”آپ کو وہاں نہیں جاناچاہیے تھا ممی!” امبر نے تھکے ہوئے اندازمیں کہا۔
”آپ کو یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ سب کچھ کرنے سے کیا حاصل ہوا۔ صرف بے عزتی۔” منیزہ اس کی بات پر بھڑک اٹھیں۔
”بے عزتی۔ بے عزتی تو میں اس کی کرکے آئی ہوں اور ایسی کرکے آئی ہوں کہ وہ ساری عمر یاد رکھے گی۔”
”وہ سب کچھ پاپا کو بتا دے گی۔” امبر نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
”میں منصور سے ڈرتی نہیں ہوں۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ منصور کو سب کچھ بتا دیتی ہے۔ اچھا ہے وہ منصور کو سب کچھ بتائے۔ سب کچھ۔ تاکہ اسے پتا چلے کہ اب میں اس کے ساتھ کیا کرنے والی ہوں۔ منیزہ بولتی جارہی تھیں۔
”اسے پتہ چلنا چاہیے کہ میں اب اسے چین سے جینے نہیں دوں گی۔ نہ اس کو۔ نہ اس کی اس بیوی کو۔”
منیزہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی واپس آئی تھیں اور اب وہ امبر کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ امبر نے رخشی کے گھر جانے سے پہلے بھی منیزہ کو بہت روکنے کی کوشش کی تھی، مگر منیزہ نے اس کی ایک نہیں سنی اور اب اس کی واپسی پر بھی وہ منیزہ کی اس حرکت پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہی تھی۔ جبکہ منیزہ حسبِ معمول اسے جھڑکنے میں مصروف تھیں کہ یہ سب کچھ اس کی وجہ سے ہوا تھا۔
”میں ابھی کچھ دیر میں شکیل بھائی کے پاس جاؤں گی سب کچھ بتا دوں گی انہیں، پھر دیکھنا تم وہ کرتے کیا ہیں تمہارے باپ کے ساتھ۔” منیزہ نے اپنے بھائی کا نام لیتے ہوئے کہا۔
اور تب ہی منیزہ نے منصور علی کی گاڑی کی آواز سنی۔ امبر اور اس کے درمیان نظروں کا تبادلہ ہوا منیزہ کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری۔
”دیکھا کیسے دوڑا چلا آیا ہے اپنی اس چڑیل کی تکلیف پر۔ ورنہ اس وقت گھر آنے کے لیے پہلے کبھی اس کے پاس وقت ہی نہیں رہا۔”
”امبر نے منیزہ کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا اس کے چہرے پر تشویش تھی۔ وہ ماں اور باپ کے درمیان ایک اور جھگڑے کی توقع کر رہی تھی۔ کیونکہ منیزہ جھگڑے کے موڈ میں تھیں اور منصور علی کا اس وقت اس طرح بے وقت آنا ظاہر کر رہا تھا کہ رخشی نے انہیں اس معاملے کی اطلاع دے دی ہوگی۔ اس نے منیزہ اور منصور علی کے درمیان زندگی میں پہلے کبھی جھگڑے ہوتے نہیں دیکھے تھے اور اب جب اچانک اس کے سامنے جھگڑے ہونے لگے تھے تو وہ شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہو رہی تھی اور یہ جھگڑے اب جو نوعیت اختیار کر گئے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ بہت جلد نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو جائے گی۔
منیزہ کی بات کے جواب میں امبر نے کچھ نہیں کہا۔ وہ صرف دھڑکتے دل کے ساتھ منصور علی کے اندر آنے کا انتظار کرتی رہی، اور چند لمحوں میں منصور علی کالاؤنج میں نمودار ہونے والا چہرہ اس کی بدترین خدشات کی تصدیق کر رہا تھا۔ ان کے چہرے اور آنکھوں میں غصے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔
امبر کو توقع تھی کہ وہ آتے ہی چیخنے چلانے لگیں گے مگر ایسا نہیں ہوا تھا وہ اندر آکر صوفے پر بیٹھی ہوئی منیزہ کے بالمقابل کھڑے ہو گئے اور انہوں نے درشت لہجے میں امبر سے کہا۔
”یہاں سے دفع ہو جاؤ۔” امبر حیرانی سے ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ منصور نے اسی سانس میں منیزہ سے کہا۔
”تم اپنا سامان پیک کرو اور یہاں سے نکل جاؤ۔ ابھی اور اسی وقت۔” امبر وہاں سے جاتے جاتے رک گئی۔
”یہ میرا گھر ہے۔ کوئی مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتا۔ سمجھے تم۔”
منیزہ نے بلند آواز میں کہا۔
”تمہارا گھر؟ کیسا گھر؟ کہاں سے لائی تھیں یہ گھر؟ باپ نے دیا تھا؟ بھائیوں نے دیا تھا؟ کس نے دیا تھا؟” منصور علی یک دم چلانے لگے۔
”یہ میرا گھر ہے۔ صرف میرا۔ اور میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم ابھی اور اسی وقت اس گھر سے نکل جاؤ؟”
”میں یہاں سے نکل جاؤں، تاکہ تم اس عورت کو یہاں لا کر عیش کرو۔” منیزہ نے بھی اسی طرح چلاتے ہوئے کہا۔
”وہ عورت میری بیوی ہے۔”
”میں بیوی ہوں تمہاری۔”
”بیوی تھیں اب نہیں ہو۔ میرا وکیل طلاق کے کاغذات تیار کر رہا ہے اور میں تمہیں زبانی طور پر ابھی اور اسی وقت تین بار طلاق دیتا ہوں۔ اب یہاں سے چلی جاؤ۔” منیزہ کا رنگ یک دم سفید ہو گیا جبکہ امبر بے یقینی کے عالم میں مصنور علی کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”سنا نہیں تم نے۔ میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے۔ یہاں سے چلی جاؤ۔’ منصور علی ایک بار پھر بلند آواز میں چلائے۔
”تم۔ تم۔ اس طرح مجھے طلاق کیسے دے سکتے ہو؟” منیزہ کی آواز اور انداز دونوں میں لڑکھڑاہٹ تھی۔
”کیوں نہیں دے سکتا۔ دے چکا ہوں تمہیں میں طلاق۔”
”میں۔ میں اس گھر سے نہیں جاؤں گی۔ کبھی نہیں جاؤں گی۔” منیزہ یک دم ہذیانی انداز میں چلانے لگیں۔
”یہ میرا گھر ہے۔ میرا گھر ہے یہ۔ تمہارے کہنے پر نہیں جاؤں گی میں یہا ںسے۔”
اس بار منصور علی نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے منیزہ کو بازو سے پکڑ لیا اور گھسیٹتے ہوئے انہیں وہاں سے لے جانے لگے۔ امبر یک دم جیسے ہوش میں آگئی۔ منیزہ مزاحمت کر رہی تھیں۔
”پاپا۔ پاپا۔ ممی کو چھوڑ دیں۔ مت نکالیں انہیں گھر سے۔ آپ پاگل ہوگئے ہیں۔” امبر بھاگتی ہوئی ان دونوں کے پیچھے آگئی۔
”ہاں پاگل ہو گیا ہوں۔” منصور بلند آواز میں دھاڑے۔
”پاگل کر دیا ہے تم لوگوں نے مجھے۔” وہ اسے مسلسل باہر کی طرف گھسیٹتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
”اس پاگل پن سے ہی تو چھٹکارا چاہتا ہوں۔”
”یہ گھر ہمارا ہے۔ آپ میری ممی کو یہاں سے نہیں نکال سکتے۔ رخشی کیلیے آپ ہمارے ساتھ یہ سب کر رہے ہیں۔” امبر نے منیزہ کے بازو کو اس سے چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں میں اس کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہوں، کیونکہ وہ میری واحد بیوی ہے۔ تم لوگوں سے میرا ہر رشتہ ختم ہو چکا ہے۔ تمہیں اس عورت سے ہمدردی ہو رہی ہے تو تم بھی اس عورت کے ساتھ یہاں سے نکل جاؤ اور دوبارہ مجھے اپنی شکل دکھانے کی کوشش مت کرنا۔ چلی جاؤ تم بھی اس عورت کے ساتھ۔”
منصور اب اس پر بھی دھاڑ رہے تھے وہ منیزہ کو کھینچتے ہوئے لاؤنج سے باہر پورچ میں لے آئے تھے۔ دن کے اجالے میں گھر کے اندر او رباہر کام کرنے والے ملازمین گم صم یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ منیزہ اب بھی خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھیں، مگر ان کی مزاحمت اب پہلے کی نسبت زیادہ بے سود ہو رہی تھی۔ امبر روتے ہوئے مسلسل منیزہ کے بازو کو منصور علی سے چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر منصور علی کے سامنے اس کی یہ کوشش بھی ناکام ثابت ہو رہی تھی۔
”پلیز۔ پاپا۔ پلیز۔ اس طرح تماشا مت بنائیں ہمارا۔” پلیز وہ روتے ہوئے منصور کی منت سماجت کرنے لگی۔
”تماشا۔ یہ عورت دوسروں کا تماشا بنانے کا فن جانتی ہے تو اسے بھی تو اس تماشے کا ایک حصہ بننا چاہیے یہ کیوں گئی تھی رخشی کے گھر؟ کیوں گئی تھی وہاں؟”
منصور علی اس بات کی پرواہ کیے بغیر چلا رہے تھے کہ اب ان کی آواز باہر کام کرنے والے ملازمین تک بھی پہنچ رہی تھی۔
”کیوں بے عزتی کی اس نے اس کی؟ کیوں گالیاں بکیں اس نے اسے؟”
”پاپا! آپ انہیں معاف کر دیں، ان سے غلطی ہو گئی، وہ دوبارہ وہاں نہیں جائیں گی۔ وہ دوبارہ کبھی ایسا کچھ نہیں کریں گی۔” امبر اب بری طرح رو رہی تھی۔
”آپ کو ہم سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ ممی کو اور ہمیں رہنے دیں، اس گھر میں… اس طرح باہر نہ نکالیں۔”
”میں ہزار بار جاؤں گی اس عورت کے گھر… بار بار اس کی اسی طرح بے عزتی کروں گی… تم کیسے روک لو گے مجھے… اس گھر سے نکال دو گے، تب بھی وہاں جاؤں گی۔”
منیزہ چلائیں۔ منصور نے پوری قوت سے ان کے چہرے پر تھپڑ مارا۔
”تم وہاں جاؤ گی تو میں تمہیں قتل کروا دوں گا۔”
”ساری عمر تمہاری جیل میں گزر جائے گی۔”
”گزر جائے مگر تم سے تو جان چھوٹ جائے گی میری۔”
”پاپا پلیز… پلیز… یہ مت کریں۔” امبر نے روتے ہوئے مداخلت کی۔
”تم اندر چلی جاؤ، میں تمہیں یہاں سے نہیں نکال رہا مگر اس عورت کو میں نہیں رکھوں گا۔”
”میں ممی کو نہیں چھوڑ سکتی۔ میں انہیں نہیں چھوڑ سکتی۔”
”پھر جاؤ ماں کے ساتھ، دھکے کھاؤ، چوکیدار گیٹ کھولو۔” منصور نے زہر آلود انداز میں اس سے کہتے ہوئے چوکیدار سے کہا۔
چوکیدار جو گھبراہٹ کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اس نے قدرے ہڑبڑاتے ہوئے گیٹ کو کھول دیا۔
امبر نے منیزہ کے پیچھے بھاگنے کی کوشش کی۔ منصور نے اس کا بازو پکڑ لیا۔ وہ گیٹ کے درمیان میں کھڑا تھا۔
”میری بات سنو امبر! اس گیٹ کو پار کرکے اس عورت کے ساتھ جاؤ گی تو دوبارہ یہ گیٹ تمہارے لیے بھی نہیں کھلے گا، کبھی نہیں۔ اس عورت کو رہنے دو، تم واپس اندر چلی جاؤ۔” منصور علی نے بے حد سرد اور تنبیہی انداز میں امبر سے کہا۔
”اندر کیا ہے؟” امبر نے روتے ہوئے گیٹ کے اندرونی جانب اپنے گھر کی طرف اشارہ کیا۔
”کچھ رہ گیا ہے اندر؟ میرا تو باپ تک نہیں ہو گا وہاں پھر کیا کرنا ہے مجھے وہاں رہ کر۔ آپ کو اس گیٹ کو کھولنے کے بارے میں کبھی سوچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی… میں اب مرکر بھی یہاں نہیں آؤں گی۔” اس نے اپنے بازو کو چھڑاتے ہوئے کہا۔
”سب کچھ ختم کر دیا آپ نے… سب کچھ… سب کچھ مٹی کرکے رکھ دیا آپ نے… اور میں نے اس مٹی میں آپ کے ساتھ جڑنے والا ہر رشتہ دفنا دیا۔ بہت چھوٹے آدمی تھے آپ…” وہ اب الٹے قدموں گیٹ کو کراس کر رہی تھی۔
”بہت چھوٹے آدمی…”
”گیٹ بند کردو۔” منصور علی بلند آواز میں چلائے اور پلٹ کر اندر جانے لگے۔
”کھلا رہنے دیں اسے۔” چوکیدار تیز رفتاری سے گیٹ کو بند کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ امبر اسی طرح پیچھے جاتی ہوئی پھر چلائی۔
”کھلا رہنے دیں اسے… میں اندر نہیں آؤں گی… ممی اندر نہیں آئیں گی… کوئی نہیں آئے گا آپ کے گھر بھی… کوئی نہیں۔” وہ اب جیسے پاگلوں کی طرح چلا رہی تھی۔
”سنا آپ نے… سنا آپ نے؟… آپ سن لیں… کان کھول کر سن لیں… امبر کی شکل اب دوبارہ نہیں دیکھیں گے آپ! مر کربھی نہیں۔”
منیزہ گیٹ کے سامنے اسی جگہ پر بیٹھی رو رہی تھیں۔ انہوں نے اٹھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ گیٹ اب بند ہو رہا تھا، بہت دور تیز تیز قدموں کے ساتھ منصور علی اندر جارہے تھے۔ بند ہوتے ہوئے گیٹ سے منیزہ نے برستی آنکھوں کے ساتھ اس شخص کی پشت کو دیکھا تھا۔ وہ شخص چند لمحے پہلے اس کا پورا جہاں تھا۔ بند ہوتے ہوئے گیٹ نے زمین پر پہلی بار کسی کے آسمان اور جہاں کو نظروں سے اوجھل کر دیا تھا۔
صبغہ پانچ دن کے لیے اپنے کالج کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ مری ٹرپ پر گئی ہوئی تھی۔ وہ منصور اور منیزہ کے درمیان ہونے والی چپقلش اور تلخ کلامی سے واقف تھی اور وہ اس پر فکر مند بھی تھی مگر اس نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ منصور دوسری شادی جیسا قدم اٹھا سکتے تھے اور وہ بھی رخشی جیسی لڑکی سے۔
وہ اسی دن ٹرپ سے رات کو واپس آئی جس دن منصور نے منیزہ کو طلاق دے کر گھر سے نکال دیا تھا۔ اس نے سہ پہر کے قریب منصور علی کو واپسی کے سفر کے دوران ایک دوست کے موبائل سے فون کیا۔ منصور کا لہجہ اور انداز اسے خلاف معمول بہت ترش اور اکھڑا ہوا لگا، وہ کچھ حیران ہوئی۔
”پاپا… میں صبغہ بول رہی ہوں۔” اس نے ایک بار پھر اپنا نام دہرایا۔ ایک لمحے کے لیے اسے اندیشہ ہوا کہ شاید منصور نے اس کی آواز پہچانی نہیں، اس لیے وہ اس سے اتنی تلخی سے بول رہے ہیں۔
”جانتا ہوں کہ تم صبغہ بول رہی ہو۔” منصور کے لہجے میں اب ترشی کے ساتھ ساتھ جھنجھلاہٹ بھی تھی۔
”میں نے آپ کو بتانا تھا، ہم نو بجے کالج پہنچ رہے ہیں۔ آپ گاڑی بھجوا دیں گے یا پھر میں اپنی فرینڈ کے ساتھ آجاؤں۔ وہ مجھے آفر کر رہی ہے کہ اس کا ڈرائیور مجھے ڈراپ کر دے گا۔” صبغہ نے منصور کے لہجے پر قدرے محتاط ہوتے ہوئے اپنی فرینڈ کی آفر دہرائی۔
”فرینڈ سے کہنا وہی تمہیں اپنی گاڑی پر ڈراپ کر دے گی۔” منصور نے کسی سلام دعا کے بغیر روکھے انداز میں کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔
صبغہ بے یقینی کے عالم میں اپنے موبائل کو دیکھتی رہی۔ منصور علی کبھی اس طرح بات نہیں کرتے تھے جس طرح انہوں نے اب کی تھی۔ پچھلے کچھ ماہ میں اگرچہ منیزہ سے ان کے جھگڑے ہوتے رہے تھے اور وہ بچوں کو بھی نظر انداز کرتے رہے تھے مگر اس کے باوجود وہ ان سے کبھی اس طرح پیش نہیں آئے تھے جس طرح اب… صبغہ کو بہت عجیب سا احساس ہوا۔
”ہو سکتا ہے پاپا کسی وجہ سے پریشان ہوں یا پھر مصروف ہوں اور میں نے انہیں اچانک فون کرکے پریشان کر دیا ہو، اس لیے وہ اس طرح بات کر رہے ہوں۔” اس نے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی۔