تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

مسعود علی اس شام جب منصور کے بلاوے پر ان کے دفترمیں داخل ہوئے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں وہاں کس طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہونے والا تھا۔ منصور کے آفس میں وہ اکیلے نہیں تھے ان کا وکیل بھی بیٹھا ہوا تھا۔ مسعود علی نے اس کی موجودگی کا بھی کوئی سیریس نوٹس نہیں لیا۔
”بیٹھیں آپ!” منصور علی نے مسعود علی کو دیکھتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے انہیں ٹیبل کے دوسری طرف پڑی ایک کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا، جہاں ساتھ والی کرسی پر ہی وکیل بیٹھا ہوا تھا جو اس وقت اپنے سامنے ٹیبل پر کچھ فائلز رکھے ہوئے تھا۔
”کوئی خاص بات کرنی ہے تمہیں؟” مسعود علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں، نہ صرف خاص بلکہ خاصی لمبی چوڑی بات کرنی ہے۔”
منصور علی نے ان کی مسکراہٹ کا جواب کسی مسکراہٹ سے نہیں دیا، انکا لہجہ ابھی بھی اسی سرد مہری کا تاثر لیے ہوئے تھا۔
”میں فیکٹری کے بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔” منصور علی نے کہا۔ ”بلکہ کافی عرصے سے کرنا چاہتا تھا لیکن اپنی کچھ مصروفیات کی وجہ سے آپ کو نہیں بلوا سکا۔”
”ہاں، کوئی بات نہیں۔ اب تو میں آگیا ہوں، تم کر سکتے ہو مجھ سے بات بلکہ ہر قسم کی بات کر سکتے ہو۔” مسعود نے فوراً کہا۔
منصور چند لمحے اپنی ریوالونگ چیئر پر جھولتے رہے، یوں جیسے لفظوں کا انتخاب کر رہے ہوں اور پھر اس نے یک دم ٹیبل پر آگے جھک کر بات کا آغاز کیا۔
”پچھلے کئی سالوں سے آپ میرے ساتھ میری فیکٹری چلا رہے ہیں۔ شروع میں میں ملک سے باہر تھا اس لیے مجھے فیکٹری کے سلسلے میں آپ کی مدد لینی پڑی۔” منصور رکے۔ ”واپس آنے کے بعد بھی میں نے آپ لوگوں کو اپنی فیکٹری سے الگ نہیں کیا لیکن اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ میں اس فیکٹری کا پورا انتظام خود سنبھال لوں۔”
ایک لمحے کے لیے مسعود علی ان کی بات سمجھ نہیں سکے۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ انہیں دیکھتے رہے۔
”میں نے وکیل صاحب کو یہاں اسی لیے بلوایا ہے تاکہ ان کے سامنے تمام معاملات طے پائیں۔”
”کیسے معاملات؟” اس بار مسعود علی کھٹکے۔
”فیکٹری سے آپ اور آپ کے بیٹوں کی علیحدگی کے۔” منصور نے بڑے ہموار لہجے میں کہا۔
”کیا؟” مسعود علی نے کہا۔
”میں آپ کو بتا تو رہا ہوں کہ فیکٹری سے آپ کو الگ کر رہا ہوں۔”




”لیکن کیوں؟”
”کیونکہ میں اب اس فیکٹری کوخود چلانا چاہتا ہوں۔”
”پہلے بھی تم ہی چلا رہے ہو۔”
”میں اکیلے چلانے کی بات کر رہا ہوں۔” منصور کی سنجیدگی میں کمی نہیں آئی۔
”اکیلے چلانا…؟ اکیلے اسے چلانے کا خیال کیسے آگیا تمہیں؟”
”کیوں نہیں آسکتا؟ یہ میری فیکٹری ہے۔” منصورعلی کے لہجے کی خشکی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”میں نے کب کہا کہ یہ میری فیکٹری ہے۔” مسعود علی یک دم سنبھلے۔ ”تمہاری ہی فیکٹری ہے، میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ…”
منصور علی نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”دیکھیں مسعود صاحب!” مسعود علی اس طرز تخاطب پر ہکا بکا رہ گئے۔ اس سے پہلے منصور نے کبھی انہیں ان کے نام سے نہیں بلایا تھا۔ ”میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اتنا عرصہ فیکٹری کا انتظام چلانے میں میری مدد کی، لیکن اب میں اس پوزیشن میں آچکا ہوں کہ اسے خود ہینڈل کر سکوں۔ اس لیے میں فیکٹری کے انتظام سے آپ کو الگ کرنا چاہتا ہوں۔ میں آپ کے شیئرز کی قیمت آپ کو دے دوں گا او ریہ رقم اتنی ہے کہ آپ بہت آسانی سے اس سے اپنا الگ بزنس شروع کر سکیں گے۔” منصور علی نے بڑے عام سے انداز میں کہا۔
”منصور! جب میں نے تمہارے ساتھ اس فیکٹری کو قائم کرنے کا سوچا تھا تو یہ سب کچھ اس طرح طے نہیں ہوا تھا جس طرح تم اب کر رہے ہو۔” مسعود علی کو اب غصہ آنے لگا۔
”میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ سب کچھ اسی طرح طے کیا تھا۔ آپ کو اگر اس پر کوئی اعتراض ہو تو آپ معاہدے کو دیکھ لیں۔” منصور علی نے کندھے اچکائے۔
”منصور! تمہارے اس فیصلے سے دونوں خاندانوں کے درمیان تعلقات اثر انداز ہوں گے۔” مسعود علی نے کہا۔
”کون سے تعلقات؟” منصور نے بھنویں اچکاتے ہوئے کہا۔
”تم جانتے ہو، میں کون سے تعلقات کی بات کر رہا ہوں۔”
”نہیں، میں نہیں جانتا، آپ بتائیں…” منصور نے رکھائی سے کہا۔
”میرے بیٹے صرف تمہارے بھتیجے نہیں، داماد بھی ہیں… اور اس حوالے سے تمہارے ساتھ میرا ایک زیادہ رشتہ ہے۔” مسعود علی نے سنجیدگی مگر محتاط انداز میں کہا۔ ”تم اگر اس طرح کا کوئی قدم اٹھاؤ گے تو تمہیں اندازہ کر لینا چاہیے کہ طلحہ اور اسامہ کے تمہاری بیٹیوں کے ساتھ تعلق پر اثر پڑے گا۔”
”دیکھیں، آپ مجھے دھمکی مت دیں۔”
”میں تمہیں دھمکی نہیں دے رہا۔” مسعود علی نے فوراً مدافعانہ انداز میں کہا۔ ”میں تمہیں صرف تمہارے فیصلے کے مضمرات سے آگاہ کر رہا ہوں۔”
”امبر میرا گھر چھوڑ کر جا چکی ہے۔” منصور علی نے کہا۔ ”اور وہ دوبارہ کبھی میرے گھر میں نہیں آسکے گی۔” ان کا لہجہ دوٹوک تھا۔ ”اس لیے مجھے طلحہ اور اس کے رشتے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ آپ کا دل چاہے آپ رخصتی کروائیں، نہ چاہے نہ کروائیں، یہ آپ کا اور منیزہ کا مسئلہ ہے کیونکہ امبر منیزہ کے پاس ہے۔” مسعود علی بات نہیں کر سکے۔
”جہاں تک صبغہ کا تعلق ہے… تو ہو سکتا ہے کہ میں اسامہ کے ساتھ اس کا رشتہ خود ختم کر دوں کیونکہ آپ کا بیٹا میرے لیے کوئی بڑی اچھی چوائس نہیں ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں اور اگر میں یہ فیصلہ ابھی کر لیتا ہوں تو پھر تو ان تعلقات کے متاثر ہونے کا خطرہ نہیں ہو گا آپ کو۔”
منصور کا لہجہ طنزیہ تھا۔
”بہر حال، ایک بات آپ اچھی طرح یاد رکھیں، میں اپنے بزنس کی قیمت پر رشتوں کے معاملے میں کوئی سودا نہیں کروں گا۔ میں آپ کو کئی سال پہلے بھی بتا چکا ہوں، میں صبغہ کی وجہ سے بزنس میں کوئی نقصان نہیں اٹھا سکتا۔”
”منصور! جلد بازی میں فیصلے مت کرو، خاندان والے تمہارے اور تمہاری بیٹیوں کے بارے میں کیسی باتیں کریں گے…”
منصور نے ایک بار پھر مسعود کی بات کاٹ دی۔ ”مجھے خاندان کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے۔ کوئی میرے منہ پر تو مجھے کچھ کہہ کر دیکھے… اور پیٹھ پیچھے تو لوگ ہر شخص کو برا کہہ سکتے ہیں… آپ کو بھی۔” منصور نے کہا۔
”میں تمہارا بڑا بھائی ہوں۔”
”میں اسی لیے آپ کو اتنی عزت سے کاروبار سے الگ کر رہا ہوں۔”
”منصور! ایک بار پھر سوچ لو۔”
”میں بہت اچھی طرح سوچ چکا ہوں اور ایک بار نہیں، کئی بار… ہر بار میں اسی نتیجے پر پہنچتا رہا ہوں جس پر اب پہنچا ہوں۔” منصور علی کا لہجہ حتمی تھا، وہ اب فائل اپنے سامنے کھینچ رہے تھے۔
٭٭٭
”منصور نے آج مجھے اپنے آفس میں بلوایا تھا، ابھی کچھ دیر پہلے۔” مسعود لاؤنج میں بیٹھے کہہ رہے تھے۔ وہ آدھ گھنٹہ پہلے ہی واپس آئے تھے اور گھر آتے ہی انہوں نے اسامہ اور طلحہ کو بلوا لیا تھا۔ شبانہ کو وہ پہلے ہی منصور کے فیصلے کے بارے میں بتا چکے تھے۔
”منصور ہمیں فیکٹری سے الگ کر رہا ہے۔”
”کیا، ان کا دماغ ٹھیک ہے۔” طلحہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ اسامہ کے ماتھے پر کچھ لکیریں آگئیں مگر اس نے منہ سے کچھ نہیں کہا۔
”اس طرح اچانک بیٹھے بٹھائے کس طرح وہ ہمیں اس بزنس سے الگ کر سکتے ہیں، جس کے لیے ہم پچھلے دس سال خوار ہو رہے ہیں۔” طلحہ نے کہا۔
”انہو ںنے کوئی وجہ بتائی ہے؟” اسامہ نے مسعود علی کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔
”نہیں، کوئی وجہ نہیں بتائی۔” مسعود علی سُتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا۔ ”وہ بس یہی کہہ رہا ہے کہ اب فیکٹری کو خود سنبھالنا چاہتا ہے۔”
”سنبھالنا چاہتے ہیں تو سنبھالیں، ہم نے انہیں منع تو نہیں کیا لیکن… لیکن ہمیں الگ کیوں کر رہے ہیں؟” طلحہ نے بلند آواز میں کہا۔ ”وہ آخر یہ کر کیسے سکتے ہیں؟”
”کر تو سکتا ہے، ایگریمنٹ میں لکھا ہوا ہے۔” مسعود علی نے کچھ دبے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”وہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے شیئرز کی قیمت وہ ہمیں چند دنوں میں ادا کر دے گا۔ اس کے بعد ہم چاہیں تو اپنا بزنس الگ سے شروع کریں۔”
”کھیل تماشا ہے یہ… اپنا بزنس الگ سے شروع کریں۔” طلحہ غصے میں کھڑا ہو گیا۔ ”خون پسینہ لگا کر ہم نے اس فیکٹری کو چلایا ہے اور جب یہ چل نکلی ہے تو ہم اپنا بزنس دوبارہ سے شروع کریں۔ منصور چچا واقعی پاگل ہوگئے ہیں۔”
”وہ پاگل نہیں، خود غرض ہو گیا ہے۔ اسے اپنے علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آرہا۔” شبانہ نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔
”نظر نہیں آتا تو نہ آئے لیکن میں ان سے خود بات کروں گا۔ وہ اس طرح کا قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں۔ انہوںنے اسے اتنا آسان سمجھ لیا ہے۔”
طلحہ اب کمرے میں ٹہلنے لگا تھا۔ اسامہ کے چہرے پر ناراضی نمایاں تھی، مگر طلحہ کے برعکس اس نے کچھ کہنے سے گریز کیا تھا۔
”آپ نے ان کو سمجھانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟”
”کیا سمجھاتا، وہ اپنے وکیل کو پاس بٹھائے ہوئے تھا، سارے کاغذات تیار کروائے ہوئے تھے اس نے۔ وہ تو فیصلہ پہلے ہی کر چکا تھا… میرے سمجھانے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔” مسعود علی نے کہا۔
”پھر بھی آپ کو چاہیے تھا کہ آپ انہیں سمجھاتے۔’
”میں نے اس سے بہت لمبی چوڑی بحث کی تھی، تین گھنٹے لگ گئے تھے مجھے اس کے آفس میں لیکن تمہیں بتا رہا ہوں نا کہ وہ اپنا ذہن پہلے سے ہی بنائے بیٹھا تھا۔” مسعود علی نے کہا۔ ”وہ تو اتنے روکھے لہجے میں مجھ سے بات کر رہا تھا کہ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ منصور ہی ہے۔ بھائی جان کے بجائے مسعود کہہ کرمجھے مخاطب کر رہا تھا۔” مسعود علی نے کہا۔ ”یوں لگ رہا تھا جیسے وہ آج پہلی بار مجھ سے ملا ہو۔ یہ تو میں جانتا تھا کہ وہ خود غرض شروع سے ہی تھا مگر اتنا خود غرض ہوگا، یہ میں نہیں جانتا تھا۔”
”جو بھی ہے، میں اس فیصلے کو قبول نہیں کروں گا، میں ان کے پاس جاکر دوبارہ ان سے بات کروں گا اور آپ کو بھی میرے ساتھ چلنا ہوگا۔” طلحہ نے کہا۔ ”میں ان کا صرف بھتیجا ہی نہیں، داماد بھی ہوں اور انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔”
”وہ یہ بات پہلے ہی بھول چکا ہے، میں اس معاملے پر بھی اس سے بات کر چکا ہوں۔”
اس بار صحیح معنوں میں طلحہ کی سٹی گم ہو گئی۔ ”کیا مطلب؟”
”مطلب یہ کہ اسے امبر یا صبغہ کے رشتوں میں اب کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔”
”یہ کیسے ممکن ہے؟” طلحہ نے بے اختیار کہا۔
”اس نے خود مجھ سے یہ بات کہی ہے، میں نے اس سے کہا تھا کہ اس کے اس طرح کے فیصلے سے ہمارے دوسرے رشتوں پر بھی اثر ہوگا۔” مسعود علی کہہ رہے تھے۔
”اور اس نے بڑے آرام سے کہا کہ ہمارا دوسرا کوئی رشتہ ہی نہیں ہے۔ امبر کو میں گھر سے نکال چکا ہوں، اس لیے مجھے اس کے اور طلحہ کے رشتے کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” طلحہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ ”نہ ہی اس رشتے میں آنے والی کسی تبدیلی کی مجھے پرواہ ہے۔” مسعود علی نے بات جاری رکھی۔
”اور جہاں تک صبغہ اور اسامہ کا تعلق ہے، میں نے اس کی رخصتی کے بارے میں بھی ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔”
اس بار اسامہ کے ماتھے کی شکنیں کچھ اور گہری ہو گئیں۔ ”ہوسکتا ہے، میں اس رشتے کو بھی خود ہی ختم کردوں لیکن میں ان رشتوں کے لیے آپ کو اپنے کاروبار میں شامل نہیں رکھوں گا۔”
”یہ سب منصور چچا نے کہا؟” طلحہ کو جیسے یقین نہیں آیا۔
‘تو تمہارا کیا خیال ہے، یہ سب میری ذہنی اختراع ہے؟” مسعود علی نے قدرے ناراضی سے کہا۔
”تم لوگوں کو میں نے ایک اہم فیصلے کے لیے یہاں بلوایا ہے۔” شبانہ نے ایک لمبے وقفے کے بعد مداخلت کی، وہ بے حد مشتعل نظر آرہی تھیں۔ ”میں اور تمہارے پاپا چاہتے ہیں کہ تم دنوں امبر اور صبغہ کو طلاق دے دو۔” وہ ایک لمحہ کے لیے رکیں ”اگر منصور کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس کے اس فیصلے سے اس کی بیٹیوں کا مستقبل تباہ ہو سکتا ہے تو پھر ہمیں بھی ان دونوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ ان دونوں کو اس گھر میں لے آنے کے باوجود بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ وہ دونوں ہمارے لیے بے کار ہیں۔” شبانہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”تم دونوں کے لیے ابھی بھی خاندان میں بہت اچھے رشتے ہیں۔ تمہاری پھوپھو اپنی بیٹیوں کے لیے کہہ رہی تھیں، لیکن ہم لوگوں نے صرف اس لیے صبغہ اور امبر کو ترجیح دی، کیونکہ ان کے ساتھ تعلق جوڑنے سے تم لوگوں کا مستقبل زیادہ بہتر ہو سکتا تھا لیکن اب ان حالات میں ان دونوں کی رخصتی کروا کر انہیں یہاں لانا حماقت ہے۔ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ تم دونوں انہیں طلاق دے دو۔”
وہ اور مسعود اب طلحہ اور اسامہ کے چہروں کو دیکھ رہے تھے جو بے حد سنجیدہ نظر آرہے تھے۔ طلحہ نے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
”آپ جیسا کہیں گے، میں ویسا ہی کروں گا۔ ان حالات میں یہی فیصلہ بہتر ہے۔”
اس نے بڑی آسانی اور سفاکی سے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ امبر کا چہرہ ایک لمحہ کے لیے اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا، پھر اس نے اسے جھٹک دیا۔ شبانہ اور مسعود کے چہروں پر اطمینان ابھر آیا۔ انہیں اپنی اولاد سے اسی سعادت مندی کی توقع تھی۔
”تو پھر ٹھیک ہے، میں صبح کاغذات تیار کروا لیتا ہوں۔” مسعود علی نے کہا۔
”کاغذات تیار ہونے میں ایک دو دن لگیں گے پھر میں تم دونوں سے سائن کروا کر منصور علی کو بھجوا دوں گا۔” مسعود علی نے کہا۔ ”اور اس سے پہلے ہی میں منصور علی کو بھی اس فیصلے سے آگاہ کر دوں گا۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!