تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

”بابا! کیسے ہیں اب؟” شائستہ نے لاؤنج میں ماں کو دیکھتے ہی سلام دعا کیے بغیر پوچھا۔
”وہ ٹھیک ہیں۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلڈ پریشر ہائی ہو گیا تھا۔ اس وجہ سے ہاسپٹل جاناپڑا۔ بہرحال اب وہ بہتر ہیں اور گھر پر ہی ہیں۔” انہوں نے اسے تفصیل بتائی۔
”لیکن پھر بھی آپ کو مجھے انفارم تو کرنا چاہیے تھا۔ آپ نے تو مجھے بتانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی… اگر سلمیٰ مجھے نہ بتاتی اور میں خود آپ کو فون نہ کرتی تو آپ تو شاید مجھے سرے سے ہی بے خبر رکھتیں۔” اس نے تیز آواز میں شکوہ کیا۔
”میں نے تم سے کہا نا، وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ ایسی چھوٹی موٹی بیماریاں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ اب کیا ہر بیماری میں تمہیں بلایا جائے گا۔ دن میں اگر دس دفعہ بلڈ پریشر ہائی ہو تو کیا دس دفعہ تمہیں بلایا جائے۔ وہ تو ویسے بھی ہائی بلڈ پریشر کے پرانے مریض ہیں۔ یہ مسئلہ تو ان کے ساتھ ہمیشہ ہی رہتا ہے۔” اس بار اس کی ماں نے بیزاری سے کہا۔… انہیں شائستہ کا شکوہ اچھا نہیں لگا تھا۔
”پھر بھی آپ کو مجھے بتانا چاہیے تھا۔” اس کا شکوہ اب بھی وہیں تھا۔
”ٹھیک ہے اب تو پتا چل گیا ہے نا تو اب جا کر ان کی خیریت پوچھ لو اور ہاں اندر جانے سے پہلے اس گردن میں لٹکائی ہوئی کپڑے کی دھجی کو اچھی طرح اوڑھ لو۔ تم جانتی ہو، تمہارے باپ کو تمہارا حلیہ پسند نہیں ہے۔ شادی ہو گئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم گھٹیا عورتوں جیسا حلیہ اپنا لو حیا نام کی چیز ہی تمہیں یاد نہ آئے۔”
اس کی امی نے جسم سے چپکے ہوئے لباس کے اوپر گلے میں چنا ہوا دوپٹہ دیکھ کر اعتراض کیا۔
”امی! پتا نہیں آپ کا ذہن کب بدلے گا۔ دنیا دیکھیں، کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، مگر آپ کا دماغ وہیں… بارہویں صدی میں۔ یہ دوپٹہ وغیرہ آج کے زمانے میں نہیں چلتا آپ کیا یہ شکر نہیں کرتیں کہ میں یہ دوپٹہ لے کر آئی ہوں ورنہ اب اس کا رواج نہیں رہا۔ خاصی آؤٹ ڈٹیڈ قسم کی چیز ہے۔” اس نے ماں کے سامنے دوپٹے کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔
اس کی ماں چند لمحوں تک خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی پھر وہ جیسے غصے میں بھڑک اٹھیں۔ ”تمہاری ایسی ہی باتوں کی وجہ ے تمہارے بابا تمہیں پسند نہیں کرتے۔ تمہیں اپنے خاندان کی عزت کا کوئی لحاظ نہیں ہے۔ اس طرح پھرتی رہتی ہو۔ کبھی سو چا ہے۔ لوگ کیا کہتے ہوں گے تمہارے بارے میں۔”




”مجھے لوگوں کی پروا نہیں ہے، جن لوگوں کی آپ بات کر رہی ہیں وہ دقیانوسی اور چھوٹے ذہنوں کے لوگ ہیں۔ انہیں کیا پتا زندگی کیا ہوتی ہے۔ آزادی کس چیز کو کہتے ہیں۔ وہ تو اپنے دو ہزار سال پہلے کے خیالات اور روایتوں کو لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے ایسے لوگوں کی پروا نہیں ہے کیونکہ میرا میل جول ایسے لوگوں سے نہیں ہے اور جن لوگوں سے میرا میل جول ہے، وہ روشن خیال اور روشن دماغ لوگ ہیں۔ آزادی کا احترام کرنے والے، خواہشات کو اہمیت دینے والے اور امی! آپ یہ سن لیں کہ وہ لوگ میری عزت کرتے ہیں ان کے نزدیک میں اہم ہوں، وہ میری شخصیت کو مانتے ہیں، آپ جیسی باتیں نہیں کرے، نہ آپ کی طرح سوچتے ہیں تو پھر مجھے کیا پروا ہے کہ آپ کے کچھ واقف کار مجھے اچھا نہیں سمجھتے۔”
اس نے اپنے کندھے جھٹکتے ہوئے بے پروائی سے کہا تھا۔ اس کی امی اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئیں۔
”میں تم سے اس وقت بحث نہیں کرنا چاہتی ورنہ تمہیں بتاتی شائستہ! کہ تم کس طرح بربادی کی طرف قدم بڑھا رہی ہو۔ یہ جن روشن خیال لوگوں کی مثالیں تم دے رہی ہو۔ یہ روشن خیال انسان نہیں بھیڑیئے ہیں۔ خون چوسنے والی جونکیں ہیں، تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ تمارے جیسی عورت کو بہت پسند کرتے ہیں، تمہارے طور طریقوں کو سراہتے ہیں۔ ایک چیز ہو تم ان کے لیے بس ایک چیز۔ جیسے ڈرائنگ روم میں پڑا ہوا کوئی ڈیکوریشن پیس ہے یا پھر برآمدے میں رکھا ہوا کوئی پودا۔ دونوں کا کام دل خوش کرنا ہوتا ہے۔ تم بھی ایسی ہی چیز ہو شائستہ! مرد جس عورت کو چاہتا ہے۔ اسے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے۔ جس پر کسی دوسرے کی نظر نہیں پڑنے دینا چاہتا اور جس عورت کو وہ لوگوں کی نظروں سے چھپاتا نہیں۔ وہ اس کے دل میں اتری نہیں ہوتی۔ اسے وہ صرف استعمال کرتا ہے۔ دوسرے لوگوں کے سامنے پیش کرکے اپنی ویلیو بڑھانے کے لیے، یہ دکھانے کے لیے کہ اس کے پاس ایک اچھی چیز ہے۔ ایک ایسی چیز جو نظر کو اچھی لگتی ہے۔ دل کو بھاتی ہے۔ پھر وہ عورت ساری عمر ایک ایسی ہی چیز بنی رہتی ہے جسے مرد اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا رہتا ہے۔ تم بھی ایسی ہی عورت بن چکی ہو شائستہ! مگر تمہیں احساس نہیں ہے۔ میں بعض دفعہ سوچتی ہوں کہ میری تربیت میں کیا خرابی تھی۔ کیا کوتاہی تھی جو تم نے بیس سال جو میرے گھر میں گزارے تھے۔ انہیں بھول کر کمال کے رنگ میں رنگ گئی ہو۔ وہ چھوٹے چھوٹے موتی جو میں بیس سال تمہارے پلو سے باندھتی رہی تھی۔ تم نے انہیں پھینک کر اپنی گود بڑے بڑے پتھروں سے بھرنی شروع کر دی ہے۔ تم میری اولاد نہ ہوتیں تو میں کبھی تمہیں سمجھانا پسند نہ کرتی مگر اب تمہیں اس طرح زندگی گزارتے دیکھ کر میرا دل کٹتا ہے۔ کل کو خدا مجھ سے پوچھے گا کہ تو نے شائستہ کو کیا سمجھایا تو میں اسے کیا جواب دوں گی۔ کس طرح اس کے سامنے جاؤں گی۔ اولاد اپنے لیے دوزخ بنا رہی ہو تو ماں کے قدموں کی جنت کو بھی آگ لگ جاتی ہے۔ میں کہتی ہوں شائستہ! ابھی بھی وقت ہے۔ سنبھل جاؤ۔ زندگی اس طرح مت گزارو، عورت کو خدا نے اس کردار کے لیے نہیں بنایا۔”
اس کی امی بات کرتے کرتے سسکنے لگی تھیں، مگر اس کی بیزاری میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔ ہر دفعہ اس کی آمد پر یہی ہوتا تھا۔ ہر کوئی اسے سمجھانے بیٹھ جاتا تھا۔
”پتہ نہیں امی! آپ کو مجھ میں کون سے کیڑے نظر آتے ہیں۔ جو آپ نصیحتوں کا ایک انبار لے کر میرے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ میں نے ایسا بھی کیا کر دیا ہے کہ آپ نے فتوے دینا شروع کر دیئے ہیں۔ یہ میری زندگی ہے۔ مجھے حق ہے۔ میں اسے جیسے چاہوں گزاروں پھر ہارون کو میری کسی بات پر اعتراض نہیں ہے۔ میں نے اپنے آپ کو اس کی پسند اور مرضی کے مطابق ڈھالا ہے۔ میں وہی کرتی ہوں جو وہ چاہتا ہے۔ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ بیوی کو شوہر کا ہر حکم ماننا چاہیے۔ اس کی وفادار اور تابعدار ہونا چاہیے۔ میں آپ کی اسی بات پر عمل کر رہی ہوں۔ میرا شوہر مجھے جو طور طریقے سکھانا چاہتا ہے، میں وہی سیکھتی ہوں کیونکہ مجھے زندگی اس کے ساتھ گزارتی ہے۔ آپ کے ساتھ نہیں اور پھر میں کوئی ایسی زندگی نہیں گزار رہی جس پر مجھے شرمندگی ہو۔ میں جو کچھ کر رہی ہوں پوری طرح سوچ سمجھ کر کر رہی ہوں۔ میں نے ایسی ہی زندگی ہمیشہ چاہی تھی۔ تب بھی جب میں آپ کے گھر میں تھی۔ میں آپ سے کہنا تو نہیں چاہتی امی! مگر آپ نے اپنی باتوں سے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں یہ سب کہہ دوں۔ مجھے کبھی بھی آپ کی باتوں، نصیحتوں اور اقوال میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ آپ اور بابا جیسی زندگی گزار رہے ہیں، میں ایسی زندگی سے نجات چاہتی تھی۔ آپ دونوں کے خیالات بہت فرسودہ اور دقیانوسی ہوچکے ہیں۔ آپ انہیں بدلنے کو تیار نہیں ہیں اور آج کی دنیا میں ان خیالات کی کوئی ویلیو نہیں ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ اب مرد عورت کو بقول آپ کے اس عورت کو جس سے وہ محبت کرتا ہے گھر کے اندر چھپا کر نہیں رکھنا چاہتا بلکہ وہ اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ لوگوں کے سامنے اور ہر ایک پر یہ ظاہر کر دینا چاہتا ہے کہ یہ وہ عورت ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ پھر کیا برا ہے۔ اگر وہ پھر چاہے کہ عورت دوسرے لوگوں کے سامنے اسی طرح سج سنور کر جائے جس طرح وہ اس کے لیے سجتی ہے۔ ہم جس چیز سے محبت کرتے ہیں۔ اسے ہمیشہ اچھا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کو میری سوسائٹی کے لوگ بھیڑیے لگتے ہیں؟ کیوں بھیڑیے لگتے ہیں بغیر ملے بغیر دیکھے، بغیر جانے آپ ایسی رائے کیسے قائم کرسکتی ہیں۔ آپ اور بابا دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔
میں دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتی ہوں۔ آپ آگے بڑھنے پر تیار نہیں ہیں۔ میں پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوں تو پھر بہتر ہے ایک دوسرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، میں آپ کو اپنے طور طریقے اپنانے پر مجبور کرتی ہوں نہ آپ کے طور طریقے چھوڑنے پر پھر آپ مجھ سے اس طرح کی باتیں کیوں کرتی ہیں۔” اس نے بڑی سنجیدگی سے ماں کی تمام باتوں کا جواب دیا۔
”ہم مجبور ہیں ہمیں تو کہنا ہی ہے۔ ہمیں تو تمہیں روکنا ہی ہے۔ کیونکہ ماں باپ ہیں اولاد کو کنویں میں گرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ تم غلط کام کرو گی تو کل قیامت کے دن ہماری پکڑ ہوگی۔ ہمیں جواب دہ ہونا پڑے گا۔”
”آپ جواب دہ مت ہوں۔ میں خود جواب دے لوں گی۔ آپ کو اس لحاظ سے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے ایک بار پھر تیز آواز میں ماں سے کہا۔
ماں کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
شائستہ باپ کے کمرے کی طرف چلی آئی۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اس نے گلے میں رسی کی طرح پڑے ہوئے دوپٹے کو پھیلا کر سینے اور سر پر ڈال لیا تھا۔ اگرچہ اب بھی وہ کوئی بہت باپردہ اور باوقار نظر نہیں آرہی تھی، مگر وہ بغیر کسی دھڑکے کے باپ کے کمرے میں داخل ہوگئی۔
اکبر اپنے بیڈ پر تکیے سے ٹیک لگائے ایک کتاب پڑھ رہے تھے۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر انہوں نے دروازے کی جانب دیکھا تھا اور پھر ان کے ماتھے پر چند ہلکے سے بل پڑ گئے تھے۔ انہوں نے شائستہ کو اندر آتے دیکھ لیا تھا۔ مگر کتاب بند کرکے اس کی جانب متوجہ ہونے کے بجائے وہ اسی طرح کتاب پڑھتے رہے۔ شائستہ کو اپنے اس طرح نظر انداز کیے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ مستحکم قدموں سے چلتی ہوئی باپ کے پاس آگئی اور پھر بیڈ کے پاس پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔
”السلام علیکم بابا۔” اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے باپ سے کہا۔
”وعلیکم السلام۔” انہوں نے کتاب سے نظریں ہٹائے بغیر معمول کے انداز میں سلام کا جواب دیا تھا۔ شائستہ کچھ دیر خاموشی سے باپ کو کتاب پڑھتے ہوئے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”آپ کی طبیعت کیسی ہے بابا؟”
اکبر صاحب نے اس بار بھی کتاب سے نظریں نہیں ہٹائی تھیں۔ ”اللہ کا شکر ہے۔” انہوں نے ایک بار پھر اسی لہجے میں جواب دیا۔ وہ چند لمحے خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں کہ آپ ہاسپٹل میں داخل تھے۔”
”تمہیں اگر بتا دیا جاتا تو تم کیا کر لیتیں، اچھا ہی کیا سب نے تمہیں نہیں بتایا۔” اس بار پہلی دفعہ انہوں نے کتاب سے نظر ہٹا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
”میں کچھ نہ کرتی کم از کم آپ کو دیکھنے تو آتی۔ اتنا تو حق بنتا ہے میرا۔”
”نہیں، اس قسم کے کوئی حق نہیں بنتے تمہارے، مجھے ویسے بھی تمہارے آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”
وہ انہیں دیکھ کر رہ گئی، ان کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔
”پتا نہیں بابا! آپ پرانی باتوں کو بھول کیوں نہیں جاتے۔ کیوں ایک ہی بات کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ماں باپ کے نزدیک اولاد کی خوشی سب سے اہم ہونی چاہیے، انہیں اپنی انا کو اس معاملے میں آگے نہیں لانا چاہیے۔ مگر آپ توپتہ نہیں کیوں پرانی باتوں کو دل سے نہیں نکال رہے۔” اس نے یک دم صاف گوئی سے کہا۔ مگر اکبر صاحب کا ردعمل بہت جارحانہ تھا۔
” میں نے تمہیں اس کمرے کے اندر ان تقریروں کے لیے نہیں آنے دیا۔ تم جو کچھ کر چکی ہو اس کے بعد بھی اگر اس گھر میں آ جا رہی ہو تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ میں نے اپنے دل کو بڑا ہی رکھا ہے ورنہ مجھے تو تم سے سارے تعلقات ختم کر لینے چاہیے تھے۔ جہاں تک تعلق ہے پرانی باتوں کا تو میں ساری پرانی باتیں بھول چکا ہوں مگر جو کچھ تم اب کر رہی ہو اسے بھولنا اور نظر انداز کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔”
اکبر صاحب نے کتاب بند کرتے ہوئے تلخ لہجے میں کہنا شروع کیا۔
”پتا نہیں آپ سب میرے پیچھے ہی کیوں ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ اس طرح تو لوگ چور ڈاکوؤں کو بھی ملامت نہیں کرتے، جس طرح آپ سب مجھے کرتے رہتے ہیں۔ بابا! میں وہی کر رہی ہوں جو میرے شوہر کو پسند ہے اور اگر وہ اس پر اعتراض نہیں کرتا تو کسی اور کو بھی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنے شوہر کی مرضی کے مطابق زندگی نہ گزاروں اور اپنا گھر اجاڑ لوں، پھر کیا آپ خوش ہو جائیں گے۔”
”تمہیں یہاں بیٹھ کر اس طرح کی فضول بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں یہاں کسی نے دعوت دے کر نہیں بلایا، تم خود آئی ہو۔ اگر تمہیں ہماری باتوں پر اعتراض ہوتا ہے تو یہاں مت آیا کرو۔”
”میں پہلے ہی کون سا یہاں آتی ہوں۔ دو دو تین، تین ماہ گزر جاتے ہیں۔ تب کہیں آپ کو اپنا چہرہ دکھاتی ہوں اور پھر بھی آپ لوگ میرے آتے ہی نصیحتوں کا پٹارہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں کوئی ننھی بچی نہیں ہوں جو آپ کی انگلی پکڑے بغیر چل نہیں سکتی۔ میں اپنا اچھا برا اچھی طرح جانتی ہوں، جانتی ہوں میں کیا کر رہی ہوں۔”




Loading

Read Previous

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

2 Comments

  • I want to give you my story plz make it novel give it a happy ending plz

  • Good

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!