اس نے دروازے پر دوسری بار دستک دی۔ اس بار پہلے کی طرح اسے انتظار نہیں کرنا پڑا۔ دروازے کی دوسری جانب اسے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔ پھر وہ چاپ دروازے کے پاس آگئی اور کسی نے دروازہ کھول دیا، دروازہ کھولنے والی عورت نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
‘’یہ اظہر منور کا گھر ہے؟” اس نے دروازہ کھلتے ہی پوچھا تھا۔ دروازہ کھولنے والی عورت نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
‘’نہیں جی، یہ اظہر منور کا گھر تو نہیں ہے۔’’
وہ اس جواب پر کچھ چونکی تھی، پھر اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذ پر ایک اور نظر دوڑائی اور پھر نیم پلیٹ کو دیکھا۔
‘’آپ اس کاغذ کو دیکھ کر بتائیں کیا یہ اسی گھر کا ایڈریس ہے؟’’
اس نے دروازہ کھولنے والی عورت کی طرف ہاتھ میں پکڑا ہوا وہ کاغذ بڑھا دیا۔ اس عورت نے کچھ جھجکتے ہوئے وہ کاغذ پکڑ لیا۔ کچھ دیر وہ کاغذ پر نظریں دوڑاتی رہی، پھر اس نے کاغذ دوبارہ اس کی طرف بڑھا دیا۔
‘’یہ اسی گھر کا ایڈریس ہے لیکن یہاں کوئی اظہر منور نہیں رہتے۔ ہاں ہو سکتا ہے پہلے رہتے ہوں۔ آپ کو یہ ایڈریس کب دیا گیا؟’’
اس عورت نے پوچھا تھا۔ وہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر اس نے کہا۔
‘’تقریباً سات آٹھ ماہ پہلے۔’’
‘’ہاں پھر تو ٹھیک ہے، ہم نے یہ مکان تقریباً چار ماہ پہلے خریدا ہے۔ مجھے تو اس کے پہلے مالک مکان کا پتا نہیں لیکن میرے شوہر کو ان کے نام کا ضرور پتہ ہوگا۔ ہو سکتا ہے وہی اظہر منور ہوں۔’’
اس عورت نے اس بار تفصیل سے کہا تھا۔ وہ کچھ پریشان ہو گئی۔
‘’آپ کے پاس ان صاحب کا نیا پتا ہوگا؟’’
‘’دیکھیں جی، میں نے آپ کو بتایا ہے ناکہ مجھے تو ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے، ہاں میرے شوہر کو ضرور پتا ہوگا۔ ہاں بس یہ یاد ہے کہ وہ لوگ مکان بیچ کر باہر چلے گئے تھے، لیکن آپ ٹھہریں۔ میں اپنے شوہر سے پوچھ کر آتی ہوں۔’’
وہ عورت بات کرتے کرتے کچھ یاد آنے پر اندر چلی گئی تھی۔ وہ پریشانی اور اضطراب کے عالم میں وہیں کھڑی رہی۔ تھوڑی دیر بعد وہ عورت دوبارہ نمودار ہوئی تھی مگر اس بار اس کے ساتھ اس کا شوہر بھی تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد اس نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔
‘’ہاں رافعہ مجھے بتا رہی تھی۔ جن صاحب سے میں نے یہ گھر خریدا ہے ان کا نام اظہر منور ہی تھا لیکن مجھے ان کے گھر کا پتا نہیں ہے ایک دوست کے ذریعے میں نے ان سے یہ گھر خریدا تھا۔ ویسے یہ مجھے پتا ہے کہ وہ یہ گھر بیچ کر دوبئی چلے گئے تھے، وہ آئے بھی باہر سے ہی تھے۔’’
اس آدمی نے تفصیل سے اسے بتایا تھا وہ اب واقعی پریشان ہو گئی تھی۔
‘’آپ مجھے اس دوست کے پاس لے کر جاسکتے ہیں؟” اس نے کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد پوچھا۔
‘’آپ کس لیے اظہر منور سے ملنا چاہتی ہیں؟” اس آدمی نے عقابی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
وہ کچھ دیر گومگو کے عالم میں رہی اور پھر اس نے بولنا شروع کر دیا۔
‘’انہوں نے ہمارے یتیم خانے سے ایک بچہ گودلیا تھا، مجھے اسی سلسلے میں ان سے ملنا تھا، کیا آپ مجھے اس دوست کے پاس لے کر جاسکتے ہیں؟” اس نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔
‘’میں آپ کو ضرور لے جاتا، لیکن تقریباً دو ماہ پہلے کار کے ایک حادثے میں میرے دوست کا انتقال ہوگیا۔’’
وہ کچھ دیر اس آدمی کے چہرے کو دیکھتی رہی جو اب کچھ افسردہ نظر آرہا تھا۔
‘’ٹھیک ہے، آپ کا بہت بہت شکریہ۔” اس نے کہا اور پھر واپس مڑ گئی۔
وہ آدمی اور اس کی بیوی کچھ دیر تک اسے جاتا دیکھتے رہے پھر دروازہ بند کرکے اندر چلے آئے۔
‘’تم دھیان رکھنا۔ ہو سکتا ہے یہ یا یتیم خانے سے کوئی اور دوبارہ اظہر کا پتا پوچھنے آئے، تو وہی کہنا جو میں نے کہا ہے کبھی بھولے سے بھی اظہر کے بارے میں کچھ مت بتانا۔’’
اس آدمی نے اندر جاتے ہی اپنی بیوی کو ہدایات دی تھیں۔ اس عورت نے سرہلا دیا۔
‘’اور گھر میں باقی سب کو بھی کہہ دینا ایک بار پھر سے۔” اس آدمی کو تھوڑی دیر بعد یاد آیا۔
‘’آپ فکر نہ کریں، کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا میں سب کو کہہ دوں گی وہ محتاط رہیں گے۔ ویسے اگر اظہر کے بارے میں ان کو پتا چل بھی گیا تو یہ کیا کرسکتے ہیں۔ وہ تو واقعی باہر ہے، اب کیا یہ اس کے پیچھے باہر جائیں گے؟” وہ عورت کہہ رہی تھی۔
‘’بھئی یہ تو مجھے پتا نہیں لیکن تم محتاط رہنا، کہیں اور سے انہیں اظہر کے ایڈریس کا پتا چلے یا نہ چلے لیکن یہاں سے نہیں پتا چلنا چاہیے، اس بے وقوف آدمی کو پتا نہیں ایسی حماقت کرنے کا شوق کیسے پیدا ہوگیا۔ اچھا بھلا زندگی گزار رہا تھا مگر پتا نہیں کیسے اس فضول کام میں کود پڑا۔” اس آدمی نے کچھ تشویش سے کہا تھا۔
‘’بس جب دماغ خراب ہو جاتا ہے تو بندہ ایسے ہی کام کرتا ہے۔ اظہر کا بھی دماغ خراب ہوگیا ہے، خوامخواہ مصیبتیں گلے ڈال کر بیٹھ جاتا ہے، اس قسم کی نیکیوں کے نتائج ہمیشہ برے ہی ہوتے ہیں۔ خیر اب ہو کیا سکتا ہے اس نے کون سا ہماری بات مانی ہے۔’’
وہ عورت آہستہ آہستہ بڑبڑا رہی تھی۔
٭٭٭
‘’پھر کیا کیا آپ نے میرے کام کے بارے میں؟” وہ عورت ایک ہفتہ بعد دوبارہ یتیم خانے آئی اور اس نے آتے ہی بغیر کسی تمہید کے انچارج سے پوچھنا شروع کر دیا تھا۔
‘’پچھلے ایک ہفتہ سے آپ کے کام کے سلسلے میں ہی مصروف رہی تھی۔’’
انچارج نے کہنا شروع کیا پہلی ملاقات کی طرح آج بھی اس کی آواز میں مرعوبیت تھی مگر اس مرعوبیت کے ساتھ عاجزی کا بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ بیس ہزار لینے کے بعد آواز اور لہجہ میں ایسی عاجزی اس پر لازم تھی۔
‘’میں نے اس آدمی کے دیئے ہوئے پتے پر خود جا کر اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ آدمی اپنا گھر بیچ کر جا چکا ہے۔’’
اس کے جملے پر وہ عورت یک بیک اپنی کرسی پر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی اس کی آنکھوں اور چہرے پر اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔
‘’اس گھر کا نیا مالک اس کے پتے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا سوائے اس کے کہ وہ باہر جا چکا ہے، دوبئی اس نے یہ مکان اپنے جس دوست کے ذریعے خریدا تھا۔ وہ دوست دو ماہ پہلے کار کے ایک حادثہ میں انتقال کر گیا۔ اس لیے ظاہر ہے وہ بھی مجھے اظہر منور تک نہیں پہنچا سکتا۔ وہاں سے مایوس ہونے کے بعد میں اس وکیل کے پاس گئی جس نے ساری قانونی کارروائی پوری کی تھی مگر وہ بھی اظہر کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ اظہر نے اسے صرف اس مقصد کے لیے ہی ہائر کیا تھا۔ جن لوگوں نے گارنٹی دی تھی اور سائن کیے تھے ان پیپرز پر گارنٹرز کے طور پر ان کا انتظام بھی اس وکیل نے ہی کیا تھا اور وہ بھی اظہر کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکے۔’’
انچارج نے دھیمی آواز میں شرمندگی کے تاثرات کے ساتھ پورا قصہ اس عورت کو سنا دیا۔ اس عورت کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔
‘’تو اب آپ کیا کر رہے ہیں میرے بھانجے کے لیے؟” اس نے تیز آواز میں انچارج سے کہا۔
‘’میں کیا کر سکتی ہوں، اگر وہ پاکستان میں ہوتا تو شاید اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی جاسکتی تھی۔ مگر اب تو وہ ملک سے باہر ہے۔ ایسی صورت حال میں ہم اس سے رابطہ کیسے کرسکتے ہیں۔” انچارج نے اپنی مجبوری کو جتا دیا۔
‘’آپ کا مطلب ہے۔ مجھے اپنے ذہن سے اپنے بھانجے کا خیال نکال دینا چاہیے، یہی کہنا چاہ رہی ہیں نا آپ؟” وہ عورت بگڑے تیوروں کے ساتھ اب اسے گھور رہی تھی۔
‘’دیکھیں، میں کیا کہہ سکتی ہوں میرے بس میں جو کچھ تھا۔ وہ میں کر چکی ہوں۔ اب اور کیا کرسکتی ہوں۔” انچارج نے ایک بار پھر اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
‘’میں اپنے بھانجے کو نہیں بھول سکتی وہ میری بہن کی واحد نشانی ہے اور آپ لوگوں نے لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کی پروا نہیں کی کہ اس کی خبر گیری کرتے رہتے۔ کیا اس طرح بچے بانٹتے پھرتے ہیں آپ۔’’
اس بار انچارج کو اس کا لہجہ قدرے تلخ لگا۔
‘’آپ ایک فضول ضد کر رہی ہیں، آپ یہ یقین رکھیں کہ وہ ایک بہت اچھے خاندان کے پاس ہے اگر آپ اس لیے اس کی واپسی پر اصرار کر رہی ہیں کہ کہیں اس کی پرورش اچھی نہ ہو تو آپ تسلی رکھیں۔ ہم بہت چھان پھٹک کر بچے دیتے ہیں اور جن لوگوں کو بچے دیتے ہیں وہ ان کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو ڈھونڈ نہیں پا رہے۔ جنہوں نے بچہ لیا ہے پھر آپ کس طرح اس بچے کو واپس لے سکتی ہیں اس لیے میرا مشورہ تو یہی ہے کہ آپ اس بچے کی تلاش کا کام ختم کر دیں اور اسے وہیں پلنے دیں جہاں وہ ہے۔’’
اس بار انچارج کی بات پر وہ عورت چپ رہی تھی۔ کافی دیر تک کچھ کہے بغیر وہ اضطراب کے عالم میں چاروں طرف نظریں دوڑاتی رہی پھر یک دم اٹھی اور کچھ کہے بغیر اس آفس سے نکلنے لگی۔ انچارج نے آواز دے کر اسے روکا۔
‘’آپ یہ روپے تو لے لیں۔ میں آپ کی مدد نہیں کرسکی۔’’
اس عورت نے پیچھے مڑے بغیر ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
‘’مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے میں دی جانے والی چیزیں واپس نہیں لیا کرتی۔’’
وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ انچارج حیرانی سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
٭٭٭
‘’اماں! میری شادی کی تاریخ طے مت کریں، میں گھر چھوڑ کر جا رہی ہوں۔’’
اس نے بڑے سکون سے صور پھونکا۔ اس کی ماں اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔ پچھلے بتیس سالوں میں پہلی بار انہوں نے اس کے چہرے پر بے تحاشا سکون دیکھا تھا۔
‘’تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے ایک بار پھر دورہ پڑ گیا ہے تجھے؟” اس کی ماں حسب عادت چلائی۔
‘’نہیں اماں! کوئی دورہ نہیں پڑا نہ ہی میں پاگل ہوئی ہوں ہاں یہاں کچھ دن اور رہی تو پاگل ضرور ہو جاؤں گی۔’’
‘’تیری زبان ایک بار پھر چلنے لگی ہے۔” اس کی ماں نے تپ کر اس سے کہا۔
‘’نہیں اماں! اب کچھ نہیں چلے گی۔ نہ زبان نہ کچھ اور، ان چیزوں کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ آپ کو اب مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔” وہ سنجیدگی اور تحمل سے بولی۔
‘’تو چاہتی ہے۔ ایک بار پھر بھائی ہاتھ اٹھائے، پورے گھر کے سامنے تیری بے عزتی کرے۔” اس کی ماں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
‘’بھائی نے ہی مجھے حق دیا تھا کہ میں چاہوں تو شادی کرلوں اور اگر یہ نہ کروں تو پھر گھر چھوڑ دوں اور میں گھر چھوڑ رہی ہوں۔ یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔” وہ اسی سنجیدگی سے بولی۔
‘’کاش فاطمہ! تو میرے گھر پیدا ہی نہ ہوتی یا اللہ کرے تو اب ہی مر جائے۔ اب کتنا ذلیل کرے گی مجھے، کتنا خوار کرے گی اپنے پیچھے۔ تماشا بنا کے رکھ دیا ہے تو نے اس گھر کو، ہم لوگوں کو۔’’
‘’تماشا تو اماں آپ نے بنا دیا ہے مجھے۔ میری کب خواہش تھی کہ میں پیدا ہوتی۔ میرا بس چلتا تو میں کبھی اس دنیا میں نہ آتی۔ یہاں میرے لیے رکھا ہی کیا ہے۔ لعنتیں، ملامتیں، نفرتیں میرا دل چاہتا ہے اماں! میرے پاس کوئی ایسی چیز آجائے جس سے میں اور کسی کو نہیں بس تمہیں خوش کر دوں۔ ایک بار تو تمہارے لیے کچھ ایسا کروں کہ تم میرے لیے بددعا نہ کرو۔ بھول کر غلطی سے مجھے دعا دے دو اسی طرح، جس طرح باقی سب کو دیتی ہو، مگر اللہ میری خواہش کہاں پوری کرتا ہے۔ مجھے تو ترسنے کے لیے بھیجا ہے اس نے۔ پر اماں کبھی تو سوچو اللہ نے تو میرے ساتھ جو کیا ہے۔ وہ کیا ہے تم لوگ کیوں مجھ پر ترس نہیں کھاتے۔ میرے جیسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔ دنیا میں معذور، بدصورت، بدقسمت، محتاج پر ان سے طرح کوئی نفرت تو نہیں کرتا۔ جس طرح تم لوگ مجھ سے کرتے ہو۔ میں تو کچھ مانگتی نہیں ہوں تم سے، پھر بھی میرا وجود تم لوگوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔ میرا مذاق اڑاتے ہو۔ مجھ پر ہنستے ہو مجھے ٹھگنی کہتے ہو، بلا کہتے ہو، اب اگر تم لوگوں کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہوں تو بھی خوش نہیں ہو۔ مجھے بتاؤ اماں! میں کیا کروں کہ تم لوگوں کو میرا کوئی کام کوئی چیز پسند آجائے۔’’
وہ آج کسی اور ہی لہجے میں بات کر رہی تھی۔ آج آواز بھی ہلکی تھی۔ لہجہ بھی شکست خوردہ تھا۔ کندھے بھی جھکے ہوئے تھے۔ آج اس میں کچھ بھی فاطمہ والا نہ تھا آج وہ کوئی اور تھی۔
‘’میں تیری بکواس سننا نہیں چاہتی ہوں۔ بس تجھے جو کہا ہے وہی کر۔’’
اس کی ماں کو کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی تھی وہ اب بھی بیزار تھی۔
‘’اماں! جہاں مجھے بیاہنا چاہتی ہو، وہ کیا تم لوگوں سے بہتر ہوں گے۔ میرے قد، میری رنگت، میری شکل، میری معذوری کو نہیں دیکھیں گے؟ طعنے نہیں دیں گے؟ مذاق نہیں اڑائیں گے؟ ہنسیں گے نہیں؟ میں بہت ذلیل، بہت رسوا ہو چکی ہوں اماں اور رسوا مت کرواؤ، مجھے زندگی گزارنے دو، ویسے جیسے گزر رہی ہے، جیسے میں گزارنا چاہتی ہوں۔ مجھے سرکس کا جانور مت بناؤ۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ تماشا بننے کے لیے مت بھیجو۔” وہ اب رونے لگی۔
‘’یہ ٹسوے میرے سامنے مت بہا، مجھ پہ ان کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ میں تیرے ڈراموں سے اچھی طرح واقف ہوں، میرے سامنے اپنی چالبازیاں چھوڑ دے۔’’
اس کی ماں تلخی سے بولی۔
اس بار وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ چند لمحے اپنی ماں کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے اپنی الماری میں سے اپنی چیزیں نکالنا شروع کر دیں تھیں۔ اس کی ماں نے ایک بار پھر بولنا شروع کر دیا۔ مسلسل بولنے کے باوجود کوئی جواب نہ پا کر اس کی اماں ڈر گئی تھی اور پھر کمرے سے نکل گئی۔ وہ اس کی غیر موجودگی میں اپنی چیزوں کو بیگ میں رکھتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد اس کی ماں اپنی بہو کو لے کر اس کے کمرے میں گئی۔
‘’یہ کیا تماشا شروع کر دیا ہے تم نے؟ کہاں جانا چاہتی ہو تم؟” اس کی بھابھی نے اندر داخل ہوتے ہی اس سے کہا۔
‘’بھائی نے ہی کہا تھا کہ اگر میں یہ رشتہ قبول نہیں کرتی تو پھر یہاں سے چلی جاؤں۔ اب میں جا رہی ہوں۔” اس نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔
‘’لیکن تم جا کہاں رہی ہو، اس طرح منہ اٹھا کے؟’’
‘’میں جہاں بھی جا رہی ہوں۔ وہ اچھی جگہ ہے، آپ پریشان نہ ہوں۔” وہ اسی طرح تھی۔
‘’تم جانتی ہو کہ تمہارے اس طرح جانے سے ہماری کتنی بدنامی ہوگی۔ لوگ پہلے ہی تمہارے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں، اب ان کی زبان اور بھی زہریلی ہو جائے گی۔” اس کی ماں کو پہلی دفعہ صورتِ حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔
‘’لوگوں کو باتیں کرنے دیں باتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ میں ساری عمر کسی حجرے میں بھی بیٹھی رہوں تب بھی وہ میرے بارے میں کوئی اچھی بات نہیں کریں گے۔’’
‘’تم لڑکی ہو، کوئی مرد نہیں ہو اس طرح اکیلے کہاں جاؤ گی، کہاں رہو گی۔ دنیا بہت خراب ہے۔’’
وہ ماں کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ ”اماں میں لڑکی ہوں لیکن سولہ سال کی نہیں بتیس سال کی۔ مجھے لوگوں سے ڈر لگتا ہے نہ دنیا سے۔ میں اکیلی رہ لوں گی۔’’
‘’تیرا بھائی تجھے اس طرح جانے نہیں دے گا۔” اس کی ماں نے کہا۔
وہ ہلکے سے ہنس دی۔
‘’وہ کچھ نہیں کہے گا اماں! وہ تو شکر کرے گا اس کے سر سے بوجھ اتر جائے گا۔ ایک کمرہ اور مل جائے گا اس کے بچوں کے رہنے کے لیے، میرے جیسی بلا کا چہرہ نہیں دیکھنا پڑے گا اسے ہر روز، گھر میں میری وجہ سے روز روز ہونے والے جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔ ہر ایک کو سکون مل جائے گا۔’’
اس کی آواز میں اب کوئی شیشہ تڑخنے لگا تھا۔ وہ ایک بار پھر اپنا سامان پیک کرنے میں مصروف ہو گئی۔ اس کی بھابھی اور ماں دیر تک اس پر لعنت و ملامت کے ڈونگرے برساتی بھیجتی رہیں مگر وہ زندگی میں پہلی دفعہ بڑی خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہی پھر تیار ہونے کے بعد وہ جب باہر کے دروازے تک آئی تو اندر سے بھابھی اور اس کی ماں کی بلند آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ اب اسے گالیاں دے رہی تھیں مگر اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی تھیں وہ خاموشی سے اپنا بیگ لے کر گھر سے باہر آگئی۔
بیگ ہاتھ میں تھامے ہوئے اس نے گلی پار کی تھی اور پھر سڑک پر آگئی۔ سنسان سڑک پر دور دور تک کوئی نہیں تھا ایک عجیب سی خاموشی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ وہ اب بھی آگ برسا رہا تھا۔ سر جھکائے بیگ گھسیٹتے ہوئے وہ سڑک پر چلنے لگی۔ اس کا چہرہ کسی چیز سے بھیگنے لگا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ آنسو اس کے گریبان کو بھگونے لگے تھے۔
‘’کیا دنیا میں کوئی انسان ایسا ہوگا، جو اگر کبھی روئے تو کوئی اس سے یہ بھی نہ پوچھے کہ وہ کیوں رو رہا ہے؟’’
اس نے سوچا تھا اور ایک تلخ سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔
‘’دنیا میں ایک ہی تو ایسا انسان ہے جس کے آنسو کسی کو یہ سوال کرنے پر مجبور نہیں کرتے اور وہ انسان فاطمہ مختار ہے۔’’
اس نے سوچا تھا اور پھر سر اٹھا کر سامنے نظر آنے والی طویل سنسان سڑک کو دیکھا۔ ”اور میں اگرخدا سے کہوں کہ اس نے میرے وجود کو بے کار بنایا ہے تو کیا یہ غلط ہوگا، مجھ پر کبھی کوئی محبت کی نظر نہیں ڈالے گا دیکھے گا تو ترس کی نظر سے، ڈالے گا تو نفرت کی نگاہ اور پھر بھی اللہ کیا میں یہ سمجھوں کہ میں دنیا کے لیے بہت ضروری تھی۔’’
اس کے بہتے آنسوؤں کی شدت میں اور اضافہ ہو چکا تھا۔
‘’جب اور کچھ نہیں دیا تو پھر دل بھی کیوں دیا جو محسوس کرتا ہے دماغ کیوں دیا جو سوچتا ہے یہ نہ دیتا تو زندگی اچھی گزر جاتی، کسی خواہش کسی خواب کے بغیر۔ اللہ کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اس پوری دنیا میں تم نے میرے لیے کیا رکھا ہے، کہاں رکھا ہے۔ بتیس سال میں کچھ ملا۔ کیا آنے والے سالوں میں کچھ مل سکے گا۔ کوئی ایسی چیز جس پر میں بھی فخر کر سکوں۔ کوئی ایسی شے جو میرے لیے ہو۔ کچھ ایسا جو میرے وجود کے قد و قامت کو بڑھا دے۔ میرے چہرے کی سیاہی کو چھپا دے میرے ہاتھ کی معذوری کو کم کر دے۔ میں زمین پر چلنے والی چیونٹی نہ رہوں۔ اللہ کیا تمہارے پاس فاطمہ مختار کے لیے کچھ ہے، کوئی ذرہ، کوئی وجود۔ کیا تم کو میری آواز آرہی ہے؟’’
وہ سڑک پر چلتے ہوئے اب بڑبڑانے لگی۔ آسمان ابھی بھی آگ کی طرح تپ رہا تھا۔ زمین ابھی بھی الاؤ کی طرح جل رہی تھی اس کا وجود ابھی بھی موم کی طرح پگھل رہا تھا۔ کہیں پر کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ بار بار خدا کو آوازیں دے رہی تھی یوں جیسے اس کا جواب سننا چاہتی ہو۔ اس کی آواز سننا چاہتی ہو۔ مگر کہیں پر کوئی آواز نہیں تھی نہ خدا کی نہ انسان کی۔ وہاں کوئی انسان نہیں تھا مگر خدا تھا وہ سن رہا تھا، وہ دیکھ رہا تھا۔ سیاہ سڑک پر چلتا وہ بھدّا وجود بھی اسی کی تخلیق تھا، اسی کے سانچے میں گھڑا ہوا، اسی کے ہاتھوں سے تراشا ہوا، پھر وہ وجود زمین پر بھیج دیا گیا تھا اتنی ہی چاہت کے ساتھ جتنی چاہت کے ساتھ دوسرے وجود بھیجے گئے تھے۔ پھر انسان نے اسے دیکھا تھا اور… اور ہنس پڑا تھا۔ خدا کی تخلیق پر اسے ہنسی آئی تھی۔
‘’یہ کیا چیز ہے؟” اس نے سوچا تھا اور ایک بار پھر ہنس پڑا تھا۔ اللہ نے اس ہنسی پر بجلی گرائی تھی نہ انسان کی بینائی چھینی تھی۔ بس ایک گہری سوچتی ہوئی نظر سے اسے دیکھا تھا پھر کہیں… کہیں کچھ لکھ لیا تھا۔ اب وہ بھدّا وجود خدا کو بتا رہا تھا کہ انسان اس پر ہنستا ہے، اس پر ترس کھاتا ہے، اسے مسترد کرتا ہے۔ اللہ کی تخلیق کو اس کے فن کو، اس کے ہنر کو، اللہ خاموش تھا مگر سن رہا تھا اور وہ خوب سننے والا ہے۔
٭٭٭
2 Comments
I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz
Good