تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

”امبر کیسی ہے؟” صبغہ نے فون پر منیزہ سے پوچھا۔
”اس کی حالت بہتر ہوئی ؟” اس کی آواز میں تشویش تھی۔
”نہیں … پہلے سے زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ منیزہ کی آواز میں رنجیدگی تھی۔ ”دو دن سے بالکل چپ ہے۔ نہ کچھ کھاتی ہے۔ نہ پیتی ہے۔”
”آپ ایک بار مجھ سے اس کی بات کروائیں۔ میں کب سے آپ سے کہہ رہی ہوں۔” صبغہ نے بے اختیار کہا۔
”میں کس طرح تم سے اس کی بات کرواؤں … وہ تو کمرے سے باہر نکل ہی نہیں رہی۔”
”آپ اسے کسی ڈاکٹر کو دکھائیں۔”
”میں نے صفدر بھائی سے کہا تھا’ لیکن وہ نہیں مانے۔ کہہ رہے تھے کہ صدمے کی وجہ سے وہ اس طرح کر رہی ہے۔ چند دن اور گزریں گے تو ٹھیک ہو جائے گی۔” منیزہ نے کہا۔
”چند دن اور … ؟” دوسری طرف سے صبغہ نے بے یقینی سے کہا۔ ”اس کو ڈیڑھ ماہ ہو گیا ہے اس حالت میں۔ خود سے ٹھیک ہونا ہوتا تو اب تک ہو جاتی۔ صفدر انکل سے کہیں کہ وہ اسے کسی سائیکاٹرسٹ کو دکھائیں۔”
”میں ان سے کہہ چکی ہوں صبغہ! لیکن سب کچھ میرے کہنے سے نہیں ہو سکتا۔ ان کا اپنا ذہن اور اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔”
”ممی! میں اس سے ملنے کے لیے آنا چاہتی ہوں۔” صبغہ نے ہمیشہ کی طرح اپنا جملہ دہرایا۔
”خدا کے لیے صبغہ! اب تم یہاں پر مت آنا۔ تمہارے باپ کو پتا چل گیا تو وہ تم سب کو بھی گھر سے نکال دے گا۔” منیزہ نے بے اختیار کہا۔
”تو پھر تم لوگ کہاں جاؤ گے … صفدر بھائی اور اس کی بیوی تو پہلے ہی میرے اور امبر کے یہاں رہنے پر خوش نہیں ہیں۔ تم لوگوں کو تو بالکل برداشت نہیں کریں گے۔”
”میں جانتی ہوں ممی … لیکن میرا دل چاہ رہا ہے امبر کو دیکھنے کو … میں اس کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔”
”تمہارے ملنے سے کیا ہو جائے گا؟”
”ہو سکتا ہے وہ کچھ بہتر ہو جائے میں اس کو سمجھاؤں گی۔”
”میں نے اس کو نہیں سمجھایا … ؟” منیزہ نے کہا۔ ”بہت سمجھایا ہے۔ بتایا ہے کہ میں نے بھی تو اس عمر میں طلاق کو برداشت کر لیا ہے۔ وہ تو پھر ابھی نوجوان ہے ساری زندگی پڑی ہے اس کے سامنے … بہت سمجھاتی رہی ہوں اسے۔ مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔”
”ممی! میں اسے ایک بار دیکھنا چاہتی ہوں … پلیز…”
”صبغہ! میں کوئی نئی مصیبت مول نہیں لینا چاہتی۔”
”پلیز ممی! میں پاپا سے چھپ کر آؤں گی۔”




”کیسے چھپ کر آؤ گی۔ اب تو تم کالج بھی نہیں جا رہیں۔ پھر گھر سے کیسے نکلو گی۔”
”میں کوئی نہ کوئی بہانا تلاش کر لوں گی۔”
”تمہارے باپ کو پتا چل گیا تو … ؟” منیزہ نے ایک بار پھر اسے تنبیہہ کرنے کی کوشش کی۔
”ان کو پتا چل گیا تو بھی کچھ فرق نہیں پڑے گا … زیادہ سے زیادہ گھر سے نکال دیں گے … وہ تو کبھی نہ کبھی انہوں نے نکال ہی دینا ہے۔” صبغہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”یہ سب کچھ طلحہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اتنی خود غرضی … اتنی بے حسی … اتنا لالچ …” منیزہ نے نفرت بھرے انداز میں کہا۔ ”فیکٹری اتنی اہم تھی اس کے لیے … کہ اس نے فیکٹری نہ ملنے پر اس طرح کا قدم اٹھا لیا۔تم دیکھ لینا صبغہ! اسامہ بھی یہی سب کرے گا۔ وہ بھی اسی کا بھائی ہے۔ اسی ماں باپ کی اولاد ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کچھ بھلائی کر جائے …”
”مجھے پروا نہیں ہے ممی کہ وہ کیا کرتا ہے اور کیا نہیں … وہ مجھے طلاق بھی دیتا ہے تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔” صبغہ نے کہا۔ ”مجھے امبر کی طرح کوئی شاک نہیں لگے گا۔”
”اس کو اگر تم سے واقعی ہمدردی ہوتی تو …” منیزہ اس کی بات پر دھیان دیے بغیر کہتی گئیں ”تو یہ کبھی امبر کو طلاق نہ ہونے دیتا۔ طلحہ کو سمجھاتا۔ لیکن اس نے بھی دوسروں کی طرح صرف ہمارا تماشا ہی دیکھا۔” منیزہ غرا رہی تھیں۔
”جب ہم تماشا بن گئے ہیں ممی تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کون ہمارا تماشا دیکھ رہا ہے۔ اور کون نہیں۔ کس کو دیکھنا چاہیے اور کس کو نہیں۔”اس نے اس بار قدرے تحمل سے منیزہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”یہ سب کچھ تمہارے باپ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔” منیزہ کو اب منصور علی یاد آ گیا۔ ”تم نے دیکھ لیا کتنا سنگ دل باپ ہے تمہارا … اولاد کو تباہ کر دیا اس نے ۔ اپنی بیٹی کا گھر اپنے ہاتھوں سے اجاڑ دیا۔”
”ممی اب یہ سب کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے … پاپا کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ ان کے کس قدم سے کیا ہوتا ہے … یا کیا ہو چکا ہے … ہم آخر کب تک ان کو بے کار میں کوستے رہیں گے۔” صبغہ نے … موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”میں کل آپ کے پاس آؤں گی۔ نہیں آ سکی تو پھر آپ پرسوں میرا انتظار کریں۔” اس نے تھکے ہوئے انداز میں کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔
امبر کی طلاق کی خبر اس کے لیے بھی ایک شاک کی طرح تھی۔ طلحہ اور اس کے گھر والے فیصلہ کرنے میں اتنی جلدی کریں گے اس کا اس کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ اسامہ نے اسے فون کر کے معذرت کی تھی۔ اس کے نزدیک وہ معذرت بے معنی تھی۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس سارے معاملے میں اسامہ بھی بے بس تھا۔ وہ بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ جو کر سکتا تھا وہ کر رہا تھا۔
منصور علی کو بھی امبر کی طلاق کے بارے میں پتا چل گیا تھا۔ مگر ان پر اس خبر نے رتی برابر اثر نہیں کیا۔ ان کے دل میں کوئی ملال پیدا ہوا نہ ہی پچھتاوا … اور پچھلے کئی ماہ میں پہلی بار صبغہ نے صحیح معنوں میں ان کے لئے نفرت محسوس کی۔ بے تحاشا نفرت …
رخشی ماں بننے والی تھی ۔ یہ اب گھر میں کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا تھا اور منصور علی جس طرح اس کے ناز نخرے اٹھا رہے تھے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ مگر منصور علی کے انداز واطوار سے لگتا تھا جیسے رخشی ان کی پہلی بیوی اور اس سے ہونے والی اولاد ان کی پہلی اولاد تھی۔ اور جوان کی پہلی اور چہیتی اولاد تھی انہوں نے کس آسانی سے اس کی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ اسے یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں تھا کہ یہ سب کچھ منصور علی نے جان بوجھ کر کیا تھا۔ وہ اپنے فیصلے کے مضمرات سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ طلحہ کو فیکٹری سے الگ کر دینے کا نتیجہ کیا ہو سکتا تھا اس کے باوجود انہوں نے یہ سب کچھ کیا۔ اس نے پوری زندگی باپ کو امبر کے ناز اٹھاتے دیکھا تھا۔ امبر دن کو رات کہتی تو منصور علی کے لیے وہ رات ہی ہوتی۔ اس کے منہ سے نکلنے والی فرمائش کو پورا کرنا منصور علی کے لیے جیسے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا تھا۔ اس نے کبھی منصور علی کی زندگی میں امبر کی اس حیثیت و اہمیت کو چیلنج کیا نہ ہی ناپسند … اس نے اسے خاموشی سے تسلیم کر لیا تھا۔ منصور علی کو اس کے ساتھ یا روشان کے علاوہ باقی دونوں بیٹیوں کے ساتھ اس طرح کا انس نہیں تھا جس طرح کا انس انہیں امبر یا بعد میں روشان کے ساتھ تھا مگر امبر کے ساتھ ہونے والے اس امتیازی سلوک نے کبھی صبغہ کو پریشان نہیں کیا ۔ اس نے اسے بڑی خندہ پیشانی اور کھلے دل کے ساتھ قبول کر لیا تھا۔ لیکن اب وہ جو کچھ امبر کے ساتھ ہوتا دیکھ رہی تھی وہ اس کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ چوبیس گھنٹے امبر کے نام کی تسبیح پڑھنے والے منصور علی کبھی اس کا نام بھی اپنی زبان پر لانا گوارا نہیں کریں گے۔
مگر جو کچھ ہو رہا تھا۔ وہ حقیقت تھی اور جو کچھ ہو رہا تھا وہ اس کے سامنے ہو رہا تھا۔ وہ زندگی کے کچھ نئے پہلوؤں سے روشناس ہو رہی تھی۔ اور یہ سب کچھ اسے اس کا اپنا باپ سکھا رہا تھا۔ اس نے اپنی اٹھارہ انیس سالہ زندگی میں کبھی اتنے کم عرصہ میں منصور علی سے اتنا زیادہ کچھ نہیں سیکھا تھا جتنا اس نے اب سیکھا تھا … ہر سبق میں تلخی تھی … اور ہر سبق دائمی تھا۔ ماں باپ سے سیکھے جانے والے اسباق سے زیادہ اثر پذیر اور کچھ نہیں ہوتا … یہ علم تو ذہن میں نہیں’ کہیں اور محفوظ ہوتا چلا جاتا ہے … اس نے امبر کی طرح ساری زندگی اپنے باپ کو آئیڈیلائز کیا تھا۔ اس کا خیال تھا اس کے باپ سے بہتر شخص کوئی نہیں تھا۔ اور پھر اس نے اپنے اس آئیڈیل کی دھجیاں اڑتے ہوئے دیکھی تھیں۔ منصور علی اس کا باپ نہیں رہا تھا۔ صرف ایک مردہ رہ گیا تھا جس کے نزدیک اپنی خوشی اپنی خواہشات کے علاوہ دوسری کسی چیز کی اہمیت نہیں تھی۔ جو اپنی خوشی کے لیے کبھی بھی کسی کو بھی قربان کر سکتا تھا۔ اپنے رشتوں کو بھی’ اپنے گھر کو بھی ‘ اپنی اولاد کو بھی … اور اس نے قربان کر دیا تھا۔ کم از کم اس معاملے میں منصور علی کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا تھا۔
٭٭٭
وہ اگلے دن کے بجائے دو دن کے بعد دوپہر کو گھر سے نکلی تھی۔ ڈرائیور کو فورٹریس کے باہر اتار دینے کے لیے کہہ کر اس نے واپسی پر خود ہی آ جانے کا بتایا۔ ڈرائیور جب اسے فورٹریس چھوڑ کر چلا گیا تو وہ وہاں سے رکشہ لے کر صفدر انکل کے گھر آ گئی۔
لاؤنج میں صفدر کی بیوی نے اس کا استقبال کیا۔ ”تم کیسے آ گئیں … باپ نے اجازت دے دی … ؟” رسمی علیک سلیک کے بعد انہوں نے چھوٹتے ہی صبغہ سے پوچھا۔ ان کے چہرے پر ناگواری نمایاں تھی۔
”نہیں میں چھپ کر آئی ہوں۔”
”کیوں …؟ ایسی بھی کیا بات ہے۔ فون پر گفتگو تو ہوتی رہتی ہے تمہاری اپنی ماں اور بہن سے۔”
”میں امبر کو دیکھنے آئی ہوں۔ اس کی طبیعت خراب ہے۔”
”خیر’ اب اتنی بھی خراب نہیں ہے کہ لوگ تیمارداری کے لیے آنا شروع ہو جائیں۔ اور خاص طور پر تم لوگ … تمہارے باپ کو پتا چلے گا تو مسائل تمہارے لیے نہیں ہمارے لیے بڑھیں گے۔”
صبغہ خاموشی سے ان کی باتیں سنتی رہی۔
”میں تو سمجھتی تھی کہ تم خاصی سمجھ دار ہو۔ لیکن تم بھی اپنی ماں اور بہن کی طرح بے وقوف ہی ہو۔ میری باتیں تمہیں کڑوی تو ضرور لگ رہی ہوں گی’ لیکن بھئی مجھے تو صاف بات کہنے کی عادت ہے …
خود سوچو … اگر تمہارے باپ نے تمہیں اور دوسرے باقی بہن بھائیوں کو بھی نکال دیا تو کیا ہو گا … اب میں یا صفدر ہر ایک کو تو نہیں رکھ سکتے۔ تمہیں اس بات کو سمجھنا چاہیے۔”
”پاپا کو پتا نہیں چلے گا آنٹی … میں جھوٹ بول دوں گی۔ آپ فکر نہ کریں …” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”خیر …” صفدر کی بیوی نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”کچھ کھانے پینے کے لیے منگواؤں…؟” ان کے لہجے میں اچانک تبدیلی آئی۔
”نہیں … میں گھر سے کھانا کھا کر نکلی تھی۔” صبغہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
صفدر کی بیوی نے بھی جواباً بڑی معنی خیز اور گرم جوش مسکراہٹ پاس کی۔
”اور سناؤ کیا حال ہے تمہارے باپ کی نئی بیوی کا؟” صبغہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ صفدر کی بیوی کے لہجے کی تبدیلی کی وجہ سامنے آ گئی تھی۔
وہ چپ رہی۔ ہر سوال قابل جواب نہیں ہوتا یا پھر بعض سوال صرف لاجواب کرنے کے لیے پوچھے جاتے ہیں … وہ بھی ایک ایسا ہی سوال تھا۔ اور وہ لاجواب ہو گئی تھی۔
”تم لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک ہے اس کا ؟”
”آنٹی! ہمارا ان کے ساتھ زیادہ آمنا سامنا نہیں ہوتا۔ ممی کہاں ہیں؟” اس نے جواب دیتے ہی منیزہ کے بارے میں پوچھا۔
”کیوں بھئی … سامنا کیوں نہیں ہوتا۔” صفدر کی بیوی نے اسے بات بدلنے نہیں دی۔ ”ایک ہی گھر میں رہتے ہو اور سامنا نہیں ہوتا۔”
”ہم لوگوں کی آپس میں بات چیت نہیں ہوتی۔” اس نے بڑے تحمل سے کہا۔
”وہ نہیں بلاتی یا تم لوگ بات نہیں کرتے؟” صفدر کی بیوی کا تجسس عروج پر تھا۔
”دونوں ہی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔”
وہ ہنس دیں’ ”ہاں اچھا ہی ہے۔ خوامخواہ تو تو میں میں کرنے کا کیا فائدہ’ اب جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ ہمیں تو ویسے اندازہ نہیں تھا کہ تمہارا باپ اتنا عاشق مزاج آدمی ہے۔ ہم تو ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ بڑا اچھا بڑا سیدھا آدمی ہے۔ لیکن بس ‘ اب اصلیت کسی کے چہرے پر تو نہیں لکھی ہوتی۔” وہ اب اس کو ہمدردی کے چابک مار رہی تھیں۔
”میں ممی سے مل لوں۔” صبغہ یک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔” مجھے جلدی واپس جانا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے آئی ہوں۔”
”ہاں اندر دیکھو’ گیسٹ روم میں ہوں گی دونوں۔”
اس بار صفدر کی بیوی نے اس کے سوال کے جواب کو گول نہیں کیا تھا۔ انہیں صبغہ سے جو کچھ کہنا’ جو کچھ سنانا تھا۔ وہ جتا چکی تھیں۔ اب وہ جانے کے لیے آزاد تھی۔
٭٭٭
اور اسے دیکھنے پر اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔ امبر منصور علی اپنی آنکھوں کی جس چمک سے ہر ایک کو خیرہ کر دیتی تھی۔ وہ چمک غائب ہو گئی تھی’ اس کی آنکھوں میں جیسے جنگل اگ آیا تھا۔ چہرے کی سفید گلابی رنگت زرد ہو چکی تھی۔ اور اس زردی میں موجود آنکھوں کے گہرے سیاہ حلقے اس کے اندر کے انتشار کو جیسے بازار میں لے آئے تھے۔
وہ اسے دیکھ کر اتنی شاکڈ ہوئی تھی کہ بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھی چپ چاپ ڈبڈبائی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ وہ تسلی کے جن لفظوں کو اکٹھا کر کے لائی تھی۔ وہ جیسے بھک سے اڑ گئے تھے۔
امبر خالی الذہنی کے عالم میں اسے اس طرح دیکھ رہی تھی’ جیسے صبغہ کو اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اس کے لیے شناسائی کی کوئی رمق تھی۔ نہ ہی کوئی نمی۔
بہت دیر بعد صبغہ نے ہمت کر کے اس کے گال کو چھوا۔
”کیسی ہو امبر؟” امبر نے جواب نہیں دیا وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔ صبغہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”اب طبیعت کیسی ہے؟” صبغہ نے ایک بار پھر خاموشی توڑنے کی کوشش کی خاموشی نہیں ٹوٹی۔ صبغہ نے اگلا جملہ ڈھونڈنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس کا دماغ خالی تھا۔ وہ اس سے کیا کہہ سکتی تھی۔
منیزہ کھانے کی ٹرے لے کر اندر آ گئی۔ صبغہ نے کھانے کی ٹرے اس سے لے کر بیڈ پر رکھ دی۔ منیزہ کچھ دور ایک کرسی پر بیٹھ گئیں۔
”چلو کھانا کھالو۔” صبغہ نے اسے بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے کہا۔
”جو ہو چکا ہے’ وہ ہو چکا … سب کچھ بھول جاؤں۔” منیزہ نے صبغہ کے جملے میں اضافہ کیا۔ امبر اسی طرح صبغہ کو دیکھتی رہی۔ اس نے کھانے کی ٹرے کی طرف ہاتھ بڑھایا نہ ہی منیزہ کے جملے پر کوئی ردعمل ظاہر کیا۔
صبغہ کچھ دیر منتظر نظروں سے اسے دیکھتی رہی’ پھر اس نے چاولوں کی پلیٹ میں سے ایک چمچہ لے کر اس کے منہ کی طرف بڑھایا۔ اسے توقع تھی’ وہ اب بھی کسی ردعمل کا اظہار نہیں کرے گی’ منہ نہیں کھولے گی… ایسا نہیں ہوا۔ امبر نے آہستگی کے ساتھ منہ کھول دیا۔ امبر آہستہ آہستہ چاول کھانے لگی۔ صبغہ نے چاولوں کا ایک اور چمچہ بھر کر اس کی طرف بڑھایا۔ اس بار امبر نے منہ نہیں کھولا۔ اس نے ہاتھ سے چمچہ کو ایک طرف کر دیا اور پھر اس نے صبغہ کی گود میں منہ چھپا لیا۔ وہ اب دھاڑیں مار مار کر بچوں کی طرح رو رہی تھی۔ صبغہ نے اسے چپ کروانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اس کے بالوں میں نرمی سے ہاتھ پھیرتی رہی۔
”Im a total failure” وہ اب روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ”میں دنیا کی بدترین لڑکی ہوں … سب سے بُری۔” اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے صبغہ کا ہاتھ ٹھہر گیا۔ ”میں کسی رشتے میں بھی اچھی نہیں ہوں۔ میرے ساتھ یہی سب کچھ ہونا چاہیے تھا جو ہوا …” وہ رکے بغیر اسی طرح بولتی جا رہی تھی۔ ”میں یہ سب ڈیزرو کرتی تھی … میں نے سب کچھ تباہ کر دیا … میں نے سب کچھ خراب کیا … میں نہ ہوتی تو یہ سب کچھ نہیں ہوا ہوتا۔”
”تم نے کچھ نہیں کیا امبر! یہ سب کچھ اسی طرح ہونا تھا۔ کچھ بھی تمہاری وجہ سے نہیں ہوا۔” صبغہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ امبر اس کی بات نہیں سن رہی تھی۔ وہ اسی طرح رو رہی تھی’ اسی طرح بول رہی تھی۔
”وہ کہتا ہے اسے کبھی مجھ سے محبت نہیں تھی۔ یہ مجبوری کا رشتہ تھا۔ وہ کہتا ہے’ اس کے ماں باپ نے مجھے زبردستی اس کے سر پر تھوپ دیا تھا۔”
صبغہ نے اس بار اس کی بات کاٹنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ جانتی تھی’ وہ یہ سب کچھ کس کے بارے میں کہہ رہی ہے۔ ”آئی سویئر وہ ایسا نہیں تھا … وہ … وہ تو کہتا تھا’ وہ میرے بغیر مر جائے گا۔ وہ میرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا … کیا وہ جھوٹ کہتا تھا…؟” صبغہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
”وہ کہتا ہے’ میں آوارہ لڑکی ہوں … میں نے اپنے ماں باپ کا گھر تباہ کر دیا … وہ میرے جیسی لڑکی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا۔ وہ کہتا ہے’ میں اس قابل نہیں ہوں کہ اس کے گھر … اس کے خاندان کا حصہ بنوں۔” وہ اسی طرح رکے بغیر کہتی جا رہی تھی۔ ”وہ کہتا ہے’ مجھ میں اگر ذرہ برابر غیرت ہے تو میں دوبارہ کبھی اس سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کروں گی۔ چاہے میں مروں یا جیوں’ وہ میری شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔”
صبغہ نے نظریں اٹھا کر دور صوفہ پر بیٹھی ہوئی منیزہ کو دیکھا۔ وہ اپنے دوپٹے سے آنسو صاف کر رہی تھیں۔
”وہ کہتا ہے’ میں بھی اپنے باپ کی طرح آوارہ ہوں … اسے میرے جیسی لڑکی کی ضرورت نہیں ہے … میں بدزبان ہوں … میں اکھڑ ہوں … میں خود سر ہوں … میں مغرور ہوں … میں اس قابل نہیں ہوں کہ کسی اچھے آدمی کی بیوی بن سکوں …”
اس نے ہذیانی انداز میں صبغہ کی گود میں منہ چھپائے دونوں ہاتھوں سے اس کی شرٹ کو جکڑا ہوا تھا۔
”میں نے کبھی اس کی عزت نہیں کی۔ وہ کہتا ہے’ میں نے ہمیشہ اسے اپنے باپ کا زرخرید غلام سمجھا ہے۔ میں نے اور میرے خاندان نے کبھی اس کے خاندان کا احترام نہیں کیا’ ہمیشہ مذاق اڑایا ہے … مجھے یقین نہیں آتا … اس نے مجھ سے یہ سب کیسے کہا ہے۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!