تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

امبر دو بجے گھر پہنچی تھی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ایک عجیب سی خاموشی نے اس کا استقبال کیا۔ اس کی کزن نفیسہ لاؤنج میں بیٹھی کوئی میگزین دیکھ رہی تھی۔ امبر کو دیکھ کر اس نے میگزین ٹیبل پر رکھ دیا۔ امبر کو اس کا انداز بہت عجیب لگا۔
”تم کہاں تھیں امبر ؟” اس نے امبر سے پوچھا۔
”میں؟ صبغہ کے کالج گئی ہوئی تھی اس سے ملنے۔”
”پھوپھو کو پتا تھا؟”
”ہاں ‘ ممی کو بتا کر گئی تھی۔ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” امبر نے رک کر اس سے پوچھا۔
”ایسے ہی پھو پھو کے پاس جاؤ وہ …” نفیسہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
امبر کچھ دیر اس کی بات کے مکمل ہونے کا انتظار کرتی رہی پھر تیزی سے منیزہ کے کمرے کی طرف بڑھی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اندر سے باتوں کی آواز آ رہی تھی۔ صفدر اور اس کی بیوی بھی اندر تھے۔ امبر کے اندر داخل ہوتے ہی کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔
”کیا بات ہے؟” امبر بے اختیار نروس ہو گئی۔ منیزہ’ صفدر یا اس کی بیوی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کے چہرے سُتے ہوئے تھے۔ امبر’ منیزہ کی طرف بڑھ گئی۔
”ممی! کیا بات ہے؟ آپ لوگ پریشان کیوں ہیں؟” وہ منیزہ کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی۔ منیزہ چپ چاپ اس دیکھتی رہی۔
”بتائیں ناں کیا بات ہے ؟ کیوں آپ لوگ اس طرح چپ ہیں۔” امبر نے منیزہ کے چہرے کی زردی کو محسوس کیا۔
”اسے بتا دیں’ یوں چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ نے اس کو بتانا تو ہے ہی۔” صفدر کی بیوی نے اس خاموشی کو توڑا۔
امبر نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ ”آپ بتادیں آنٹی! کیا بات ہے ؟”
”طلحہ نے تمہیں طلاق بھجوادی ہے۔” وہ بے یقینی سے صفدر کی بیوی کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اسے یقینا سننے میں کوئی غلطی ہوئی تھی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو وہ صبغہ سے بات کر رہی تھی۔ اتنی جلدی ایسا کچھ کیسے ہو سکتا تھا۔ اس نے گردن موڑ کر منیزہ کو دیکھا۔
”ایک گھنٹہ پہلے رجسٹری آئی ہے۔” منیزہ کی آواز جیسے کسی کھائی سے آئی تھی۔
”نہیں’ کوئی … کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ہو سکتا ہے کسی اور کی رجسٹری ہو۔ میں … ممی’ طلحہ ۔ آپ وہ … نہیں میرے ساتھ تو وہ یہ نہیں کر سکتا۔”
اس نے بے بسی اور بے یقینی سے باری باری صفدر اور منیزہ کو دیکھا صفدر اٹھ کر باہر نکل گئے۔ ان کی بیوی نے ان کی پیروی کی۔
٭٭٭




”منصور علی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے؟” ناشتے کی ٹیبل پر چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے ایک لحظہ کے لیے ہارون کمال کا ہاتھ شائستہ کے اس سوال پر رکا۔
”ہاں’ بہت پرانی بات ہے۔ کئی ماہ گزر گئے اس بات کو۔” ہارون نے لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔
”تم نے مجھے نہیں بتایا۔”
”یہ کوئی اہم بات نہیں تھی کہ تمہیں بتائی جاتی۔ شہر میں روزانہ ایسی کئی طلاقیں ہوتی ہیں۔”
”میں شہر میں ہونے والی طلاقوں کی بات نہیں کر رہی۔ تمہارے بزنس پارٹنر کی بات کر رہی ہوں۔” شائستہ نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”اب بزنس پارٹنر ہے تو ضروری نہیں کہ ہم اس کے ذاتی معاملات میں بھی دلچسپی لیتے پھریں۔”
”طلاق کیوں ہوئی؟” شائستہ نے جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے ہارون کمال کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”فارگاڈسیک شائستہ! مجھے کیا پتہ کہ کیوں ہوئی۔ یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔”
تمہاری اس بارے میں اس سے بات تو ہوئی ہو گی۔”
”نہیں’ میری کوئی بات نہیں ہوئی۔”
”میں یقین نہیں کر سکتی پھر تمہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔” شائستہ نے گردن کو جھٹکتے ہوئے کہا۔
”تمہاری اس بارے میں منصور سے بات ہوئی؟”
”میری کیسے بات ہو سکتی ہے؟”
”تو پھر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ منصور نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے؟” ہارون کمال نے ترکی بہ ترکی کہا’ شائستہ نے ایک ابرواُچکا کر اسے دیکھا پھر مسکرائی۔
”میرے کچھ ذرائع ہیں جو مجھے ہر بات کی خبر دیتے رہتے ہیں۔”
”میرے بھی کچھ ذرائع ہیں جو مجھے باخبر رکھتے ہیں۔”
”منیزہ اچھی عورت تھی۔” شائستہ نے موضوع بدلا۔”
”ہوگی’ اس کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ تو منصور ہی کر سکتا تھا۔”
”میں نے یہ بھی سنا ہے کہ منصور نے اپنی سیکرٹری کے ساتھ دوسری شادی کر لی ہے۔”
”ہاں’ وہ دوسری شادی کر چکا ہے۔”
”کیسا آدمی ہے یہ منصور؟” شائستہ نے یک دم پوچھا۔
”یہ کیا سوال ہے؟”
”بہت آسان سوال ہے۔ تمہاری رائے پوچھ رہی ہوں اس کے بارے میں۔”
”اچھا آدمی ہے بلکہ بہت اچھا آدمی ہے۔ تمہیں یاد نہیں جب پہلی بار تم اس سے ملی تھیں تو تمہیں بھی وہ اچھا لگا تھا”۔ ہارون نے اسے یاد دلایا۔
”ہاں مگر اب میری رائے تبدیل ہو گئی ہے۔” شائستہ نے جوس کا گلاس دوبارہ اٹھایا۔
ہارون نے قہقہہ لگایا۔ ”کم آن’ صرف اس کی شادی کی وجہ سے؟”
”صرف شادی کی وجہ سے نہیں’ اپنی سیکرٹری سے شادی کی وجہ سے۔”
”کیا مطلب؟”
”میں اسے جتنا سمجھ دار سمجھتی تھی’ وہ اتنا سمجھ دار یا دور اندیش نہیں ہے۔”
”یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو۔”
”اس عمر میں بیوی کو طلاق دے کر سیکرٹری سے شادی کرنے والے آدمی کی بے وقوفی کے بارے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔”
”منصور کو اس سے محبت ہو گئی تھی۔” ہارون نے جیسے وضاحت دی۔
”اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ اس آدمی کے بارے میں میری رائے تبدیل ہو گئی ہے۔ زیادہ قابل اعتماد نہیں رہا۔”
”دوسری شادی یا سیکرٹری سے دوسری شادی کوئی عجیب یا انوکھی بات نہیں ہے۔ ہم ڈھیروں ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو تمہارے بقول یہ حماقت تو کر چکے ہیں۔”
”ان میں سے کوئی بھی تمہارا بزنس پارٹنر نہیں رہا’ اگر بزنس پارٹنر ایسی حرکت کرے تو سوچنا پڑتا ہے اس کے بارے میں بھی اور اس کے ساتھ اپنے بزنس کے بارے میں بھی۔”
”میں فی الحال ایسی کوئی سوچ نہیں رکھتا۔ شادی منصور کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کا بزنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
”میری خواہش ہے کہ ایسا ہی رہے اور اس کی ذاتی زندگی تم دونوں کے بزنس پر اثر انداز نہ ہونا شروع ہو جائے۔”
”میں تمہیں رخشی سے ملواؤں گا۔”
”رخشی کون ؟”
”منصور کی دوسری بیوی۔”
”یوں کہو کہ نئی بیوی اور پرانی سیکرٹری۔” شائستہ نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ہارون کمال جُزبُز ہوا۔
”چلو ملوا دینا’ اسے بھی دیکھ لیتے ہیں۔” شائستہ نے کہا۔
”اور منصور کے بچے کہاں ہیں۔ اس کے پاس ہیں؟ یا بیوی کے پاس ہیں؟”
”اس کے اپنے پاس ہیں۔”
”امبر بھی ؟” ہارون کمال کو شائستہ کا لہجہ یک دم چونکا گیا۔ چائے کے کپ پر نظر مرکوز رکھتے ہوئے اس نے بظاہر بے نیازی دکھائی۔
”ظاہر ہے ‘ باقی بچے اس کے پاس ہیں تو وہ بھی اس کے پاس ہو گی۔”
”میں نے سنا ہے کہ وہ منیزہ کے پاس ہے۔”
”ہو گی’ میں کیا کہہ سکتاہوں۔ تمہیں بتایا ناں اس سلسلے میں میری منصور سے کوئی بات نہیں ہوئی۔”
”امبر کیسی لڑکی ہے؟” ہارون اب مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”تمہارے سوال آج کچھ عجیب سے نہیں ہیں؟”
”میرے سوال ؟ کیا بات عجیب ہے ان میں؟”
”تم جانتی ہو’ مجھے دوسروں کی ذاتی زندگیوں میں کبھی بھی دلچسپی نہیں رہی۔”
”دوسروں کی ذاتی زندگی کہاں سے آ گئی ہے یہاں۔ میں تو امبر کے بارے میں تمہاری رائے جاننا چاہ رہی ہوں۔”
”منصور علی کی بیٹی کے بارے میں میری رائے کیا ہو سکتی ہے۔ میں تو بہت عرصے سے اس سے ملا تک نہیں۔”
”نہ ملنے کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ انسان کس شخص کے بارے میں رائے بھی نہ رکھے۔”
”تمہیں آخر اس کے بارے میں میری رائے کی اتنی فکر کیوں ہونے لگی ہے؟”
”میں نے سنا ہے’ اسے بھی طلاق ہو گئی ہے۔”
شائستہ کے ذرائع اطلاعات جو بھی تھے’ بے حد طاقتور تھے۔ ہارون کمال نے اعتراف کیا۔ ”تو؟”
”تو یہ کہ مجھے وہ اچھی لگتی تھی۔”
شائستہ کے تبصرے پر وہ الجھا۔ ”کیا مطلب؟”
”مجھے وہ تب ہی بہت اچھی لگی تھی جب میں پہلی بار اس سے ملی تھی۔” شائستہ نے جوس کا گلاس دوبارہ اٹھا لیا۔ ”اس کے بارے میں یہ جذبات صرف میرے نہیں تھے۔”
ہارون کو لگا وہ کہہ دے گی بلکہ تمہارے بھی تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے جوس پیتی رہی پھر اس نے گلاس نیچے رکھ دیا۔”
”اسد کو بھی بہت اچھی لگی تھی وہ۔”
”اسد کو؟”
”ہاں۔” شائستہ نے اطمینان سے کہا۔ ”اس نے تب ہی اس کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا تھا مگر مجھے پتہ چلا کہ اس کا نکاح ہو چکا ہے۔”
”کیا مطلب ہے تمہاری ان ساری باتوں کا ؟” ہارون کمال نے جیسے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”مطلب تو صاف واضح ہے۔ اسد شادی کرنا چاہتا تھا اس سے ؟”
”واٹ ؟” چائے کا کپ ہارون کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا۔
”اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے۔ امبر جتنی خوب صورت لڑکی ہے’ ایسی لڑکی کو پسند کرنا کوئی انوکھی بات تو نہیں۔”
”اسد ابھی پڑھ رہا ہے۔”
”جانتی ہوں’ لیکن وہ کوئی چھوٹا بچہ بھی نہیں ہے کہ اس کی شادی پر اتنی حیرانی ہو تمہیں۔”
ہارون کمال کچھ دیر کچھ بھی کہے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
”اسد نے ہی مجھے امبر کی طلاق کے بارے میں بتایا تھا۔” شائستہ نے اسے خاموش دیکھ کر بتایا۔ وہ چاہتا ہے کہ اب ہم لوگ اسے پرپوز کریں۔ میں نے سوچا’ پہلے میں تم سے بات کر لوں۔”
”اسد کتنی بار مل چکا ہے اس سے؟”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!