تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”آپ پلیز طلحہ سے میری بات کروا دیں۔” امبر نے چوتھی بار شبانہ کے ہاں فون کیا تھا۔ طلحہ کا موبائل فون آف تھا۔ وہ اس پر رابطہ نہیں کر پا رہی تھی۔
”میں نے تمہیں بتایا ہے امبر! طلحہ یہاں نہیں ہے، وہ کراچی چلا گیا ہے۔” شبانہ نے کہا۔
””لیکن آنٹی! کراچی کا بھی کوئی نمبر تو ہوگا۔” امبر نے بے بسی سے کہا۔
”نہیں، اگر کوئی نمبر ہے بھی تو مجھے نہیں پتا۔” شبانہ نے انکار کر دیا۔ ”تم اسے اس کے موبائل پر کال کرلو۔”
”اس کا موبائل آف ہے، میں اتنے دنوں سے اسے اس کے موبائل پر ہی کال کر رہی ہوں۔”
”توپھر تم انتظار کرو، ایک ڈیڑھ ہفتے میں وہ واپس آجائے گا۔” شبانہ نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
”ایک ڈیڑھ ہفتہ… آپ ہماری کنڈیشن تو دیکھ رہی ہیں آنٹی! مجھے طلحہ سے بات کرنی ہے، میں اتنا لمبا انتظار نہیں کر سکتی۔”
”مجھے اس کے نمبر کا پتا ہوتا تو میں تمہیں دے دیتی، اب میرے پاس نمبر نہیں ہے تو میں کیا کروں۔”
”وہ آپ کو فون تو کرتا ہوگا… آپ اس سے کہیں کہ اپنا موبائل آن رکھے یا مجھے فون کرے۔ آپ نے اسے ہمارے حالات کے بارے میں بتایا ہے؟”
”امبر! میں تمہیں کتنی بار بتا چکی ہوں کہ وہ پہلے ہی کراچی جاچکا تھا اور جب سے وہ کراچی گیا ہے، اس نے ایک بار بھی کال نہیں کی، کرتا تو میں اسے منیزہ کی طلاق کے بارے میں ضرور بتا دیتی۔ مجھے تو یہ حیرانی ہے کہ اس نے تمہیں اتنے دنوں سے خود کال کیوں نہیں کی، مجھ سے زیادہ تو وہ تمہیں کالز کرتا ہے۔”
امبر نے ان کے انداز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ”آپ انکل سے کہیں کہ وہ اس کے بارے میں پتا کروائیں، آخر اس نے اپنا کوئی تو کانٹیکٹ نمبر دیا ہوگا۔ اس طرح تو غائب نہیں ہو سکتا وہ۔”
”میں تمہاری بات تمہارے انکل سے کروا دوں گی، تمہیںمجھ پر اعتبار نہیں ہے، تم ان ہی سے پوچھنا کہ اس نے ہمیں کون سا کانٹیکٹ نمبر دے رکھا ہے۔ اب میںفون بند کر رہی ہوں، مجھے کہیں جانا ہے۔ تمہارے پاس تو فی الحال بہت وقت ہوتا ہے فون وغیرہ کرنے کے لیے اور آئندہ بھی رہے گا لیکن میں ذرا مصروف ہوں۔” شبانہ نے فون رکھ دیا۔
امبر کچھ دیر ستے ہوئے چہرے کے ساتھ ریسیور کو دیکھتی رہی۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے طلحہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور بری طرح ناکام ہو رہی تھی۔ اسے زندگی میں ان دنوںطلحہ کی جتنی ضرورت محسوس ہو رہی تھی، پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ ہر ایک کی ملامت کا نشانہ بن رہی تھی۔ منیزہ کے لیے گھر چھوڑ دینے کے باوجود منیزہ کا رویہ اس کے ساتھ بہت خراب تھا۔ وہ اپنے گھر کی تباہی کا ذمہ دار امبرکو ٹھہرا رہی تھی اور منیزہ یہ الزام لگانے میں اکیلی نہیں تھی۔ صفدر اور اس کی بیوی بھی یہی سمجھتے تھے۔ وہ منیزہ کے ساتھ اپنے ماموں کے ہاں آ ضرور گئی تھی، مگر یہ گھر اس کے لیے دوزخ کے برابر تھا منیزہ اور صفدر کے درمیان جب بھی اس معاملے پر بات ہوئی، امبر زیر بحث ضرور آئی اور پھر لعنتوں اور ملامتوں کے نئے ڈونگرے اس پر برسائے جاتے۔ وہ زندگی میں پہلی بار اپنا دفاع نہیں کر پا رہی تھی۔ وضاحتیں یا صفائیاں دینے کے بجائے اس نے ہر بات پر خاموشی اختیار کر لی تھی۔ وہ منیزہ کے رویے کو بھی بے جا نہیں سمجھتی تھی۔ اس کے اندر کہیں یہ احساس موجود تھا کہ یہ سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ رخشی کو منصور سے نہ ملواتی تو سب کچھ آج بھی پہلے جیسا ہوتا… ان کے گھر اور زندگی کی دھجیاں اس طرح نہ اڑتیں جس طرح اب اڑ رہی تھیں۔




وہ منصور علی سے نفرت کی خواہش اور کوشش کے باوجود اس سے نفرت نہیں کر پارہی تھی۔ اس کا ذہن ابھی بھی یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا کہ منصور علی کے لیے کوئی اور امبر سے زیادہ اہم ہو گیا تھا کہ وہ اس کی ہر خواہش، ہر ضد کو اس طرح آسانی سے ٹھکرا سکتے تھے۔
وہ بچپن سے ہی ماں کی نسبت باپ کے زیادہ قریب تھی اور اب جب اس نے اپنی غلطی کے کفارے کے طور پر ماں کے لیے باپ کو چھوڑ دیا تھا تو وہ ذہنی طور پر پر سکون نہیں تھی یا پھر شاید اس نے زندگی میں پہلی بار اپنی ذات کے اوپر اس طرح کی لعنتیں، ملامتیں اور طنز ہوتے دیکھے تھے جس کا اس نے پہلے کبھی سامنا نہیں کیا تھا اور یہ سب کچھ اس کے لیے بے حد اذیت ناک تھا آنکھ کا تارہ ہونے سے پیر کی دھول ہونے کا سفر ہر ایک کے لیے اتنا ہی تکلیف دہ ہوتا، مگر امبر کے لیے یہ تکلیف اس لیے زیادہ سوہان روح تھی کہ وہ کسی دوست یا بہن بھائی کے ساتھ یہ سب کچھ شیئر نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے کالج جانا چھوڑ دیا تھا، اس نے اپنی فرینڈز کو بھی چھوڑ دیا تھا۔ رخشی جیسے تلخ تجربے کے بعد دوستی نام کی چیز اس کے لیے بے حد بے معنی اور ثانوی حیثیت اختیار کر گئی تھی ۔
صبغہ کے ساتھ بہن بھائیوں میں اس کی دوستی تھی اور صبغہ اس سے دور تھی۔ فون پر ہونے والی چند منٹ کی گفتگو اس کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتی تھی اور طلحہ… وہ کوشش کے باوجود اس سے رابطہ نہیں کر پارہی تھی۔ اس کو توقع تھی کہ وہ ان حالات میں اسے تسلی دے گا یا کم از کسی نہ کسی طرح اس کی مدد ضرور کرے گا لیکن وہ مکمل طور پر غائب تھا۔ فرسٹریشن تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی وہ کھانا پینا بھی بھول گئی تھی۔ ساری ساری رات وہ بیٹھے بیٹھے گزار دیتی۔ بعض دفعہ اسے لگتا یہ سب خواب ہے، ختم ہو جائے گا پھر اسے لگتا کہ شاید کوئی راستہ نکل آئے گا۔ حالات اتنے خراب نہیں رہیں گے۔
پھر وہ سوچتی کہ منصور کچھ عرصہ کے بعد منیزہ سے نہ سہی اس سے رابطہ ضرور کریں گے۔ آخر وہ اس کے بغیر رہ ہی کیسے سکتے تھے، پھر اسے خیال آتا کہ شاید رخشی کو ہی کچھ شرمندگی ہونے لگے گی، آخر اس نے رخشی پر اتنے احسان کیے تھے پھر اسے لگتا کہ صفدر انکل اس تمام معاملے کو کسی نہ کسی طرح سُلجھا دیں گے… اور پھر… پھر اسے لگتا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوتے جائیں گے اور طلحہ… طلحہ… اسے اس کے بارے میں بھی خوف اور اندیشے ستانے لگتے۔ رات اسی طرح گزر جاتی۔ صبح وہ نئی ملامتوں کے لیے تیار ہوتی۔
٭٭٭
رخشی نے منصور سے فوری طور پر ہارون کمال کی تجویز پر بات نہیں کی۔ وہ منتظر رہی کہ منصور خود اس سلسلے میں اس سے بات کرے اور حیران کن طور پر منصور نے بھی اس سے اس سلسلے میں بات نہیں کی۔
چند ہفتے اسی طرح گزر گئے۔ ہارون اور وہ مسلسل اس معاملے کے بارے میں رابطے میں تھے۔ دوسری طرف گھر میںموجود ٹینشن اب پہلے کی نسبت کم ہو گئی تھی۔ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود منصور اور رخشی بچوں سے بالکل الگ تھلک تھے۔ چاروں بچے ہر اس جگہ آنے سے گریز کرتے جہاں پر رخشی یا منصور موجود ہوتے اور وہ دونوں ہر اس جگہ کو نظر انداز کر دیتے جہاں پر وہ چاروں موجود ہو سکتے تھے۔ وہ سب کھانا بھی اکٹھا نہیںکھاتے تھے۔ ڈائننگ ٹیبل پر صرف رخشی اور منصور ہی ہوتے جبکہ صبغہ اور روشان، رابعہ اور زارا کے ساتھ اپنے کمرے یا کچن میں ہی کھانا کھالیتے۔ روشان کا اشتعال بھی اب پہلے کی نسبت کم ہو گیا تھا۔ صبغہ اور باقی دونوں بہنوں کی طرح اس نے صورتِ حال کو قبول کر لیا تھا اور ان ہی کی طرح زیادہ وقت خاموش رہنے لگا تھا۔
چند ہفتے پہلے تک اگر انہیں کسی مصالحت یا منیزہ کی واپسی کوئی خوش فہمی تھی تو وہ اب ختم ہو گئی تھی۔ منیزہ کا اصرار اب بھی یہی تھا کہ وہ سب اس گھر کو چھوڑ کر اس کے پاس آجائیں مگر دوسری طرف صبغہ ان سب کو وہیں رہنے پر مجبور کر رہی تھی۔ امبر سے بات کرتے ہوئے اسے یہ اندازہ تو ہو ہی جاتا تھا کہ صفدر انکل کے گھر پر بھی صورتِ حال ٹھیک نہیں تھی۔ منیزہ اور امبر وہاں خوش نہیں تھیں، مگر اس گھر کے علاوہ ان کے پاس اب اور کوئی جائے پناہ نہیں تھی اور صبغہ اپنے سمیت ان تینوں کو اس صورتِ حال سے بچانا چاہتی تھی۔ اس کا اور رخشی کا کئی بار آمنا سامنا ہوا تھا، مگر وہ بالکل خاموشی سے اسے نظر انداز کرکے چلی جاتی تھی۔ روشان کی طرح وہ کوئی تحقیر آمیز انداز اختیار نہیں کرتی تھی کیونکہ جو کچھ ہو چکا تھا، وہ ہو چکا تھا ایک بھیانک خواب سے حقیقت بن جانے والی وہ داستان رخشی کے کردار کوختم کر دینے سے بھی ختم نہیں ہو سکتی تھی۔ ان کا گھر دوبارہ پہلے کی طرح نہیں جڑ سکتا تھا۔ ہاں اس کو مزید ٹکڑے ہونے سے بچایا جاسکتا تھا اور صبغہ اس وقت یہی کوشش کرنے میں مصروف تھی۔
رخشی نے منصور علی سے کئی ہفتے بعد فیکٹری کے بارے میں بات کی تھی۔ منصور کی تب منیزہ سے باقاعدہ علیحدگی ہو گئی تھی اور یہ رخشی کی ضد تھی جس نے منصور کو مجبور کیا کہ وہ منیزہ کو اس کی ہر چیز سے محروم رکھیں۔ رخشی اس کے تمام زیورات اپنی تحویل میں لے کر لاکر میں رکھوا چکی تھی اور اس نے اس گھر میں آنے کے ایک ہفتے کے اندر اندر منیزہ اور منصور کے بیڈ روم میں موجود منیزہ کی ہر چیز کو نوکروں کے حوالے کر دیا تھا۔ منصور کے بیڈ روم میں اب منیزہ کی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔
صبغہ نوکروں کومنیزہ کی چیزیں استعمال کرتے دیکھ کر تکلیف کے احساس سے دوچار ہونے کے باوجود خاموش رہتی تھی، لیکن روشان آگ بگولا ہو جاتا تھا اور یہ اس کا اشتعال ہی تھا جس نے نوکروں کو منیزہ کے ملبوسات، جوتوں اور دوسری چیزوں کو کام پر آتے ہوئے پہننے سے روک دیا۔ ان سب کو یہ اندازہ ضرور تھا کہ دوسری بیوی آنے کے باوجود روشان منصور علی کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ اس کے غصے کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے تھے لیکن روشان ان تمام چیزوں کو ان لوگوں سے واپس نہیں لے سکتا تھا۔ ہتک اور توہین کے اس احساس نے رخشی کے لیے اس کی نفرت کو کچھ اور بھڑکایا اور اس کے اس رویے نے رخشی کو کچھ اور نئے اور اہم فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا۔
٭٭٭
”اب طلاق کا معاملہ ختم ہو گیا ہے تو میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنے بھائی اور ان کے بیٹوں کو فیکٹری سے بھی الگ کر دیں۔” رخشی نے اس رات بڑے عام سے انداز میں منصور سے وہ بات شروع کی جس کے لیے وہ کئی ہفتوں سے پلاننگ کر رہی تھی۔
منصور نے چونک کر اسے دیکھا ”یہ خیال کیسے آیا تمہارے ذہن میں؟”
رخشی یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ یہ خیال تو بہت شروع سے ہی اس کے دماغ میں تھا، البتہ اب ہارون کمال کی صورت میں پہلی بار اسے ایک ایسا سپورٹر مل گیا تھا جس کی مدد سے وہ اس مسئلے کا اپنی مرضی کا حل ڈھونڈ سکتی تھی۔
”خیال آنے کی کیا بات ہے، خیال تو کسی وقت بھی آسکتا ہے۔” رخشی نے سنجیدگی سے کہا۔ ”آپ نے دیکھا ہے اپنے بھائی اور ان کی فیملی کا رویہ… سب کو جیسے میری شادی پر سانپ سونگھ گیا ہے۔” رخشی تلخی سے کہہ رہی تھی۔ ”اسامہ اس دن یہاں صبغہ سے ملنے آیا تھا اور اس نے مجھ سے سلام دعا تک کی تکلیف نہیں کی۔ گھر کی مالکن سمجھنے کے بجائے مجھے نوکرانی سمجھا ہے۔ ان سب کے ذہن میں اب بھی منیزہ ہی اٹکی ہوئی ہے او رمیرا تو خیال ہے کہ اسے منیزہ نے ہی یہاں بھیجا ہو گا کہ اسامہ یہاں کے حالات کے بارے میں اسے معلومات دے سکے۔”
”تمہیں اس بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، تم چاہو تو میں اسے منع کر دوں گا، وہ آئندہ یہاں نہیں آئے گا۔” منصور نے کہا۔
”آپ کس کس کو منع کریں گے۔” رخشی نے کہا۔ ”وہ نہیں آئے گا تو آپ کا بھائی آجائے گا، اس کی بیوی آجائے گی اور ہر ایک کا رویہ میرے ساتھ یہی ہوگا۔ یہ سب لوگ ابھی بھی منیزہ کے ہی وفادار اور طرف دار ہیں۔” رخشی نے کہا۔ ”یہ آپ کا کھاتے ہیں لیکن آپ کے وفادار نہیں ہیں۔ آپ کو حیرانی نہیں ہوتی ہم لوگو ںکی شادی پر ان کی مکمل خاموشی پر۔ کیا مطلب ہے اس خاموشی کا؟” رخشی نے منصور کو جیسے بھڑکانے کی کوشش کی۔
”ان کی خاموشی میری لیے تو بہتر ہی ہے۔ مبارکباد تو وہ مجھے کبھی دے نہیں سکتے تھے اور بحث و تکرار یا شادی کی مخالفت میں برداشت نہ کرتا۔ اچھا ہوا، انہو ںنے بات ہی نہیں کی۔” منصور نے اطمینان بھرے انداز میں کہا۔
”منصور! ویسے میں نے بہت کم لوگوں کو آستین کے سانپ پالنے کا شوق دیکھا ہے اور آپ ان میں سے ایک ہیں۔” وہ تلملائی۔ ”آپ نے اپنی فیکٹری ان لوگوں کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے اور آپ کو کسی قسم کا کوئی خدشہ ہی نہیں ہے۔”
”میں ان کے بارے میں بہت محتاط ہوں، چیک رکھا ہوا ہے میں نے ان پر۔” منصور نے جیسے اسے یقین دلایا۔
”وہ تین ہیں اور آپ اکیلے… آپ کو نقصان پہنچانا ان کے لیے مشکل نہیں ہے۔”
”مشکل نہیں ہے تو اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ ویسے میں انہیں کچھ عرصہ میں فیکٹری سے الگ کردوں گا۔” منصور نے کہا۔
”کچھ عرصہ میں… کتنے عرصے میں؟”
”ایک دو سال میں۔”
”ایک دو سال۔” رخشی نے بے یقینی سے کہا۔ ”آپ ایک دو سال انہیں اپنے ساتھ مزید فیکٹری میں رکھیں گے۔”
”میں انہیں کسی وجہ کے بغیر تو فیکٹری سے نہیںنکال سکتا۔”
”کیوں نہیں نکال سکتے، یہ آپ کی فیکٹری ہے، ان کی نہیں۔”
”ان کے شیئرز ہیں ان میں۔”
”آپ انہیں خرید سکتے ہیں۔”
”ہاں، خرید سکتا ہوں مگر ہر کام کا ایک وقت اور طریقہ ہوتا ہے۔”
”اور اس طریقے کو سیکھنے کے لیے آپ کتنا وقت ضائع کریں گے۔”
”میں نہیں چاہتا کہ میں انہیں ایک دم بغیر کسی وجہ کے فیکٹری سے نکالوں اور وہ لوگ خاندان میں میرے خلاف طوفان اٹھادیں… اور پھر مجھے امبر اور صبغہ کا بھی خیال ہے، آخر ان کو اسی گھر میں جانا ہے۔”
”جب امبر کو آپ کا خیال نہیں ہے تو آپ کو اس کا خیال کیوں ہے۔” وہ تلملائی۔ ”آپ کو یاد رکھنا چاہیے، وہ کس طرح آپ کو چھوڑ گئی ہے۔”
”امبر نہ سہی… صبغہ تو ہے… اس کی تو پرواہ کرنی پڑے گی مجھے۔”
”ایک بیٹی کے لیے آپ اپنا سارا بزنس خراب کر لیں گے اور پھر بھی یہ ضروری تو نہیں ہے کہ صبغہ اس گھر میں جاکر خوش رہے اور پھر کب تک آپ منیزہ کے بچوں کے پیچھے خوار ہوتے پھریں گے۔” رخشی نے کہا۔
”وہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہیں، منیزہ کی ذمہ داری ہیں۔ آپ کو اپنا اور میرا سوچنا چاہیے، ہمارے بچوں کا سوچنا چاہیے۔”
منصور علی اس کی بات پر یک دم ہنس پڑے۔ ”میں اپنا سوچتا ہوں، تمہارا بھی سوچتا ہوں۔” وہ رکے۔ ”لیکن ہمارے بچوں کا کیسے سوچ سکتا ہوں کیونکہ ہمارے کوئی بچے نہیں ہیں۔”
رخشی نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھرکہا۔ ”تو ہو جائیں گے۔”
”جب ہو جائیں گے، تب ان کا بھی سوچوں گا مگر یہ ابھی بہت دور کی بات ہے۔” منصور نے لاپروائی سے کہا۔
رخشی کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔ ”بہت دور کی نہیں، صرف سات ماہ دور کی۔”
منصور نے چونک کر اسے دیکھا۔
”سات ماہ دور کی؟” وہ اس کی بات نہیں سمجھے۔
”میں ماں بننے والی ہوں۔” رخشی نے بے حد اطمینان سے کہا۔ منصور علی بے حِس و حرکت رہ گئے۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!