بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

’’آپ دونوں ایک ساتھ بہت اچھے لگتے ہیں،ماشا ء اللہ۔‘‘وہ ان دونوں کو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ایک ساتھ بیٹھا دیکھ کر بولی۔
’’ہم دونوں کا ایک ساتھ اچھا لگنے میں کمال کس ہے؟وہ زارا کو بیک ویو مرر میں دیکھتے ہوئے بولا۔
’’آپ دونوں کی محبت کا،Obviously۔‘‘وہ بھی اپنے ہونے والے بہنوئی کو مرر میں دیکھنے لگی۔
وہ لوگ گلیوں سے گزر رہے تھے۔گلیاں سنسان تھیں۔زیادہ لوگ نہیں تھے۔ان کی گاڑی گلیوں سے نکل ہی رہی تھی کہ اتنے میں سامنے سے بائیک میں دو آدمی آئے،ایک کے ہاتھ میں بندوق تھی اور دوسرے کے ہاتھ میں چاقو۔اس بائیک نے ان کی گاڑی کے سامنے آکر ان کا راستہ روک لیا۔
’’گاڑی سے باہر نکل، ابھی۔‘‘پہلے آدمی نے برہان کی گردن کے بالکل قریب چاقو رکھ دیا اوردوسرے نے ممتحنہ کی کن پٹی پر بندوق۔
برہان، ممتحنہ اور زارا خوف کے مارے گاڑی سے باہر نکل آئے۔ممتحنہ کے ذہن میں بندوق یا چاقو نہیں بلکہ وہ کالا گلاب گھومنے لگا جو لیکچر کے دوران برہان کے ہاتھوں میں تھا اور اس کالے گلاب کے ساتھ ساتھ وہ ڈر بھی جو فجر کی نماز میں اس کے ساتھ تھا۔
’’تمہیں ہم سے جو چاہیے، لے لو ۔بس اسے کچھ مت کرنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ برہان کو خوف نہیں تھا،وہ تو انہیں دھمکی دینے لگا تھا۔
ان لوگوں نے اپنا سب کچھ اتا ر کر دے دیا۔نتھ،چوڑی،پیسے ،گھڑی،سب کچھ۔بس ایک چیز تھی جو نہ برہان نے انہیں دی تھی نہ ممتحنہ نے۔
’’یہ انگوٹھی کیا ترا باپ اتارے گا؟‘‘وہ ممتحنہ اور برہان کا ہاتھ دیکھتے ہوئے دونوں سے انگوٹھی مانگنے لگا جو بلاشبہ منگنی کی انگوٹھیاں تھیں۔
’’ہمارا سب کچھ چھین لیا ہے تم نے،پر تمہیں یہ منگنی کی انگوٹھیاں نہیں چھیننے دوں گا۔‘‘برہان انہیں خبردار کرنے لگا۔
’’نہیں دے گا؟تو کل اخبار میں پڑھنے کے لیے تیار ہو جا کہ برہان ندیم اور اس کی معشوقہ اپنی منگنی کی انگوٹھی نہ دینے پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘‘جو آدمی ممتحنہ کے پاس کھڑا تھا اس نے اپنی بندوق لوڈ کر لی۔
’’ن…نہیں! اسے کچھ مت کہنا، ہم دے رہے ہیں انگوٹھی۔‘‘وہ ممتحنہ کی آنکھوں میں خوف دیکھتے ہوئے اس سے کہنے لگا۔
’’ممتحنہ دے دو انہیں انگوٹھی۔یہ معنی نہیں رکھتی،اب تو ہمارا نکاح ہونے والا ہے،اس وقت تو یہ انگوٹھی اتارنا ہی ہوتی ہے تو ابھی صدقہ اتار دو ہماری محبت کا۔‘‘برہان اپنی انگوٹھی انہیں دینے کے بعد ممتحنہ سے انگوٹھی اتروانے لگا۔
’’نہیں دے سکتی میں یہ انگوٹھی،نہیں۔‘‘اس نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے۔وہ مکمل طور پر سکتے کی حالت میں تھی۔
’’تو تیار ہو جاؤ اپنی مو ت کے لیے۔‘‘وہ اسے شوٹ کرنے ہی والا تھا کہ برہان نے اسے روک دیا۔
’’کیسے نہیں دو گی تم انگوٹھی؟تمہیں دینی ہی ہو گی۔‘‘ممتحنہ کو صرف ایک انگوٹھی کی خاطر مو ت سے لڑتا دیکھ کر برہان کو شدید غصہ آیا اور وہ اس کی انگلی سے زبردستی انگوٹھی نکالنے لگا۔ وہ انگوٹھی ممتحنہ کی انگلی میں پوری طرح پھنس چکی تھی،اسے اس کی انگلی سے انگوٹھی نکالنے میں بہت مشکل ہو رہی تھی پر برہان نے اپنی پوری طاقت لگا دی،م متحنہ کو کتنی تکلیف ہو رہی ہو گی، اس نے اس وقت اس بارے میں سوچنا ضروری نہیں سمجھا۔
و ہ اس کی انگلی سے انگوٹھی نکالنے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے پیٹرولنگ پولیس کی گاڑی آ گئی۔پولیس والوں کو پتا لگ گیا تھا کہ وہاں واردات ہو رہی ہے۔ محلے کے کچھ لوگوں نے بتا دیا تھا،لہٰذا وہ سائرن بجائے بغیر آ رہی تھی۔
ایک پولیس والے نے اس چور کے ہاتھ پر گولی چلانا چاہی تا کہ وہ بندوق ہاتھ سے گرا دے،پر نشانہ چوک گیا۔وہ گولی جو اس چور کی ہتھیلی پر چلنے والی تھی،ممتحنہ کے سینے میں جالگی۔
چور تو بھاگ نکلے۔ممتحنہ کی انگوٹھی آدھی انگلی میں پھنسی رہی ۔کچھ پولیس والے ان دونوں کا پیچھا کرنے لگے اور کچھ ممتحنہ کے پاس آ گئے۔گولی کا اس کے جسم کو چھونا ہی تھا کہ برہان بے ساختہ چیخا۔
’’ممتحنہ!‘‘ وہ چیخ نہیں تھی،محبت کا جنازہ اٹھ جانے پر جو دل سے آواز نکلتی ہے ، وہ تھی۔
وہ برہان کا نام زبان پر اکھڑتی ہوئی سانس کے ساتھ لیتی اس کی بانہوں میں جا گری۔
٭…٭…٭





’’بلٹ دل کے بہت قریب لگی ہے،انہیں بچانے کے بارے میں فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ابھی انہیں خون کی بہت ضرورت ہے۔‘‘ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے جیسے ہی باہر آیا،برہان دوڑتا ہوا اس کے پاس آ گیا۔
’’آپ نے جتنی بوتل خون لینا ہے،آپ میرا خون لے لیں،بس اتنا خون میرے اند رباقی رکھیے گا کہ میں زندہ رہوں۔میں اس کے ساتھ جینا چاہتا ہوں،اس پر اپنی زندگی قربان کر کے اپنے ساتھ ساتھ اس کی بھی زندگی ختم نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ وہ ڈاکٹر کے لیب کوٹ کا گریبان پکڑے ممتحنہ کی زندگی کی بھیک مانگنے لگا۔
’’یہ کیا ہو گیا ہماری بیٹی کے ساتھ حارث؟کس کی نظر لگ گئی ہے ہماری ممتحنہ کو؟حارث اسے کچھ ہوگا تو نہیں؟‘‘عنایہ بیگم حواس باختہ ہو گئیں۔اپنی بیٹی کے غم میں پاگل سی ہو گئی تھیں۔حارث نے انہیں سہارا دیاہو ا تھا۔وہ اپنے شوہر کے کندھے پر سر رکھ کر اپنی بیٹی کے لیے رو رہی تھیں۔
حارث کے ذہن و دل میں بس ایک ہی بات گھوم رہی تھی۔
ـ’’ہمیں پہلی فرصت ہی میں ممتحنہ کا نکاح کر دینا چاہیے تھا۔ پر ہم نے اس وقت سماجی رسم کو تفریحی رسم پر فوقیت دی اور دیکھو آج کیا ہو گیا ہماری بیٹی کے ساتھ۔ اگر اس دن اس کا نکاح ہو گیا ہوتا تو کم از کم یہ نوبت تو ہرگز نہیں آتی۔ نکاح میں اللہ کی رضامندی شامل ہوتی ہے اور منگنی میں صرف ہماری۔ ہم نے اللہ کی رضامندی پر اپنی رضامندی کو فوقیت دی اور دیکھو آج ہماری بیٹی کی کیا حالت ہو گئی۔‘‘ ماں کے ساتھ ساتھ باپ بھی آنسو بہانے لگا۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں حارث۔ پر اب کیا فائدہ ان باتوں کا، ہماری بیٹی اس حال تک پہنچ ہی گئی۔‘‘ غم تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اور آنسو تھے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
ــ’’آپ لوگ اس طرح مت روئیں۔ وہ ابھی اپنی زندگی سے جنگ کی حالت میں ہے۔ شکست نہیں کھائی اس نے اور جب اپنے جنگ پر جاتے ہیں تو گھر والے مایوس ہو کر غم نہیں مناتے۔ غازی بن کر ان کے واپس لوٹنے کی دعا کرتے ہیں اور وہ غازی بن کر ہی میدان جنگ سے واپس لوٹے گی۔‘‘ وہ اپنی زندگی کو اپنی زندگی کا کچھ حصہ دے کر آیا ہی تھا کہ اس نے ممتحنہ کے امی ابو کو غم سے نڈھال دیکھا ۔ وہ انہیں سوگ مناتا دیکھ کراشتعال میں آ گیا۔
اس کے غصہ کرتے ہی حارث اور عنایہ کو سمجھ آیا کہ غم منانے سے بہتر ہے کہ ہوش میں آنے کی دعا کی جائے۔عنایہ بیگم مصلّے پر بیٹھ گئیں اور نفل پڑھنا شروع کر دیے۔ حارث تسبیح ہاتھ میں لیے اپنی بیٹی کی صحت یابی کے لیے دعائیں کرنے لگااور وہ…اس کا نظریہ تو کچھ اور ہی تھا۔
’’اب یہ بندہ شکرانے کے نفل ہی پڑھے گا۔‘‘
عنایہ بیگم کے سلام پھیرتے ہی ڈاکٹر صاحب آپریشن تھیٹر سے باہر نکل آئے۔
’’کیسی حالت ہے اب اس کی؟‘‘ سوال تینوں کا تھا پر پوچھنے میں پہل برہان نے کی۔
’’ ہم نے انہیں خون بھی چڑھا دیا ہے پر مریض کی حالت پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ اگلے پندرہ منٹ تک ان کی ہارٹ بیٹ نارمل نہیں ہوئی تو آئی ایم سوری۔‘‘ڈاکٹر صاحب جواب دے چکے تھے۔پر وہ ممتحنہ سے کچھ سوالات کرنے اندر چلا گیا۔
اتنے میں سمیہ بیگم بھی وہاں پہنچ گئیں اور اپنی بیٹی کو زار و قطار روتے ہوئے دیکھنے لگیں۔
’’بیٹا تم ٹھیک تو ہونا؟ کہا تھا تم سے کہ اس مفاد پرست کا نوکر بننے کی ،نوکری کو مزید جاری مت رکھو پر تم…‘‘وہ اسے ڈانٹنے ہی لگیں کہ زارا انہیں کھینچ کر آپریشن تھیٹر سے کھڑکی کے پاس لے آئی۔
’’وہ زندگی سے حالت جنگ میں ہے امی اور آپ کو میری پڑ ی ہے؟اگر اس کی جگہ میں ہوتی تو؟خدا کا واسطہ دیتی ہوں امی آپ کو۔اس سے جو غلطی ہوئی بھی نہیں،اس پر اس کو معاف کر دیں، پتا نہیں اگر وہ اس دنیا سے چلی…‘‘وہ رونے لگی اور روتے روتے زمین پر بیٹھنے ہی لگی کہ سمیہ بیگم نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
’’ایسا نہیں کہتے بیٹا۔میں بری نہیں ہوں،میں تو ماں ہوں،جسے اپنی اولاد کی خوشی سے زیادہ اور کچھ عزیز نہیں ہوتا۔اس نے کوئی غلطی نہیں کی آج مان لیتی ہوں اور اس کے کوئی غلطی نہ کرنے پر میں نے اسے دل سے معاف کیا۔ اگر ہو سکے تو تم اپنی ماں کو معاف کر دینا۔‘‘سمیہ بیگم کو احساس ہو گیا کہ آج تک انہوں نے ممتحنہ کے بارے میں جو کچھ بھی کہا ،غلط کہا اور آج انہوں نے اقبال ِجرم کر لیا تھا۔ اس خوف کے ساتھ کہ کہیں آج جو کسی اور کی بیٹی کے ساتھ ہو رہا ہے،کل کو ان کی منحوس بولی کی وجہ سے ان ہی کی بیٹی کے ساتھ نہ ہو جائے۔
’’میں نے اپنا لہو تمہیں دیا ہے۔تم اس کے ساتھ بے وفائی نہیں کر سکتی ممتحنہ۔ ‘‘وہ اس کا منگنی کی انگوٹھی والا ہاتھ اپنے دل پر رکھنے لگا۔ وہ انگوٹھی اتر نہ سکی تھی۔
’’میری جان! دیکھو میرا دل تمہارے بغیراب بھی دھڑک رہا ہے اور یہ تو ممکن ہی نہیں کہ میں تمہارے بغیر سانس لوں۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ تم مجھے سن رہی ہو۔ اگر سن رہی ہو تو ایک بار دیکھ بھی لو۔ پلیز…‘‘ وہ اس کے ہاتھوں کو چومنے لگا پر اس نے کچھ رسپانس نہیں دیا۔
’’تم ہو تو میں ہوں۔ تم نہیں ہو تو میں کون ہوں؟‘‘ برہان کو یقین تھا کہ اس کی باتیں اس کے دل تک ضرور جائیں گی اور اسے دھڑکنے پر مجبور کردیں گی۔ اس کی شہادت کی انگلی میں حرکت ہونے لگی۔سانس ابھی بھی اسے صحیح طرح نہیں آسکی تھی۔
’’ممتحنہ ! اپنی آنکھیں کھولو پلیز۔ ورنہ میں مزید اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنے کا گناہ نہیں کر پاؤں گا۔ ‘‘ وہ رونے لگا۔ روتے روتے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور ممتحنہ کی آنکھیں کھلنے لگیں۔
وہ اس کی آنکھوں کو کھلتا دیکھ نہ سکا۔وہ روتے روتے ممتحنہ کے تکیے پر اپنا سر جو رکھ چکا تھا۔
ممتحنہ بولنا چاہ رہی تھی پر اس کے منہ پر آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا۔اس نے اپنا ہاتھ جو برہان کے ہاتھوں میں تھا،اپنی پوری قوت کے ساتھ دبانے کی کوشش کی اور اس کی اس حرکت پر برہان نے فوراً ہی اپنا سر اٹھا لیا۔
’’ممتحنہ…‘‘ کچھ گھنٹوں پہلے جب اسے گولی لگی تھی تب برہا ن نے اس کا نام ایسے لیا تھا جیسے اس کی سانسیں اکھڑنے لگی ہوں اور اب جب وہ ہوش میں آ چکی تھی تب برہان نے اس کا نام اس طرح لیا جیسے اسے اس کی سانسیں واپس مل چکی ہوں۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہہ کر اپنی حالت اور خراب کرتی ،برہان نے ڈاکٹر کو بلا لیا۔
’’یہ تو معجزہ ہو گیا۔آپ یقین کریں ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کا بچنا نا ممکن ہے۔محبت میں کتنی طاقت ہوتی ہے،آج میں نے جانا۔‘‘وہ برہان کے کندھوں پر اپنے ہاتھ سے تھپکی دینے لگا۔
’’میری بچی،میری جان۔میرا سب کچھ۔تم نے تو ہماری جان ہی لے لی تھی۔‘‘عنایہ بیگم ممتحنہ کے رخسار پر جگہ جگہ بوسہ دینے لگیں۔
’’میری بچی۔‘‘ حارث کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔اپنی بیٹی کو موت کے منہ سے نکلتا دیکھ کر اس کے منہ سے مشکل سے دو لفظ ادا ہو سکے۔
’’معذرت کے ساتھ ابھی مجھے آپ لوگوں کو یہاں سے جانا ہوگا،ابھی کچھ ٹیسٹ کرنا ہیں ان کے۔‘‘ ڈاکٹر نے انہیں وہاں سے جانے کا کہا۔
لبوں کی زبان پر قائم رہنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا دل کی زبان پر قائم رہنا ہوتا ہے۔وہ اپنے دل کی زبان پر قائم رہا اور گر گیا۔شکرانے کی نماز کے سجدے میں۔
’’میری آنکھیں تو بند ہونے والی تھیں اللہ،اس کی آنکھیں کھول کر تو نے میرا دل کھول دیا۔‘‘وہ سجدے میں تھا ،رو رہا تھا۔
’’کچھ لمحوں پہلے میری حالت دعا کرنے کے بھی لائق نہیں تھی اور اب ،اب میں تیرے آگے سجدے میں گرا ہوں، یہ سب تیرے کرم کی وجہ سے ہے اللہ۔مجھے اس سے پھر ملوانے کا شکریہ۔‘‘سچی دعا تو وہ ہوتی ہے جس میں لفظوں کی بناوٹ سے زیادہ احساسات کی ملاوٹ ہو اور وہ سجدے میں گرا سچی دعا کر رہا تھا۔
’’صاحب ہم نے اس ڈکیت پر لاٹھی چارج کرکے سچ اگلوا لیا۔وہ نئے نئے ڈکیت ہوئے ہیں۔ ان کی بندوق بھی نقلی تھی اور انہوں نے ڈکیتی کسی کے کہنے پر نہیں کی۔‘‘وہ مصلے پر سے اُٹھا تو انسپکٹر صاحب کا فون آ گیا۔اسے شک تھا کہ ڈکیتوں کو حیال نے بھیجا تھا،ممتحنہ پر گولی چلانے کے لیے، جاننے کے بعد کہ ان کی بندوق نقلی تھی،برہان کا شک دور ہو گیا۔
’’ہونہہ۔اور وہ پولیس اہلکار جس کے باعث میری منگیتر کی یہ حالت ہوئی۔وہ مجھے جیل میں دکھنا چاہیے۔‘‘بھلے بلٹ غلطی سے فائر کی گئی تھی،پر وہ اسے معاف کرنے والا نہیں تھا۔
’’آ پ کے کہنے سے پہلے ہی ہم نے اسے گرفتار کر لیا ہے۔‘‘برہان فون رکھتے ہی ممتحنہ کے پاس آ گیا۔وہ چہرے پر نیم مسکراہٹ لیے اسے اپنے پاس آتا دیکھنے لگی۔برہان کی مسکراہٹ ممتحنہ کی مسکراہٹ میں پوشیدہ تھی،وہ کیسے مسکرا دیتا جب تک کہ وہ نہ مسکراتی، مگر اب اس کی مسکراہٹ ممتحنہ کی مسکراہٹ کا پیچھا کرنے لگی تھی۔برہان کو وارڈ میں آتا دیکھ کر زارا،حارث ،عنایہ بیگم اور سمیہ بیگم وہاں سے جانے لگے۔
’’کیسی ہو میری زندگی؟‘‘وہ اس کے پاس بیٹھ کر جی بھر کر اسے دیکھنے لگا،کچھ اس طرح جیسے ایک نئی زندگی نعمت نہیں،رحمت بن کر اسے مل گئی ہو۔
’’میر ی چھوڑیں،اپنی سنائیں۔زیادہ تو نہیں روئے تھے؟‘‘وہ اس کی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھنے لگی۔
’’رویا نہیں تھا، مر گیا تھا۔‘‘وہ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامنے لگا۔
’’اب مرے بھی نہیں ہوں گے،اگر آپ مر جاتے تو ابھی مجھے اپنے سامنے زندہ نہ پاتے۔‘‘وہ بہت دھیمی آواز میں بول رہی تھی،اتنی میجر سرجری سے جو گزری تھی۔
’’خبردار جو آئندہ مرنے مرانے کی بات کی۔آج رب کی طرف سے ہم دونوں کو زندگی رحمت کی طرح ملی ہے،ایسی زحمت کی باتیں نہ کرو۔‘‘وہ اس کے منہ پر شہادت کی انگلی رکھ کر اسے چپ کروانے لگا۔
’’اچھا!نہیں کرتی۔‘‘وہ مسکرانے لگی اور وہ اس کے ماتھے کو چومنے لگا۔
’’تم نے غلط سوچا تھا ممتحنہ۔کالا گلاب بھلے موت کی علامت ہوتا ہوگا اور ہمارے لیے بھی یہ موت کی علامت ہی ثابت ہوا۔ہمارے برے دن مر گئے اور آج سے ایک نئی زندگی شروع ہوئی ہے۔‘‘پہلے اسے موت کی بات کرنے سے منع کیا اور اب خود شروع ہو گیا۔
’’اب آپ موت کی باتیں کرنے لگے ہیں۔‘‘وہ طنز کرنے لگی۔
’’نہیں۔میں تو زندگی کی بات کر رہا ہوں۔‘‘وہ اس کے قریب آ کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔
’’میں نے طے کر لیا ہے ممتحنہ،میں اداکاری چھوڑ دوں گا اور کوئی اچھی جاب کر لوں گا۔اب میں تمہارے منہ سے کچھ نہ سنوں۔‘‘وہ اسے محبت میں دھمکی دینے لگا۔
’’میں اپنے منہ سے اب کچھ اور کہنا بھی نہیں چاہتی،آپ نے میرے منہ کی بات جو چھین لی۔‘‘وہ مسکرانے لگی۔اتنے میں نبیہہ بیگم اور ندیم صاحب بھی ہسپتا ل آ پہنچے تھے۔
’’شاید ہم غلط وقت پر آ گئے ہیں۔‘‘زارا جو عنایا بیگم ،حارث اور برہان کے والدین کے ساتھ وارڈ میں آ رہی تھی،ان دونوں کو ہاتھوں میں ہاتھ تھاما دیکھ کر کھانسنے لگی۔ممتحنہ نے اپنے امی ابو اور ساس سسر کو دیکھ کر برہان کے ہاتھوں پر سے فوراً اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔
’’بھئی ہم نے تو یہ طے کر لیا ہے کہ اس سے پہلے کہ تم دونوں کی محبت اور رشتے کو مزید کسی کی نظر لگے،ہم ممتحنہ کے ٹھیک ہوتے ہی تم دونوں کا نکاح کر دیں گے۔وہ کیا ہے ناکہ اللہ بھی خوش ہوگا اور ہم سب بھی۔‘‘وہ دونوں حارث کے منہ سے اپنے نکاح کا سنتے ہی مسرور ہو گئے۔
٭…٭…٭
’’آج ہمارا نکاح ہے۔‘‘
’’اور پرسوں رخصتی۔‘‘نکاح والے دن بھی دولہے میاں کو چین نہیں تھا۔بیگم کو فون کر کے پریشان کرنے لگے۔
’’یہ انتظا رصدیوں جیسا تھا۔‘‘ممتحنہ آئینے کے سامنے عروسی جوڑے میں بیٹھی تھی۔
’’اور راستہ پل صراط جیسا۔‘‘وہ تیار ہو چکی تھی۔بیوٹیشن اس کے شرارے کا دوپٹا ترتیب دے رہی تھی ۔
’’پر ہم کام یاب ہو گئے اور دیکھو آج ہمارے نکاح کا دن بھی آپہنچا۔‘‘دولہے میاں تو کب سے تیار بیٹھے تھے،نکاح میں شریک ہونے کے لیے اور اسے اپنے نکاح میں شریک کرنے کے لیے۔
’’میں فون رکھتی ہوں۔امی کو پتا چلا نا تو خیر نہیں ہوگی۔‘‘اس نے برہان کی ایک نہیں سنی اور فون رکھ دیا۔
’’ہو گئی تیار؟تھوڑا جلدی کر دیں سب نیچے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘بیوٹیشن کو اس کے گھر بلایا گیا تھااور زارا اس کے گھر پر صبح سے آئی ہوئی تھی۔سارا گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا۔کوسٹر آ چکی تھی اور مہمان اس میں بیٹھنا شروع ہو گئے تھے۔
’’زارا مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔پہلی بار اتنا تیار ہوئی ہوں پتا نہیں اسے کیسی لگوں گی۔‘‘وہ اپنے آپ کو ہر سمت سے دیکھتی زارا سے اپنے خوف کا اظہار کرنے لگی۔
’’ڈرنا تو بنتا ہے پر اس بات سے کہ کہیں وہ تمہارے حسن کی تاب نہ لا سکے۔‘‘وہ اس کے ڈر کو خوشی میں بدلنے کی کوشش کرنے لگی۔
’’میں یہاں خوف سے پاگل ہورہی ہوں اور تمہیں مذاق سوجھا ہوا ہے۔‘‘وہ غصے سے زارا کو گھورنے لگی۔
’’ارے پر ی لگ رہی ہو۔قسم سے۔‘‘وہ اسے یقین دلانے لگی کہ اس مسٹرڈ براؤن ڈیزائنر شرارے میں جو برہان کی پسند کا تھا،وہ کوئی حور پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
’’ماشا ء اللہ! میری بیٹی۔ابھی نیچے مت جانا۔زارا !دروازہ بند کر دو کمرے کا۔میں اپنی بیٹی کی نظر تو اتار لوں۔‘‘وہ ہاتھ میں سورۃ مزمل لیے ہوئے تھیں اور اسے پڑھ کر ہی اوپر آئی تھیں۔انہوں نے سورۃ مزمل کا پانی اسے پینے کے لیے دیا اور سات مرچوں سے اس کی نظر اتارنے لگیں۔
’’بھئی میں اس کا باپ ہوں مجھے تو اندر آنے دیا جائے۔‘‘زارا سب کو اندر آنے سے منع کر رہی تھی پر جب اسے لگا کہ باہر سے آنے والی آواز دلہن کے ابو کی ہے،تو اس نے فوراً دروازہ کھول دیا۔
’’اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘حارث کی آنکھوں میں اپنی بیٹی کو دلہن بنا دیکھ کر آنسو آ گئے۔
’’رخصتی شاید پرسوں ہے۔اپنے آنسو پرسوں تک کے لیے سنبھال کر رکھیں حارث۔‘‘عنایہ بیگم خود آنکھوں میں آنسو لیے حارث کو رونے سے منع کرنے لگیں۔
’’تم جیسی فرماں بردار بیٹی نصیب والوں کو ملتی ہے۔تم نے آج تک ہماری کوئی بھی بات نہ ٹالی۔ہماری ہاں میں ہاں ملائی اور ہماری ’ناں‘ کو تم نے ’ناں‘ سمجھا۔ہم بہت خوش نصیب ہیں ممتحنہ۔ بہت زیادہ۔‘‘حارث نے اپنی گلابو کو سینے سے لگا لیا۔
’’اگر مجھ جیسی بیٹی ملنے والے خوش نصیب ہیں تو پھر آپ جیسے ماں باپ ملنے والے کون ہوئے؟آپ دونوں نے مجھے سمجھا ہے،میرے دل کی ہر بات کو سمجھا ہے، خوش نصیب تو پھر میں بھی ہوئی۔‘‘وہ عنایہ بیگم اور حارث کو اپنے سینے سے لگانے لگی۔
’’اب اور زیادہ دیر ہوئی تو مہمان کوسٹر سے گھر ہی چلے جائیں گے۔‘‘زارا کمرے کا دروازہ کھولے کھڑی تھی۔
٭…٭…٭
نکاح نامہ کچھ ہی پل میں سامنے آنے والا تھا۔وہ گھونگھٹ نکالے اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ بیٹھی تھی۔
’’میرے نکاح میں شامل ہو کر میرے حق میں کچھ بہتر کر دو۔‘‘ وہ اپنی ہونے والی بیوی سے باتیں کر رہا تھا۔
’’تمہیں دل میں تو شامل کر چکی ہوں، بس اب خدا کی اجازت کی ضرورت ہے۔‘‘وہ گھونگھٹ نکالے ہی جواب دے رہی تھی۔
’’کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟‘‘قاضی نے کچھ ضروری تفصیلا ت بتانے کے بعد دونوں سے علیحدہ علیحدہ ایک ہی سوال کیا۔
’’قبول ہے۔‘‘ ’قبول ہے‘ جو کہنے کو صرف دو لفظ ہیں پر ان لفظوں کے پیچھے خدا کی رضا شامل ہوتی ہے اور ان ہی دو لفظوں کے آگے شوہر اور بیوی کی ایک پوری زندگی ہوتی ہے۔
نکاح وہ رسم ہے جس میں یہ دو لفظ آسمان تک جاتے ہیں اور جب آسمان والا ان دو لفظوں کو قبول کر لیتا ہے تب ایک مضبوط رشتہ تخلیق ہوتا ہے جو آسمان والے کو بہت عزیز ہے۔
وہ دونوں آفیشلی میاں بیوی بن چکے تھے۔ممتحنہ اب مسز برہان بن چکی تھی،برہان کی آفیشل اور شرعی بیوی ۔یہ احساس ہی کچھ اور ہوتا ہے۔شوہر کے اندر بیوی کی ذمہ داری اور حفاظت کا اور بیوی کے اندر شوہر کی پیروی کرنے اور اس کا خیال رکھنے کی خوبیاں خود بہ خود پیدا کر دیتا ہے۔
٭…٭…٭
’’میرا آخری کام تم کل کرو گے۔تمہیں بتا چکی ہوں کہ کیا کرنا ہے۔‘‘ـحیال کو پتا چل گیا تھا کہ آج اس کا نکاح ہوا ہے۔
’’یہ منصوبہ کچھ زیادہ ہی عجیب نہیں؟‘‘وہ حیال کے بنائے گئے آخری منصوبے سے پیچھے ہٹنے لگا تھا۔
’’برہان کے فلم سے جاتے ہی محمود علی نے فلم ہی ختم کر دی، تمہیں آگے کوئی اچھی فلم یا ڈراما نہ ملے تو کتنا عجیب ہوگا؟‘‘وہ اسے بتانے لگی کہ وہ کیا کچھ کر سکتی ہے۔
’’میں تیار ہوں اور جیسا آپ نے بتایا ہے ویسا ہی ہو گا۔‘‘وہ اس منصوبے پر عمل کرنے سے کترا ضرور رہا تھا،پر مستعد تھا۔
’’تمہیں اپنانہیں بنا سکی۔یقین ہے، پر اسے تمہارا نہیں بننے دوں گی، یقین کر لو۔نکاح تو کر لیا تم نے پر تم دونوں کا جسم و روح کا تعلق قائم نہیں ہونے دوں گی۔تم دونوں کی کہانی تو ادھوری ہے ممتحنہ اور برہان۔‘‘وہ ہنسنے لگی،وہ پر امید تھی کہ جس کہانی کو وہ دونوں اس رات مکمل سمجھ رہے ہوں گے،اس کہانی کو وہ ایک ادھوری کہانی بنا دے گی۔
’’اسے تمہاری سادگی پر غرور ہے نا؟ عشق کرتا ہے نا وہ تمہاری سادگی سے؟اگر میں تمہاری سادگی کو جڑ ہی سے ختم کر دوں؟‘‘شیطانی ہنسی تھی جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
’’ہماری محبت کی داستان بالآخر مکمل ہو گئی برہان۔ورنہ مجھے تو ہمیشہ سے ہی ایک ڈر لگا رہتا تھا اور وہ یہ کہ سچی محبت کبھی بھی تکمیل تک نہیں پہنچتی ،ادھوری رہ جاتی ہے۔‘‘وہ فریش ہو کر اپنے کمرے میں ہی آئی تھی کہ اس کے شوہر کا فون آگیا۔
’’جو کہانیاں ادھوری رہتی ہیں،وہاں دعاؤں کی کمی ضرورہوتی ہوگی اور ہاں ،میں نے پالیا ہے تمہیں، اب کھونے کی بات مت کرنا۔میرا نکاح ہوا ہے تم سے،اب رونے کی بات مت کرنا۔‘‘وہ اپنی بیوی کو یقین دلانے لگا کہ محبت جب نکاح کے بندھن سے جڑ جاتی ہے تب کتنی طاقتور بن جاتی ہے۔
’’چلیں۔نہیں کرتی رونے اور کھونے کی بات۔‘‘وہ اپنی انگلی میں پہنی نکاح کی انگوٹھی کودیکھنے لگی۔
’’آج میں تم سے بہت ساری باتیں کروں گا اور خبردار جو تم نے کہا کہ مجھے نیند آ رہی ہے،میں سونے لگی ہوں۔‘‘وہ اپنی بیوی سے ساری رات بات کرنے کے موڈ میں تھا۔
’’فجر تک بات کریں گے؟‘‘
’’ہاں ! اگر تم بات کرتے کرتے سو نہ گئیں۔‘‘ وہ کمرے کی لائٹس بند کر کے بستر پر آ گیا۔
’’تو پھر نماز فجر بھی ادا کرنا ہو گی میرے ساتھ۔‘‘وہ اپنے شوہر کو ابھی سے نمازی بنانے کی پریکٹس کر رہی تھی۔
’’جو حکم آپ کا بیگم صاحبہ،سر تسلیم خم ہے۔‘‘وہ اس کی نئی نویلی دلہن بنی تھی،حکم تو ماننا ہی تھا پھر اس کا ۔
’’کیا کوئی اور ہو گا اس دنیا میں جس کی محبت کی شدت ہماری محبت کی شدت سے زیادہ ہو؟‘‘ممتحنہ کو کبھی کبھی یقین نہیں آتا تھا کہ ان کی محبت کی شدت اتنی زیادہ کیوں ہے۔
’’میرا واسطہ صرف تم سے ہے،میں اوروں کی خبر نہیں رکھتا۔‘‘گفت گو دو لوگوں کی ہو رہی تھی۔کسی تیسرے کا آنا برہان کو خاص اچھا نہیں لگا۔چناں چہ اس نے طنز کر دیا۔
’’میرے دماغ میں باتیں آہستہ آہستہ آتی رہیں گی، تب تک آپ تو کوئی بات نکالیں۔ابھی پورے چار گھنٹے باقی ہیں فجر میں اور آپ نے تو کوئی موضوع ہی نہیں دیاگفت گو کو۔‘‘اس کے پاس اپنے شوہر سے باتیں کرنے کے لیے بہت کچھ تھا پر نکاح کی خوشی اتنی تھی کہ وہ ساری باتیں فراموش کر بیٹھی تھی سوائے اس کے کہ وہ مسز برہان بن چکی ہے۔
’’جہاں گفت گو میں ’میں‘ اور ’تم ‘ ہوں وہاں موضوع بھی ’میں‘اور ’تم‘ ہو گا۔پھر بھی تمہارے کہنے پر اس گفت گو کو ایک موضوع دے ہی دیا جائے اور وہ ہے ’تمہارا نام‘۔تمہارا نام کافی یونیک ہے،قرآن کی ایک سورۃ کا نام بھی ہے ممتحنہ ،تو بتاؤ،تمہارے نام کا مطلب کیا ہے؟‘‘برہان کی گفت گو کا موضوع تو ہمیشہ ممتحنہ ہی ہوتی۔




Loading

Read Previous

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Read Next

آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!