جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

مختاراں نے اپنے آنگن میں خوب سجاوٹ کی تھی۔ کچے فرش پر ٹاٹ بچھے تھے۔ جگمگاتی جھلملاتی روشنیوں کا نور پھیلا تھا۔ چار پانچ سٹینڈ والے پنکھے بھی چل رہے تھے۔ چھوٹی سی ڈھولکی کے پاس دھیرے دھیرے لڑکیوں کا ہجوم لگنا شروع ہوگیا تھا۔ مختاراں تمام مہمانوں کے ساتھ بڑی خوش اسلوبی سے مل رہی تھی اور بہت ہی خوش تھی کہ سب گاں والوں نے اس کے دعوت نامے کو عزت بخشی تھی۔ بڑی عمر کی بزرگ عورتوں کے لیے چار پائیاں بچھیں تھیں جن پر پھول دار چادریں اور تکیے رکھے تھے۔ ہر چارپائی کے مونڈھے کے پاس حقے رکھے تھے کہ بڑی بوڑھیاں حقہ نہ پئیں یہ کیسے ممکن ہے بھلا! چارپائیاں کھچا کھچ بھری جارہی تھیں اور نیچے بیٹھنے والیوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہورہا تھا۔

ناجی اور عابی بڑی گرم جوشی سے ایک دوجے سے ملی تھیں….

ناجی جانتی تھی کہ مستقبل میں عبیرہ کے ساتھ اس کا کیا رشتہ ہوگا؟

اور عبیرہ جانتی تھی کہ مستقبل میں اگر قسمت نے اس کے یک طرفہ عشق کا ساتھ دیا، تووہ اس کی کیا ہوگی۔

دوسری جانب راشدہ اور صفیہ ایک دوجے کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھیں۔ صفیہ کے من میں جوار بھاٹے بھن رہے تھے اور راشدہ کی آنکھیں شعلے برسارہی تھیں۔ خدا واسطے کا بیر ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تھا۔ جب کہ ان دونوں نے اس غم و غصے اور طیش کو اپنے تک ہی محدود رکھا تھا۔ انہوں نے کبھی اپنے بچوں کو نہیں روکا تھا کہ وہ آپس میں میل ملاقات نہ رکھیں۔ پر راشدہ کی مصلحت اسے کھاگئی تھی۔ اس نے خود بلا کا بغض، کینہ، حسد، نفرت، جلن اور کڑھن کو اپنے اندر پال پوس کر بڑا کردیا تھا۔ پر عبیرہ اور سجاول کو اس کی ہوا بھی نہ لگنے دی۔ تب ہی تو عبیرہ کی آنکھوں میں محبت کی پھوٹتی کرنیں اسے ڈرائے رکھنے کے لیے کافی تھیں۔ وہ اس بات سے ناآشنا تھی کہ صفیہ بھی اس حقیقت کو جانتی ہے یا نہیں۔ پر اس نے سوچا تھا کہ اگر صفیہ کو عبیرہ کی روحیل سے اس قدر والہانہ محبت کا علم ہوتا، تو وہ تہلکہ مچادیتی، بدلہ جو لینا تھا۔ خیر بدلہ تو وہ اب بھی لے سکتی تھی کہ کیا ہی اچھا ہے کہ صفیہ کو اس معمے کی خبر نہیں۔ کسی نہ کسی روز اسے پتا تو ضرور لگے گا۔ یہ باتیں کہاں چھپائے چھتی ہیں اور صفیہ خود اس مرحلے سے گزری تھی۔ سینہ تان کر سب کو بتاتی پھرتی تھی اور اب بھی اس کی یہی حالت تھی کہ کرامت کے عشق کا بھوت ابھی بھی اس کے سر پر پوری آب و تاب کے ساتھ سوار تھا۔ وہ سب کو کسی شرم، لحاظ اور مروّت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بڑی دیدہ دلیری سے بتاتی پھرتی تھی کہ کرامتکچھ لگتاتھا اس کا اور اُنہیں بھی علم ہوجاتا جنہیں کانوں کان خبر ہی نہ ہوتی تھی۔ سب توبہ توبہ کرتے رہ جاتے کہ سرسفید ہوگیا، جسم بوڑھا، ماتھے پر جھریاں اور شکنیں، ہاتھوں کی جھریاں بڑھ گئیں، لیکن دل جوان رہا۔ اسی جوان دل کے ہاتھوں وہ کبھی مشتاق احمد کے دل میں گھر نہ کرسکی۔ جب سے بیاہی گئی سہاگ رات سے لے کر بچوں کی پیدائش تک ان کی پرورش اور بڑے ہونے کے عمل کے دوران وہ اٹھتے، بیٹھتے، کھاتے، پیتے، سوتے، جاگتے، کام کرتے کرامت، کرامت ہی کرتی رہ گئی۔ پھر مشتاق کو کیسے اچھی لگتی وہ بھلا؟

ہمیشہ سمجھاتا، بجھاتا، خدا واسطے کی قسمیں دیتا، اپنی محبت کا یقین دلانے کے لیے ملتان سے سوہن حلوے کے ڈبے لاتا، چکوال کی ریوڑیاں، تو کبھی فیصل آباد سے کاٹن اور لان کے جوڑے۔ ہر ممکن خیال رکھتا۔ وہ بھی اس کے لائے گئے تحفوں کی قدر کرتی انہیں استعمال کرتی، پر دل کی تختی پر لکھےکرامتکے نام کو مٹانے سے قاصر رہی۔

ناشتے کے وقت جو کبھی بل دار پراٹھے بنانے کی فرمائش روحیل کردیتا، تو وہ روحیل کو ہی پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیتی اور کہتیتیرا چاچا کرامت بھی بڑے شوق سے کھاتا تھا بل دار پراٹھے۔

وہ بے چارہ جس نے کبھی چاچے کرامت کو دیکھا تک نہ تھا شرم سے چور چور ہوجاتا کہ کیسی ماں ہے جو اپنے عشق کے قصے یوں جوان جہان اولاد کو بے خوفی سے سناتی رہتی ہے۔

کرامت کو کیا اچھا لگتا تھا کیا نہیں۔

کیا پسند ناپسند تھی اس کی، کون سا رنگ، کون سا کھانا،کون سی مٹھائی، کون سا پھول، کون سا پھل، کون سی سبزی، کون سا کپڑا، کون سا وقت ، کون سی جگہ وغیرہ وغیرہ….

بھلے جو کبھی اس کے آگے سوال نامہ دھر دیا جائے اور جوابی کاپی رکھ دی جائے، تو وہ سارے سوالوں کے جواب منٹوں میں لکھ دے گی اور 100/100نمبر اس کے ہوں گے کیوں کہ بڑی اچھی دوستی تھی اس کی کرامت کے ساتھ۔ ہاں اس نے فقط دوست سمجھا تھا…. محبوب نہیں…. اور صفیہ نے بھی محبوب کے آگے کا درجہ دے رکھا تھااسے۔ یہی صورت حال تو عبیرہ اور روحیل والے معاملے میں تھی۔ عبیرہ جان چھڑکتی تھی اس پر اور وہ…. وہ کتراتا تھا اس سے، اسے بس اتنا ہی معلوم تھا کہ عابی اس کی غم گسار ہے، دوست ہے، اچھا مشورہ دینے والی ہے۔ جب کہ، عابی نے تو اسے اپنے دل میں یوں جگہ دی تھی کہ شاید ہی کسی کو دی ہو۔ بچپن ساتھ گزرا تھا، کوکھلے چھپک جمعرات، کھیلتے کھیلتے نہ جانے کب بندھے ہوئے دوپٹے کو اس کی پیٹھ پیچھے رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنا دل بھی رکھ دیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ دل اس کی پیٹھ پیچھے ہی رہا کبھی آگے نہ آیا کہ دل سے دل ملتے تو خبر ہوتی نہ کہ ماجرا کیا ہے؟ معاملہ کیاہے؟وہ ذہین تھا پڑھا کو تھا۔ جھوک میں اس کی سب تعریفیں کرتے تھے۔ وہ سب کو برابر عزت دیتا سب کے ساتھ ایک جیسا برتاکرتا۔ اونچی آواز میں بات کرنے سے گریز کرتا تھا۔ سب کا خیال رکھتا۔ جتنی اس کی شکل پیاری تھی اتنی ہی سیرت کا دھنی تھا وہ۔ پھر کیسے عابی نہ مرمٹ جاتی اس پر اور صفیہ کا تو نہ ہی پوچھیے، جوں جوں روحیل کو دیکھتی، توں توں کرامت کو کھوجتی، اپنے بس میں تھوڑی تھا یہ سب، بھلانے کی سو تدبیریں تھیں۔ دل سے نکالنے کے سوحیلے بہانے، پر وہ جو اس کا اپنا خون، اس کی اپنی اولاد، اس کے جگر کا ٹکڑا بھی اس کے کچھ لگتے پر چلا گیا تھا، تو کیا کرتی یاد تو آتا تھا اسے کرامت نے….

سارے جھوکی کہتے تھے کہصفیہ کا پتر کرامت پر گیا ہے۔حالاں کہ رشتے میں کچھ نہ لگتے تھے، ذات پات کا فرق تھا، رنگ واطوار کا بھی۔ پر جب نومہینے پیٹ میں تھا روحیل تب بھی کرامت کا ورد اس کی زبان کرتی تھی۔ کرامت کرامت کرتے پڑگیا ہوگا اثر۔ خیر ناجی ابھی ابھی آئی تھی لڑکیوں کے ہجوم میں سے سب اپنی اپنی دنیا میں مگن تھیں کہ کسی کا خیال ہی نہ گیا۔ پر ناجی کا خیال بار بار بھٹکتا رہا۔ وہ شوخ تھی، چنچل تھی، مست سی، نٹ کھٹ سی، دیوانی سی، مستانی سی، لاابالی سی، کچی عمر کی محبت کا رنگ پکا نہ بھی ہو پر رنگ کا اثر بڑا گہرا ہوتا ہے۔ وہ خطروں سے کھیلنے کی عادی تھی۔ یہ جفاکشی، یہ سردمہری، یہ ادائیں یہ سرکش اور بغاوتی اطوار اس نے ماں سے ورثے میں لیے تھے۔ ارے، دوستوں کی صحبت کا اثر ان مٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے اور یہاں معاملہ ماں، بیٹی کا تھا۔ پھر کیسے ناممکن ہے کہ وہ ماں کے نقشِ قدم پر نہ چلتی۔ کیسے یہ رسک مول نہ لیتی، کیسے محبت کے جھولے نہ جھولتی۔ بس سو بات کی ایک بات وہ اپنی ماں کا پر تو تھی بالکل ماں جیسی تھی۔ ماں جیسی حسین، خوبصورت اور بے خوف، نڈر، بے باک ، بہادر اور مضبوط دل و اعصاب کی مالک۔ فرق یہاں ٹھنا تھا کہ دونوں ماں بیٹی کے معیار میں فرق تھا۔ صفیہ کا معیار اعلیٰ تھا کہ کرامت سونا تھا۔

ناجی کا معیار کم تر تھاکیوں کہ سجاول کھوٹا سکہ تھا۔ کرامت کے اوصاف کھرے تھے اور سجاول کھوٹا ہوگیا تھا۔ برے یار دوستوں کی سنگت نے اسے اس طرح بنادیا تھا۔ جوا وہ کھیلتاتھا، سگریٹ کا عادی وہ تھا، کبھی کبھی بھری ہوئی بھی پی لیتا تھا۔ سر کس پر جاکے دوسرے یاروں کی طرح خواجہ سراں پر وہ بولیاں کستا تھا۔ آدھی آدھی رات تک اڈے پر بیٹھ کر سنگتی کی دکان پر وی سی آر پر فلمیں دیکھتا ، پر جو بھی تھا دل کا برا نہ تھا۔ یہ خوبی اس نے عابی سے مستعارلی تھی کہ کبھی جو دوستوں پر براوقت آیا اس نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔ برائی کی طرف راغب ضرور ہوتا مگر دوسروں کو نہ کرتا تھا۔ عابی اور ماں کے زیر اثر کبھی کبھی نماز بھی پڑھ لیتا۔ اسے لوگوں کی باتوں کی کوئی پروا نہ تھی۔ اس کے شب و روز ویسے ہی گزر رہے تھے جیسے وہ گزارنے کا عادی تھا۔ وہ اماں اور عابی کے طنز سے بھرے نشتر جھیلتا ضرور تھا، لیکن کرتا اپنے من کی تھا۔

پھر وہ ان برے اوصاف کے ہوتے ہوئے بھی ناجی کے دل میں کیسے سما گیا؟ یہ ناجی ہی بہتر جانتی تھی۔ ناجی نے کبھی اپنی ماں کی طرح اپنے ہیرو کے لیے گاجر اور سوجی کے حلوے نہ پکائے تھے کہ چولھے کے پاس جانا اور کچھ پکانا اسے جان جوکھوں کا کام لگتا تھا۔ پر اس نے مشکل وقتوں میں اس کا ساتھ ضرور دیا تھا…. پچھلے سال سجاول جوئے میں 20 ہزار روپے ہار گیا۔ وہ پیسے بھی جوئے میں جیتی گئی بازی کے ہی تھے۔ سجاول بالکل کنگھال ہوگیا۔ پھر ناجی نے اپنی سونے کی انگوٹھی اور بالیاں بیچ دیں جو اماں نے اس کے لیے بنوا کر رکھی تھیں۔ رولہ مچاتھا، صفیہ ہائے ہائے کرتی رہی اور ناجی چوری ہوگئی، چوری ہوگئی کا ڈراما کرتی رہی۔ اس کے علاوہ بھی جب کبھی اس کے پاس خرچہ نہ ہوتا وہ بلاجھجک اس سے مانگ لیتا۔ وہ بھی دینے میں تامل نہ کرتی کہ محبت میں اسے سب کچھ بے حد حسین لگ رہا تھا۔ آئے روز ماں کی کہی گئی پرانی باتیں اور قصے اس کے لیے ہمت بندھاتی گولی کا کام کرتے۔ وہ شیرنی بن جاتی اور جہاں کہیں اس سے ملنے جاتی مل آتی۔ جانتی تھی اسکول میں اس کی بدنامی ہوئی ہے۔ لڑکیاں اس کے پا س نہیں ٹکتیں، اس سے کترائی کترائی رہتی ہیں اور وہ اپنی ترنگ میں جی رہی تھی۔ چوری پکڑے جانے پر اس کے پاس جوابی کارروائی کے ریپڈ فائر کے لیے کوئی سو باتیں اور بھڑکیلے جملے تھے جنہیں بروئے کار لاکر وہ اپنے ہی گھر والوں کو شرم کے مارے پانی پانی کرسکتی تھی، لہٰذا جو وہ کررہی تھی وہ اس کی نظر میں ٹھیک بھی تھا اور بہتر بھی لوگوں کی اس نے جو کہتے ہیں، کہتے رہیں۔

ماں نے بھی گایا تھا۔ 

دنیا کب چپ رہتی ہے

کہنے دے جو کہتی ہے۔

اب 

بیٹی بھی گاتی تھی۔

تھیوں ٹوٹے چار اساں آنوڑئے

کر نٹر دیدار تیڈا آنوڑئے

(ہوں گے ٹوٹے چار ہم نے آنا ہے

(کرنے دیدار تمہارا آناہے)

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

Read Next

عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!