تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

منصور علی، ہارون کمال کے سامنے بیٹھا اسے گھور رہا تھا۔ ہارون ابھی کچھ دیر پہلے ہی اپنے وکیل کے ساتھ فیکٹری کے آفس میں داخل ہوا تھا۔ منصور پچھلے آدھ گھنٹے سے اپنے وکیل کے ساتھ وہاں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا اور اب جب وہ آ کر اطمینان کے ساتھ اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا تو منصور کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ہارون کا گریبان پکڑ لے۔
وہ اس وقت واقعی ڈھٹائی اور بے شرمی کی سب سے اونچی سطح پر تھا۔ جہاں پر وہ صرف ایک ایسا مرد تھا جس کی چہیتی بیوی ایک ”سازش” کے تحت اس سے جدا کر دی گئی تھی۔ جس کا بزنس’ اس کا پارٹنر اس کی اپنی بیٹی کے کہنے پر اسے تباہ کرنے پر مل گیا تھا۔ اس کے دل میں ہارون کمال کو اپنی کم عمر بیٹی کے شوہر کے طور پر دیکھ کر کوئی غصہ’ کوئی نفرت پیدا نہیں ہو رہی تھی۔ اگر یہ دونوں جذبات پیدا ہو بھی رہے تھے تو امبر کے خلاف … جو اسے تباہ کرنے پر تل گئی تھی۔ اور ہارون اسے امبر کے ہاتھ ایک ہتھیار کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔
”ہارون کمال صاحب نے …” ہارون کمال کے وکیل نے اپنی نشست سنبھالتے ہی رسمی علیک سلیک کے بعد کہنا شروع کیا’ مگر منصور نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں ہارون سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔” منصور نے درشتی سے کہا۔
”تم مجھے اکیلا سمجھو۔” ہارون نے اپنے وکیل کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا۔ منصور کو اس کا اطمینان کانٹے کی طرح چبھا۔
”میں ان دونوں وکیلوں کے ساتھ کوئی ذاتی معاملہ ڈسکس کرنا نہیں چاہتا۔ میں اپنی اور تمہاری عزت اچھالنا نہیں چاہتا۔” منصور نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
”یہ اچھی بات ہے۔ ” ہارون نے سرہلایا اور پُرسکون انداز میں کہا۔
”میرے اور تمہارے درمیان ویسے بھی کوئی ذاتی معاملات نہیں ہیں’ صرف کاروباری معاملات ہی ہیں اور میں انہیں بھی ختم کر دینا چاہتا ہوں اور میں نہیں سمجھتا کہ کاروباری معاملات ختم کر دینے سے تمہاری یا میری عزت کو خطرہ ہو گا۔”
منصور نے اپنے اور اس کے وکیل پر ایک نظر ڈالی اور پھر جیسے کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے اگر تمہیں اپنی عزت کی پروا نہیں ہے تو پھر مجھے بھی نہیں ہونا چاہیے۔ میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم یہ سب کس کے اشارے پر کر رہے ہو۔”
”کس کے اشارے پر کر رہا ہوں؟” ہارون نے اسی انداز میں پوچھا۔




”امبر کے اشارے پر۔” منصور نے جیسے بم اس کے سر پر پھوڑا۔ ہارون کا جسم ایک لمحہ کے لیے تن گیا۔
”کون امبر؟” اس نے صرف ایک ساعت کا توقف کر کے کہا۔ کمرے میں بیٹھے دونوں وکیلوں کے چہروں پر حیرت کے تاثرات در آئے۔
”تمہاری دوسری بیوی۔”منصور نے زہریلے انداز میں کہا۔
”تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ” ہارون نے کہا۔
”میری صرف ایک ہی بیوی ہے اور اس کا نام شائستہ ہے۔” ہارون نے کاٹ کھانے والے انداز میں کہا۔
”تم نے دوسری شادی کر لی ہے’ تو تم سمجھ رہے ہو پوری دنیا تمہارے نقش قدم پر چلنے لگی”۔ ”وہ لڑکی آج باپ کو تباہ کر رہی ہے’ کل تمہیں بھی تباہ کر دے گی ہارون!۔” منصور نے جیسے ہارون کی بات نہیں سنی تھی۔ ”تم اگر یہ سمجھ رہے ہو کہ اس نے تمہاری محبت میں گرفتار ہو کر تم سے شادی کی ہے تو یہ تمہاری بھول ہے۔ وہ مجھے تباہ کرنے کے لیے تمہاری بیوی بنی ہے۔”
”تم کیا بکواس کر رہے ہو؟” ہارون نے بلند آواز میں اس کی بات کاٹی۔
میں نے کسی امبر کے ساتھ نہیں شادی نہیں کی ہے۔ یہ سب تمہارا اور تمہاری بیٹی کا ذاتی مسئلہ ہے۔ میں اگر تمہارے ساتھ پارٹنرشپ ختم کر رہا ہوں تو میرے پاس اس کے لیے بہت ٹھوس اور ذاتی وجوہات ہیں ۔”
”تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتے ہارون !مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔ ”منصور نے تیزی سے کہا۔ ”میں نے خود تمہارے فلیٹ پر اس کے کپڑے اور اس کی چیزیں دیکھی ہیں ، میںجانتا ہوں وہ وہیں رہ رہی ہے، میں نے اس وقت ان چیزوں کو نہیںپہچانا تھا،مگر اب میںجان گیا ہوں کہ وہ چیزیں مجھے کیوں مانوس لگ رہی تھیں ۔ میں جانتا ہوں تم نے امبر سے شادی کر لی ہے اور وہ وہیں رہ رہی ہے۔”
ہارون کمال چند لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر ، بالکل ساکت منصور کودیکھ رہا تھا، جو اسی انداز میں سرخ چہرے کے ساتھ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے تھا۔ دونوں وکیل ہکا بکا ان دونوں کو دیکھ رہے تھے، وہ کم از کم اس سب کی توقع کر کے وہاں نہیں آئے تھے۔
”تم سے بات کرنا بیکار ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ ہم آمنے سامنے بیٹھ کر ان معاملات کو حل کر لیںگے، مگر میرا خیال ہے کہ اب میرا وکیل ہی تم سے رابطہ رکھے تو بہتر رہے گا۔ ”ہارون کمال یک دم اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ منصور بھی اسی برق رفتاری سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔
”تم اس طرح مجھ سے بات کیے بغیر نہیں جاسکتے۔”
”تم مجھے کیسے روک سکتے ہو؟”ہارون دو بدو بولا ۔
”اس فیکٹری میں میرا روپیہ اور محنت لگی ہے تم اس طرح مجھے اس سے بے دخل نہیں کر سکتے۔”
”ٹھیک ہے نہیں کرتا پھر تم خرید لو اسے …میرے شیئرز بھی لے لو ۔”ہارون نے اسی انداز میں کہا ۔ ”اور مجھے پوری ادائیگی کر دو۔”
”تم جانتے ہو میں فوری طور پر یہ بھی نہیں کر سکتا۔” ”میرے لیے اتنی رقم کوئی معنی نہیں رکھتی۔”ہارون نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”ہارون ایک دفعہ پھر سوچو…تم امبر کی باتوں …”منصور نے اپنی آواز کو کچھ دھیما کرتے ہوئے کہا۔ مگر ہارون نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”شٹ اپ….اب امبر کا نام میرے سامنے مت لینا…تم اپنا ذہنی توازن کھوچکے ہو، اس لیے خوامخواہ اپنی بیٹی کو میرے گلے ڈال رہے ہو۔اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ اس طرح تم فیکٹری حاصل کر لو گے تو یہ تمہاری بھول ہے۔”ہارون نے تیز آوازمیں کہا اور پھر مزید کچھ کہے بغیر دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔ منصور ہونٹ کاٹتے ہوئے بند دروازے کو دیکھتا رہا۔
٭٭٭
صبغہ نے ہاتھ میں پکڑا کا رڈٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے نوجوان آدمی کی طرف بڑھا دیا۔ وہ اس وقت ایک سے وکیل کے چیمبر میںبیٹھی ہوئی تھی۔
”مجھے شہیر ثوبان نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ ”صبغہ نے اس شخص سے کہا۔ جس پر اس نے کارڈ پر سرسری سی نظر ڈالی،پھر اسے اپنی ٹیبل پر رکھتے ہوئے صبغہ سے پوچھا۔
”آپ کیا لیں گی ؟چائے یا سوفْٹ ڈرنک ؟”
”نہیں کچھ نہیں ۔”صبغہ نے جواباََ مسکرانے کی کوشش کی۔ وہاں کوئی آئینہ نہ ہونے کے باوجود اسے یقین تھا کہ وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔اس آدمی نے میز کے نیچے کسی بٹن کو دبایا تھا، ایک دوسرا شخص اندر داخل ہوا۔
”دو سو فٹ ڈرنک لے آؤ۔”
اس نے آنے والے شخص سے کہا، یہ جیسے صبغہ کے انکار کا ردعمل تھا۔ جب اندر آنیوالا شخص دوبارہ باہر نکل گیا تو اس نے بات شروع کی۔
”دیکھیں ، میں کوئی قانونی کاروائی کرنا نہیں چاہتی ہوں، میں اس کے علاوہ اورکچھ نہیں چاہتی ۔”اس نے اپنے پہلے ہی جملے پر سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے ماتھے پر چند لکیروں کو نمودار ہوتے دیکھا ۔صبغہ نے اس کے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
”میں صرف اپنی بہن سے رابطہ کرنا چاہتی ہوں ۔اس کی خیریت جاننا چاہتی ہوں ، میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتی۔”اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی اس نے ٹیبل پر پڑا کارڈا ٹھا کر اس پر پھر سے ایک نظر ڈالی اور صبغہ سے کہا۔
”آپ کو شہیر ثوبان سمیع نے ہی بھیجاہے؟”وہ اس کا سوال نہیں سمجھ سکی ۔ کچھ دیر ہو نق نظروں سے اسے دیکھنے کے بعداس نے پوچھا۔
”ہاں …کیوں؟”
”کچھ نہیں …مجھے لگتا ہے کوئی کنفیوژن ہے۔”وہ آدمی جیسے بڑبڑایا۔
”خیر آپ کیا بتا رہی تھیں ؟”اس نے پوچھا اور اپنے سامنے میز پر ایک رائٹنگ پیڈ کھول کر پین ہاتھ میں لے لیا۔
”لیکن ٹھہریں ، پہلے آپ مجھے اپنی بہن کے بارے میں تفصیل سے بتائیں۔کیونکہ شہیر نے مجھ سے ایسے کسی معاملے کے بارے میں بات نہیں کی تھی۔ اس نے بس یہ کہا تھا کہ آپ کو جاب کو ضرورت ہے اور میرے پاس ایک ریسپشنسٹ کی ویکینسی تھی۔ ْ”
صبغہ بے اختیار شرمندہ ہوئی، اس کا جی چاہا وہ پلک جھپکتے وہاں سے غائب ہوجائے ۔توشہیر نے وہ کارڈ صرف جاب کے حوالے سے دیا تھا۔ اسے یاد آیا، اس کے ساتھ اس روز ہونے والی ملاقات میں اس نے کہا تھا کہ وہ جاب کے سلسلے میںاس کی مدد کرے گااور یقینا اس نے اتنے دنوں میں یہی کیا تھا اور وہ…اسے یقین نہیں آیاکہ وہ زندگی میں اتنی بڑی حماقت کر سکتی تھی۔ مگر وہ کر چکی تھی۔
مزید ایک لفظ کہے بغیر اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”کیا ہوا؟”اس نے حیرانی سے کہا۔
”کچھ نہیں ، مجھے کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی۔ ”صبغہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”آپ پلیز بیٹھے ۔”وہ ایک لمحے میں اس کی شرمندگی بھانپ گیا۔
”ٹھیک ہے، شہیر نے آپ کی جاب کے لیے کہا تھا مگر میں اس معاملے میں بھی آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!