”مجھے تمہاری باتوں پر کوئی غصہ نہیں آئے گا۔ تم جس ماں کی اولاد ہو’ اس سے اسی طرح کی گھٹیا باتوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔” رخشی نے اسی طرح کہا۔
”میں صرف اس ماں کی اولاد نہیں ہوں۔ اس باپ کی ہی اولاد ہوں جس کی تم بیوی بنی بیٹھی ہو۔”
ایک لمحہ کے لیے رخشی کچھ نہیں بول سکی۔ صبغہ نے مزید کچھ کہے بغیر فون کا ریسیور رکھ دیا۔
”تمہاری ماں اپنی اس زبان کی وجہ سے جس حال کو پہنچی ہے’ میں نہیں چاہتی کہ تمہارا بھی وہی حال ہو۔”
”اور تم اپنے کردار کی وجہ سے جہاں پہنچوگی۔ میں چاہتی ہوں تم وہیں پہنچو۔”
فون کی بیل ایک بار پھر بجنے لگی۔ صبغہ نے اس بار ریسیور’ سیٹ سمیت اٹھا لیا اور پاس پڑے دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ وہ اب رخشی کی موجودگی کو مکمل طور پر نظر انداز کر چکی تھی۔ دوسری طرف اسامہ ہی تھا۔ رسمی سلام دعا تک رخشی بیٹھی اسے گھورتی رہی پھر تیزی سے وہاں سے اٹھ کر پاؤں پٹختے ہوئے چلی گئی۔
”شکر ہے تم نے فون اٹھا لیا۔” اسامہ نے بے چینی سے کہا۔
”رخشی تھی یہاں پر … وہ اٹھانے نہیں دے رہی تھی۔” صبغہ نے کہا۔
”میں جانتا ہوں’ بات ہوئی ہے اس سے میری۔”
”میں حیران ہوں کہ آج اسے کیا اعتراض ہونے لگا ہے۔ میں تو اس سے پہلے بھی اس کے سامنے آپ سے بات کرتی رہی ہوں۔” صبغہ نے کہا۔
”تمہارے پاس بیٹھی ہوئی ہے؟”
”نہیں’ کچھ دیر پہلے تھی۔ اب چلی گئی ہے۔”
”میں جانتا ہوں’ اب اسے میرے فون کرنے سے کیوں تکلیف ہونے لگی ہے۔” اسامہ نے تنفر آمیز انداز میں کہا۔ صبغہ نے جواباً کچھ نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے اس کی بات سنتی رہی۔
”تم جانتی ہو منصور چچا نے کیا کیا ہے۔” صبغہ کا دل بے اختیار کانپا۔ ”کیا اب کچھ اور بھی رہ گیا تھا ہونے کو۔
”کیا کیا ہے؟”
”انہوں نے فیکٹری سے ہم لوگوں کو الگ کر دیا ہے۔”
”ہم لوگوں کو ؟” صبغہ نے بمشکل کہا۔
”مجھے’ طلحہ اور پاپا کو۔”
”یہ سب کب ہوا ہے؟” صبغہ کا دل بیٹھنے لگا۔
”آج …” صبغہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے’ کیا کہے۔
”کیوں…؟” اس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔
”کیونکہ ان کا خیال ہے کہ وہ اب اپنی فیکٹری کو اکیلے سنبھال سکتے ہیں انہیں ہماری ضرورت نہیں ہے۔”
”اس طرح کیسے کر سکتے ہیں پاپا۔” صبغہ نے بے اختیار کہا۔ ”آپ لوگوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش نہیں کی؟”
”منصور چچا سمجھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔”
”انکل مسعود انہیں سمجھا سکتے تھے۔”
”منصور چچا میرے پاپا کو کیا سمجھتے ہیں… کچھ بھی نہیں۔”
”وہ ان کے بڑے بھائی ہیں۔ پاپا ان کی عزت کرتے ہیں۔”
”تمہارے پاپا عزت یا احترام نام کے کسی لفظ سے واقف نہیں ہیں۔”
”مگر مسعود انکل …”
اسامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”صبغہ! جو آدمی اپنے بیوی بچوں کی پروا نہیں کرتا اس کے نزدیک بڑے بھائی کی کیا حیثیت ہے۔”
”اب کیا ہو گا؟ آپ لوگ کیا کریں گے؟”
اسامہ نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”پاپا اور ممی بہت ناراض ہیں۔”
”میں سمجھ سکتی ہوں۔ ان کی جگہ کوئی بھی ہوتا’ وہ ناراض ہوتا۔” صبغہ نے کہا۔
”لیکن وہ …” اسامہ کہتے کہتے رکا پھر اس نے بمشکل کہا۔ ”پاپا اور ممی ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم تم دونوں کو طلاق دے دیں۔”
صبغہ کے سر پر جیسے آسمان گر پڑا تھا۔ ”طلاق …!”
”لیکن میں ایسا نہیں کروں گا … میں نے پاپا کو بتا دیا ہے۔”اسامہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”اور طلحہ بھائی وہ … ؟”
”طلحہ ‘ امبر کو طلاق دینے پر تیار ہو گیا ہے۔”
”کیوں… ؟ اس میں امبر کا کوئی قصور نہیں ہے۔ طلحہ بھائی یہ کیسے کر سکتے ہیں۔” صبغہ بے اختیار چلائی۔
”میں نہیں جانتا کہ وہ یہ کیسے کر سکتا ہے۔ لیکن وہ یہ کرنا چاہتا ہے۔”
”صرف فیکٹری سے الگ کرنے کی وجہ سے طلحہ بھائی’ امبر کو چھوڑ دیں گے؟”
”صبغہ! طلحہ اور پاپا کے لیے فیکٹری سے علیحدگی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ انہوں نے پچھلے دس سال اس فیکٹری پر لگا دئیے اور اب منصور چچا نے یک دم ٹشو پیپر کی طرح ہم سب کو اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے۔”
”لیکن اس میں میرا یا امبر کا کیا قصور ہے؟”
”یہ میں کہہ چکا ہوں ان سے …”
”پاپا! یہ سب کچھ ہماری وجہ سے تو نہیں کر رہے۔ ہم نے تو انہیں یہ سب کچھ کرنے کے لیے نہیں کہا۔ پھر انکل اور آنٹی ہم سے کیوں ناراض ہیں۔”
”تم دونوں منصور چچا کی اولاد ہو۔”
”آپ جانتے ہیں’ پاپا کو اب ہماری ذرہ برابر بھی پروا نہیں رہی۔”
”اس کے باوجود تم دونوں ان کی اولاد ہو۔ اور پاپا اور ممی کی ناراضی کے لیے اتنا کافی ہے۔”
”آپ انہیں سمجھا سکتے ہیں۔”
”میں نے انہیں بہت سمجھایا ہے۔” اسامہ نے کہا۔ ”وہ الٹا مجھ سے ناراض ہو رہے ہیں۔”
”آپ انہیں نہیں تو طلحہ بھائی کو تو سمجھا سکتے ہیں۔”
”طلحہ کو سمجھانا اور بھی مشکل ہے۔ وہ تو مجھ سے کہہ رہا ہے کہ میں بھی تمہیں طلاق دے دوں۔”
صبغہ کچھ بول نہیں سکی۔ اس کی آنکھوں سے اب آنسو بہہ رہے تھے۔ یہ اچھا ہی تھا کہ رخشی اس کے پاس نہیں تھی ورنہ پتہ نہیں اس وقت کیا صورت حال ہو جاتی۔
”میں نے تمہیں اس لیے فون کیا ہے کہ تم منصور چچا سے ایک بار بات کرو۔” اسامہ کہہ رہا تھا۔ ”انہیں بتاؤ کہ ان کے اس فیصلے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے جو بات انہیں ہم نہیں سمجھا سکے وہ تم سمجھا دو۔”
”میں … میں ان سے کیا کہوں گی۔” اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ”پاپا بچے تو نہیں ہیں کہ انہیں اپنے اس فیصلے کے نتائج کا پتا ہی نہ ہو۔ لیکن وہ شاید خود ہی یہ چاہتے ہیں۔ ممی کی زندگی تباہ کرنے کے بعد وہ ہمیں بھی تباہ کر دینا چاہتے ہیں۔”
”رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے صبغہ!” اسامہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔ ”میں تمہارے ساتھ ہوں۔ جو بھی ہو جائے کم از کم میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔”
”مگر امبر … امبر کو تو طلحہ بھائی طلاق دے دیں گے…”
”میں ان دونوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں طلحہ کو پھر سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ لیکن مجھے اپنی کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے۔”
”پاپا نے تو ہمارا نہیں سوچا۔ کم از کم آپ لوگوں کو تو ہمارا سوچنا چاہیے۔ آپ لوگوں کے ساتھ تو ہمارا خونی رشتہ ہے۔ انکل یہ کیوں نہیں سوچ رہے۔” صبغہ اب التجائیہ لہجے میں کہہ رہی تھی۔ ”امبر تو طلحہ بھائی کے بغیر مر جائے گی۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے’ وہ ان سے کتنی محبت کرتی ہے۔ آپ لوگ امبر کو کیوں سزا دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ امبر نے تو نہیں کروایا۔”
”صبغہ! میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ یہ سب اپنے گھر والوں سے کہہ چکا ہوں … کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن میں تمہارے لیے ایک بار پھر انہیں سمجھانے کی کوشش کروں گا۔” اسامہ نے اسے بھرپور تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”تم بھی منصور چچا کو سمجھانے کی کوشش کرو۔ سب کو نہیں رکھتے تو کم از کم پاپا کو ساتھ رکھ لیں۔ یا پھر طلحہ کو’ ہو سکتا ہے’ اسی سے پاپا اور ممی کا غصہ کم ہو جائے۔”
”میں آج پاپا سے بات کروں گی’ لیکن پلیز’ آپ بھی انکل سے بات کریں۔ اور طلحہ بھائی سے بھی۔ ”اس نے ایک بار پھر اسامہ کو تاکید کی۔
اسامہ کے فون بند کرنے کے بہت دیر بعد تک بھی وہ وہیں صوفہ پر بیٹھی دونوں ہاتھوں میں اپنا سر پکڑے اسامہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں بے یقینی سے سوچتی رہی۔ ”کیا پاپا اس حد تک خود غرض ہو سکتے ہیں کہ وہ اس طرح ہم دونوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کریں۔” یہ جاننے کے باوجود کہ ایسا ہو چکا تھا۔ وہ مسلسل ایک بات کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔
”اور مسعود انکل… کیا انہیں اندازہ نہیں ہے کہ ان کے اس قدم سے ہم لوگوں کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وہ تو ہمیشہ ہم سے بے تحاشا محبت جتاتے رہے ہیں۔” وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی۔ اسے اب سمجھ میں آنے لگا تھا کہ رخشی نے اس دن کیوں اس کے اور اسامہ کے بات کرنے پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی۔ یقیناوہ ان تمام فیصلوں سے واقف ہو گی جو منصور کر رہے تھے۔ یا پھر ہو سکتا ہے یہ تمام فیصلے کروانے میں اسی کا کردار ہو۔ اس کے سر میں اب درد ہونے لگا تھا۔ زندگی نے ان لوگوں کے گرد جو جال بننا شروع کیا تھا اس جال کے تار اب ان کے وجود کو پوری طرح جکڑ چکے تھے۔
٭٭٭
منصور علی آٹھ بجے کے قریب فیکٹری سے گھر آئے تھے۔ صبغہ ان کے انتظار میں لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ منصور علی کے کار کے ہارن کی آواز پر رخشی اپنے بیڈ روم سے باہر آ گئی۔ اس نے صبغہ کو لاؤنج میں بیٹھے دیکھا مگر وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے منصور کے استقبال کے لیے لاؤنج کے دروازے سے باہر نکل گئی۔ چند منٹوں کے بعد منصور علی اس کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوئے’ صبغہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ منصور نے ایک نظر اسے دیکھا لیکن پھر اپنی نظر ہٹالی۔
”پاپا ! مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔” صبغہ نے منصور کو مخاطب کیا وہ ٹھٹک گئے۔
”کیا بات کرنی ہے؟” صبغہ نے رخشی کو دیکھا جو منصور کے برابر میں کھڑی تھی۔
”مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔” منصور اس کا اشارہ سمجھ گئے۔
”تمہیں جو بات بھی کرنی ہے’ رخشی کے سامنے کرو۔ یہ کوئی غیر نہیں ہے۔”
”مگر بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔” صبغہ نے احتجاج کیا۔
”میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تمہیں جو بھی بات کرنی ہے’ رخشی کے سامنے کرو ورنہ میں یہاں مزید وقت ضائع نہیں کروں گا۔”
منصور علی نے تُرشی سے کہا۔ رخشی کے چہرے پر ایک سلگانے والی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ صبغہ ایک لمحہ کے لیے چپ کھڑی رہی پھر اس نے کہا۔
”آپ نے مسعود انکل کو فیکٹری سے الگ کر دیا ہے؟”
”ہاں …” منصور نے ایک لحظہ کے توقف کے بغیر کہا۔
”کیوں …؟”
”میری مرضی ‘ وہ میری فیکٹری ہے’ میں جسے چاہوں وہاں رکھوں’ جسے چاہوں نکال دوں۔” منصور علی نے تندی سے کہا۔
”آپ جانتے ہیں کہ مسعود انکل صرف آپ کے بھائی نہیں ہیں۔ ان کے اور ان کے بیٹوں کے ساتھ آپ کا اور بھی رشتہ ہے۔”
”مجھے کسی رشتے کی پروا نہیں ہے۔ مجھے فیکٹری میں ان کی ضرورت تھی’ میں نے انہیں رکھا۔ اب ضرورت نہیں ہے تو میں نے انہیں نکال دیا ہے۔”
”پلیز پاپا! ایسا مت کریں’ آپ جانتے ہیں۔ آپ کے اس فیصلے سے ہم لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ میں اور امبر … آپ نے ہم لوگوں کے بارے میں کیوں نہیں سوچا؟”
”فیکٹری سے ان لوگوں کو نکالنے سے تمہارا یا امبر کا کیا تعلق ہے؟”
”انکل مسعود اپنے بیٹوں کو ہمیں طلاق دینے کے لیے کہہ رہے ہیں۔”