وہ اب بڑی حد تک پرسکون ہو چکی تھی۔ کچھ دیر پہلے اس کے ذہن میں جو باتیں گونج رہی تھیں، وہ اب غائب ہو چکی تھیں۔ ”میں نے تمہارا انتخاب ایسے ہی تو نہیں کیا تھا۔ کچھ تو تھا تم میں جس نے مجھے تمہاری جانب آنے پر مجبور کیا تھا۔ کوئی تو ایسی بات تھی تم میں ہارون کمال! کہ میں ایک بار تمہارے ٹرانس میں آنے کے بعد دوبارہ کبھی اس سحر سے نکل نہیں سکی ہوں۔” اس نے ہارون کمال کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ وہ اب پرفیوم لگا رہا تھا۔
وہ آج بھی اسی طرح تھا۔ دراز قد، ہینڈ سم، دلکش، دلیل کے ساتھ بات کرنے والا، دوسروں کو قائل کر لینے والا۔ شائستہ کو یاد آیا تھا اسے کس طرح اس سے محبت ہوئی تھی، محبت نہیں شاید عشق ہوا تھا۔ عشق نہیں بلکہ جنون تھا اور جب یہ جنون ختم ہوا تھا تو وہ مسز ہارون کمال تھی۔ شہر کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکون کی بیوی۔
”میں جا رہا ہوں رات کو لیٹ آؤں گا۔ تم اپنا خیال رکھنا گڈبائے!”
وہ اپنا کوٹ پہن کر کمرے سے نکل گیا۔ شائستہ اس دروازے کو دیکھتی رہی جسے بند کرکے وہ باہر نکلا تھا۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ پہلی بار کب ہارون کمال کو دیکھ کر اس کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔ آنکھیں بند کرکے اس نے ماضی میں اترنے کی کوشش کی۔ اس کے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ دوڑ گئی۔
ہارون کمال اس کے تایا کا بیٹا تھا۔ دو بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے بڑا۔ شائستہ کے والد کے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے تھے۔ ان دونوں کا ذہن اور زندگی کے بارے میں نظریات بہت مختلف تھے۔ اکبر عباس اگر زمین کی بات کرتے تھے تو کمال عباس آسمان سے نیچے کہیں رکتے ہی نہ تھے۔
”روپیہ کمانا ایک آرٹ ہوتا ہے، یہ آرٹ ہر شخص کو نہیں آتا جن کو یہ آرٹ نہیں آتا، وہ پھر ساری زندگی یہ کہہ کر خود کو تسلیاں دیتے رہیے ہیں کہ وہ رزق حلال کما رہے ہیں اور رزق حلال میں برکت ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں کوئی رزق حلال یا رزق حرام نہیں ہوتا۔ رزق رزق ہوتا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ محنت کرنی پڑتی ہے اور جس چیز میں محنت کرنی پڑے وہ بری کیسے ہو سکتی ہے۔”
وہ ہر بار اکبر عباس سے ملنے پر ہوانا کے سگار کے کش لگاتے ہوئے اپنے نظریات ان کے کانوں میں انڈیلتے۔ ہر بار اکبر عباس طیش میں آجاتے۔
”آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے زندگی سے کچھ سیکھا ہے، نہ کتابوں سے آپ نے سب کچھ روپے سے سیکھنے کی کوشش کی ہے اور روپیہ کبھی اخلاقیات نہیں سکھاتا، یہ صرف بھاگنا سکھاتا ہے صرف اپنے پیچھے اور اس ریس میں شامل ہونے کے بعد انسان سارے اصول اور ضابطے ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ آپ بھی اسی ریس میں شریک ہیں۔ میں آپ کو کیا سمجھا سکتا ہوں۔ شاید اپنے مذہب کے بارے میں کچھ علم رکھتے تو ایسی باتیں نہ کرتے۔”
اکبر عباس ہر بار ان سے بات کرتے ہوئے افسردہ ہو جاتے۔ ان کی باتوں اور طنز کے جواب میں کمال عباس ایک زوردار قہقہہ لگاتے۔
”بھئی، اکبر! تم باتیں بڑی اچھی کرتے ہو فلسفیوں والی باتیں، جنہیں نہ کوئی سمجھنے کی کوشش کرے نہ سمجھ سکے۔”
اکبر ان باتوں پر بھڑک اٹھتے تھے۔ پھر وہ ہر بار ان کے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے۔ باپ کی وفات کے بعد دونوں نے ایک ساتھ ہی ان کی فیکٹری کو سنبھالا تھا۔ وہ فارماسیوٹیکل کا کاروبار کرتے تھے۔ کمال نے کچھ عرصے کے بعد ہی اپنا حصہ الگ کرلیا تھا اور بزنس الگ کرنے کے بعد ان کے بزنس کو جیسے پر لگ گئے تھے۔ وہ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہے تھے۔ پورا خاندان اور حلقہ احباب ان کی ترقی پر رشک کرتا تھا۔ اگر کسی شخص کو رشک یا حسد محسوس نہیں ہوتا تھا تو وہ اکبر عباس تھے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس دن دونی رات چوگنی ترقی کا راز کیا ہے۔ کمال عباس کے پاس کون سا پارس آگیا ہے۔ وہ اس سے بھی واقف تھے۔ چند ہی سالوں میں کمال عباس کہیں سے کہیں پہنچ گئے تھے۔ ان کی ایک فیکٹری اب چار فیکٹریوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ شہر کے بہت سے اہم اور مصروف مقامات پر ان کے پلازے کھڑے تھے۔ ان کے گھر والوں کے نام درجنوں پلاٹ تھے۔ دوسری طرف اکبر عباس ابھی بھی وہی پرانی فیکٹری سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کے پاس کمال عباس جتنا روپیہ نہیں تھا۔ مگر پھر بھی وہ پرآسائش زندگی گزار رہے تھے۔ ایسی کوئی چیز نہیں تھی، جس کی ان کے پاس کمی تھی۔ انہوں نے کمال عباس کی طرح کبھی روپیہ کے پیچھے بھاگنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ نہ ہی ان جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ انہوں نے کمال عباس سے میل جول ختم کرلیا تھا۔ وہ بعض معاملات میں بہت کٹر قسم کے مسلمان تھے اور کمال عباس کے گھر کا ماحول اب ان کے نزدیک اس قابل نہیں رہا تھا کہ وہاں وہ یا ان کے بیوی بچے جاتے۔ کمال عباس اور ان کی بیوی کو بھی اس بات کی زیادہ پروا نہیں تھی کہ اکبر نے ان کے گھر آنا ختم کر دیا ہے۔ جب انہوں نے ان کے گھر آنا ختم کر دیا تو کمال عباس نے بھی ان کے گھر جانے کا سلسلہ ختم کر دیا۔
”اچھی بات ہے وہ یہاں نہیں آنا چاہتا تو نہ آئے۔ یہاں آکر اس نے کرنا بھی کیا ہے، وہی مولویوں والے خطبے دینے ہیں۔ ہدایات اور نصیحتوں کے ٹوکرے ہی اٹھا کر لانے ہیں۔ وہ خود ترقی کر نہیں سکتا اور میری ترقی دیکھ نہیں سکتا۔ بہتر ہے وہ اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہے۔”
کمال عباس نے جیسے بات ہی ختم کر دی تھی۔ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو کچھ عرصے کے بعد پڑھنے کے لیے باہر بھجوا دیا تھا۔
ہارون کمال نے تقریباً دس سال انگلینڈ میں گزارے تھے اور ان دس سالوں نے اس کی مکمل برین واشنگ کر دی تھی۔ گھر کا ماحول پہلے بھی مذہبی نہ تھا اور باہر سے آنے کے بعد تو مذہب سے اس کا تعلق بالکل ختم ہو گیا تھا۔ اب وہ مذہب کو بالکل دوسرے انداز سے دیکھتا تھا۔ اس نے بہت سی چیزوں کو آؤٹ ڈیٹڈ اور آؤٹ آف فیشن قرار دے دیا تھا۔ اس کے خیال میں آج کی دنیا میں اگر مسلمان بن کر اپنا وجود برقرار رکھنا ہے تو پھر ایک پروگریسو مسلمان بن کر رہنا پڑے گا، اور اس کے نزدیک ایک پروگریسو مسلمان کی تعریف یہ تھی کہ وہ مذہب پر کبھی بات نہیں کرتا۔ نہ اس کی باتوں اور حلیے سے اسلام جھلکتا ہے۔ اور ہارون کمال ایسا ہی پروگریسو مسلمان تھا۔ وہ انگلینڈ میں رہتا تھا اور ان ہی کی طرح رہتا، جیتا اور سوچتا تھا اور ایسا کرنے میں اسے کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ کمال عباس اولاد کو آزادی دینے کے قائل تھے اور ہارون کمال کو بھی یہ آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔ وہ سب سے بڑی اولاد تھا۔ اس لیے زیادہ لاڈلا تھا۔ پھر لڑکا تھا اور اس بات نے اس کی اہمیت اور بھی بڑھا دی تھی۔ دس سال اس نے انگلینڈ میں زندگی اپنے ڈھنگ سے گزاری تھی اور دس سال کے بعد جب وہ پاکستان آیا تھا تو صرف بزنس مینجمنٹ کی ایک ڈگری ہی نہیں لایا تھا بلکہ زندگی گزارنے اور ترقی کرنے کے نئے طریقے لے کر آیا تھا۔
بچپن میں وہ شائستہ کے گھر آتا جا رہا تھا اور دوسرے کزنز کی طرح اس سے بھی ملتا رہتا تھا۔ لیکن بعد میں اکبر عباس اور کمال عباس کے درمیان کوئی باقاعدہ جھگڑا نہ ہونے کے باوجود جب ان کا آپس میں میل جول ختم ہو گیا تو اس نے بھی ان کے گھر آنا جانا بند کر دیا۔ وہ عمر میں شائستہ سے آٹھ سال بڑا تھا۔
پاکستان آنے کے بعد شائستہ سے اس کی پہلی ملاقات ایک شادی کی تقریب میں ہوئی تھی۔ شائستہ کی پھوپھو کی بڑی بیٹی کی شادی تھی اور اس تقریب میں اکبر عباس اور کمال عباس بھی اپنے خاندان کے ساتھ شرکت کر رہے تھے۔ مہندی کی تقریب تھی۔ لڑکے والے ابھی مہندی لے کر نہیں آئے تھے۔ شائستہ بڑے کمرے میں اپنی کزنز کے ہجوم میں بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ باری باری سب کے ہاتھ دیکھ رہی تھی، پھر پیش گوئی کرتی بعض پیش گوئیوں پر زوردار قہقہے بلند ہو رہے تھے، مگر پھر بھی کوئی وہاں سے ہٹنے پر تیار نہیں تھا۔ ہارون کمال اسی وقت کمرے میں داخل ہوا۔
”یہ ہارون ہے۔ کمال بھائی کا بڑا بیٹا، پرسوں انگلینڈ سے واپس آیا ہے۔”
پھوپھو نے کمرے میں لا کر اس کا تعارف کروایا، پھر فرداً فرداً وہاں بیٹھے سب لوگوں کا تعارف اس سے کروایا۔ شائستہ بہت دیر تک اس پر سے نظریں نہیں ہٹا سکی تھی۔ وہ بہت ویل گرومڈ، ریفائنڈ اور کمپوزڈ نظر آرہا تھا۔ بڑے کمرے میں موجود سب کزنز ہی اس سے مرعوب نظر آرہے تھے۔ وہ فرش پر قالین پر بیٹھنے کے بجائے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ شائستہ نے ایک بار پھر ہاتھ دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ کافی دلچسپی سے یہ ساری سرگرمی دیکھتا رہا۔ پھوپھو نے اسے چائے کا کپ لا کر دیا اور وہ کافی دیر تک کسی سے گفتگو کیے بغیر چائے کے سپ لیتا ہوا وہاں بیٹھا رہا۔ پھر کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر چلا گیا تھا۔
شادی والے دن وہ تیار ہونے کے بعد بارات کا استقبال کرنے کے لیے اپنی کزنز کے ساتھ نیچے اتر رہی تھی، جب اسے ایک بار پھر وہ نظر آیا۔
”ایک منٹ شائستہ!” اس نے اسے روکا۔ شائستہ کا دل بہت زور سے اچھلا۔ اسے یقین نہیں آیا کہ وہ اس سے مخاطب ہے۔
”آپ میرا ہاتھ دیکھیں گی؟” شائستہ اپنے قہقہے پر کنٹرول نہیں رکھ سکی، مگر وہ اسے اسی طرح ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتا رہا۔
”آپ ان باتوں پر یقین کرتے ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”ہاں کیوں نہیں۔”
”مگر باہر سے آنے والے لوگ تو ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔”
”یہ آپ سے کس نے کہا؟” اس نے فوراً پوچھا۔
”کسی نے نہیں، میں نے خود ہی سوچا۔”
”میں یقین رکھتا ہوں۔”
وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔ فرینچ کلون سے مہکتا ہوا اس کا وجود اس کے دل کو جیسے اپنی گرفت میں لینے لگا تھا۔ اس نے ایک گہرا سانس لے کر خود پر قابو پایا۔
”آپ کیا جاننا چاہتے ہیں اپنے بارے میں؟” ہارون نے ہاتھ اس کے سامنے پھیلا دیا۔
”جو بھی آپ بتا سکیں۔”
”دیکھیں، میں کوئی اچھی پامسٹ نہیں ہوں، یہ تو بس ایسے ہی…’ ہارون نے اس کی بات کاٹ دی۔
”کوئی بات نہیں، آپ پھر بھی میرا ہاتھ دیکھیں۔” شائستہ نے اس کے ہاتھ پر نظر دوڑائی۔ اس نے ہاتھ نہیں تھاما تھا۔ جلدی جلدی اس نے ہارون کو چند باتیں بتائیں۔ وہ بے حد دلچسپی سے سن رہا تھا۔ اس نے اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ سوال بھی کیے۔ شائستہ نے ہاتھ دیکھتے ہوئے جواب دیئے۔
”اب ایک مشکل سوال پوچھنا چاہتا ہوں؟” وہ ہاتھ پر نظر دوڑا رہی تھی جب ہارون نے کہا۔
”کوئی بات نہیں پوچھیں۔”
اس نے سر اٹھائے بغیر کہا۔ ہارون نے فوری طور پر کچھ نہیں کہا۔ وہ اس کے سوال کی منتظر رہی۔
”یہ بتائیں کہ میرا ہاتھ دیکھنے والی لڑکی سے میری شادی کب ہوگی؟”
اس کے دل کی دھڑکن رک گئی۔ اس کے ہاتھ پر نظریں جمائے رکھنا یا سر اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھنا دونوں کام اس کے لیے مشکل ہو گئے تھے۔
”کیوں بھئی آپ کی پامسٹری کو کیا ہوا؟ کل تو آپ دھڑا دھڑ سب کو ان کی متوقع شادیوں اور منگنیوں کے بارے میں بتا رہی تھیں پھر اب کیا ہوا؟”
وہ اس کا چہرہ دیکھے بغیر بھی جانتی تھی کہ وہ اس وقت مسکرا رہا ہوگا۔ اس کی ٹانگیں اب کانپنے لگیں۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق وہ اس کی ہتھیلی کے بجائے اب جوتوں پر نظر جمائے کھڑی تھی۔
”بائے دا وے، میں جب چاہوں اپنے ہاتھ کی لکیروں کو بدل سکتا ہوں اور مجھ سے بہتر یہ کوئی نہیں جانتا کہ میرا مستقبل کیسا ہے۔” اس نے اپنا ہاتھ اب بھی پیچھے نہیں ہٹایا۔
”ہاں اگر کسی چیز کے بارے میں شبہ ہے تو وہ وہی ایک چیز ہے جس کے بارے میں، میں نے آپ سے پوچھا ہے… آپ سوال کا جواب دینا نہیں چاہتیں؟… اچھا چلیں، آپ اپنا ہاتھ دکھا دیں۔”
وہ بہت نرم آواز میں کہہ رہا تھا۔ شائستہ کے ہاتھ بھی کانپنے لگے۔ ہارون نے اب اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا تھا اور چند لمحوں کے بعد اس نے بڑی بے خوفی اور اطمینان سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ شائستہ اتنی نروس ہو چکی تھی کہ اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اب اس کا ہاتھ کھول کر ہتھیلی دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر اس کا ہاتھ دیکھتے رہنے کے بعد اسی اطمینان کے ساتھ اپنی جیب سے ایک انگوٹھی نکالی اور اس کے ہاتھ میں پہنا دی۔
”ہاتھ میں شادی کی لکیر کہاں ہوتی ہے، یہ تو میں نہیں جانتا مگر انگیجمنٹ رنگ کہاں پہنائی جاتی ہے، یہ ضرور جانتا ہوں۔ اگر مشرقی لڑکی کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہوتی ہے تو پھر آپ اقرار کرچکی ہیں۔”
اس نے دھیمی آواز میں کہتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑا اور سیڑھیاں اتر گیا۔ وہ بت کی طرح ساکت اپنے ہاتھ کو دیکھتی رہی، اور یہ سکتہ صرف اسے ہی نہیں اس کے پاس کھڑی اس کی کزنز کو بھی ہوا تھا۔ وہ سب خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کے چہرے دیکھ رہی تھیں۔ ان کے خاندان میں آج تک کسی نے اتنی بے خوفی اور آزاد خیالی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا اور اب… ہارون کمال… شاید وہ… وہ سب کرنے آیا تھا جو پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا تھا۔
٭٭٭
2 Comments
I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz
Good