تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”آپ اندر جا سکتے ہیں۔” سیکرٹری نے اسامہ کو منصور علی کے دفتر میں جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ منصور علی نے چند گھنٹے پہلے فون پر تحکمانہ انداز میں اسے اپنے نئے آفس میں آنے کے لیے کہا تھا۔ اسامہ کا ماتھا ٹھنک گیا تھا۔ آخر ایسی کیا بات تھی جو منصور علی اسے اپنے روبرو بٹھا کر کرنا چاہتے تھے۔ فون پر نہیں کر سکتے تھے اور اب وہ وہاں تھا۔
”میں چاہتا ہوں’ تم صبغہ کو طلاق دے دو۔” منصور علی نے چھوٹتے ہی کسی تکلیف یا لحاظ کے بغیر کہا۔
اسامہ کو یہ اندازہ تو تھا کہ وہ اس کے اور صبغہ کے رشتے کے حوالے سے کچھ کہیں گے مگر یہ گفتگو اتنی ڈائریکٹ ہو گی’ اس کی توقع نہیں تھی۔
”آپ نے صبغہ سے اس سلسلے میں بات کی ہے؟۔” اسامہ نے جیسے ابتدائی شاک سے سنبھلتے ہوئے کہا۔
”میں صبغہ کا باپ ہوں۔” منصور کے ماتھے پر بل آ گئے۔ ”مجھے اس سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”میں صبغہ کا شوہر ہوں’ کم از کم میں اس بارے میں اس سے بات کیے بغیر آپ کی یہ خواہش پوری نہیں کر سکتا۔” منصور کی آنکھیں یک دم سرخ ہو گئیں۔
”شوہر …؟ کیسا شوہر … ؟ میرے نزدیک تمہارے اور صبغہ کے نکاح کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔”
”آپ کے نزدیک بہت سی دوسری چیزوں کی بھی اہمیت نہیں ہے مگر میرے نزدیک ہے۔” اسامہ نے بڑے تحمل سے کہا۔
”تمہیں میں نے یہاں بکواس کرنے کے لیے نہیں بلوایا۔ طلاق کے کاغذات پر سائن کرنے کے لیے بلوایا ہے۔” منصور نے بلند آواز میں کہتے ہوئے اپنی دراز سے کچھ کاغذات نکال کر اس کے سامنے میز پر پھینک دیے۔ اسامہ نے ان کاغذات پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کی’ وہ صرف منصور کو دیکھتا رہا۔
”میں نے اور صبغہ نے گھر سے بھاگ کر اپنی مرضی سے نکاح نہیں کیا تھا۔ پورا خاندان شریک ہوا تھا اس نکاح میں۔ اب اگر طلاق ہو گی تو وہ بھی پورے خاندان کے درمیان ہو گی’ اس طرح چوری چھپے آفس میں بیٹھ کر نہیں۔”
منصور کا خون اور کھولا۔ ”اپنی اوقات دکھا رہے ہو؟”
”نہیں منصور چچا! صرف ایک حقیقت بتا رہا ہوں۔”
”مجھے چچا مت کہو’ تمہارا اور میرا کوئی رشتہ نہیں ہے۔” منصور نے انگلی اٹھا کر اس کی طرف اشارہ کیا۔




”مجھے حیرت ہے کہ یک دم آپ کو اپنے ہر خونی رشتے سے اتنی نفرت کیوں ہونے لگی ہے۔ کم از کم ہماری فیملی تو آپ کے کسی معاملے میں کسی طرح انوالو نہیں ہے پھر آپ نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کرنا کیوں ضروری سمجھا۔ پہلے ہم لوگوں کو فیکٹری سے الگ کیا’ میرا اور صبغہ کا میل جول بند کروایا اور اب یہ طلاق … اور پھر بھی گلے آپ کو ہی ہیں ہم سے … آخر ایسا کیا کیا ہے ہم نے؟”
”میں ایسے کسی شخص سے تعلق نہیں رکھوں گا جو میری بیوی کی عزت نہیں کرتا اور تم … تم فون پر جو کچھ اسے کہہ چکے ہو’ میں جان چکا ہوں۔”
”اور فون پر انہوں نے مجھ سے کیا کہا ہے’ آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے؟”
”مجھے یہ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے’ نہ ہی ضرورت۔” منصور نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
”میں نے ہمیشہ آپ کی بیوی کو عزت دینے کی کوشش کی نہ چاہتے ہوئے بھی مگر وہ عزت کی خواہش مند نہیں ہیں۔”
”میرے سامنے تقریر کرنے کے بجائے ان کاغذات پر سائن کرو اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔”
”نہیں’ میں ان کاغذات پر سائن تو خیر کسی صورت نہیں کروں گا۔ یہ تو میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں۔” اسامہ نے بڑے اطمینان سے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔ ”ان کاغذات پر سائن کرنے کا طریقہ کار کیا ہے’ یہ میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ خاندان کو اکٹھا کریں اور ان پیپرز پر سائن کروا لیں۔”
”تمہیں اگر یہ امید ہے کہ صبغہ سے شادی کر کے تم کل کو کسی طرح میری پراپرٹی میں حصہ دار بن جاؤ گے تو یہ غلط فہمی اپنے دل سے نکال دو۔ میں صبغہ کو اپنی پراپرٹی میں سے ایک پھوٹی کوڑی نہیں دوں گا۔” منصور علی نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”میں جانتا ہوں’ آپ اسے کچھ نہیں دیں گے’ دعائیں تک نہیں۔”
”تم سمجھتے ہو کہ مجھے طلاق لینے کا راستہ نہیں آتا’ میں تمہیں عزت سے آفس میں بٹھا کر یہ بات کر رہا ہوں تو شاید مجبور ہو کر کر رہا ہوں۔ یہ میری شرافت ہے کہ میں تمہیں یہاں اس طرح بٹھا کر تم سے بات کر رہا ہوں’ ورنہ میں کورٹ میں اسے تم سے خلع دلوا سکتا ہوں اور تمہارے طلاق نہ دینے کی صورت میں’ میں یہی کروں گا۔”
”پھر آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ یہی کریں۔ اس طرح کم از کم مجھے سمجھانے میں آپ کا وقت ضائع نہیں ہو گا۔” اسامہ کھڑا ہو گیا۔ میز پر اپنے سامنے پڑے ہوئے کاغذات کو اس نے پھاڑ کر دو ٹکڑے کیے اور دوبارہ میز پر رکھ دیے۔
”ایک بیٹی کو آپ طلاق دلوا چکے ہیں’ دوسری بیٹی کو طلاق دلوانے کے لیے بھی آپ کو بھرپور کوشش کرنی چاہیے اور عدالتیں آپ جیسے لوگوں کے لیے ہی تو ہوتی ہیں۔ آپ وہاں جائیں’ کچھ پیسہ خرچ کریں’ ذرا وکیل کے آگے پیچھے بھاگیں’ کاغذات کا ڈھیر لے کر پھریں تاکہ آپ کو بھی تو اندازہ ہو کہ رشتے اور تعلق توڑنے میں کچھ نہ کچھ وقت اور کوشش کرنی پڑتی ہے اور کچھ نقصان بھی اٹھانے پڑتے ہیں آپ نے ہر رشتے کو اپنا اور منیزہ چچی کا رشتہ سمجھ لیا ہے کہ چٹکی بجائی اور کام ختم۔” اسامہ نے تنفر آمیز انداز میں کہا۔
”آپ بھی ذراعدالت میں آئیں ‘ تو پتا چلے اور لوگوں کو … کہ ایک باپ اپنی نئی نویلی شادی کو پائیدار رکھنے کے لیے کس طرح جی توڑ کوششیں کر کے اپنی بیٹیوں کو طلاقیں دلوا رہا ہے۔ تاریخ میں آپ کا نام بھی لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھا کے ساتھ لیا جائے گا … منصور اور رخشی ۔”
منصور علی نے بے اختیار گالیاں دینا شروع کر دی تھیں۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے اور انہیں جیسے اپنے اوپر کوئی کنٹرول نہیں رہا تھا۔ اسامہ نے ایک چڑانے والی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھا۔
”کوئی بات نہیں’ گالیاں دیتے رہیں۔ چچا نہ سہی’ آپ میرے سسر تو ہیں اور سسر باپ کی جگہ ہوتا ہے’ کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ اتنا حق تو رکھتے ہیں آپ مجھ پر۔” وہ مڑ کر اطمینان سے کمرے سے باہر نکل گیا۔ منصور علی کا بلڈ پریشر ہائی ہو رہا تھا۔ اس کے باہر نکل جانے کے بہت دیر بعد تک بھی وہ اسی طرح خالی کمرے میں کھڑے بلند آواز میں اسے گالیاں دیتے رہے’ پھر جیسے بے دم ہو کر گرنے والے انداز میں اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ان کا چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ ان کا بس چلتا تو وہ … اس نے ایک بار پھر مٹھیاں بھینچ کر اسامہ کو گالی دی۔
٭٭٭
”تمہار ٹکٹ آ گیا ہے’ میرے ڈریسنگ ٹیبل پر پاسپورٹ کے ساتھ رکھا ہے’ جاتے ہوئے لے لینا۔ چار دن بعد کی فلائٹ ہے’ سان فرانسسکو کے لیے۔”
شائستہ نے میگزین کے صفحات کی ورق گردانی کرتے ہوئے اسد کو اطلاع دی جو کچھ دیر پہلے جم سے لوٹتے ہوئے لاؤنج سے گزر رہا تھا۔ اس دن کی چپقلش کے بعد شائستہ اور اس کے درمیان کسی قسم کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی اور آج اتنے دنوں کے بعد پہلی بار شائستہ نے اسے مخاطب کیا تھا۔
اسد رک گیا’ اس نے مڑ کر شائستہ کو دیکھا۔
”اور سان فرانسسکو میں تین ماہ پہلے جا کر میں کیا کروں گا۔ آپ کو چاہیے تھا’ یہ بھی کسی کاغذ پر لکھ کر آپ میرے پاسپورٹ کے ساتھ رکھ دیتیں۔” اس نے ترشی سے کہا۔
”اپنے لیے مصروفیات تم خود ڈھونڈ سکتے ہو’ چھوٹے بچے تو نہیں ہو’ بڑے ہو چکے ہو۔” شائستہ نے تیکھے لہجے میں کہا۔
اسد بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنسا۔ ”چھوٹا بچہ نہیں ہوں؟ آپ کو یقین ہے کہ میں بڑا ہو گیا ہوں۔ حیرانی کی بات ہے کہ آپ مجھے بڑا سمجھنے لگی ہیں۔”
”طنز اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے۔ آپ کو تو اب میری ہر بات طنز ہی لگا کرے گی۔” اسد نے کہا۔
”میں اس وقت تمہارے ساتھ بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔ میں نے تمہیں صرف ایک اطلاع دینا تھی’ وہ دے دی۔ تم اگر اس سلسلے میں کچھ کہنا چاہتے ہو تو اپنے پاپا سے کہنا۔” شائستہ نے ناراضی سے کہتے ہوئے اپنی توجہ میگزین پر مرکوز کر لی۔
”ہاں … اور آپ سمجھتی ہیں۔ میں پاپا سے بات نہیں کر سکوں گا۔” اسد نے استہزائیہ انداز میں کہا۔ ”بالکل ٹھیک سمجھتی ہیں’ میں واقعی ان کے سامنے بات نہیں کر سکتا لیکن کتنا عرصہ …؟ صرف چند اور سال’ اس کے بعد پھر ہر بات دوبدو ہو گی۔ آپ کے سامنے اور آپ کے شوہر کے سامنے۔”
اس کے لہجے میں اتنا زہر تھا کہ شائستہ برداشت نہیں کر پائی۔ ”ایک معمولی لڑکی کے لیے …”
اسد نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔ ”ایک معمولی لڑکی ہو یا خاص لڑکی’ میں اس کو پسند کرتا تھا اور آپ دونوں نے مجھے بری طرح Iet down کیا۔” وہ تقریباً چلایا۔
”تم پر کتنے احسان ہیں میرے اور ہارون کے … اور تم … تم اتنے خود غرض ہو کہ اپنی پسند کی خاطر ماں باپ کے گلے پڑ رہے ہو۔ قربان نہیں کر سکتے اپنی ایک پسند ماں باپ کی خوشی کی خاطر۔” شائستہ کھڑے ہو کر جواباً چلائی۔
”جب آپ کے ماں باپ پاپا سے آپ کی شادی پر تیار نہیں تھے تو آپ نے ان کی بات کیوں نہیں مانی’ آپ نے اپنی مرضی کیوں کی’ آپ نے پاپا کی قربانی کیوں نہیں دی؟”
شائستہ کا جسم برف کی طرح ٹھنڈا ہو گیا۔
”کس نے کہا تم سے کہ میں نے اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف شادی کی۔”
”ساری دنیا جانتی ہے۔”
”میں نے اپنے ماں باپ کی مرضی سے شادی کی۔” شائستہ نے بلند آواز میں جھوٹ بولا۔
”اچھا … آئیں’ فون ملاتا ہوں میں نانو کے گھر … بات کریں میرے سامنے ان سے۔” اسد کے لہجے میں آگ تھی۔ وہ اپنے موبائل پر نمبر ڈائل کر رہا تھا۔ اولاد کے سامنے شائستہ کی عزت داؤ پر لگ گئی تھی۔
”تم … تم ایک انتہائی خود غرض انسان ہو’ مجھے شرم آتی ہے تمہیں اپنا بیٹا کہتے ہوئے۔” اس نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
اسد نے نمبر ڈائل کرنا بند کر دیا۔ ”تو پھر آپ مجھے نہ پیدا کرتے’ میں نے آپ کو دعوت نہیں دی تھی کہ مجھے پیدا کریں اور پھر میرے ہونے پر شرمندگی کا اعلان کریں۔” اس نے کسی لحاظ کے بغیر بے دھڑک کہا۔
”تم بہت پچھتاؤ گے۔”
”کیا آپ پچھتائی ہیں … آج تک کبھی پچھتائی ہیں …؟ میں بھی نہیں پچھتاؤں گا۔”
”میں نے زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر مجھے پچھتاوا ہو۔”
”تو پھر یقین رکھیں کہ میں بھی ایسا کوئی کام نہیں کر رہا ہوں جس پر مجھے پچھتاوا ہو گا اور جہاں تک امبر اور میرا تعلق ہے’ میں اس کو بھولا تو نہیں ہوں’ نہ ہی بھولوں گا۔” وہ کہہ رہا تھا۔ ”چند سال کے بعد اپنی تعلیم مکمل کر کے آؤں گا اور پھر دیکھوں گا اس کے اور میرے درمیان کون رکاوٹ بنتا ہے۔”
شائستہ دم سادھے اسے بولتے دیکھ رہی تھی۔
”صرف چند سال کی بات ہے اور اگر اس دوران امبر کی کسی اور کے ساتھ شادی ہو گئی تب بھی میں آپ کو اور پاپا کو کبھی معاف نہیں کروں گا’ Never”
وہ تیز قدموں کے ساتھ لاؤنج سے نکل گیا۔ شائستہ برف کے بت کی طرح وہیں جمی رہی۔ اتنی احسان فراموشی’ اتنی بے گانگی’ اتنی بے لحاظی … اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس نے یہ سب باتیں اپنے بیٹے کے منہ سے سنی ہیں۔ وہاں کھڑے کئی سال بعد اسے بے اختیار رونا آیا۔ شائستہ ہارون کمال … وہ عورت جو گفتگو میں اپنی بے ساختگی اور اپنی خوبصورتی سے اکھڑ سے اکھڑ شخص کے تیور بدل دیا کرتی تھی’ وہ اپنے بیٹے کے سامنے بے بس تھی جو چند منٹوں میں اس کے سارے احسان اس کے منہ پر مار گیا تھا۔
”جب تم یہ سب کچھ اپنی اولاد کے منہ سے سنوگی تو تمہیں ہماری تکلیف کا احساس ہو گا۔”
سالوں پہلے اس کی ماں نے اس سے کہا تھا اور اس نے بڑے تنفر سے جواب دیا تھا۔
”میں کبھی وہ موقع ہی نہیں آنے دوں گی کہ میری اولاد کو اپنے ایک حق کے لئے میرے سامنے اس طرح بولنا پڑے۔”
تب اس کی ماں لاجواب ہو گئی تھی۔ شائستہ نے تب محسوس کیا تھا۔ اس کی باتوں کا اس کے ماں باپ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ آج اتنے سالوں کے بعد اسے لگ رہا تھا جیسے وہ بددعا تھی جو اسے لگ گئی تھی۔ اس کے پاس بھی اپنی اولاد کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ تب ہارون کمال کے لیے پاگل ہو رہی تھی’ اس کے لیے زمین اور آسمان ایک کر دینے پر تلی ہوئی تھی۔ آج اس کا بیٹا امبر کے لیے پاگل ہو رہا تھا’ اسے نہ پانے پر ہر رشتے کو ختم کر دینے پر تل گیا تھا۔
”یہ … یہ سب ہارون کمال کے خون کا اثر ہے۔ سب اسی کی خود غرضی ہے’ باپ کی طرح خود غرض ہے یہ’ باپ کی طرح۔” صوفے پر بیٹھ کر بلک بلک کر روتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا۔ ماضی ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگا تھا۔ ہارون کمال کی خود غرضی اب بھی اس کے ذہن پر نقش تھی اور وہاں کچھ اور بھی نقش تھا۔ تاریکی میں سے ایک چھوٹے سے بچے کا ہیولا … وہ روتے روتے چپ ہو گئی۔
”پچھتاوا’ میں تمہیں اپنے پچھتاوے کیسے بتاؤں اسد۔” وہ بڑبڑائی۔
٭٭٭
منصور اس سہ پہر بہت طیش کے عالم میں آفس سے اٹھ کر آئے تھے۔گھر میں داخل ہوتے ہی انہوں نے درشتی سے ملازم کو صبغہ کو بلانے کے لیے کہا۔ صبغہ کچھ پریشانی کے عالم میں لاؤنج میں آئی اور منصور علی کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اس کی پریشانی دگنی ہو گئی تھی۔
”میں نے آج اسامہ کو آفس بلایا تھا۔ ” انہوں نے اسے دیکھتے ہی بلند اور تندوتیز آواز میں صبغہ سے کہا۔ ”میں نے اس سے طلاق کے کاغذات پر دستخط کرنے کے لیے کہا مگر اس نے جواباً میرے ساتھ بہت زیادہ بدتمیزی کی۔ مجھے یہ کہہ کر چلا یا کہ میں کورٹ میں جا کر خلع لوں’ کیونکہ وہ تمہیں طلاق کبھی نہیں دے گا اور میں اب تمہاری طرف سے خلع کا کیس فائل کروا رہا ہوں۔ اگر وہ تم سے رابطہ کرنے کی کوشش کرے تو تم اس سے کہہ دینا کہ آئندہ تم سے کبھی رابطہ نہ کرے۔”
وہ دم سادھے منصور علی کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے جسم میں جیسے کاٹو تولہو نہیں تھا۔ منصور علی ہمیشہ کی طرح اپنا فیصلہ اس کے سرتھوپ رہے تھے۔ انہیں کسی کو بتانے یا کسی سے مشورہ لینے کی جیسے کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔
”میرا وکیل ایک دو دن میں گھر آ کر تم سے اس سلسلے میں کاغذات پر سائن کروائے گا۔ میں اس شخص کو مزہ چکھا دوں گا۔” وہ اس سے بات کرتے کرتے اسامہ کی کسی بات کے یاد آنے پر ایک بار پھر غرائے۔
”لیکن … پاپا … آپ … آپ یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟” صبغہ نے بالآخر ہمت کر کے ان سے پوچھا۔
”کیونکہ میں اس خاندان میں تمہیں بھیجنا نہیں چاہتا۔ میں اس شخص کو کبھی داماد کے طور پر قبول نہیں کروں گا’ اتنے بدتمیز اور گستاخ شخص کو میں اپنے خاندان کا حصہ نہیں بناؤں گا۔”
”آپ نے ہی اس کو میرے لیے منتخب کیا تھا’ اپنی مرضی سے اس سے میرا نکاح کیا تھا پھر اب آپ یہ رشتہ ختم کرنے پر کیوں تل گئے ہیں۔ آپ کی وجہ سے امبر کو طلاق ہو چکی ہے اور …”
منصور علی اس بار بے اختیار حلق کے بل چلائے۔ ”اسے طلاق ہو گئی ہے تو وہ بھاڑ میں جائے’ مجھے ذرہ بھر پروا نہیں ہے اور تم کان کھول کر سن لو’ تمہیں میرے گھر میں رہنا ہے تو میری مرضی کے مطابق چلنا ہے’ ورنہ تم ابھی اور اسی وقت اپنی ماں اور بہن کے پاس چلی جاؤ۔ میں کسی نافرمان اولاد کو اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا’ سمجھیں تم۔” وہ سفید چہرے کے ساتھ انہیں دیکھتی رہی۔
”اس کمینے نے جو کچھ مجھ سے کہا ہے’ وہ تمہاری ہی شہ پر کیا ہے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تم اس سے طلاق لینا نہیں چاہتیں اور وہ تمہیں ہتھیار بنا کر مجھے بلیک میل کرے گا … مگر یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی بھول ہے۔ میرے نزدیک تمہاری بھی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے۔ تم میری بات نہیں مانوگی تو میں تم سب بہن بھائیوں کو دھکے مار کر اس گھر سے نکال دوں گا’ اپنے پاس نہیں رکھوں گا۔ نہ صرف گھر سے نکال دوں گا بلکہ جائیداد سے بھی عاق کر دوں گا پھر تم اسامہ کے پاس جا کر رہنا بلکہ اپنے بھائی بہنوں کو لے کر اس کے پاس جانا اور دیکھنا وہ اور اس کا خاندان تمہیں کیسے رکھتے ہیں۔”
منصور علی بلند آواز میں کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ صبغہ کا پورا جسم سرد ہو رہا تھا۔ حالات یہ کروٹ لیں گے’ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ اوپر نہیں جا سکی’ وہیں صوفہ پر بیٹھ گئی۔ وہ نہیں جانتی تھی اسامہ اور منصور کے درمیان کیا بات ہوئی تھی مگر جو کچھ بھی کہا اور سنا گیا تھا’ اس نے اس کے لیے مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر دیا تھا۔ منصور علی دن بدن اس کی نظروں میں بونا بنتے جا رہے تھے۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ شخص کبھی ایک جان چھڑکنے والا باپ تھا اور اب بیس سال کی ایک لڑکی کے عشق میں مبتلا ایک بے ضمیر ‘ خود غرض اور اندھا شخص … فون کی گھنٹی اچانک بجنے لگی۔ وہ چپ چاپ بیٹھی فون کو دیکھتی رہی۔ اس نے آگے بڑھ کر فون اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!