکیاں ہانڈی روٹی کرتی ہیں۔ اس عمر میں بھی صفیہ گلی ڈنڈا کھیلتی، قنچے کھیلتی تھی۔ پر حسینہ بے چاری متفکر رہتی تھی کہ اکلوتی لڑکی کا یہی حال رہا تو پرائے گھر جاکر کیا کرے گی۔ خیر حسینہ نے آہستہ آہستہ بیٹی پر نظر کرم ڈالی اور اپنی مشاقی سے اسے ایک مہینے میں ہی استاد کر دکھایا۔ پھر کیا تھا۔ وہ بھی ہر کام بڑے مزے سے کرلیتی تھی۔ کھانے پکاتی تو حسینہ کے ہاتھ کے پکے کھانوں سے بھی زیادہ سواد ہوتا۔ بس اگر کوئی کمی رکھ چھوڑی تھی تو دونوں میاں بیوی نے اتنا لاڈ پیار دے کر اسے ضدی، ہٹ دھرم اور ڈھیٹ بنادیا تھا۔

جس چیز کی فرمائش صفیہ کرے وہ منٹوں میں پوری ہونی چاہیے….

وہ اپنے عزائم سے ہٹنے والی نہ تھی۔ کنویں سے سہیلیوں کے ساتھ پانی بھرنے جاتی تو اتنے رعب و دبدبے سے بات کرتی کہ ساری لڑکیاں سہم کر رہ جاتیں۔ تکبر اور غرور کی ہلکی ہلکی سی کرن پھوٹ رہی تھی۔ وہ گرمیوں کے دن تھے جب وہ پانی بھرنے گئی تو کنویں کے پاس کھڑے چند مردوں کو دیکھا۔ ایک پر تو اس کی نظر ٹک سی گئی تھی جس نے سفید کاٹن کا کلف لگا سوٹ پہن رکھا تھا اور اس دور میں بھی جس کے کپڑوں پر ایک شکن تک نہ تھی۔ ان کے بیچ ہونے والی گفتگو وہ آسانی سے سن سکتی تھی۔

ہائے کتنا مٹھا بولتا ہے۔اس نے دل ہی دل میں کہا۔

صفیہ چل نا رک کیوں گئی دیر پئی ہوندی ہے۔سہیلی نے کہا۔

صفیہ کہاں کھوئی ہے۔

پرجی صفیہ کو ہوش ہی کہاں تھا۔ ایسی دیوانی ہوئی کہ مٹکا چھوڑ سرپٹ بھاگتی اس کے سر پر جاکھڑی ہوئی۔ نہ جان نہ پہچان میں تیرا مہمان کے مصداق، گئی تو واپسی پر سارا بائیو ڈیٹا معلوم کر آئی۔

صفیہ سٹھیاگئی ہے پانی نئیں بھرنا کیا۔

ہاں بھرنا ہے بھرنا کیوں نئیں چل چلیے۔وہاں اب کوئی نہیں تھا۔

اب بتا کون تھا پہلے تو کبھی نہ دکھا؟سہیلی نے پوچھا۔

ری اپنی راشدہ ہے نہ اوندا بھرا ہے کرامت۔اس سے قبل کہ صفیہ جواب دیتی دوسری سہیلی بولی۔ صفیہ حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔

نہ اگر تیکوں پتا تھا تو میکوں بتایا کیوں نئیں۔

کے دس تونے موقع دیا جو میں بتاتی۔سہیلی کا مٹکا بھر چکا تھا۔

پوری باراں جماعتاں پاس ہے۔دوسری نے بتایا۔ صفیہ تو خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔

صفیہ تو کہاں کھوئی ہوئی ہے تیرا مٹکا بھر گیا ہے چل۔سہیلی نے کہا۔

ہمیں لگتا ہے دل دے بیٹھی ہے تو۔چلتے چلتے ایک بولی۔ صفیہ شرمانے لگی۔ 

آج جاں گی راشدہ دے گھر میں تو کدی گئی وی نئیں نوے نوے جو آئے ہیں جھوک میں۔اس نے دل ہی دل میں سوچا۔

کیا سوچنے لگی صفیہ۔

کچھ نئیں چلو میرا گھر آگیا۔صفیہ اپنے گھر چلی گئی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!