شائستہ نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھا پھر فاطمہ پر ایک نظر ڈال کر وہ صحن کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ شہیر نے فاطمہ پر ایک نظر ڈالی اور پلٹ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ فاطمہ لپک کر اس کے پیچھے آئی تھی۔
صرف چند لمحے تھے اس کے پاس اسے سمجھانے کو ‘اس کے دل کو بدلنے کو ، پھر وہ وہاں سے چلا جاتا۔ دوبارہ وہاں کبھی نہیں آتا۔ اسے مستقبل سے خوف آرہا تھا۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ اپنی چیزیں اکھٹی کر رہا تھا۔
”میری بات پر اعتبار کرو شہیر!میں نے تمہیں اغوا نہیں کیا۔ میں نے تمہیں…”
شہیر نے اس کی بات ترشی سے کاٹ دی۔ ”میں کل اس یتیم خانے سے ہو کر آیا ہوں، وہاں میرا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ جتنا تماشہ آپ کر چکی ہیں کافی ہے، مزید نہ کریں۔ میں اس معاملے کو عزت سے ختم کرنا چاہتا ہوں توکرنے دیں ۔ اپنے آپ کو جھوٹ بول کر میری نظروں میں اور نہ گرائیں۔”
وہ مدھم آواز اور ترش لہجے میں کہہ رہا تھا۔ فاطمہ گنگ سی اسے سن رہی تھی۔
”جو کچھ آپ میرے ساتھ کر چکی ہیں ۔میںاس کے لیے آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکتا یہ نہ آتیں تب بھی میں اس گھر سے چلا جاتا۔ آپ کے ساتھ کبھی نہیں رہتا۔ ”اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”شہیر!مجھ پر اعتبار کرو…”شہیر نے بات کاٹ دی۔
”یہ بات کہنی چاہیے آپ کو؟…اعتبار ؟آپ جانتی ہیں اس کا کیا مطلب ہوتا ہے یا صرف کتابوں میں پڑھا ہے اس کے بارے میں ؟”اس کا لہجہ اس بار بہت تلخ تھا۔ ”ساری زندگی ایک کے بعد ایک جھوٹ سنتا رہا ہوں آپ سے ، اور آج جب سب کچھ کھل کر سامنے آگیاہے تو آپ مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ میں آپ پر اعتبار کروں ۔ میں کیوں کروں آپ پر اعتبار ؟آخر رشتہ کیا ہے میرا آپ کے ساتھ ایک اغوا کرنے والی اور اغوا شدہ کا۔ ”
وہ بے حد تلخی سے کہہ رہا تھا۔ فاطمہ نے بے چارگی سے اسے دیکھا وہ کیا جھٹلاتی ۔ سچ سچ نہیں رہا تھا اورجھوٹ جھوٹ نہیں رہا تھا ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی شائستہ اندر آگئی تھی۔ شہیر کچھ کہنا چاہتا تھا مگر شائستہ کے اندر آتے ہی وہ ایک بار پھر سے اپنا سامان پیک کرنے لگاتھا۔
”ان کپڑوں اور چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔”شائستہ نے اندر آتے ہی کہا۔ ”تم صرف اپنے کاغذات لے لو ۔ اس گھر سے کچھ بھی لینے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں ۔”
شائستہ نے گویا اسے ہدایت دی۔ وہ ایک لمحہ کے لیے ٹھٹکا، اور ایک بار پھر اسی طرح اپنے بیگ میں چیزیں ڈالنے لگا۔ شائستہ کے پاؤں اس وقت زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ سب کچھ اتنی آسانی سے ہو جائے گا۔ ہر چیز جیسے پہلے سے تیار پڑی تھی اسے کسی شے کو ہاتھ تک لگانا نہیں پڑا تھا۔ اس کا خاندان اتنے سال بعد بالآخر مکمل ہونے چلا تھا۔
شہیر بے حد برق رفتاری سے اپنی چیزیں اکٹھی کر رہا تھا۔ یوں جیسے وہ اڑکروہاں سے چلا جانا چاہتا ہوںکمرے میں موجود دونوں عورتیں خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہی تھیں ۔ فاطمہ نے شائستہ کے کمرے میں آنے کے بعد اس سے کچھ نہیںکہا تھا۔ نہ اس سے نہ شہیر سے ۔اس کا اندازفاطمہ کے ساتھ اس قدر تحقیر آمیز تھا کہ فاطمہ کو کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہو پارہی تھی۔ وہ اس وقت وہاں ایک ایسے مجرم کے طور پر کھڑی تھی جو ایک ماں اور بیٹے کی جدائی کا سبب بناہو۔ کچھ کہنے اور کچھ سننے کے لیے کچھ بچاہی نہیں تھا۔ اسے اپنے تینوں بچوں سے محبت تھی مگر شہیر اس کی جان تھا اور آج وہ اپنی جان جاتے دیکھ رہی تھی۔
”السلام علیکم !”کی آواز پر سب چونکے تھے ۔ ثمر کس وقت اندر آیا ، کسی نے غور نہیں کیا تھا۔ اور اس وقت وہ مسز ہارون کمال کو اپنے گھر پر دیکھ کر بھونچکا رہ گیا تھا۔
شائستہ ایک لمحے کے لیے اس کی طرف متوجہ ہوئی پھر سلام کا جواب دیے بغیر دوبارہ شہیر کو دیکھنے لگی ۔ شہیر کے ہاتھ سامان پیک کرتے ہوئے صرف چند لمحوں کے لیے رکے تھے اور اب وہ ایک بار پھر سے اسی طرح سامان پیک کر رہا تھا۔ ثمر نے فاطمہ پر نظر ڈالی صرف وہ تھی جو اسے دیکھ رہی تھی اوور اس کے چہرے پر بے تحاشہ بے چارگی اور لجاجت تھی۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ وہ اس کے لیے روز قیامت تھا۔
شہیر جا رہا تھا۔ ثمر جانے کے لیے آگیا تھا۔ ثانیہ پہلے ہی گھر پر نہیں تھی فاطمہ مختار کے گھر میں کیا رہ گیا تھا۔
ثمر نے فاطمہ کے آنسو دیکھے ، شہیر کا اندازدیکھا ، اور شائستہ کے تیور کچھ غلط تھا۔ پلک جھپکتے میں اس کی چھٹی حس نے اسے احساس دلایا۔
”یہ کیا ہو رہا ہے؟”اس نے بالآخر سوال کرنا ضروری سمجھا ۔ مگر کسی نے اس کی بات کا جواب نہیں دید۔ فاطمہ بولنے کے قال نہیں تھی۔ شہیر بول نہیں رہا تھا اور شائستہ بولنا نہیں چاہتی تھی۔ ثمر کے چہرے پر الجھن تھی۔ شائستہ نے صرف ایک لمحہ کے لیے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا۔ ثمر اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہاں اس کے لیے نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ نفرت اور حقارت وہ زندگی میں پہلی بار ان دو چیزوں سے شناسائی حاصل کر رہا تھا۔ اس کے گھر میں اس کے کمرے میں کھڑے ہو کر وہ عورت اسے نفرت اور حقارت سے دیکھ رہی تھی۔ کیوں ؟
”شہیر بھائی!آپ سامان کیوں پیک کر رہے ہیں ؟”
اس نے اس بار شہیر سے پوچھا تھا۔ فاطمہ کو حیرت ہوئی کہ وہ اس کی طرف کیوں نہیںبڑھا ۔ اس نے اس سے کیوں نہیں پوچھا کہ وہ کیوں رو رہی تھی؟یہسب کچھ کیا ہو رہا تھا۔؟
اس سے پہلے شہیر کچھ کہتا شائستہ نے مداخلت کی۔
”شہیر تمہارا بھائی نہیں ہے، اس لیے اسے بھائی مت کہو۔”
فاطمہ کا جسم ایک بار پھر سے کپکپانے لگا تھا۔ ایک بار پھر انکشافات ، حقائق ، اعتراف اور پھر سامان کا ایک اور بیگ، ثمر نے ایک نظر فاطمہ کی طرف دیکھا ، ایک اچٹتی سی نظر پھر وہ دوبارہ شائستہ کو دیکھنے لگا۔ شائستہ نے اسی لہجے میںکہا۔
”شہیر سامان اس لیے پیک کر رہا ہے کیونکہ وہ اس گھر سے جارہا ہے۔ وہ میرا بیٹا ہے۔”
وہ چونکا تھا، نہ اس نے فاطمہ اور شہیر کو دیکھا تھا۔ وہ ماتھے پر لکیریں لیے اسی طرح شائستہ کو دیکھتا رہا ۔ شہیر چند لمحے کو رکا۔ وہ ثمر کو سب کچھ بتانا چاہتا تھا، مگر کسی کو ثمر کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیںپڑی۔
”میں جانتا ہوں شہیر ، امی کا بیٹا نہیں ہے مگر آپ کے پاس کیاثبوت ہے کہ وہ آپ کا بیٹا ہے۔ ؟”
اگر کمرے کی چھت فاطمہ اور شہیر کے سر پر گر پڑتی تو انہیں اتنا شاک نہیں لگتا جتناثمر کے منہ سے نکلنے والے اس جملے سے لگا تھا۔ وہ کیسے جانتا تھا؟کیا وہ ہمیشہ کی طرح جھوٹ بول رہا تھا یا پھر وہ واقعی جانتا تھا۔ شائستہ کے ہونٹ بے اختیار بھنچ گئے۔ وہ اس سے ثبوت مانگنے والا کون تھا؟
”شہیر جانتا ہے کہ وہ میرا بیٹا ہے اور میرے لیے یہ کافی ہے، مجھے ہر ایرے غیرے کو ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔”وہ تندو تیز لہجے میں بولی۔
”شہیر کیسے جانتا ہے کہ وہ آپ کا بیٹا ہے۔ کل تک تو وہ اس گھر میں آپ کے انکشافات کا مذاق اڑا تا تھا اور آج اچانک اسے یقین آگیا کہ آپ واقعی اس کی ماں ہیں ۔ مگر مجھے حیرت ہے کہ آپکی اپنی بیٹی کو آپ کی کسی گمشدہ اولاد کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے، کیوں….؟”
”میں تمہارے سوالوں کے جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی، نہ تمہیں کوئی ثبوت دوں گی ۔شہیر کا چہرہ بتاتا ہے کہ وہ کس کی اولاد ہے۔ ”
”کس سے ملتا ہے اس کا چہرہ؟آپ سے ؟یا آپ کے شوہر سے؟آپ کے شوہر سے تو میری بھی شکل ملتی ہے تو کیا آپ کل کو مجھے بھی اپنا بیٹا بنا کر لے جائیں گی۔ ؟”اس کا انداز چیلنج کرنے والا تھا۔ شہیر نے چونک کر اس کے چہرے کو دیکھا۔ وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ اس کا چہرہ ہارون کمال سے تھوڑی بہت مشابہت رکھتا تھا۔ شائستہ کے وجود میں اس کے جملے نے جیسے آگ لگا دی تھی۔
”یہ اپنے باپ کی جائز اولاد ہے۔”شائستہ نے شہیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”تم کس باپ کی اولاد ہو، یہ تمہاری ماں کو بھی نہیں پتہ ہو گا۔ پتہ ہوتا تو تمہیں کوڑے کے ڈھیر پر نہ پھینکتی ، باقی تفصیلات تم اپنی اس نام نہاد ماں سے پوچھ لینا جسے لوگوں کی اولادیں پالنے کا بہت شوق ہے۔ ہاںالبتہ ماں کا نام جاننا ہو تو میرے پاس آنا میں تمہیں اس طوائف کا پتہ ضرور دے دوں گی جسے تمہاری ماں ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ”
کھولتا ہوا لاوا تھا جو شائستہ نے کمرے میں موجود لوگوں پر انڈیل دیا تھا۔ ثمر اب خاموش تھا۔ ساکت و صامت بے حس و حرکت ۔
شہیر بے یقینی سے شائستہ اور ثمر کو دیکھ رہا تھا۔ کیا واقعی ثمر کو کوڑے کے ڈھیر پر…؟کیا واقعی اس کی ماں طوائف …؟اور یہ سب کچھ شائستہ کیسے جانتی تھی؟۔
”مجھے اس معاملے میں آپ کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے، میں جانتا ہوں مجھے کہاں سے اٹھایا گیا اور میری ماں کیسی عورت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے میں اپنی اس ماں جو آپ کے بقول نام نہاد ماں ہے، کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ اس نے مجھے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر پالا ہے۔ ”
فاطمہ پتھر کے مجسمے کی طرح ساکت تھی۔ وہ کیا کہہ رہا تھا؟کیا اسے واقعی پتہ تھا ؟مگر کب سے؟
”میں تم سے کوئی بحث نہیں کرنا نہیں چاہتی ۔”شائستہ نے پھنکارتے ہوئے کہا۔ ”شہیر !آؤ میرے ساتھ۔”
اس نے شہیر کا بازو پکڑا ۔ شہیر اور ثمر کی نظریں آپس میں ملیں شہیر کی نظروں میں الجھن تھی۔ پھر اس نے نظریں چرالیں اور شائستہ کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔ فاطمہ بے اختیار اس کے پیچھے لپکی لیکن ثمر نے اس کا بازو پکڑ کر روکا۔
”نہیں ، نہیں جانے دیں وہ نہیں رکیں گے۔ ان کے پیچھے مت جائیں ۔ ”اس کا لہجہ بے حد تحکمانہ تھا۔
فاطمہ روتے ہوئے اسے دیکھتی رہی ۔ اس نے بہت سال پہلے اسے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا یا تھا۔ اسے لگا آج وہ اسے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا رہا تھا۔
٭٭٭
شائستہ اور شہیر کے درمیان گاڑی میں بہت مختصر بات چیت ہوئی۔ گاڑی شائستہ چلا رہی تھی۔ شہیر اس کے برابر میں بیٹھا تھا۔
گاڑی مین روڈ پر لاتے ہی شائستہ نے کہا۔
”تم جانتے ہو ان دونوں بچوں کو فاطمہ نے کہاں سے اٹھایا ، جنہیں تم اپنا بہن بھائی سمجھتے رہے؟”
شہیر نے خاموشی سے اسے دیکھا ۔
”ایک کوڑے کے ڈھیر سے ۔”اس نے تحقیر آمیز انداز میں چند لمحے پہلے کیا جانے والا انکشاف دوبارہ دہرایا۔
”کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر بنایا جانے والا خاندان کتنے دن چلتا۔ مگر مجھے حیرت ہے کہ وہ کس دھڑلے سے کہہ رہا تھا۔ کہ اسے سب پتہ ہے سب جانتا تھا تو آج تک چپ کیوں بیٹھا ہواتھا۔ ”وہ حقارت سے بولی۔
”آپ کو یہ سب کچھ کیسے پتہ چلا؟”شہیر نے وہ سوال کیا جو اس کے ذہن میں بڑی دیر سے کلبلارہا تھا۔ چند لمحوں کے لیے شائستہ خاموش رہی پھر بولی۔
”میں نے سب کچھ باقاعدہ تحقیق ….کروایاہے۔ ”
شہیر نے جواباََ یہ نہیں پوچھا کہ کس طرح ۔اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اسے اپنے وجود میں عجیب سی ٹیسیں اٹھتی ہوئی محسوس ہونے لگی تھیں ۔
”میں نے جب پہلی دفعہ اس ہوٹل میں تمہیں دیکھا تھا۔ میں تب ہی جان گئی تھی کی تم ہی میرے بیٹے ہو۔”
شائستہ اب اسے بتا رہی تھی۔ اس کے لہجے کی کھنک سے کوئی بھی اس کو خوشی کا اندازہ کر سکتا تھا ۔شہیرخاموشی سے سڑک کو دیکھتے ہوئے اس کی بات سن رہا تھا۔
”تم مجھے ناپسند کرتے تھے۔ مجھ سے دور بھاگتے تھے۔ تم سمجھے ہو گے یہ عورت پتا نہیں کس لیے تمہارے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ مگرمیں ، میں تو جان چکی تھی کہ تم میرے بیٹے ہو۔ ”
”صرف اس لیے کیونکہ میری شکل و صورت ملتی ہے آپ سے اور آپ کے شوہر سے ؟”شہیر نے یکدم کہا تو شائستہ کو جیسے شاک لگا۔
”آپ کے شوہر؟شہیر ، ہارون تمہارا باپ ہے۔ تم شہیر ہارون کمال ہو۔ میرے سب سے بڑے بیٹے۔”
شائستہ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”جہاں تم جارہے ہو وہ گھر ہے تمہار اجہاں تمہارا اصلی خاندان موجود ہے۔ تمہیں کچھ محسوس نہیں ہورہا َ؟”شائستہ نے جیسے حیرانی سے پوچھا تھا۔
”آپ کے گھر میں سب یہ بات جانتے ہیں کہ آپ مجھے لینے جارہی ہیں ؟”شہیر نے شائستہ کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا۔
”ہاں ،سب کو پتہ ہے کہ تم آرہے ہو۔ ”
”آپ نے مجھے بتایا نہیں کہ صرف شکل و صورت کی وجہ سے آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھ رہی ہیں؟”شہیر کو یک دم اپنا سوال یاد آیا ۔
”میں جانتی ہوں کہ تم میرے بیٹے ہو۔ تمہیں کو ئی شک ہے تو ہمPaternity testکر والیں گے۔ ”
”ہاں میں چاہوں گا کہ آپ ایسا کریں ۔ ”شائستہ کو اس کی بات سے دکھ ہوا۔ وہ اب بھی بدگمان تھا۔
”اس عورت نے تمہار اذہن اس حد تک خراب کر رکھا ہے کہ تمہیں میری کسی بات پر بڑے عرصہ تک یقین نہیں آئے گا۔ ہر چیز پر شبہ کرو گے تم ۔ مگر پھر تمہیں احساس ہوجائے گا کہ میں کچھ بھی غلط نہیں کہہ رہی ہوں تم اپنے گھر واپس آگئے ہو۔ دیر سے سہی مگر تم اپنے ماں باپ کے پاس آگئے ہو۔ ”شہیر خاموش رہا۔
”میں نے تمہارے باس کو بتا دیاہے کہ تم کل سے جاب پر نہیں آرہے ۔”شائستہ نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔ ”تم اب اپنے پاپا کے ساتھ اپنی فیکٹری جایا کروگے۔ ”
شہیر کو اپنے پیٹ میں گرہیں سی پڑتی محسوس ہوئیں ۔
”پاپا …”یہ لفظ اس کے لیے قابل ہضم نہیں تھا۔ ڈیڑھ دن میں اس کا باپ نمودار ہو گیا تھا۔ ماں اور بہن بھائی بدل گئے تھے اور اب زندگی بدلنے والی تھی کوئی اور ہوتا تو وہ اس وقت اپنی قسمت پر رشک کر رہا ہوتا مگر شہیر ذہنی اضطراب کا شکار ہو رہا تھا اور شائستہ بنا دقت اس کا چہرہ پڑھ رہی تھی۔
٭٭٭
روشان خاموشی سے پچھلے پندرہ منٹ سے فون پر باپ کی بات سن رہا تھا ۔ منصور بالکل پاگلوں والے اندازمیں اسے بتا رہا تھا۔ کہ امبر نے اس کے ساتھ کیا کیا ،کیاہے ۔ کس طرح ہارون کمال کے ذریعے رخشی کو اس سے الگ کر وایا ہے۔ کس طرح اس کی فیکٹری سے اسے بے دخل کروایا ہے۔ روشان کو امبر اور ہارون کی شادی کا سن کر دھچکا لگا تھا۔
”آپ سے کس نے کہا کہ ان دونوں نے شادی کر لی ہے؟۔”روشان نے بے یقینی سے کہا۔
”صبغہ نے بتایا ہے مجھے۔”
روشان کچھ بول نہیں سکا ۔ ”اگر چہ ہارون اس بات کو نہیں مان رہا تھا مگر صبغہ نے مجھے بتایا ہے کہ امبر اس کے لیے گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ تم جانتے ہوامبر کو وہ کس قدر خود سراور ضدی ہے۔ ”
”مجھ سے کیا چاہتے ہیں آپ ؟”روشان نے یکدم باپ کی بات کاٹی۔اس کا لہجہ بہت عجیب ہو گیاتھا۔
”میں چاہتا ہوں تم واپس لاہور آؤ اور یہا ں آکر ماں سے بات کرو۔ امبر سے بات کرو کہ وہ یہ سب کچھ کرنا بند کردے۔ ہارون کمال سے کہے کہ وہ میری فیگٹری مجھ سے نہ چھینے ،میرے ساتھ پارٹنرشپ ختم نہ کرے اوررخشی کے ساتھ میری مصالحت کروا دے۔ ”
روشان کو اپنا خون ابلتا ہوا محسوس ہوا منصور علی یا تو بے شرمی کی آخری حدوں تک پہنچ چکا تھایا پھر اس کا ذہنی توازن خراب ہو چکا تھا۔ ورنہ وہ اس سے یہ سب کچھ نہ کہہ رہا ہوتا۔ روشان کا دل چاہا تھا وہ بلند آواز میں چلا چلا کر باپ کو گالیاں دے۔بے تحاشا گالیاں ۔ وہ اس وقت اسے انسان نہیں ، ایک چوپا یہ لگ رہا تھا جس کی ہر قسم کی ذہنی صلاحیت ایک عورت کے عشق نے مفقود کردی تھی۔
”میں نہیں آؤں گا ۔ تمہارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے بہت اچھا ہو رہا ہے۔ میری طرف سے تم بھاڑ میں جاؤ۔”
اس نے سیل فون پر پوری قوت سے چلاکرکہا اور فون بند کر دیا۔ منصور نے بے یقینی سے فون میں سے آنے والی آواز کو سنا ۔ اس نے پہلی بار اپنے بیٹے کو اوپر چلاتے سنا تھا۔ اس کی زندگی میں سب کچھ پہلی بار ہو رہا تھا۔ اور یہ سب کون کروارہا تھا؟اسے ایک بار پھر امبر کا خیال آیا ۔ اس کا ذہنی توازن واقعی خراب ہو رہا تھا۔
٭٭٭