تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

”میں اس بارے میں ایک بارپھر تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا۔ وہ کبھی ہماری زندگی میں شامل نہیں رہا۔ میرے لیے اسے اپنی اولاد تسلیم کرنا اتنا مشکل نہیں ، جتنایہ مشکل ہے کہ میں نایاب اور اسد کے ساتھ ساتھ اسے بھی اس جائیداد کا حصہ دار سمجھ لوں۔ میں یہ نہیں کر سکتا۔”
”میں کر سکتی ہوں ۔ تمہیں اگر اپنی جائیداد کو تقسیم کرتے ہوئے تکلیف ہو رہی ہے تو میں اپنی جائیداد اسے دے سکتی ہوں۔”شائستہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”اور یہ کام تم میرے ساتھ رہ کر نہیں کر سکتیں پھر تمہیں شہیر یا اس گھر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔”
”میں اس بار شہیر کے لیے سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں ۔”شائستہ نے اسی انداز میں کہا ۔”گھر ، تمہیں ،سب کچھ ۔”
مجھے اور نایاب کو بھی؟”اسد نے چبھتے ہوئے انداز میں پوچھا۔
”اتنے سالوں میں کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے اپنے آپ کو تمہارے ساتھ محسوس کیا ہو۔”
شائستہ کہہ رہی تھی۔ ”تم دونوں صرف ہارون کے تھے، ہارون کے ہو۔ میرا ساتھ ہونا یا نہ ہونا کیا معنی رکھتا ہے تم لوگوں کے لیے۔”
”ممی !اس وقت جذباتی باتیں مت کریں ۔”اسد نے اپنی ماں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ۔”اس وقت صرف اس ایشو پر بات کریں جو اہم ہے۔”
”تم کیا سننا چاہتے ہو مجھ سے اسد ؟”وہ بے حد تلخی سے بولی تھی۔
”یہ آپ طے کریں کہ آپ کو مجھے کیا سنانا ہے۔”
”میں شہیر کو نہیں چھوڑوں گی۔ ”شائستہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”پھر میں اور نایاب یہ گھر چھوڑ دیں گے۔ ”اسد نے بھی اسی انداز میں کہا۔
”اور میں تم لوگوں کو یہ گھر چھوڑنے نہیں دوں گا۔ یہ گھر تمہارا ہے…شہیر کا نہیں ۔”ہارون نے اسد کی طرف دیکھا ۔
”یعنی تم مجھ سے یہ کہہ رہے ہو کہ میں شہیر کو لے کر یہاں سے چلی جاؤں ۔ ”شائستہ نے تیکھے انداز میں کہا۔
”ہاں ! ”ہارون نے مختصر اََ جواب دیا۔ لاؤنج میں چند لمحے خاموشی رہی۔
”میں اگر شہیر کو لے کر کریہاں سے گئی تو طلاق کے بغیر نہیں جاؤں گی اور یہ طلاق تمہیںکتنی مہنگی پڑے گی، تمہیں اس کا اندازہ ہے ہارون ؟”
”میں نے طلاق کی بات نہیںکی۔تم دوسرے گھر میں شہیر کے ساتھ رہو۔اس کا یہاں سب کے ساتھ رہناضروری نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ اسد کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہو گا۔ ”ہارون نے آرام سے مسئلے کا حل پیش کیا۔




”شہیر کہاں رہتا ہے، یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ کسی حیثیت سے رہتاہے، یہ میرا مسئلہ ہے۔”اسد بھی بولا تھا۔
”اور اس کی حیثیت تبدیل نہیں ہو گی اسد !”تم شائستہ تیزی سے بولی ۔”اور ہارون !میں شہیر کو کسی دوسرے گھر میں لے کر نہیں جاؤں گی۔ میں اگر اسے یہاں سے لے کرجاؤں گی تو پھر دوبارہ کبھی یہاں نہیں آؤں گی ۔ کبھی تمہاری شکل نہیں دیکھوں گی۔ جتنی جائیداد تمہیں شہیر کو دینا پڑے گی، اس سے کہیں زیادہ جائیداد تم کو طلاق کے بعد مجھے دینا پڑے گی۔ اب یہ تم خود بیٹھ کر طے کر لو کہ تمہیں کون سا راستہ پسند ہے۔ شہیر کو قبول کر کے جائیداد میں حصہ دینا یا پھر مجھے طلاق دے کر جائیداد کی تقسیم بیٹاتو تمہارا یہاں ہے ہی، بیٹی کو بھی بلوا لو تا کہ تینوں بیٹھ کر اس کے بارے میں فیصلہ کر سکو۔”
وہ تلخی سے کہتے ہوئے تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ اسد اور ہارون چپ چاپ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔
”تم دیکھ سکتے ہو اسے ۔ یہ ساری زندگی اسی طرح خود سری کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ کیا یہ کسی کے لیے ممکن ہے کہ ایسی عورت سے اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کروانے کے لیے اسے مجبور کیا جاسکے۔ ”
ہارون کو اسد کے سامنے اپنی صفائی دینے کے لیے جیسے ایک موقع ہاتھ آگیا۔
”مجھے دلچسپی نہیں ہے کہ کس نے کس کو مجبور کیا اور کیاکروایا۔”اسد نے سرد مہری کے ساتھ ہارون کی بات کاٹ دی۔ ”مجھے صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ یہ سب کچھ ختم ہو جائے۔ ”
”تم یقین کرو اسد !یہ سب میں نے شروع نہیں کیا ہے۔”
ہارون زندگی میں پہلی بار اسد کے سامنے اس لہجے میں وضاحتیں دے رہا تھا اور اسد بے حد کھردرے لہجے میں اس کی بے عزتی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا تھا۔
”آپ نے انکل منصورکے ساتھ پارٹنر شپ ختم کر دی ہے؟”اسد نے یکدم موضوع بدل دیا۔، ہارون اس غیر متوقع سوال کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ کچھ لمحے چپ چاپ اسے دیکھتا رہا پھر بولا۔
”تمہیں کس نے بتایا ہے؟”
”اس بات کو چھوڑیں کہ مجھے کس نے بتایا ہے۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ یہ خبر ٹھیک ہے یا نہیں ؟”اسد نے کندھے جھٹکتے ہوئے پوچھا ۔
”ہاں ۔”
”کیوں ؟”
”بہت ساری وجوہات ہیں ۔”ہارون نے گول مول انداز میں کہا۔
”اور ان وجوہات میں سب سے بڑی وجہ امبر ہے۔”ہارون جیسے کرنٹ کھا کر اچھلا ۔ اسد اس کے ردِعمل پر حیران ہوا۔
”کیا مطلب ؟”ہارون نے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ کہا۔
”مطلب صاف ہے ۔ میں امبر سے شادی کی خواہش کا اظہار نہ کرتا تو یہ پارٹنرشپ جاری رہتی۔”اسد نے ہارون کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔ ہارون کی رنگت لمحوں میں بحال ہوگئی تھی۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تمہیں یہ بات کیے اور باہر گئے اتنا عرصہ ہو گیاہے پارٹنرشپ تو میں نے ابھی ختم کی ہے۔”
”ہاں ، آپ نے بہت انتظار کر کے، بہت طریقے سے یہ کام کیا ہے مگر مجھے کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس پارٹنرشپ کو ختم کرنے کی وجہ صرف میں ہوں ۔”وہ اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”میری سمجھ میں نہیں آرہا ، میںتمہیں کیسے یقین دلاؤں کہ ایسا نہیں ہے۔”
”اگر ایسا نہیں ہے تومیں منصور انکل سے ملنا چاہوں گا تاکہ جان سکوں کہ آخر وہ کون سی وجہ ہے جس نے آپ کو اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔”
ہارون کو لگا وہ ایک گڑھے سے نکل کر دوسرے میں جا پھنسا ہے۔ پہلے شائستہ تھی جو اس کی گردن میں شہیر نام کی ہڈی پھنسانے پر تلی ہوئی تھی اور اب یہ اس کا اپنا بیٹا تھا جو اس کی گردن کے لیے ایک اور پھندا تیار کیے بیٹھا تھا۔ وہ منصور اور اسد کی ملاقات کے نتیجے کو بغیر کسی دقت کے تصور میں دیکھ سکتا تھااور یہ تصور بھی اس کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھا۔
”تمہیں منصور سے ملنے کی ضرورت نہیں ہے۔”ہارون نے بے حد دبنگ لہجے میں آخری کوشش کی۔
”کیوں ضرورت نہیں ہے۔ میں بڑی آسانی سے یہ طے کر سکتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں ۔ اور آپ دونوں سے زیادہ بہتر طریقے سے طے کر سکتا ہوں۔”ہارون نے اسد کے انداز میں اپنے اور شائستہ کے لیے حقارت کی جو جھلک دیکھی تھی، اس نے اسے ہولا دیا تھا۔
٭٭٭
”تم چند دنوں کے لیے یہاں آجاؤ ثانیہ! ”ثانی کو ثمر کے منہ سے اپنا پورا نام سن کر جیسے ایک جھٹکا لگا تھا۔ اس کا لہجہ تو عجیب تھا ہی مگر اس کے بات کرنے کا انداز بھی پہلے جیسا نہیں تھا۔
اس نے چند لمحے پہلے موبائل پر اسے فون کیا تھا۔
”کیوں ، کیا ہوا؟”امی ٹھیک ہیں ؟شہیر بھائی ٹھیک ہیں ؟”اسے یک دم تشویش ہونے لگی۔
سب لوگ بالکل ٹھیک ہیں۔”ثمر نے اسے جیسے تسلی دی ۔ ”مگر تمہاری یہاں موجودگی چند معاملات کے لیے ضروری ہے۔”
”تم کہیں نایاب سے کوئی منگنی وغیرہ تو نہیں کر رہے۔؟”ثانی کو یک دم خیال آیا ۔ وہ ہنس دیا۔
”نہیں ، ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ بس تم جتنی جلدی واپس آسکو بہتر ہے۔”
”میں اس ویک اینڈ پر آنے کی کوشش کرتی ہوں ۔”ثانی نے کہا۔
”ٹھیک ہے، تم مجھے آنے کے بارے میں بتا دینا۔”
”ثمر …سب کچھ واقعی ٹھیک ہے نا؟”ثانی نے کچھ الجھتے ہوئے پوچھا۔
”تم یہاں آؤ گی تو خود دیکھ لوگی کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں ۔”ثمر نے گول مول اندازمیں جواب دیا۔
”پھر تم اتنے سنجیدہ کیوں ہو رہے ہو؟”وہ اب مشکوک ہو رہی تھی۔
وہ اس سے کہہ نہیں سکا کہ زندگی کے جس مرحلے سے وہ گزر رہا تھا، اس نے اسے چند گھنٹوں میں عمر کے بہت سے سال طے کروادیے تھے۔ وہ ہنسنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اگر چہ وہ بے حد کو شش کررہا تھاکہ ثانی کو اس کے لہجے اور انداز میں آنے والی تبدیلی محسوس نہ ہو سکے۔
”میں ہمیشہ سے ہی سنجیدہ رہی ہوں ۔ اگر تمہیں پہلے کبھی نہیں لگا، تو اس میں میرا قصور نہیں ہے۔ ”اس نے اپنے لہجے میں کچھ بشاشت لانے کی کوشش کی ۔ اسے یقین تھا، ثانی مطمئن نہیں ہوگی۔ وہ اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔
”تم نے کوئی نیا کارنامہ تو نہیں کر دکھایا؟” ثانی کو اب اور طرح کی تشویش ہونے لگی۔ ”پھر کوئی فلم سائن کرلی ہے یا اسی طرح کی کوئی چیز؟”
”ہاں ایسی ہی کوئی بات ہے۔ ”ثمر نے دانستہ جھوٹ بولا ۔ یہ ضروری ہو گیا تھاس کہ وہ اس کی تشویش کو کم کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کہتا، ورنہ وہ اگلے کئی گھنٹے اسی طرح کے سوال کرتی رہتی۔
”فارگاڈسیک ثمر !مجھے اس طرح کے کسی کام کے لیے کراچی سے بلوارہے ہو۔؟”ثانی کو اگر ایک طرف کچھ تسلی ہوئی تو دوسری طرف غصہ بھی آیا۔
”میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے کہ میں تمہارے لیے بھاگتی ہوئی واپس آؤں اور تمہیں سپورٹ کروں ۔”
وہ جھنجھلا گئی۔
”ٹھیک ہے مت آؤ۔”ثمر نے مزید کچھ کہے بغیر سیل فون آف کر دیا۔ وہ جانتا تھا، وہ آجائے گی۔ بکتے جھکتے سہی مگر وہ آئے گی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!