تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

”نہیں شکریہ…میں نے آپ کو زحمت دی۔ ”
”آپ امبر منصور علی کی بہن ہیں ؟”اس کے اگلے جملے نے صبغہ کے باہر جاتے قدموں کو یک دم روک دیا۔
اس نے حیران ہو کر اس آدمی کو دیکھا۔
آپ …آپ امبر کو کیسے جانتے ہیں ؟”
”ان کا ہمارے گھرآنا جانا تھا…میری بہن کی دوست تھیں …فرح شعیب ۔”اس نے اپنی بہن کا نام لیا۔
صبغہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے ۔ باہر جائے یا دوبارہ بیٹھ جائے۔فرح، امبر کی اچھی دوستوں میں سے ایک تھی۔
”پلیز بیٹھیں ۔”اس بار اس نے کھڑے ہو کر بڑے مہذب انداز میں کرسی کی طرف کی اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
صبغہ بادل نخواستہ بیٹھ گئی۔ آج کا دن واقعی بہت برا تھا۔ ایک کے بعد ایک برے اتفاقات ہو رہے تھے۔
”مجھے آپ کا چہرہ جانا پہچانا لگ رہا تھا۔ ”وہ کہنے لگا ۔ ”امبر کو ایک دوبارہ میں فرح کے ساتھ ڈراپ کر نے گیا تھا، وہیں شاید آپ کو دیکھا ہو گا، یا پھر آپ کی امبر کے ساتھ بہت مشابہت ہے اس لیے مجھے امبر کا خیال آیا ۔ آپ شہیر کی رشتے دار ہیں؟”
اس نے بات کرتے کرتے اچانک پوچھا۔
”جی…؟”وہ چونکی۔
شہیر کہہ رہا تھا کہ آپ اس کی رشتہ دار ہیں ۔”اس آدمی نے کہا۔
”جی دور کے۔”
”ہاں وہ بھی یہی کہہ رہا تھا۔ ”اس نے سر سری انداز میں کہا ۔
”آپ کی فیملی پر آنے والے کرائس سے میں واقف ہوں،فرح نے مجھے بتایا تھا کہ آپ کے والد نے دوسری شادی کر لی، اور پھراس کے بعد آپ لوگوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ ”وہ تفصیلاََ بتانے لگا۔




”ہمیں ذاتی طور پر بہت دکھ ہوا تھا۔ فرح نے بعد میں کئی بار امبر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ صورت حال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ آپ کو اس طرح جاب ڈھونڈنی پڑ رہی ہے۔”
صبغہ کو یقین تھا کہ اسے واقعی افسوس ہوا ہوگا، مگر اسے اس وقت اس کو امبر کے بارے میں سب کچھ بتانا اور شرم ناک تھا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ اس سے مدد لیتی۔ وہ اب واقعی بری طرح پچھتا رہی تھی کہ اس نے شہیر سے مدد لینے کا سوچاہی کیوں ۔
”میرا نام تو آپ جانتی ہی ہیں ولید شعیب …آپ یہ سمجھیں کہ آج اس وقت اپنے بھائی سے بات کر رہی ہیں۔”اس کا انداز اس بار ہمدردانہ تھا۔
”آپ بتائیں میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں ؟”صبغہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر کمرے کے اندر سوفٹ ڈرنکس لانے والے شخص کو ۔ صبغہ اپنے سامنے رکھے سوفٹ ڈرنک کو دیکھتی رہی ۔ وہ بات کا آغاز کرنے کے لیے ہمت اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”آپ ہماری فیملی کو جانتے ہیں تو آپ ہارون کمال کی فیملی کو بھی جانتے ہوں گے۔ ”اس نے بالآخراپنی ساری ہمت مجتمع کر کے پوچھا ۔
”بہت اچھی طرح سے ۔”ولید نے کہا۔”نہ صرف میں بلکہ میرے فادر بھی۔”اگلا جملہ بولتے ہوئے صبغہ نے ولید سے نظریں چرالیں ۔
”امبر نے ان سے شادی کر لی ہے۔”
”ان کے بیٹے اسد سے ؟”
ولید نے بڑی روانی سے پوچھا ۔ صبغہ چپ کی چپ رہ گئی۔ اس کی خاموشی نے ولید کو کچھ غلط ہونے کا سگنل دیا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہ کر جیسے اپنے لفظوں کو تولتا رہا ۔صبغہ اب بھی ٹیبل پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
”ہارون کمال سے ؟”صبغہ نے اس دفعہ بھی سر نہیں اٹھایا۔
ولید کو جواب کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ کچھ دیر خاموش رہ کر جیسے اپنی حیرت پر قابو پانے کی کوشش کرتارہا ۔
”یہ سب کب ہوا؟”
”کچھ دن پہلے۔”صبغہ نے مدھم آواز میں کہا۔ ”اور امبر نے گھر سے جانے کے بعد اتنے دنوں میں ایک بار بھی ہم سے رابطہ نہیں کیا ۔ ہم لوگ بہت پریشان ہیں۔”
آپ لوگوں کی مرضی سے شادی ہوئی تھی؟”
”نہیں ۔”
”تو پھر وہ کیوں آپ سے رابطہ کریں گی۔ آپ لوگ کچھ دن اور انتظار کریں ۔ یا پھر خود کسی کے ذریعے اس سے رابطے کی کوشش کریں ۔ مگر مجھے یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا ہے…امبر اور ہارون کمال …”
وہ ایک گہری سانس لے کر خاموش ہو گیا۔ صبغہ نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
”ہمارے پاس اس سے رابطے کاکوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس کے پاس موبائل نہیں ہے اورہم ہارون کمال سے تو اس کے بارے میں بات نہیں کر سکتے۔”صبغہ نے قدرے بے چارگی سے کہا۔
”کیوں نہیں کرسکتے…”ولید نے سنجیدگی سے کہا۔
”اسے فون کر کے اپنی بہن کے بارے میں پوچھنے میں کیا حرج ہے؟”صبغہ نے الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
”خیر!یہ کام میں بھی کر سکتا ہوں ۔”ولید نے اچانک کچھ سوچتے ہوئے کہا اورٹیبل پر پڑے وزیٹنگ کارڈز کے ایک ڈھیر کو تیزی سے الٹنے پلٹنے لگا۔
”میرے پاس ان کا وزیٹنگ کارڈ ہے۔ صبغہ جان گئی کہ وہ کیا ڈھونڈ رہا ہے۔
”اچھا دیں ذرا!”ولید نے ان کارڈز سے ہاتھ ہٹا لیا ۔صبغہ نے اپنا بیگ کھول کر اندر رکھے کچھ کارڈزمیں سے ایک کارڈولید کی طرف بڑھا دیا۔
”میں اپنا تعارف کروائے بغیر آپ کے حوالے سے ان سے بات کروں گا اور امبر کے بارے میں پوچھوں گا۔ ”
ولید نے ایک نمبر ڈائل کرتے ہوئے صبغہ سے کہا۔
”کیا یہ کہہ دوں کہ میں آپ کا وکیل ہوں؟”
”نہیں ،آپ کے پاپا اور ہارون کمال کی تو آپس میں کوئی پارٹنرشپ ہے۔”ولید واقعی بہت کچھ جانتا تھا۔
”پھر …؟”صبغہ کی سمجھ میں نہیں آیا ۔
”میں یہ کہتا ہوں کہ میں آپ کا وکیل ہوں اور امبر سے بات کرناچاہتا ہوں ۔”ولید نے جیسے پلک جھپکتے میں طے کیا اور دوبارہ نمبر ڈائل کرنے لگا۔ صبغہ دھڑکتے دل کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہی، چند لمحوں کے بعد دوسری طرف سے کسی نے کال ریسیو کی۔
”ہیلو…!”ولید نے کہا۔
”میں ظفر حیات بول رہا ہوں ۔”اس نے دانستہ طور پر اپنا نام غلط لیا۔
”میں صبغہ منصور علی اور ان کی فیملی کی طرف سے آپ کے خلاف کیے جانے والے ایک کیس کی پیروی کررہاہوں ۔ اور اس سلسلے میں امبر منصور علی سے بات کرنا چاہتا ہوں کیونکہ …”
دوسری طرف سے کچھ کہا جا رہا تھاکیونکہ ولیدیک دم بات کرتے کرتے خاموش ہو گیا۔ وہ اب دوسری طرف کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا۔
”آپ نے امبر منصور علی کے ساتھ زبردستی شادی کی ہے اور امبر کی فیملی نے امبر کی برآمدگی کے لیے ایف آئی آر درج کروائی ہے۔”
ولید ایک بار پھر بات کرتے کرتے رک گیا، اوردوسری طرف سے آنے والی آواز سننے لگا۔ چند لمحوں کے بعد اس نے ریسیو رکھ دیا۔
”ہارون کمال نے فون بند کر دیا ہے۔ میں دوبارہ کال کروں گا بھی تو وہ ریسیو نہیں کروے گا۔ ”اس نے امبر کے بارے میں کچھ کہا ۔؟”صبغہ نے بے تابی سے اس سے پوچھا۔
”اس نے کہا ہے کہ و ہ کسی امبر منصور علی کو نہیں جانتا ۔ اور آپ کی فیملی کے بارے میں یہ کہا کہ چونکہ وہ منصور علی کے ساتھ پارٹنرشپ ختم کر رہا ہے، اس لیے منصور اسے جان بوجھ کر بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ایسی ساری کوششوں کامنہ توڑ جواب دے گا۔”ولید نے ہارون کی باتوں کو صبغہ کے سامنے دہرایا۔
”امبر اس کے پاس ہے…نہ ہوتی تو اب تک واپس آگئی ہوتی…وہ امبر کے ساتھ شادی کر چکا ہے۔”صبغہ نے بے چارگی سے کہا۔
”یقینا کر چکا ہو گا…یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فی الحال نہ کی ہو، کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور امبر اسی کے پاس ہو ۔ مگر دونوں صورتوں میں وہ کبھی اعلانیہ تو یہ نہیں کہے گا کہ امبر سے شادی کر چکا ہے۔ مجھے یقین ہے اس کی باقی فیملی کو اس شادی کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہو گا…کیا وہ کچھ جانتے ہیں؟” ولید نے پوچھا۔
”پتہ نہیں …ہم لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں …ہم لوگوں نے اس کو بہت روکا تھا، پھر جب وہ نہیں مانی تو ممی نے اسے گھر سے نکال دیا۔ ”ُ
”مجھے یقین ہے کہ ہارون ، امبر سے اس ساری گفتگو کا ذکر کرے گا اور وہ آپ لوگوں سے فوری طور پر رابطہ کرے گی، کیونکہ اگر یہ شادی خفیہ ہے تو ہارون تو افورڈ نہیں کر سکتا کہ اس کو اس قسم کے کسی کیس کا سامنا کرتا پڑے ۔ میں اپنے کانٹیکٹ استعمال کروا کر یہ پتا کرتا ہوں کہ اس نے امبر کو کہاں رکھا ہو گا۔ مگر مجھے اُمید ہے کہ امبر اس سے پہلے ہی اس سارے معاملے پر بات کرنے کے لیے آپ کے پاس آئے گی۔ ”ولید نے سنجیدگی سے کہا۔
”مگر اچھی خبر یہ ہے کہ آپ کے والد اور ہارون کی پارٹنرشپ ختم ہو گئی ہے، آپ امبر کے بارے میں انہیں بتائیں تو وہ ہارون سے خود اس سلسلے میں بات کر لیں گے، بلکہ زیادہ اچھے طریقے سے کریں گے۔ ”
صبغہ اس سے کہہ نہیں سکی کہ وہ باپ کو یہ سب کچھ بتا چکی ہے اور باپ کا ردعمل وہ اب سمجھ رہی تھی، اسے اب اندازہ ہوگیا تھا کہ امبر کے خلاف وہ غبار ہارون کے ساتھ پارٹنرشپ ٹوٹنے کی وجہ سے ہی نکالا گیا تھا۔ اسے خود اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہا تھا کہ یہ پارٹنرشپ ختم کروانے والی امبر ہی تھی۔ یہ ان دونوں کی شادی کا ثبوت تھا۔
”ہاں میں پاپا سے اس سلسلے میں بات کروں گی۔ ”صبغہ نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!