تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

صبغہ کے آنسو امبر کے بالوں میں گر کر جذب ہو رہے تھے۔ ”اسے پتا نہیں کیا ہو گیا ہے’ وہ پہلے کبھی ایسا نہیں تھا … وہ پاپا کو گالیاں دے رہا تھا … کہہ رہا تھا اسے میرے پورے گھر سے نفرت ہے’ وہ ایسا کیسے ہو گیا ہے … میں نے تو اس سے ہمیشہ محبت کی ہے’ ہمیشہ … ہمیشہ۔
اس کو مجھ سے پہلے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی … کبھی نہیں … اس نے مجھ سے کبھی نہیں کہا کہ وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے’ ا سے چند مہینوں میں مجھ سے اتنی نفرت ہو گئی … اتنی نفرت …”
”امبر …!” صبغہ نے اس کے سر کو تھپتھپاتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”مجھے یقین نہیں آتا … میرا کیا قصور ہے؟ میں نے کیا کیا ہے؟ پاپا نے کیوں اسے وہاں سے نکالا ہے … ۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اتنے سالوں میں اسے مجھ سے محبت نہیں ہوئی اس نے ایک بار نہیں سوچا کہ امبر اس کے بغیر کیا کرے گی۔ اس نے نہیں سوچا کہ میں کہاں جاؤں گی۔ مجھے تو اس کے ساتھ ساری زندگی گزارنی تھی۔ اس کو احساس ہی نہیں ہے۔ میں تو نہیں مانتی کہ طلاق ہو گئی ہے۔ اس طرح کیسے وہ مجھے طلاق دے سکتا ہے۔ ایسے کیوں چھوڑے گا مجھے۔ میں اس سے معافی مانگ لوں گی۔ میں کسی کو کیا منہ دکھاؤں گی کہ امبر کو طلاق ہو گئی … طلحہ نے امبر کو چھوڑ دیا۔ بُری لڑکی کو چھوڑ دیا۔ کیا میں رخشی سے زیادہ بُری ہوں۔ کیا میں دنیا میں سب سے بُری ہوں۔”
اس کی باتیں اب بالکل بے ربط ہو گئی تھیں’ مگر وہ خاموش نہیں ہو رہی تھی’ وہ بولتی جا رہی تھی۔
”سب کو میں ہی بُری کیوں لگتی ہوں … ؟ سب کو شکایتیں مجھ سے ہی کیوں ہوتی ہیں؟ مجھے تو طلحہ کے ساتھ ہی رہنا ہے’ ہمیشہ اس کے ساتھ رہنا ہے۔ میں تو نہیں مانتی کہ طلاق ہو گئی ہے۔”
”امبر ! طلحہ کو جانے دو … وہ خود غرض اور لالچی انسان تھا۔ اچھا ہوا تمہاری اس سے جان چھوٹ گئی۔” صبغہ نے اس بار بلند آواز میں اس کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
”نہیں … وہ جو ساتھ رہتا ہے۔”
”تمہاری اور اس کی طلاق ہو چکی ہے۔” امبر یک دم چپ ہو گئی۔ وہ سر اٹھا کر صبغہ کو دیکھنے لگی۔ اس کا انداز بے حد ابنارمل تھا۔
”نہیں ہوئی … میری اور اس کی طلاق نہیں ہوئی۔ بالکل نہیں ہوئی۔ میں مانتی ہی نہیں۔ میں نہیں مانتی تو طلاق کیسے ہوئی۔
میں پھر اس کے پاس جاؤں گی۔”
وہ سر کو بار بار جھٹک رہی تھی۔




”پھر اس سے بات کروں گی۔ اس سے کہوں گی کہ وہ طلاق واپس لے لے تو وہ طلاق واپس لے لے گا اور پھر میں … اس کے ساتھ رہوں گی۔ مجھے یہاں اس گھر میں نہیں رہنا۔ انکل صفدر کے گھر میں نہیں رہنا۔ یہاں سب مجھے ناپسند کرتے ہیں۔ یہاں سب مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ مجھے طلحہ کے پاس چلے جانا ہے۔ اس کے گھر رہنا ہے۔ صرف وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔” اس کا چہرہ گیلا تھا مگر اس کے آنسو تھم چکے تھے۔
”اچھا تم ان سب باتوں کو چھوڑ دو … تم صرف کھانا کھاؤ۔” صبغہ نے بات بدل دی۔
امبر جس ذہنی حالت میں تھی وہ اسے اس وقت کچھ نہیں سمجھا سکتی تھی۔
”نہیں … مجھے کھانا نہیں کھانا۔ میں کیوں کچھ کھاؤں ۔ جب میں اچھی ہوں ہی نہیں تو پھر میں کیوں کچھ کھاؤں۔” اس کی ذہنی رواب کسی اور طرف جا رہی تھی۔ ”میں کیوں کسی پر بوجھ بنوں۔ کھانا تو مجھے اب کھانا ہی نہیں ہے۔ کبھی بھی نہیں کھانا۔
”امبر خدا کے لیے اس طرح مت کرو۔ چھوڑ دو اس طرح کی ضد کرنا۔ پہلے ہی بہت پریشانیاں ہیں۔ مصیبتوں کا ڈھیر کھڑا ہے ہمارے لیے۔ تم ان میں اضافہ مت کرو۔” منیزہ نے یک دم ان دونوں کی گفتگو کے درمیان مداخلت کی۔
”ممی پلیز … اسے کچھ مت کہیں … آپ اس طرح بات مت کریں۔ آپ دیکھ رہی ہیں۔ وہ ٹھیک نہیں ہے۔” صبغہ نے بے اختیار منیزہ کو ٹوکا۔
”میں اسی لیے یہاں نہیں رہنا چاہتی۔ میں اس گھر سے چلے جانا چاہتی ہوں۔ یہ میرا گھر نہیں ہے۔ یہ میرا گھر ہے ہی نہیں۔ میں تو کہیں اور رہوں گی۔ میں طلحہ کے ساتھ رہوں گی۔ میں تو نہیں کھانا کھاؤں گی۔ تم کھانا لے جاؤ … ورنہ میں کھانا پھینک دوں گی۔” یکدم اس کے تیور بدل گئے۔
”ٹھیک ہے میں لے جاتی ہوں تم سو جاؤ … آرام کرو … ” صبغہ نے ٹرے کو بیڈ سے اٹھا کر ٹیبل پر رکھ دیا۔
”نہیں مجھے نہیں سونا … مجھے آرام بھی نہیں کرنا … میں ایسے ہی بیٹھوں گی۔ ایسے ہی رہوں گی۔” صبغہ کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭
”ممی! آپ کو کچھ اندازہ ہے کہ اس کی ذہنی حالت کتنی خراب ہے۔” وہ کمرے کے باہر اب منیزہ سے کہہ رہی تھی۔
”جانتی ہوں میں مگر …” منیزہ نے کچھ کہنا چاہا۔ ”جب طلحہ نے طلاق بھجوا دی تھی تو آپ نے اسے کیوں اس کے پاس جانے دیا۔ روکا کیوں نہیں اسے؟”
”کیسے روکتی۔ میں … وہ بس اسی طرح اٹھ کر باہر نکل جاتی تھی۔ بتاتی ہی نہیں تھی کہ کہاں جا رہی ہے۔ منیزہ کے لہجے میں دکھ تھا۔ ”کتنے دن وہ اسی طرح … جاتی رہی پھر ایک دن آ کر اسی طرح رونے لگی’ جس طرح آج رو رہی ہے۔ اور پھر بس … ہر وقت یہی باتیں کرتی رہتی ہے۔ پہلے ہر روز اسی طرح روتی رہتی تھی۔ پھر بالکل چپ ہو گئی۔ آج تم آئی ہو تو پھر اس نے وہی باتیں شروع کر دیں۔”
”ممی! وہ اب نارمل ہو گئی ہے’ اس کا ذہنی توازن بگڑ رہا ہے۔”
”ذہنی توازن کس کا ٹھیک رہا ہے۔” منیزہ نے تلخی سے کہا۔
”لیکن اس کو تو فوری علاج کی ضرورت ہے۔ اس کا علاج نہ کیا گیا تو وہ مینٹل ہاسپٹل پہنچ جائے گی۔”
”میں آخر کیا کیا کروں’ پہلے کم عذاب ہیں میرے لیے۔ باپ کے گھر بیٹھ کر تمہارے لیے یہ حکم صادر کرنا بڑا آسان ہے کہ اسے ڈاکٹر کو دکھاؤں۔ لیکن تمہیں میری صورت حال کا اندازہ نہیں ہے۔”
”میں خود صفدر انکل سے بات کر لیتی ہوں۔ میں خود اس کو کسی سائیکاٹرسٹ کو دکھا دیتی ہوں۔ سارا پرابلم پیسے کا ہے تو میرے پاس کچھ پیسے ہیں’ میں وہ آپ کو لادوں گی۔”
”صفدر بھائی اس بات پر تیار نہیں ہیں۔ اور وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں’ کسی ذہنی مریضوں کے کلینک اس کو لے کر گئے تو ہمیشہ کے لیے ٹھپہ لگ جائے گا پاگل پن کا۔ کل کو اسے بیاہنا ہے مجھے۔”
”اس کو کسی کلینک پر نہ لے کر گئے تو وہ ویسے ہی پاگل ہو جائے گی۔ پھر آپ کیا کر لیں گی۔ اس کو اس وقت علاج کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ سمجھتی کیوں نہیں ممی؟” صبغہ نے بے چارگی سے کہا۔
”پھر تم خود ہی صفدر بھائی سے بات کر لو۔ میں تو اب اس سلسلے میں ان سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔” منیزہ نے جیسے ہتھیار ڈال دیے۔
”تمہارے باپ نے ہمیں کسی قابل نہیں چھوڑا … سر اٹھا کر کسی سے بات تک نہیں کر سکتی میں۔ یہی بھائی تھا جو …” منیزہ کی آواز بھرا گئی۔ ”اور اب یہی باتیں کرتا ہے۔ بوجھ بن گئی ہوں میں اس پر۔”
صبغہ نے کچھ نہیں کہا۔ وہ کوئی تبصرہ کرنے کے قابل نہیں تھی۔
”مجھے امبر کے علاج پر کوئی اعتراض نہیں ہے’ تم اپنے باپ سے کہو وہ اسے لے جائے اور اس کا علاج کروائے۔” وہ آدھ گھنٹہ سے صفدر کے پاس بیٹھی ان کی باتیں سن رہی تھی۔ ”میرے پاس نہ تو منصور علی کی اولاد پر خرچ کرنے کے لیے فالتو روپیہ ہے اور نہ ہی میں کروں گا۔”
وہ اپنی بھڑاس اس پر نکال رہے تھے۔ ”منیزہ میری ذمہ داری ہے۔ امبر تو میری ذمہ داری نہیں۔” وہ کہہ رہے تھے۔ ”خدا کی پناہ … کروڑپتی ہے تمہارا باپ ‘ اور اتنا کمینہ کہ اپنی اولاد کو پاس رکھ سکتا ہے نہ اس کے اخراجات اٹھا سکتا ہے۔”
صبغہ نے سر نہیں اٹھایا۔
”میں اگر منیزہ کو لے کر عدالت میں چلا جاتا تو عقل ٹھکانے آ جاتی’ تمہارے باپ کی۔ لیکن میں نے درگزر کیا۔ ہر کوئی تمہاے باپ کی طرح گرا ہوا نہیں ہوتا۔”
صبغہ نے اب بھی سر نہیں اٹھایا۔
”اور پھر یہ سب کچھ جو امبر کے ساتھ ہوا ہے یہ تمہارے باپ کے لالچ اور خود غرضی کی وجہ سے ہوا ہے۔ تو پھر وہی بھگتے’ ہم سزا کیوں کاٹیں …” وہ تندوتیز آواز میں کہہ رہے تھے۔ ”تمہارے باپ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہی نہیں ہے’ بیوی کے چونچلے اٹھانے میں لگا ہوا ہے۔ اس کو نہیں پتا کہ اس کی بیٹی کہاں پڑی ہے۔”
صفدر کی بیوی اطمینان سے اپنے ناخنوں کو فائل کرنے میں مصروف تھی یوں جیسے یہ سب کچھ اس کے سامنے ہو ہی نہ رہا ہو۔
”جا کر کہہ دو میری طرف سے اپنے باپ کو کہ وہ اپنی بیٹی کو یہاں سے لے جائے۔ اپنے پاس رکھے’ آخر یہ اسی کی اولاد ہے۔ منیزہ کے سر پر کیوں تھوپ رہا ہے اسے ؟”
منیزہ بھی صبغہ کی طرح سرجھکائے بیٹھی تھیں۔ ماضی کا طنطنہ سب کچھ رخصت ہو چکا تھا۔
”اور میں تم پر یہ بات واضح کر دوں کہ میں تمہیں یا تمہارے بہن بھائیوں کو اپنے پاس ہرگز نہیں رکھوں گا۔ اس لیے تم اس طرح چوری چھپے میرے پاس مت آیا کرو۔ بہن سے دلچسپی ہے تو بہن کو لے جاؤ۔” وہ منصور کا غصہ اس پر نکال رہے تھے۔ ”تمہارے باپ نے جس طرح کی زبان استعمال کی ہے’ وہ میری ہی ہمت ہے کہ میں برداشت کر گیا۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو منصور علی کے ہوش ٹھکانے لگا دیتا کہ وہ کن ہواؤں میں اڑتا پھر رہا ہے اس قدر ذلیل اور بے ہودہ انسان’ میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا۔”
”انکل ! آپ امبر کو سائیکاٹرسٹ کے پاس جانے دیں۔ آپ کو اخراجات کے بارے میں کسی بوجھ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔” صبغہ نے بہت دیر کے بعد اپنی خاموشی توڑی۔ ”پاپا فوری طور پر نہیں تو جلد ہی اسے بھی لے جائیں گے پھر آپ کو ہماری طرف سے مزید کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
٭٭٭
”وہ تمہاری بڑی بہن ہے روشان…!” صبغہ کو روشان کے انداز پر افسوس ہوا۔
”ہاں بڑی بہن ہے۔ مگر یہ ساری مصیبت اسی کی لائی ہوئی ہے۔” وہ اسی اکھڑ انداز میں بولا۔
”اس کی لائی ہوئی ہے تو سب سے زیادہ suffer بھی تو وہی کر رہی ہے۔” ”اور ہم … ہم sufferنہیں کر رہے۔ میں تو بڑے آرام سے ہوں۔ چین کی بانسری بجاتا پھر رہا ہوں۔ میرے فرینڈز تو میرے باپ کے اس کارنامے پر مجھے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔” وہ بلند اور ترش آواز میں بولا ”ممی تو آرام سے اپنے گھر میں بیٹھی ہیں۔ عیش کر رہی ہیں۔ لوگ ان کی عظمت کے گن گاتے پھر رہے ہیں۔ بس صرف ایک امبر بے چاری کو ہی سب کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔”
”تمہیں شرم آنی چاہیے روشان … تم جس طرح کی باتیں کر رہی ہو۔”
”مجھے بہت شرم آتی ہے۔ میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ مجھے اس تمام صورت حال پر کتنی شرم آ رہی ہے۔”
”تم نے اس کی حالت نہیں دیکھی’ اس لیے تم اس طرح کی باتیں کر رہے ہو۔” صبغہ روہانسی ہو گئی۔ ”تم اسے دیکھتے تو تمہیں احساس ہوتا۔ وہ مینٹلی بہت ڈسٹربڈ ہے۔ ٹھیک سے بات تک نہیں کر پا رہی تھی۔ اور صفدر انکل اور ان کی فیملی ممی یا امبر کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے۔ خاص طور پر امبر کے بارے میں تو صفدر انکل نے مجھ سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے’ میں پاپا سے کہوں کہ وہ اسے لے جائیں۔”
”اور تم نے یہ کام میرے سر تھوپ دیا۔” روشان نے خفگی سے کہا۔
”پاپا میری بات نہیں سنیں گے اور تمہاری بات نہیں ٹالیں گے۔”
”تمہیں خوش فہمی ہے۔”
”نہیں’ میں جانتی ہوں۔ تم بس ایک بار ان سے بات تو کر کے دیکھو۔”
”میں نہیں چاہتا کہ وہ اب میری کوئی بھی بات مانیں اور مجھ پر احسان کرنے کا موقع انہیں ملے۔” روشان نے تیز آواز میں کہا۔
”پلیز روشان! اس صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ امبر کو کچھ ہو گیا تو پھر تم پچھتاؤ گے۔ بلکہ سب پچھتائیں گے۔”
اس بار روشان نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ مگر اس کے ماتھے پر بل بدستور موجود رہے۔
”تم پاپا سے اسے واپس لانے کے لیے کہو گے تو وہ انکار نہیں کریں گے۔ میں جانتی ہوں وہ انکار نہیں کریں گے۔ دیکھو اور کسی کے لیے نہیں تو صرف میری خاطر میری خاطر پاپا سے بات کر لو۔” صبغہ نے اس بار منت آمیز لہجے میں کہا۔
”اور اگر انہوں نے انکار کر دیا تو …؟”
”نہیں کریں گے۔”
”میرا دل نہیں چاہتا اس آدمی سے بات کرنے کو۔”
”تم صرف پاپا سے ایک بار بات کر لو اس کے بعد میں دوبارہ تمہیں کوئی کام نہیں کہوں گی۔”
روشان ایک بار پھر خاموش رہا۔
٭٭٭
”مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ کس حالت میں ہے اور کس میں نہیں۔ میرے لیے وہ مر چکی ہے۔”
روشان نے اس رات منصور علی سے امبر کی واپسی کے سلسلے میں بات کی اور منصور علی اس کے ابتدائی جملوں پر ہی چراغ پا ہو گئے۔
”وہ اپنی مرضی سے اس گھر کو چھوڑ کر گئی تھی اور اب وہ اس کا خمیازہ بھگتے۔”
”وہ بہت بیمار ہے۔”
”ہوتی رہے۔ میں کیا کروں؟”
”یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپ کی وجہ سے اس کو طلاق ہوئی اور آپ کی وجہ سے اس کی ذہنی حالت خراب ہوئی۔”
”وہ ہمیشہ سے ہی پاگل تھی۔” منصور علی نے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔
”آپ کو تو اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔” روشان یک دم عجیب انداز میں مسکرایا۔ ”اس پاگل نے آپ کو اتنی اچھی بیوی لادی۔”
منصور کے جسم کا سارا خون یک دم چہرے میں سمٹ آیا۔ ”تمہیں جرات کیسے ہوئی مجھ سے بکواس کرنے کی؟” وہ بلند آواز میں چلائے۔
”ایک سچ بات کہی ہے’ اتنا غصہ کرنے کی تو کوئی ضرورت نہیں تھی۔” روشان نے اپنے ہر انداز سے لاپروائی ظاہر کی۔
”تمہیں بہن سے اتنی ہمدردی ہو رہی ہے تو تم بہن کے پاس چلے جاؤ۔”
روشان پلکیں جھپکائے بغیر انہیں دیکھتا رہا۔ ”مجھے تم جیسی اولاد کی بھی ضرورت نہیں ہے’ تم بہن بھائیوں نے میری زندگی اجیرن کر دی ہے۔ عذاب کی طرح میرے سر پر سوار ہو گئے ہو۔” منصور علی کی آواز بے حد بلند تھی۔ ”کان کھول کر سن لو تم۔ یہ میرا گھر ہے … میرا … جسے چاہوں گا میں یہاں رکھوں گا’ جسے چاہوں گا’ نکال دوں گا’ اور تمہیں بہن سے ہمدردی ہے تو جب کل تم اپنے پیسے سے گھر بناؤ گے’ لاکر رکھ لینا اس گھر میں اس کو اور اس کی ماں کو … مگر میں اس گھر میں اسے کبھی نہیں لاؤں گا۔”
رخشی عین اسی وقت دروازہ کھول کر اندر چلی آئی۔ وہ باہر روشان اور منصور کے درمیان ہونے والی پوری گفتگو سن چکی تھی۔ مگر اس نے یہی ظاہر کیا کہ جیسے اس نے کچھ نہیں سنا۔
”کیا ہو گیا منصور …؟ کیوں اس طرح بلند آواز میں بول رہے ہیں۔” اس نے اپنی آواز میں مقدور بھر شیرینی گھولتے ہوئے کہا۔
منصور کے چہرے کے تاثرات یک دم بہتر ہو گئے۔” دوبارہ کبھی میرے سامنے اس طرح کے مطالبے مت کرنا۔ اور خبردار! اب تم نے فون کے ذریعے بھی اپنی ماں یا بہن سے رابطے کی کوشش کی۔” انہوں نے اس بار اپنی آواز کو دھیما کر لیا تھا۔ مگر انہوں نے اپنی آواز کی ترشی یا تلخی کو نہیں چھپایا تھا۔ روشان کا چہرہ بالکل سرخ ہو رہا تھا۔
”منصور! کیوں جھڑک رہے ہیں اسے … بچہ ہے … سمجھ جائے گا … آپ خوامخواہ ہی چلا رہے ہیں۔” رخشی نے درمیان میں مداخلت کی۔ ”میں تو باہر ڈر ہی گئی کہ پتا نہیں اندر کیا ہو رہا ہے۔ آپ اتنی بلند آواز میں بول رہے تھے۔ جاؤ روشان تم جاؤ … منصور تو ویسے ہی ناراض ہو رہے ہیں۔”
”یو شٹ اپ … تمہاری نصیحتوں کی ضرورت نہیں ہے مجھے … ” روشان اس کے پچکارنے پر یک دم بھڑک اٹھا۔
”دفع ہو جاؤ … تم یہاں سے۔ تمہیں … تمہیں تمیز نہیں ہے یہ سب کچھ سکھایا ہے تمہیں تمہاری ماں نے …” منصور علی یک دم حلق کے بل چلا کر بولے۔
”آپ رہنے دیں منصور … پلیز میری وجہ سے کوئی جھگڑا نہ کریں’ پہلے ہی مجھے بہت باتیں سننی پڑ رہی ہیں۔ آپ جانے دیں اسے …” رخشی نے ایک بار پھر مداخلت ضروری سمجھی۔
روشان تیز قدموں سے مڑ کر دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر اس نے پلٹ کر رخشی اور منصور علی کو دیکھا۔
”میں جب بڑا ہوں گا تو میں گھر نہیں بناؤں گا۔ میں صرف ایک کام کروں گا۔ اس عورت کو قتل کر دوں گا یا کروا دوں گا۔”
دوسرے ہی لمحے وہ کمرے سے باہر تھا۔ رخشی کے پاؤں اپنی جگہ پر جم گئے تھے اور منصور علی … وہ پلکیں جھپکائے بغیر دروازے کو دیکھ رہے تھے۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!