بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

’’اوہ…وہ تو میں دیکھنا ہی بھول گئی۔چلیں میں دیکھ کر کل اپنی رائے دوں گی۔‘‘
زارا نے اسے بتا دیا تھا کہ ویڈیو آنے والی ہے پر وہ پوری طرح فراموش کر چکی تھی اور یاد رکھتی بھی تو کیسے؟جب دل کو صرف ایک نام سننے کی،ایک ہی چیز دیکھنے کی عادت پڑ جائے تو ایسی صورت حال میں دماغ کہاں کام کرتا ہے۔
’’او کے جی۔ خدا حافظ۔‘‘محمود علی نے فون رکھ دیا۔
فون رکھتے ہی ممتحنہ نے لیپ ٹاپ کھولا اور کمپنی کی ای میل…
ویڈیوکے شروع ہوتے ہی اس نے “Flolarl Arrangements By Mumhatna’z” لکھا دیکھا اور بریکٹ میں Mumtahina Haris، اسے سب کچھ سمجھ آنے لگا۔وہ جو ایک دن قبل اس ویڈیو کو لے کر اتنی برانگیختہ تھی،چوبیس گھنٹوں میں آخر ایسا کیا ہو گیا تھا کہ وہ اس سے پوری طرح لا تعلق ہو گئی تھی؟وہ سب کچھ اس ویڈیو کی وجہ سے ہوا تھا۔
’’ یہ کیا حرکت ہے؟زارا کا نام اس ویڈیو میں کیوں نہیں آیا؟‘‘ وہ بہت غصہ ہوئی اور تھوڑی دیر کے لیے اسے زارا پر افسوس بھی ہونے لگا۔ اس نے اسی وقت محمود علی کو فون کرنے کا فیصلہ کیا پر موبائل اُٹھاتے ہی اس نے سوچا کہ اگلے روز تفصیل سے اس معاملے پر بات کر ے گی،رات بھی کافی ہو گئی تھی۔اس نے فون واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور نمازِ عشا ادا کرتے ہی سو گئی۔
٭…٭…٭





ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس کی آنکھ فجر کے وقت کھلی۔ غنودگی سے دو چار آنکھوں کے ساتھ جب اس نے موبائل پر دیکھا، تو برہان کی تین مسڈ کالز آئی ہوئی تھیں اور ایک شب بخیر کا پیغام بھی۔
’’صبح بخیر۔مجھے معاف کر دیجیے گا ،نیند بہت آ رہی تھی رات میں اسی لیے جلد سو گئی ۔‘‘ برہان کے ’شب بخیر‘کے پیغام کا جواب اس نے ’صبح بخیر‘ کے پیغام کے ساتھ دیا۔اسے جلد سونے کی عادت تھی اور برہان کو دیر تک جاگنے کی۔
’’میں کیوں ہر وقت تمہارے بارے میں سوچتی رہوں برہان؟تم میرے دل و دماغ پر سوار ہو گئے ہو۔ اب تو میرے خوابوں میں بھی آنے لگے ہو۔‘‘برہان کو پیغام بھیجتے ہی وہ گہری سوچوں میں ڈوب گئی۔ رات کے پچھلے پہر اس نے برہان کو خواب میں دیکھا۔
’’سو رہی ہوتی ہوں تو خوابوں میں چلے آتے ہو، جاگ رہی ہوتی ہوں تو آنکھوں کے سامنے منڈلا رہے ہوتے ہو اور اب تو… اب تو میرے دن کی ابتدا بھی تم ہی سے ہوتی ہے اور راتوں کا اختتام بھی تم پر ہوتا ہے۔‘‘وہ اپنی انگلی میں پہنی منگنی کی انگوٹھی کو دیکھنے لگی۔ابھی وہ نماز کے لیے بستر سے اٹھی بھی نہیں تھی کہ دن کا آغاز ہوتے ہی برہان اس کے پاس آگیا،یادوں کے روپ میں ۔
اچانک اسے ایک عجیب سا ڈر ستانے لگا۔اس نے اسی ڈر کے ساتھ نماز فجر ادا کی اور اس ڈر کے متعلق وہ دعا میں اپنے رب سے گویا ہوئی۔
’’یا اللہ!میری مدد فرما۔ وہ شخص جو کچھ ہی دن پہلے محض میرے لیے ایک کبھی نہ حقیقت میں ڈھلنے والا خواب تھا،آج مجھ پر فرض سا بن گیا ہے اور مجھے اس بات کا ڈر لگ رہا ہے کہ اگر وہ مجھ پر فرض بن ہی گیا ہے، تو یہ رتبہ آہستہ آہستہ گر کر نوافل تک نہ جا پہنچے اور اگر ایسا ہو گیا، تو شاید یہ نوبت بھی ایک نہ ایک دن آجائے گی کہ وہ مجھے نفل کیا،قضا سمجھنے لگے گا۔میری مدد فرما میرے اللہ۔ اس ڈر کو میرے دل سے نکال دے۔‘‘وہ رونے لگی،محبت کو فرض سے قضا ہوجانے کا ڈر اسے رلانے لگا۔
وہ نماز کے بعد اپنے بستر پر ایک بار پھر سونے کے لیے آگئی۔برہان کا ابھی تک کوئی جواب نہ آیا۔ اسے یقین تھا کہ ابھی گہری نیند سو رہا ہوگا یا اس کے خوابوں میں جاگ رہا ہوگا۔
اس کی آنکھ سوا آٹھ بجے کھلی۔وہ ناشتا کرتے ہی نرسری کے لیے نکل گئی۔برہان کا ابھی کوئی جواب نہ آیا۔اسے برہان کے جواب کی پروا نہیں تھی،وہ تو زارا اور اس کی ناراضی کے بارے میں سوچ رہی تھی،جو بجا تھی۔اس نے راستے میں زارا کو بہت فون کالز کیں پر زارا نے ایک کا بھی جوا ب نہ دیا۔
’’میں کیوں پیچھے ہٹوں؟نہیں!میں ہار نہیں ماننے والی۔میں جاؤں گی نرسری اور اب ہر تعریف، ہر کریڈٹ اپنے حصے کروں گی،اب مجھے ذریعہ جو مل گیا۔‘‘ممتحنہ کی ان گنت کالز کو نظر انداز کرنے کے بعد زارا نے ایک اہم فیصلہ کیا۔آج اسے ویسے بھی عامل بابا کے پاس جانا تھا۔اسے یقین تھا کہ اب اسے اس کی محنت کا پھل ضرور ملے گا۔ناجائز طریقے سے ہی سہی۔وہ ممتحنہ کے نکلنے کے آدھے گھنٹے بعد نرسری کے لیے نکلنے لگی۔
’’ایک ہی دن میں ارادہ بدل گیا محترمہ کا؟‘‘وہ نرسری جانے کے لیے تیار ہونے لگی تو سمیہ بیگم نے زارا پر اپنا اشتعال ظاہر کیا۔
’’ارادہ نہیں امی،بس راستہ بدل گیا ہے۔اس نے بس اتنا جواب دیا۔
’’مجھے فی الحال نہ تمہارے ارادے سمجھ آ رہے ہیں اور نہ راستہ۔‘‘ سمیہ بیگم کو اپنی بیٹی کا رویہ کافی پراسرا ر سا لگا۔ اگر انہیں پتا چل جاتا کہ ان کی صاحبزادی نے اپنے ارادے پورے کرنے کے لیے کس راستے کا چناؤ کیا ہے، تو شاید وہ اب تک اس کا گلا ہی دبا چکی ہوتیں۔وہ سخت خلاف تھیں کالا جادو،عامل منتر وغیرہ کے۔
جیسے ہی نرسری پہنچی، اس کے موبائل پر برہان کی کال آنے لگی۔
’’السلام و علیکم! آپ کی صبح ہو گئی؟‘‘ اس نے فون ریسیو کرتے ہی اپنے منگیتر کو سلام کیا۔
’’بس ابھی ابھی ہوئی ہے،تمہاری آواز سننے کے بعد۔‘‘وہ ابھی تک بستر میں تھا۔
’’صبح صبح محبت کی تسبیح پڑھنا شروع کر دی؟‘‘ وہ ایک ہاتھ سے فون سنبھالے دوسرے ہاتھ سے نرسری کا تالا کھول رہی تھی۔اللہ بخش کے آنے میں ابھی تھوڑا وقت باقی تھا۔
’’ہونہہ۔ تمہیں پتا ہے میں نے تمہیں آج خواب میں دیکھا۔‘‘ وہ تالا کھولتے کھولتے رک سی گئی۔
برہان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو اس کے ساتھ ہوا تھا۔
’’سچ؟ میں نے بھی گزری رات آپ کو خواب میں دیکھا۔‘‘وہ اسے اپنی حالت سے روشناس کروانے لگی۔
’’تو پھر بتاؤ کیا دیکھا؟‘‘وہ ممتحنہ کا خواب جاننے کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ کرنے لگا۔
’’کہتے ہیں خواب بتا دینے سے آپ کے ساتھ برا ہو جاتا ہے۔اگر خواب اچھا ہو اور بتا دیا جائے تو اس کی تعبیر اچھی ہونے کے باوجود بھی بری بن جاتی ہے۔‘‘
وہ خوابوں کی دنیا پر یقین رکھنے والوں میں سے نہیں تھی پر وہ ڈر رہی تھی کہ جو ڈر اسے فجر کے وقت ستا رہا تھا ، کہیں اس کا تعلق برہان کو خواب بتانے سے تو نہیں؟
’’خواب اچھا ہوتا ہے یا برا، تمہیں مجھے ضرور بتانا چاہیے۔تم نے تو منگنی ہوتے ہی مجھے پرایا کر دیا۔‘‘صبح صبح ممتحنہ نے برہان کو افسردہ کر دیا۔
’’ڈر لگتا ہے برہان۔اگر اس کی تعبیر اچھی نہ ہوئی تو؟‘‘ اسے نرسری کے پودوں کو دیکھ کر صاف پتا لگ گیا کہ انہیں ایک روز قبل اکیلا نہ چھوڑا گیا۔اللہ بخش نے ممتحنہ کے کہنے پر نرسری آکر پودوں کو پانی دے دیا تھا۔وہ نرسری سے گزرتی ہوئی اپنے آفس میں آ گئی۔اس نے اپنا پرس صوفے پر رکھا اور اے سی آن کر کے ریوالونگ چیئر پر برا جمان ہو گئی۔
’’ خوابوں کی دنیا پر یقین رکھنے والے تعبیر کے بارے میں سوچ سوچ کر ساری زندگی خواب میں ہی رہتے ہیں۔‘‘وہ اسے خواب کے بارے میں اپنے نظریا ت سے آگا ہ کرنے لگا۔
’’اگر خوابوں کی دنیا پر یقین ہی نہیں ہے تو پھر کیوں جاننا چاہتے ہیں میرا خواب؟‘‘ وہ اپنے صبح کے ڈر کی وجہ سے اسے ایسا خواب نہیں بتانا چاہتی تھی، کسی بھی قیمت پر۔
’’ہاں! نہیں ہے یقین، مگر جو خواب تمہاری آنکھیں دیکھیں اس سے میرا لین دین ضرور ہے۔خیر، اگر تم نہیں بتانا چاہتیں تو مت بتا ؤ ، میں ناشتا کرنے جا رہا ہوں۔بعد میں بات ہو گی۔‘‘ اس نے مزید گفت گو کیے بنا فون بند کر دیا۔
فجر والا ڈر ممتحنہ کو سچ ہوتا دکھائی دینے لگا۔اس کے خواب نہ بتانے پر برہان اس سے پہلی بار ناراض ہوا تھا۔ اس نے برہان کے وقتی افسردہ ہونے کو محبت کی علامت سمجھتے ہوئے اپنا سر جھٹک دیا۔
’’منا لوں آپ کو۔ پر ایک بہت ضروری کام ہے جس کا ابھی کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘وہ اپنے لیپ ٹاپ کی طرف دیکھنے لگی۔
اس نے سکسیس پارٹی والی ویڈیو ایک بار پھر چلائی۔ہوسکتا ہے غنودگی کے باعث اسے ویڈیو میں زارا کا نام لکھا کہیں نظر نہ آیا ہو۔پر ایسا نہیں تھا۔اسے ہوش و حواس میں بھی زارا کا نام پوری ویڈیو میں کہیں لکھا نظر نہیں آیا۔وہ آفس کے نمبر سے محمود علی کو فون کرنے لگی۔
زارا بھی نرسری تک رسائی دے چکی تھی۔اللہ بخش بھی ڈیوٹی پر آ چکا تھا۔
’’سلام زارا میڈم۔‘‘وہ اللہ بخش کو سلام کا جواب دیے بغیر نرسری میں داخل ہوگئی۔وہ آفس کی طرف قدم بڑھانے ہی لگی کہ اسے آفس سے گفت گو کی آواز آئی۔
’’السلام و علیکم محمود صاحب۔‘‘ وہ آفس کے کونے میں کھڑی کان لگا کر سننے لگی۔
’’آپ سے اس قسم کی نادانی کی امید نہیں تھی سر۔ ‘‘اسے ممتحنہ کی آواز بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔
’’پارٹی کی ارینجمنٹس میں جتنا حصہ میرا تھا اتنا ہی زارا کا تھا۔ پھرآپ نے اس کا نام ویڈیو میں کیوں مینشن نہیں کیا؟‘‘ وہ کتنا غلط سمجھ رہی تھی اپنی معصوم سہیلی کو۔
’’بہت شکریہ ۔‘‘ ممتحنہ نے فون رکھتے ہی اپنے بالکل مقابل زارا کو نم آنکھوں کے ساتھ موجود پایا۔
اس سے پہلے کہ ممتحنہ اس سے کچھ کہتی وہ اس کے گلے لگ گئی۔
’’مجھے معاف کر دو ممتحنہ۔میں نے تمہیں بہت غلط سمجھا۔تمہارا دل تو بہت صاف ہے۔میں کتنی پاگل تھی،تمہیں اپنا دشمن سمجھ بیٹھی ۔‘‘
ممتحنہ کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے اگر کچھ سمجھ آیا تو بس اتنا کہ زارا اسے سمجھ نہ سکی۔
’’تم ادھر بیٹھو۔I think you are not OK!‘‘ وہ اسے صوفے پر بٹھا کر ٹھنڈے پانی کا گلاس پیش کرنے لگی۔
’’میں بہت بری ہو ں ممتحنہ۔میں نے اپنی بیسٹ فرینڈ کو مفاد پرست سمجھا۔پلیز مجھے معاف کر دو۔‘‘ وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑنے لگی۔
’’کوئی معافی مانگنے کی ضرور ت نہیں۔اگر تمہیں اپنی غلطی پر ندامت ہو ہی گئی ہے، تو پھر معافی کیسی؟میں نے وہ ویڈیو کل رات ہی دیکھی،اگر پہلے دیکھ لی ہوتی تو یقینا کل تم میری منگنی کا حصہ ہوتی۔ تم بھی تو باؤلی ہو،اگر تم نے ویڈیو دیکھ ہی لی تھی تو کم از کم مجھے بتا ہی دیتی کہ ایسا ہے،پر تم نے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔‘‘وہ اسے اپنے ہاتھوں سے پانی پلانے لگی۔
’’تم بہت اچھی ہو ممتحنہ۔ تم مجھے اچھی طرح سمجھتی ہو میں ہی تمہیں سمجھنے میں ہمیشہ غلطی کر دیتی ہوں۔‘‘وہ اس کے گلے سے ایک بار پھر جا لگی۔
’’ما شا ء اللہ!منگنی کی انگوٹھی تو چیک کراؤ ہونے والی مسز برہان کی۔‘‘زارا کی نظر ممتحنہ کی منگنی کی انگوٹھی پر پڑی تو وہ تعریف کیے بنا رہ نہ پائی۔
’’اچھی ہے نا؟ کل تم بہت یاد آئیں۔قسم سے اگر تم کل میرے ساتھ ہوتیں،منگنی کا مزا ہی آجاتا۔‘‘ممتحنہ کو زارا کا منگنی میں نہ آنا بہت برا لگا تھا۔
’’میں جانتی ہوں میں نے ایک بہت بڑا ایونٹ مس کر دیا۔خیر! اب سے تمہارے ہر ایونٹ میں سائے کی طرح تمہارے ساتھ رہوں گی، وعدہ رہا۔‘‘وہ اپنے آنسو پونچھنے لگی۔
’’اچھا مجھے یہ تو بتاؤ کہ کل کیا کیا ہوا؟گھر والے کیسے ہیں برہان بھائی کے؟‘‘وہ دونوں باتیں کرنے میں اتنا محوہو گئیں کہ آرڈرز تیار کرنا تو کیا،آرڈرز تیار کرنے کے لیے نرسری سے پھول توڑنا بھی فراموش کر بیٹھیں۔
٭…٭…٭
’’تمہیں برہان کی منگنی کی خبر ملی؟‘‘آج اس نے کافی دن بعد تزین کو فون کیا۔تزین سے رابطہ وہ ہمیشہ مشورہ لینے کے لیے کیا کرتی،مشورہ بھی صرف برائے نام ہوتا، وہ اپنے اصولوں کی جو پابند تھی۔اگر وہ کچھ کرنے کی ٹھان لے تو کو ئی مائی کا لعل ایسا نہیں جو اسے روک سکے۔ تزین کے منہ سے وہ منحوس خبر سن کر اپنے بستر پر سے اٹھ گئی۔
’’کیا بات کر رہی ہو؟ Are you alright?ـ۔ب…برہان کی منگنی؟‘‘اس نے ابھی تک اخبار نہیں دیکھا تھا،وہ کچھ لمحے پہلے ہی نیند سے جاگی تھی۔
ـ’’I am alright.۔ لگتا ہے آج کے اخبار کی سرخیوں پر تمہاری نظر نہیں پڑی۔‘‘تزین اسے صبح صبح ایک منحوس خبر سنا رہی تھی۔
’’مذاق مت کرو۔ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘وہ بستر پر فون پٹختی لاؤنج کی طرف دوڑی۔وہ اتنی جلد بازی میں تھی کہ سیڑھیوں سے گرتے گرتے بچی۔
’’مشہور و معروف پاکستانی اداکار برہان ندیم گزشتہ رات منگنی کے بندھن میں بندھ گئے۔ منگنی کی تقریب انتہائی سادگی سے سر انجام پائی جہاں صرف دونوں کے اہل خانہ نے شرکت کی۔ ہم برہان ندیم اور منگیتر ممتحنہ حارث کو ان کی منگنی پر مبار ک باد پیش کرتے ہیں۔‘‘اور اس خبر کے ساتھ گزشتہ رات ہونے والی برہان اور ممتحنہ کی تصویر بھی تھی۔اسے صدمہ نہیں ہوا، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ جلد یا بدیر اسے یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔
’’کوئی بات نہیںجتنا اچھلنا ہے اچھل لو ممتحنہ۔ایسی لگام کھینچوں گی کہ منہ کے بل زمین پر جا گرو گی۔‘‘ حیال سے مزید انتظار نہیں ہو رہا تھا کہ کب فلم کی شوٹنگ شروع ہو اور کب وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہناسکے۔
’’ابھی تو صرف منگنی ہی ہوئی ہے ڈئیر اور ایسا تو شوبز کی تاریخ میں کبھی ہوا ہی نہیں کہ جس سے منگنی اسی کے ساتھ شادی۔میں بھی دیکھتی ہوں کہ تم دونوں کی محبت کی گاڑی منگنی کے راستے سے رخصتی کی منزل تک کیسے پہنچتی ہے۔‘‘اس نے اخبار کے پاس رکھے لائٹر سے اخبار جلا کر راکھ کردیا اور سگریٹ پینا شروع کر دی۔
٭…٭…٭
’’میں نے انہیں اپنا خواب نہیں بتایا تو وہ مجھ سے ناراض ہو گئے اور فون بند کر دیا۔‘‘آرڈرز تیار کرتے کرتے وہ اسے صبح والی کال کے بارے میں بتانے لگی۔
’’اتنی سی بات پر ناراض ہو گئے؟‘‘زارا اس کے چہرے پر چھائی مایوسی کو محسوس کرنے لگی۔
’’اتنی سی بات نہیں ہے زارا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرا خواب،خواہ اس کی تعبیر کیسی بھی ہو، مجھے انہیں بتانا چاہیے۔انہوں نے تو یہ تک کہا کہ منگنی ہوتے ہی میں نے انہیں پرایا کر دیا۔‘‘وہ افسردہ ہو کر بیٹھ گئی۔
’’ابھی برہان کی ناراضی ختم کرتی ہوں۔‘‘زارا اپنے ہینڈ بیگ سے فون نکالنے لگی۔
’’مت کرو فون اور ناراض ہو جائیں کہیں وہ۔‘‘وہ اسے فون کرنے سے روکنے لگی۔
’’مجھ پر بھروسا رکھو۔ دیکھنا کیسے سب ٹھیک کرتی ہوں۔‘‘ وہ برہان کو فون ملانے لگی۔
’’السلام و علیکم بہنوئی جی۔ کیا حال ہیں آپ کے؟‘‘ممتحنہ آواز نکالنے والی تھی کہ زارا نے اسے خاموش کر وادیا۔
’’میں بالکل ٹھیک سالی صاحبہ آپ سنائیں، کل آئیں نہیں آپ،بہت انتظار کیا آپ کا۔‘‘برہان کا موڈ اس بات کی وضاحت کرنے لگا کہ ممتحنہ سے اس کی ناراضی صرف وقتی تھی۔
’’بس کچھ مصروفیات تھیں اس لیے نہ آ سکی ۔بہت شرمندہ بھی ہوں آپ دونوں سے، خیر میں نے آپ سے اپنے ایک مسئلے کا حل پوچھنے کے لیے آپ کو فون کیا ہے۔‘‘وہ ممتحنہ کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔
’’کہو کیا مسئلہ ہو گیا ہے؟میں حل کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔‘‘برہان کو اپنی سالی کی بہت فکر تھی،آدھی گھر والی جو تھی۔فون لاؤڈ اسپیکر پر تھا۔
’’میرا بوائے فرینڈ ہے،احمر نام ہے اس کا۔ایک سال سے اس کے ساتھ ریلیشن ہیں۔‘‘ ممتحنہ اسے اشاروں میں کہنے لگی کہ کتنا جھوٹ بول رہی ہو۔پر اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’ایک سال ہوگیاہے۔ میں نے آج تک اس سے اپنی کوئی بھی بات نہیں چھپائی،پر کل میں نے اس سے صرف ایک بات چھپائی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ برہان کو تجسس ہوا۔
’’اب آپ خود بتائیں،اگر ایک محبت کرنے والا اپنے محبوب کو اپنی ہر اک بات بتائے،کبھی اس سے کچھ نہ چھپائے پر صرف ایک بات اس سے چھپائے تو اس کا کیا مطلب ہوا؟‘‘وہ مدعے پر آنے لگی تھی۔
’’یہی کہ آپ اس سے بہت محبت کرتے ہیں اور وہ ایک بات اسی کے بھلے کے لیے اس سے چھپا رہے ہیں اور اگر وہ بات بتا دینے سے آپ کو اپنی محبت کھو دینے کا ڈر ہو تو بہتر یہی ہے کہ وہ بات نہ بتائی جائے۔‘‘وہ اپنی سہیلی کی مدد کر چکی تھی۔
’’تو پھر آپ بتائیں،اگر اس نے آپ سے اپنا ایک خواب،یاد رہے کہ آپ کو خوابوں کی دنیا پر یقین نہیں،آپ سے چھپایا بھی نہیں پر بتا بھی نہ سکی،اس کے پیچھے کوئی تو وجہ کوئی تو مصلحت ہو گی نا؟ پھر آپ کیوں اس سے ناراض ہوئے؟ جب کہ آپ نے ابھی یہی کہا کہ چھپا دینا ہی بہتر ہے پر اس نے تو چھپایا بھی نہیں،اگر چھپانا ہی ہوتا، تو وہ آپ سے کہتی ہی کیوں کہ اس نے آپ کو خواب میں دیکھا؟‘‘ برہان کو یقین آنے لگا کہ اس نے ممتحنہ کے ساتھ غلط کیا۔
’’ہونہہ۔صحیح کہہ رہی ہو۔شکریہ زارا،مجھے احساس دلانے کا کہ میں غلط ہوں۔‘‘وہ شرمندہ ہوا،زارا سے نہیں،ممتحنہ کے ساتھ صبح والا رویہ اختیار کرنے پر۔
’’یہ لیجیے اب آپ بات کریں اپنی منگیتر سے،بہت دیر سے چپ کروا کر رکھا تھا میں نے تا کہ آپ کو پتانہ چل سکے کہ وہ میرے ساتھ ہے۔‘‘ممتحنہ اور برہان کی صلح کروانے کے بعد اس نے فون ممتحنہ کے حوالے کیا۔
’’قسم سے میں نے زارا کو نہیں کہا تھا کہ آپ سے بات…‘‘
’’آئی لو یو…‘‘وہ اسے صفائیاں پیش کرنے لگی کہ اسے فون کرنے کا منصوبہ زارا کا تھا کہ برہان نے اس کے منہ سے کچھ سننے سے پہلے ہی تین محبت کے الفاظ کہہ ڈالے ۔فون ابھی تک لاؤڈ اسپیکر پر تھا اور زارا نے بھی سن لیا تھا۔
’’برہان …زارا بیٹھی ہے برابر میں۔‘‘ممتحنہ کو شرمندگی ہوئی۔
’’اف! تمہاے برابر زارا ہی بیٹھی ہے،تمہاری ہونے والی ساس نہیں!‘‘زارا اور برہان قہقہے مارنے لگے۔
برہان اور ممتحنہ کی گفت گو ختم ہوتے ہی ممتحنہ اپنی سہیلی کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرنے لگی۔
’’تم نے تو میرا مسئلہ منٹوں میں حل کر دیا۔ویسے یہ احمر ہے کون؟مجھے بتایا نہیں تم نے اس کے بارے میں؟‘‘وہ دونوں زارا کے تخلیق کردہ خیالی بوائے فرینڈ پر ہنسنے لگیں۔
٭…٭…٭
آج برہان کے آرام و سکون کا آخری دن تھا۔کل سے اس کی شوٹنگ شروع تھی۔ وہ بے دلی سے رات کا کھانا کھانے لگا۔اسے پتا تھا کل سے اس کے بُرے دن شروع ہیں۔
’’شوٹنگ کتنے مہینے چلے گی؟‘‘نبیہہ بیگم نے برہان کا بے زار سا منہ دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’چالیس دن۔ بہت زیادہ ہوا تو پچاس دن۔‘‘اس نے زبردستی چائنیز رائس کا ایک لقمہ اپنے منہ میں ٹھونسا۔
’’میں اور ندیم یہ چاہ رہے ہیں کہ شوٹنگ ختم ہوتے ہی تمہارا نکاح کر دیں۔تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟‘‘ وہ برہان کے نکاح کی تاریخ طے کرنے لگیں۔
’’مجھے کیا اعتراض ہونا ہے امی؟میں نے بھی یہی سوچا ہوا ہے کہ شوٹنگ ختم ہوتے ہی نکاح ہوجائے۔‘‘وہ خود پرجوش تھا۔
’’کاش یہ شوٹنگ نہ ہوتی تو میں تم سے آج کل میں ہی نکاح کر لیتا، تم نے کیوں مجھے اداکاری جاری رکھنے کا حکم دیا ممتحنہ؟‘‘وہ ممتحنہ کے خیالات میں گم سا ہو گیا۔
’’کہاں کھو گئے؟ کھانا کھاؤ۔کل شوٹنگ پر بھی جانا ہے۔‘‘وہ اسے شوٹنگ کا کہہ کر بار بار ڈرانے لگیں۔
وہ ڈنر کرتے ہی اپنے کمرے میں آ گیااور ممتحنہ کو کال کرنے لگا۔
’’السلام و علیکم! کیسے ہیں آپ؟ کل فلم کی شوٹنگ ہے نا آپ کی؟ بیسٹ آف لک۔‘‘برہان کی امی کم تھیں جو اس کی منگیتر بھی اسے شوٹنگ کا یاد دلا کر تنگ کرنے لگی۔
’’یہ سب میں تمہاری وجہ سے کر رہا ہوں۔‘‘وہ ممتحنہ پر مصنوعی خفگی ظاہر کرنے لگا۔
’’میری وجہ سے؟کیا کہہ رہے ہیں آپ؟مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔‘‘ممتحنہ نماز عشا سے فارغ ہی ہوئی تھی۔ وہ اپنے سر پر لپٹی چادر اتارنے لگی۔
’’تم ہی نے تو کہاتھا کہ ایکٹنگ مت چھوڑئیے گا،تمہاری وجہ سے ہی میں یہ فلم کر رہا ہوں۔ ورنہ میرا اب ذرا بھی دل نہیں اداکاری جاری رکھنے کا۔‘‘وہ لیپ ٹاپ پر اپنی منگنی کی تصاویر دیکھنے بیٹھ گیا۔
’’یہ تو آپ میری وجہ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کا اداکاری کا دل نہیں،ورنہ میں کیا،پوری دنیا جانتی ہے کہ اداکاری آپ کا کتنا بڑا پیشن ہے۔‘‘وہ اسے اس کے جنون سے آشنا کرنے لگی۔
’’اداکاری پیشن ہے اور تم محبت۔محبت کی وجہ سے تو لوگ اپنوں تک کو چھوڑ دیتے ہیں پھر یہ تو صرف اداکاری ہے۔‘‘ جب سے اس کا دل ممتحنہ پر آیا تھا تب سے اداکاری کا جنون ختم ہو گیا تھا،الوداع ہو گیا تھا۔محبت کی دستک ایسی ہی ہوتی ہے، یہ خالی دل پر ہی دستک دیتی ہے،حصہ داری اسے پسند نہیں۔
’’برہان میں چاہتی ہوں کہ آپ اداکاری کریں،مجھے اچھا لگتا ہے آپ کا اداکاری کرنا اور آگے بھی اچھا ہی لگے گا۔‘‘وہ رونے والی شکل اور آوا ز کے ساتھ بولی۔
’’اچھا اچھا ٹھیک ہے،نہیں چھوڑوں گا،پر صرف تمہارے لیے۔‘‘وہ اسے جتانے لگا کہ وہ یہ سب کچھ صرف اس کی خوشی اور اس کے اطمینان کے لیے کر رہا ہے۔
’’یہ ہوئی نا اچھے منگیتر والی بات۔‘‘ وہ سونے کے لیے تکیہ سیٹ کرنے لگی۔
’’منگیتر سے یاد آیا،میرے گھر والوں نے اور میں نے مل کر یہ طے کیا ہے کہ شوٹنگ ختم ہوتے ہی ہمارا نکاح کر دیا جائے۔‘‘وہ اسے اپنے اور گھر والوں کے نظریات سے آگاہ کرنے لگا۔
’’ہونہہ۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘ممتحنہ خوش ہوئی۔
’’میرے گھر والے ایک دو دن میں تمہارے یہاں آکر نکاح کی تاریخ ڈسکس کر لیں گے۔خیر!ذرا آنٹی سے بات کراؤ ، ان کی خیریت پوچھنی ہے۔‘‘برہان نے اپنے ہونے والی ساس سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی پر اس ظاہری خواہش کے پیچھے اس کی کوئی دلی خواہش پوشیدہ تھی۔
’’آنٹی مجھے آپ سے اجازت چاہیے۔جانتا ہوں منگنی کے بعد یہ سب اچھا نہیں لگتا پر…‘‘ سلام دعا کرنے کے بعد برہان عنایہ بیگم سے اجازت طلب کرنے لگا۔
’’کس بات کی اجازت؟ کھل کر بات کرو بیٹا۔‘‘ عنایہ بیگم کو آہستہ آہستہ سب سمجھ آنے لگا۔
’’آنٹی بات دراصل یہ ہے کہ کل میری فلم کی شوٹنگ کا پہلا دن ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ممتحنہ بھی میرے ساتھ شوٹ پر چلے۔اگر آپ کو کوئی اعتراض …‘‘وہ کہتے کہتے چپ ہو گیا۔
’’فلم کی شوٹنگ کے لیے بیسٹ آف لک۔میری طرف سے تو کھلی اجازت ہے پر باقی اجازت تمہیں حارث سے طلب کرنا پڑے گی۔‘‘اور پھر انہوں نے فون حارث کے حوالے کر دیا۔
’’کیا بات ہے ہماری بیٹی کو کہاں لے کر جانے کی اجازت طلب کی جارہی ہے؟‘‘حارث نے رعب دار آواز میں کہا، تو تھوڑی دیر کے لیے برہان بھی پریشان ہوگیا۔
’’برہان!کیا ضرورت ہے مجھے اپنے ساتھ لے کر جانے کی؟آپ پاگل ہیں پورے۔‘‘وہ دل ہی دل میں برہان سے گفت گو کر نے لگی۔
’’میری فلم کی شوٹنگ کا کل پہلا دن ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ممتحنہ بھی میرے ساتھ چلے۔کیا آپ کی اجازت ہے؟‘‘ وہ بظاہر بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ اجازت مانگ رہا تھا ،پر اندر ہی اندر اپنے ہونے والے سسر کی جانب سے موصول ہونے والے جواب سے ڈر رہا تھا۔
’’اگر میری بیٹی چاہتی ہے تومجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘برہان کو جیسے سچی خوشی مل گئی۔
’’ممتحنہ بیٹا، یہاں آؤ۔‘‘برہان کو انتظار پر رکھ کر وہ اپنی گلابو سے مخاطب ہوا۔
’’کیا تم جانا چاہتی ہو؟‘‘وہ اپنے باپ کے آگے سر جھکائے ہوئے تھی۔وہ حارث کی اجازت سے جانا چاہتی تھی۔
’’ہماری چاہت تمہاری چاہت میں پوشیدہ ہے۔تم بتاؤ جانا چاہتی ہو؟‘‘حارث کا شمار اُن والدین کی فہرست میں تھا جنہیں یقین ہوتا کہ ان کی اولاد جو بھی قدم اُٹھائے گی،ان کی تربیت پر کوئی سوال اٹھنے نہیں دے گی۔
’’م…میں جانا چاہتی ہوں پر…‘‘اس سے پہلے کہ وہ آگے بولتی،حارث گویا ہوا۔




Loading

Read Previous

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Read Next

آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!